”نہیں۔۔۔” جنید نے گاڑی بند کر دی۔
”پھر آپ اس سارے معاملے میں اتنی دلچسپی کیوں لے رہے ہیں؟” اس کے لہجے میں سرد مہری تھی۔
”میں آج آپ کو یہ صاف صاف بتا دوں کہ میرا خاندان صرف میرا خاندان ہے۔ وہ آپ کا خاندان نہیں ہے اور میں یہ پسند نہیں کروں گی کہ آپ میرے خاندان کے بارے میں مجھے کوئی مشورہ دیں یا میرے خاندان کے کسی معاملے کو اتنی تفصیل سے زیر بحث لائیں۔”
جنید ہکا بکا اسے دیکھتا رہا۔
”انکل ایاز کے خاندان سے آپ کے تعلقات کتنے گہرے ہیں یا عباس بھائی سے آپ کی دوستی کی نوعیت کیا ہے، مجھے اس کی پروا نہیں، لیکن میں اپنی فیملی یا اپنے دوستوں کے لیے کسی قسم کے مشورے نہیں چاہتی…نہ آج، نہ آئندہ کبھی…اب آپ مجھے گھر واپس چھوڑ آئیں۔”
”علیزہ !” جنید نے جیسے بے یقینی کے عالم میں کہا۔
”مجھے گھر چھوڑ دیں۔” علیزہ نے جنید کے لہجے پر توجہ دیئے بغیر اسی طرح کہا۔
”اتنا غصہ کس بات پر آرہا ہے تمہیں؟” جنید اب بھی حیران نظر آرہا تھا۔
”مجھے گھر چھوڑ دیں۔” اس نے جنید کے سوال کا جواب دیئے بغیر کہا۔
”میں تم سے کچھ پوچھ رہا ہوں۔” جنید نے اس کی بات پر کوئی توجہ نہیں دی۔
”آپ یہ سوال مجھ سے پوچھنے کے بجائے اپنے آپ سے پوچھیں۔” علیزہ نے ناراضی سے کہا۔
”کیا تمہاری فیملی میری فیملی نہیں ہے؟” جنید نے اسے بغور دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”نہیں۔” علیزہ نے دوٹوک لہجے میں کہا ”میری فیملی صرف میری فیملی ہے…جیسے آپ کی فیملی صرف آپ کی فیملی ہے۔ کیا میں نے آپ کو کبھی آپ کی فیملی کے بارے میں کوئی مشورہ دینے کی کوشش کی ہے؟ میں نے کبھی کسی چیز کو آپ پر امپوز کرنے کی کوشش نہیں کی۔”
”میں نے بھی تم پر کوئی چیز امپوز کرنے کی کوشش نہیں کی۔” جنید نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
”غلط بیانی مت کریں۔” علیزہ نے ترشی سے کہا۔
”کیا غلط بیانی کر رہا ہوں میں؟ کیا میں نے تم پر کوئی چیز امپوز کرنے کی کوشش کی ہے؟” وہ اب برہم نظر آرہا تھا۔
”پچھلے آدھ گھنٹے سے آپ اور کیا کر رہے ہیں؟” علیزہ نے اکھڑ انداز میں کہا۔ جنید دم بخود اسے دیکھتا رہا۔
”کیا امپوز کرنے کی کوشش کر رہا ہوں میں آپ پر…یہ وضاحت کرنا پسند فرمائیں گی؟” اس نے کہا۔
”میں آپ سے بحث کرنا نہیں چاہتی…آپ بس مجھے گھر چھوڑ آئیں۔” علیزہ نے اسی انداز میں کہا۔
”مگر میں تم سے بحث کرنا چاہتا ہوں…غلط بیانی کرتا ہوں…اپنی بات تم پر امپوز کرنے کی کوشش کر رہا ہوں…ایسے الزامات لگانے کے بعد تم صرف یہ کہہ کر تو یہاں سے نہیں جا سکتیں کہ تم مجھ سے بحث نہیں کرنا چاہتیں۔”
علیزہ نے پہلی بار اسے مشتعل دیکھا تھا۔ وہ بلند آواز میں بات نہیں کر رہا تھا مگر اس کے دھیمے لہجے کی ترشی اور تلخی کوئی بھی آسانی سے محسوس کر سکتا تھا۔
”رشتے خلوص مانگتے ہیں۔” وہ قدرے نرم ہو کر بولا۔
علیزہ نے برہم ہو کر اسے دیکھا۔ ” آپ اپنی اور میری بات کر رہے ہیں؟”
وہ جواب دینے کے بجائے ناراضی سے اسے دیکھتا رہا۔
”آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ میں آپ کے ساتھ مخلص نہیں ہوں۔” اس نے غم و غصہ کے عالم میں کہا۔
”اتنی جلدی نتیجے اخذ مت کیا کرو علیزہ …! میں اپنی اور تمہاری بات نہیں کر رہا ہوں۔” جنید نے برہمی سے اس کی بات کاٹی۔
”پھر آپ اور کس رشتے کی بات کررہے ہیں۔ جہاں میں مخلص نہیں ہوں۔”
”میں تمہاری اپنی فیملی کی بات کر رہا ہوں۔”
”آپ باہر بیٹھ کر اپنے خاندان کے ساتھ میری مخلصی کے بارے میں اندازے مت لگائیں۔” وہ ایک بار پھر مشتعل ہوئی۔ ”ان کے ساتھ میرے تعلق کو آپ سمجھ سکتے ہیں نہ آپ کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔”
”کیوں ضرورت نہیں ہے مجھے؟”
”کیونکہ آپ میرے خاندان کا حصہ نہیں ہیں۔”
”ابھی نہیں ہوں…ہو جاؤں گا۔”
”نہیں۔ تب بھی نہیں ہوں گے۔ میں آپ کو پہلے ہی بتا چکی ہوں۔ میری فیملی میری فیملی ہے۔ ان کا تعلق صرف مجھ سے ہے اور آپ کا تعلق بھی صرف مجھ سے ہے۔ آپ کا اور میری فیملی کا آپس میں کوئی تعلق نہیں نہ ہی آئندہ کبھی بن سکتا ہے۔”
جنید نے اس کی بات پر ایک گہرا سانس لیا۔ اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔ علیزہ اندازہ کر سکتی تھی کہ وہ اپنے اشتعال پر قابو پانے کی کوشش کر رہا تھا۔
”تمہاری فیملی کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔” اس نے چند لمحے خاموش رہنے کے بعد دوبارہ کہا۔
”تمہارے نزدیک نہیں ہے…دنیا کے نزدیک ہے۔ تمہارے کزن کے بارے میں اس طرح کی خبریں شائع ہونے سے صرف تمہاری فیملی کی ریپوٹیشن ہی خراب نہیں ہوگی۔ میری فیملی کی ریپوٹیشن بھی خراب ہو گی۔ ان سکینڈلز کا میں کیا جواب دوں گا۔”
علیزہ نے اس کی بات کاٹ دی۔ ”آپ کوئی جواب مت دیں۔ آپ صرف یہ کہہ دیں کہ آپ اس خاندان کو نہیں جانتے نہ اس کے ساتھ آپ کا تعلق ہے۔”
”اتنا کہہ دینے سے لوگوں کے منہ بند ہو جائیں گے؟”