امربیل — قسط نمبر ۱۲

” ہو جانے چاہئیں۔”
” اور وہ یقین کر لیں گے کہ جو میں کہہ رہا ہوں وہی سچ ہے۔”
”کر لینا چاہیے۔”
” اور اگر میری بات پر کسی کو یقین نہ آئے تو میں کیا کروں…اپنا مذاق بنواؤں یا پھر بات کرنے والے کو تمہارے پاس بھیجوں ؟”
وہ اس کا چہرہ دیکھنے لگی۔
”لوگ میرے جھوٹ پر یقین نہیں کریں گے۔”
”آپ اس بات کو جھوٹ نہ رہنے دیں۔”
”کیا مطلب؟”
”یہ رشتہ ختم کر دیں…جھوٹ سچ میں بدل جائے گا۔”
وہ دم بخود اسے دیکھتا رہا۔
”ایسا کیوں کروں میں؟” وہ کچھ دیر بعد جیسے بھڑک کر بولا۔
”آپ کو لوگوں کے سوالوں کا جواب نہیں دینا پڑے گا…ان سے جھوٹ نہیں بولنا پڑے گا۔” علیزہ نے سنجیدگی سے کہا۔
”تم یہ رشتہ ختم کرنے پر تیار ہو مگر تم یہ نہیں کر سکتیں کہ اپنی دوست کو ایسے سکینڈلز شائع کرنے سے روکو۔”
”نہیں۔ میں ایسا نہیں کر سکتی۔” اس نے دوٹوک انداز میں انکار کیا۔ ”جس نے جو غلط کام کیا ہے،
اسے اس کی سزا ملنی چاہیے۔”
”غلط کام کی جو تعریف تمہارے اور تمہاری دوست کے پاس ہے، اس پر صرف عمر پورا اترتا ہے۔” جنید نے مشتعل ہوتے ہوئے کہا۔ ”صالحہ کو کہو، وہ ہر روز ایک آرٹیکل لکھے…ہر روز ایک افسر کی عزت اچھالے جو کام عمر نے کیے ہیں وہ تو اور بھی بہت سے کر رہے ہیں۔ پھر عمر جہانگیر ہی کیوں؟ باقیوں کے بھی نام دے…اپنے خاندان کے لوگوں کے بھی نام دے۔”




