امربیل — قسط نمبر ۱۲

علیزہ نے کچھ خفت کے عالم میں سر ہلا دیا۔
”کافی فضول باتیں لکھی ہیں صالحہ نے۔” جنید نے اس کے سر ہلانے پر تبصرہ کیا۔ علیزہ خاموشی سے سامنے دیکھتی رہی۔
”اس قسم کے بے بنیاد الزامات لگانا جرنلسٹ کا کام نہیں ہوتا۔” جنید کہہ رہا تھا۔
”تمہیں اس آرٹیکل کے شائع ہونے سے پہلے صالحہ نے اس کے بارے میں بتایا ہو گا۔”اچانک اس نے پوچھا۔
”ہاں، اس نے مجھے بتایا تھا۔” علیزہ نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔
”تو پھر تمہیں اسے منع کرنا چاہیے تھا کہ وہ تمہاری فیملی کے بارے میں اس طرح کا آرٹیکل نہ لکھے۔” جنید نے سنجیدگی سے کہا۔
علیزہ نے حیرانی سے اس کا چہرہ دیکھا۔ ”میں کیسے منع کر سکتی تھی؟”
جنید نے اس کی بات پر گردن موڑ کر دیکھا۔ ” وہ تمہاری دوست ہے۔ تم چاہتیں تو اسے منع کر سکتی تھیں۔” اس نے اپنے الفاظ پر زور دیتے ہوئے کہا۔
”نہیں، میں اسے منع نہیں کر سکتی تھی۔ ” علیزہ نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔
”کیوں…تم ایسا کیوں نہیں کر سکتی تھی؟” جنید نے پوچھا۔
وہ کچھ دیر خاموشی سے اس کی چہرے کو دیکھتی رہی پھر گردن موڑ کر گاڑی کی کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔
”جرنلسٹس دوستوں کے کہنے پر اپنی کہانیاں نہیں بدلا کرتے۔” اس نے کچھ دیر کی خاموشی کے بعد کہا۔
جنید اس کی بات پر بے اختیار ہنسا۔ علیزہ ایک بار پھر اسے دیکھنے پر مجبور ہو گئی۔
”تم کیا بات کر رہی ہو علیزہ…!یہ پاکستان ہے۔ یہاں سب کچھ ہوتا ہے اور یہاں جرنلسٹ کس طرح کے ہوتے ہیں، وہ تم مجھ سے زیادہ اچھی طرح جانتی ہو کیونکہ آخر تم اس پروفیشن سے منسلک ہو۔”




