جنید نے ہمیشہ کی طرح رات کو اسے فون نہیں کیا۔ اپنے کمرے میں آنے کے بعد وہ بیڈ پر لیٹی کافی دیر تک لاشعوری طور پر اس کے فون کا انتظار کرتی رہی۔
اگلے دن صبح اس کا موڈ بہت خراب تھا۔ آفس جانے کو بھی جی نہیں چاہ رہا تھا مگر اس دن اسے آفس میں کچھ ضروری کام نپٹانے تھے۔
”جنید کو فون کیا تھا رات کو میں نے۔”
ناشتے کی میز پر نانو نے اسے بتایا۔ ایک لمحہ کے لیے ناشتہ کرتے ہوئے اس کے ہاتھ رکے پھر وہ دوبارہ ناشتہ کرنے میں مصروف ہو گئی۔
”وہ تو کہہ رہا تھا کہ تم دونوں کے درمیان کوئی جھگڑا نہیں ہوا۔” نانو چائے کپ میں ڈالتے ہوئے کہہ رہی تھیں ” وہ کہہ رہا تھا کہ صرف تمہارا موڈ خراب تھا۔ شاید آفس کی کسی مصروفیت کی وجہ سے۔”
”میں نے آپ کو پہلے ہی کہا تھا کہ اس کے ساتھ میرا کوئی جھگڑا نہیں ہوا۔” علیزہ نے سر جھٹکتے ہوئے کہا ”آپ خواہ مخواہ پریشان ہو رہی ہیں۔ آپ کو اسے فون ہی نہیں کرنا چاہیے تھا۔”
”تمہارا موڈ کس وجہ سے خراب ہے؟” نانو نے اس کی بات پر توجہ دیئے بغیر اس سے پوچھا۔
”کوئی موڈ خراب نہیں ہے میرا۔۔۔” وہ اپنی پلیٹ پر جھکتے ہوئے بڑبڑائی۔
”تو پھر جنید ایسا کیوں کہہ رہا تھا؟”
”اب یہ آپ جنید سے ہی پوچھ لیتیں تو بہتر تھا۔ میں کیا بتا سکتی ہوں۔”
اس کے لہجے میں نہ چاہتے ہوئے بھی کچھ ناراضی جھلک آئی۔
”وہ آفس کے مسئلے کا ذکر کر رہا تھا۔ کیا تم واقعی آفس کے کسی مسئلے کی وجہ سے پریشان ہو؟”
”کوئی مسئلہ نہیں ہے آفس میں…بس کام کا لوڈ زیادہ ہے آج کل…اسی وجہ سے میں کچھ اپ سیٹ ہوں۔” اس نے نانو کو مطمئن کرنے کی کوشش کی۔
”میں تم سے پہلے بھی کہتی آرہی ہوں، تم جاب چھوڑ دو۔ یہ تمہارے بس کی بات نہیں ہے۔ فل ٹائم جاب تمہارے لیے ہے ہی نہیں۔ خود کو بھی تھکاتی ہو، دوسروں کو بھی پریشان کرتی ہو، بہتر ہے تم اپنے پرابلمز میں سے جاب کا پرابلم نکال دو۔”
نانو نے ہمیشہ کی طرح اسے لیکچر دینا شروع کر دیا ”میں نے تو رات جنید سے بھی کہا کہ اس کو تمہیں روکنا چاہیے تھا اس جاب سے۔ میری تو تمہیں پرواہ نہیں ہے، شاید اس کی بات مان لو۔”
وہ ان کی بات کا جواب دینے کے بجائے ٹیبل سے اٹھ گئی۔
”اب تم پھر آفس جا رہی ہو۔ اگر زیادہ کام کی وجہ سے پریشان ہو تو کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ ایک دو دن کی چھٹی لے کر آرام کرو تاکہ تم کچھ ریلیکس تو ہو سکو۔” نانو نے اسے اٹھتے دیکھ کر ٹوکا۔
”میں دو دن کے لیے گھر پر رہوں گی۔ آفس میں کام اور زیادہ ہو جائے گا، بہتر ہے میں آفس جا کر سارا کام نمٹا لوں، اس سے زیادہ اچھا طریقہ کوئی نہیں ہے خود کو ریلیکس کرنے کا۔”
وہ کہتی ہوئی لاؤنج سے باہر نکل گئی، نانو نے ایک گہری سانس لے کر اسے جاتے ہوئے دیکھا اور پھر کچھ ناراضی کے عالم میں بڑبڑانے لگیں۔
٭٭٭
اس کی پریشانی اگر نانو سے چھپی نہیں رہی تھی تو آفس میں بھی وہ دوسروں سے اپنی ذہنی اور دلی کیفیات نہیں چھپا سکی تھی۔ سب سے پہلے صالحہ نے اس سے اس کا حال احوال پوچھا تھا۔
”تمہیں کوئی پرابلم تو نہیں ہے؟” اس نے سلام دعا کرنے کے بعد پہلا سوال یہی کیا۔
”نہیں کوئی پرابلم نہیں ہے۔” علیزہ نے اپنی میز پر پڑے آرٹیکلز پر اپنی نظریں جماتے ہوئے کہا۔
”پھر اتنی سنجیدہ کیوں نظر آرہی ہو؟” صالحہ کو اس کی بات پر یقین نہیں آیا۔
”کام کرنے کے دوران میں ہمیشہ سنجیدہ ہی نظر آتی ہوں۔” علیزہ نے اسی طرح آرٹیکلز پر نظر دوڑاتے ہوئے کہا۔
”میں اس بات پر یقین نہیں کر سکتی۔ صبح تمہیں آفس میں داخل ہوتے دیکھ کر ہی مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ تمہارا موڈ خراب ہے مگر تم کہہ رہی ہو کہ سب کچھ ٹھیک ہے۔”
”میری طبیعت کچھ خراب ہے، باقی تو سب کچھ واقعی ہی ٹھیک ہے۔” علیزہ نے اس بار سر اٹھا کر مسکرانے کی کوشش کی۔
”مجھے اب بھی یقین نہیں آیا۔” صالحہ نے اس کے چہرے کو دیکھتے ہوئے بے یقینی سے کہا۔ وہ ایک ٹھنڈا سانس لے کر ایک بار پھر ان آرٹیکلز پر جھک گئی۔
”میں مدد کر سکتی ہوں کچھ؟” صالحہ نے کچھ دیر کے بعد کہا۔
”نہیں۔۔۔” علیزہ صفحات الٹتے ہوئے بولی۔
”پھر صالحہ کو اسی طرح دیکھ کر نرم آواز میں بولی۔
”کیا تم تھوڑی دیر کے لیے مجھے اکیلا چھوڑ سکتی ہو؟”
”ہاں کیوں نہیں۔۔۔” صالحہ قدرے حیرانی سے اسے دیکھتے ہوئے اٹھ گئی۔
”Hope you won’t mind” علیزہ نے کہا۔
”It’s alright”صالحہ ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کمرے سے نکل گئی۔