”عمر سے اتنی ہمدردی کیوں ہے آپ کو؟ وہ میرا کزن ہے، مجھے اس کی پروا ہ نہیں ہے…مگر آپ۔۔۔”
جنید نے اس کی بات کاٹ دی۔ ” وہ تمہارا کزن ہے…میں تمہیں یہی یاد دلانے کی کوشش کر رہا ہوں۔۔۔”
”یہ یاد دلانا آپ کا کام نہیں ہے۔ آپ کو عمر کے بارے میں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایسی چھوٹی موٹی باتوں سے وہ پریشان نہیں ہوتا۔ یہ کارنامے تو سرخاب کے پر ہیں جو ہر بیورو کریٹ اپنے سر پر سجانا فخر سمجھتا ہے۔ آپ خواہ مخواہ اپنا سر کھپا رہے ہیں۔” علیزہ نے سرد مہری سے کہا۔
”میں صالحہ سے خود بات کرنا چاہتا ہوں۔”
”آپ ایسا نہیں کریں گے۔”
”کیوں نہیں کروں گا۔ تمہیں اگر اپنی فیملی سے دلچسپی نہیں ہے تو مجھے ان کی پرواہ کرنے دو۔”
”میری فیملی کو آپ کی پرواہ اور دلچسپی کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ پہلا سکینڈل نہیں ہے جو وہ فیس کر رہے ہیں…ایسی چھوٹی موٹی باتوں پر پریشان نہیں ہوتے۔”
علیزہ نے اسی طرح سرد مہری سے کہا۔
”اور اگر ہوں تو وہ خود ہی ہر مسئلے کا حل نکال لیتے ہیں۔ کسی دوسرے کو زحمت نہیں دیتے…اور صالحہ جیسے جرنلسٹس کے آرٹیکلز ان کے لیے کوئی بڑی بات نہیں ہے… وہ جرنلسٹس کے ہاتھوں پریشان ہونے والوں میں سے نہیں ہیں…بہتر ہے، آپ اس سارے معاملے سے خود کو دور رکھیں۔” اس بار علیزہ نے قدرے نرمی سے کہا۔
”یہ آپ کا مسئلہ سرے سے ہے ہی نہیں…انکل ایاز اور عباس خود اس مسئلے کو ہینڈل کر سکتے ہیں…بلکہ عمر بھی…آپ صرف انکل ایاز اور عباس کو یہ بتا دیں کہ صالحہ نے میرے کہنے پر یہ آرٹیکل نہیں لکھا اور نہ ہی میں اس کے کسی آرٹیکل پر کوئی اعتراض کروں گی ۔ وہ میری دوست ضرور ہے مگر وہ جو چاہے لکھ سکتی ہے…اسے میرے مشوروں کی ضرورت نہیں ہے۔”
علیزہ کے لہجے کی سرد مہری اسی طرح برقرار تھی۔
جنید کچھ دیر ہونٹ بھینچے اسے دیکھتا رہا پھر اس نے کہا۔
”اور اگر میں تم سے ریکویسٹ کروں کہ تم میرے کہنے پر صالحہ سے بات کرو اور اس سے کہو کہ وہ۔۔۔”
علیزہ نے جنید کو بات مکمل نہیں کرنے دی۔ ”تو میں آپ سے معذرت کر لوں گی…میں یہ کام نہیں کروں گی…چاہے آپ کہیں، چاہے کوئی اور۔۔۔”
جنید کچھ دیر اسے دیکھتا رہا پھر اس نے کچھ بھی کہے بغیر گاڑی دوبارہ اسٹارٹ کر دی اور اسے پارکنگ سے باہر لے آیا۔
واپسی کا سارا سفر بڑی خاموشی سے طے ہوا تھا۔ گاڑی کی فضا میں کشیدگی محسوس کی جا سکتی تھی۔ علیزہ کے ڈپریشن میں اور اضافہ ہو چکا تھا۔ اب وہ پچھتا رہی تھی کہ اس نے جنید کے ساتھ آنے کا فیصلہ کیوں کیا تھا…وہ اس کے ساتھ نہ آتی تو ان کے درمیان یہ جھگڑا کبھی نہ ہوتا نہ ہی جنید کا موڈ اس طرح خراب ہوتا۔
جنید ہر بار اسے گھر کے اندر چھوڑنے جاتا تھا مگر اس دن اس نے گیٹ پر ہی گاڑی روک دی۔ علیزہ گاڑی کا دروازہ کھول کر خاموشی سے اتر گئی۔ اس کے اترتے ہی جنید نے کچھ بھی کہے بغیر گاڑی کو موڑ لیا۔
جتنی دیر میں چوکیدار نے گیٹ کھولا۔ وہ وہاں سے جا چکا تھا۔ وہ سر جھٹکتی ہوئی اندر چلی آئی۔
نانو لاؤنج میں ہی تھیں۔
”جنید اندر نہیں آیا؟” انہوں نے اسے دیکھتے ہی پوچھا۔
نہیں اسے کچھ کام تھا۔” علیزہ نے مسکرانے کی کوشش کی مگر اسے اندازہ ہو رہا تھا کہ اس کا چہرہ اس کا ساتھ نہیں دے رہا ہوگا۔
”تمہیں کیا ہوا ہے؟” نانو نے اس کی کیفیت منٹوں میں بھانپ لی۔
”کچھ نہیں…بس میں تھک گئی ہوں۔ سونا چاہتی ہوں۔” وہ نانو سے نظریں چرا کر لاؤنج سے نکلنے لگی۔
”علیزہ !” نانو کی آواز پر اس نے مڑ کر دیکھا۔
”جنید سے تمہارا کوئی جھگڑا ہوا ہے؟”
”نہیں۔” اسے توقع نہیں تھی۔ نانو اتنی جلدی بات کی تہہ تک پہنچ جائیں گی۔
”میں اسے فون کرتی ہوں۔” نانو فون کی طرف بڑھتے ہوئے بولیں، وہ بے اختیار جھنجھلاتے ہوئے لاؤنج سے باہر نکل گئی۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۱۱

Read Next

کیمرہ فلٹرز — فریحہ واحد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!