وہ جنید کے منہ سے پہلی بار اس قسم کا بے لاگ تبصرہ سن رہی تھی اور شاید اس تبصرے نے اسے کچھ دیر کے لیے حیران بھی کر دیا تھا۔ اسی لیے وہ جنید کی بات کے جواب میں فوری طور پر کچھ کہنے کے بجائے خاموش ہو گئی۔
جنید کو یکدم احساس ہوا کہ علیزہ کو شاید اس کی بات بری لگی تھی۔
”میں نے ایک جنرل تبصرہ کیا ہے۔ میں کسی خاص شخص کے حوالے سے ایسا نہیں کہہ رہا۔” اس نے وضاحت کی۔
”میں صالحہ سے وہ آرٹیکل شائع نہ کرنے کے لیے کیوں کہتی؟” اس نے سنجیدگی سے جنید سے پوچھا۔
جنیدنے حیرت سے اس کا چہرہ دیکھا۔ ”کیونکہ وہ تمہاری فیملی کے ایک فرد کے بارے میں تھا۔”
”اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ وہ کس کے بارے میں تھا۔”جنید اس بار خاموشی سے اس کا چہرہ دیکھتا رہا۔ وہ یک دم بہت سنجیدہ نظر آنے لگی تھی۔
”جرنلسٹس کو بے بنیاد الزامات لگانے کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔”
صالحہ کا کہنا ہے کہ وہ بے بنیاد الزامات نہیں ہیں۔
”ہر چیز اس وقت تک بے بنیاد ہوتی ہے جب تک اس کے بارے میں ثبوت نہ دیئے جائیں۔”
”صالحہ نے اپنے آرٹیکل میں اتنے ثبوت دئیے ہیں جتنے ضروری تھے۔”
”ایسے ثبوت کوئی بھی دے سکتا ہے۔ چار چھ لوگوں کے بیانات اور چند کاغذات کی نقول کوئی ایسا ثبوت نہیں ہو تا کہ اس کی بنیاد پر ایک اہم عہدے پر فائز شخص کے بارے میں اخبارات میں کوئی چیز شائع کر دی جائے۔”
وہ اس بار جنید کی بات پر خاموش رہی۔
”ایک ذمہ دار جرنلسٹ کی ذمہ داری صرف دوسروں پر کیچڑ اچھالنا ہی نہیں ہوتی۔ حقائق کو حقائق بنا کر پیش کرنا بھی ضروری ہوتا ہے، مرچ مسالا لگا کر انہیں بریکنگ نیوز بنا کر پیش نہیں کرنا چاہیے۔” جنید بولتا رہا ”تم تو خود جرنلسٹ ہو، ان چیزوں کو مجھ سے زیادہ اچھی طرح جانتی ہو۔ تمہیں صالحہ سے اس کے بارے میں بات کرنی چاہیے تھی۔” جنید نے ایک بار پھر اپنی بات دہرائی۔
”میں اس سے یہ سب نہیں کہہ سکتی تھی۔”
”کیوں؟”
”کیونکہ میں نے صالحہ کو عمر جہانگیر سے اپنے کسی تعلق کے بارے میں نہیں بتایا۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ میرا فیملی ممبر ہے۔” گاڑی میں کچھ دیر خاموش رہی۔
”تمہیں اسے بتا دینا چاہیے تھا۔” جنید نے کچھ دیر کے بعد کہا۔
”میں نے یہ ضروری نہیں سمجھا۔ یہ عمر جہانگیر اور صالحہ کا مسئلہ ہے، میں اس میں کیوں آؤں؟” اس نے بڑی سرد مہری سے کہا۔
”یہ صرف عمر جہانگیر اور صالحہ کا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ تمہاری فیملی کا بھی مسئلہ ہے۔ عمر تمہاری فیملی کا ایک حصہ ہے۔ فیملی کے ایک شخص کا نام خراب ہو تو پوری فیملی پر اثر پڑ جاتا ہے۔ تم اتنی میچور تو ہو کہ یہ بات سمجھ سکو۔” جنید تحمل بھرے انداز میں اسے سمجھاتا رہا۔
”یہ بات عمر کو سوچنی چاہیے۔ وہ اس طرح کی پریکٹسز میں انوالو کیوں ہوتا ہے کہ بعد میں پریس کے ہاتھوں سیکنڈ لائز ہو۔ اگر اس کو خود اپنی اور اپنی فیملی کی عزت یا ریپوٹیشن کی پروا نہیں ہے تو کوئی دوسرا کیوں کرے۔”
علیزہ نے ایک بار پھر سرد مہری سے جواب دیا۔ اسے جنید کے منہ سے عمر کے لیے نکلنے والے یہ حمایتی فقرے اچھے نہیں لگ رہے تھے۔
”مجھے اس آرٹیکل کی کسی بات پر یقین نہیں ہے۔ مجھے وہ صرف ایک defamation compaign کا حصہ لگے۔” جنید نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔
علیزہ نے جنید کو غور سے دیکھا ”عمر میرا کزن ہے، میں عمر کو آپ سے زیادہ اچھی طرح جانتی ہوں۔ وہ کیا کر سکتا ہے اور کیا نہیں۔ اس کے بارے میں بھی میری رائے آپ سے زیادہ اہم ہے اور میں صالحہ کو بھی اچھی طرح جانتی ہوں وہ کسی Defamation Campaign کا حصہ نہیں ہو سکتی۔” اس نے مستحکم انداز میں کہا ”اور آخر وہ ایسی کسی کیمپین کا حصہ کیوں بنے گی۔ اس کی عمر جہانگیر سے کوئی مخالفت ہے نہ ہی اسے کسی سے کوئی فائدہ حاصل کرنا ہے۔ عمر وہی کاٹ رہا ہے جو اس نے بویا ہے۔” اس نے کندھے اچکائے۔
”صالحہ کے پاس اس آرٹیکل کے لیے میٹریل کہاں سے آیا؟ وہ تو عام طور پر ایسے ایشوز پر نہیں لکھتی۔” جنید نے اچانک اس سے پوچھا۔




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۱۱

Read Next

کیمرہ فلٹرز — فریحہ واحد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!