اس نے بڑی بے نیازی سے کندھے جھٹکتے ہوئے بات ختم کی تھی۔ علیزہ اس سے متفق نہیں تھی مگر وہ خاموش ہو گئی تھی۔
اور اب جنید کے بارے میں سوچتے ہوئے اسے عمر کی وہی Replacement theory (نظریہ متبادل) یاد آئی ۔ کیا واقعی ہر چیز کی Replacement ہو جاتی ہے۔ ہر فیلنگ کی، ہر شخص کی؟ وہ کئی بار خود سے پوچھتی اور پھر ذہن میں گونجنے والے جواب اور آوازیں اسے پریشان کرنے لگتیں۔
کمرے کے دروازے پر یکدم دستک کی آواز سنائی دی۔ علیزہ چونک گئی۔ اس کی سوچوں کا سلسلہ ٹوٹ گیا تھا سائیڈ ٹیبل پر گلاس میں پڑے ہوئے گلاب پر ایک نظر ڈالتے ہوئے وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ دستک کی آواز دوبارہ سنائی دی تھی۔
”جنید صاحب کا فون ہے۔” دروازہ کھولنے پر ملازم نے اسے اطلاع دی۔
”تم چلو، میں آتی ہوں۔” اس نے اپنی آنکھوں کو مسلتے ہوئے کہا۔
چند منٹوں کے بعد وہ لاؤنج میں فون پر جنید سے بات کر رہی تھی۔ دس پندرہ منٹ اس سے باتیں کرتے رہنے کے بعد وہ واپس اپنے بیڈ روم میں آگئی اور تب ہی اسے اس آرٹیکل کا خیال آیا جو صالحہ نے اسے دیا تھا۔ اس نے آرٹیکل کو نکال لیا۔
اپنے بیڈ پر نیم دراز ہوتے ہوئے اس نے آرٹیکل کو پڑھنا شروع کیا۔ اس کے چہرے پر شکنیں ابھرنے لگی تھیں۔ الجھن اور اضطراب…
چند منٹوں بعد وہ اٹھ کر بیڈ پر بیٹھ گئی۔ اس کا چہرہ یکدم بہت زرد نظر آنے لگا تھا۔
ہاتھ میں پکڑا ہوا آرٹیکل اس نے سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا اور اپنی پیشانی کو مسلنے لگی۔ کچھ دیر اسی طرح بیٹھے رہنے کے بعد اس نے سائیڈ ٹیبل پر رکھا ہوا موبائل اٹھا لیا اور صالحہ کا نمبر ڈائل کیا۔
”ہیلو! صالحہ میں علیزہ بول رہی ہوں۔ ” علیزہ نے اس کی آواز سنتے ہی کہا۔
”ہاں علیزہ ! وہ آرٹیکل پڑھ لیا؟” صالحہ کو اس کی آواز سنتے ہی یاد آیا۔
”ہاں، ابھی کچھ دیر پہلے ہی پڑھا ہے اور میں اس کے بارے میں تم سے کچھ بات کرنا چاہتی ہوں۔” علیزہ نے کچھ بے چینی سے کہا۔
”ہاں بولو، کیا کہنا چاہتی ہو، کیا تمہیں آرٹیکل پسند نہیں آیا؟” صالحہ نے پوچھا۔
”صالحہ! تم نے یہ آرٹیکل کیوں لکھا ہے؟” علیزہ نے اس کے سوال کو نظر انداز کرتے ہوئے پوچھا۔
”کیا مطلب کیوں لکھا ہے، کیا مجھے نہیں لکھنا چاہیے تھا۔” وہ اس کے سوال پر حیران ہوئی علیزہ کچھ دیر خاموش رہی پھر اس نے کہا۔
”میں نے یہ نہیں کہا کہ تمہیں نہیں لکھنا چاہیے تھا، میں صرف یہ پوچھ رہی ہوں کہ تم نے کیوں لکھا ہے؟”
”بھئی! کیوں لکھتے ہیں ایسے آرٹیکلز…عوام تک حقائق لانے کے لیے، انہیں تصویر کا اصلی رخ دکھانے کے لیے، ان لوگوں کی اصلیت سے آگاہ کرنے کے لیے جو ان ہی کے ٹیکسوں سے ان کے حکمران بنے بیٹھے ہیں۔” صالحہ نے ہمیشہ کی طرح اپنی تقریر کا آغاز کر دیا۔
”مگر یہ سب کچھ سامنے لانے کے لیے الزام تراشی ضروری ہے؟” علیزہ نے اس کی بات کو بے صبری سے کاٹتے ہوئے کہا۔
”الزام تراشی کیا مطلب؟ کون سی الزام تراشی؟” صالحہ اس کے سوال پر کچھ چونکی۔
”میں تمہارے آرٹیکل کی بات کر رہی ہوں۔” علیزہ نے کہا۔
”میرا آرٹیکل ! فار گاڈسیک علیزہ! میرے آرٹیکل میں کون سی الزام تراشی تمہیں نظر آگئی ہے۔” صالحہ نے بے اختیار اس کی بات پر ناراض ہوتے ہوئے کہا۔
”جو کچھ تمہارے آرٹیکل میں ہے، مجھے وہ سچ نہیں لگتا۔” علیزہ نے کہا۔
”جو کچھ میرے آرٹیکل میں ہے، وہ حقائق کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ مجھے حیرت ہو رہی ہے کہ تمہیں وہ سب جھوٹ لگا ہے اور شاید پہلی بار ہوا ہے۔” صالحہ نے کہا۔
”تم نے اپنے آرٹیکل میں صرف الزامات لگائے ہیں، کوئی ثبوت نہیں دیا۔ اتنا غیر محتاط ہو کر کچھ بھی لکھنے کی کیا ضرورت ہے کہ اگلے دن یا تو اخبار کو معذرت کرنی پڑے یا پھر کورٹ میں کیس چلایا جائے۔” علیزہ نے کہا۔
”میرے آرٹیکل میں کوئی ایک بھی ایسی چیز نہیں ہے جو جھوٹ ہو یا جس کا میرے پاس ثبوت نہ ہو مگر ہر ثبوت آرٹیکل میں نہیں دیا جا سکتا اور جہاں تک معذرت یا کسی کا تعلق ہے تو اس شخص میں اتنی ہمت کبھی ہو ہی نہیں سکتی کہ وہ یہ دونوں کام کرے کیونکہ میرے تمام الزامات درست ہیں اور وہ انہیں کسی طور پر بھی غلط ثابت نہیں کر سکتا۔” صالحہ نے بڑے پراعتماد انداز میں کہا۔
”تمہیں یہ ساری معلومات کہاں سے ملی ہیں؟” علیزہ نے اس کی بات پر کچھ تذبذب کا شکار ہوتے ہوئے کہا۔
”کم آن علیزہ! کم از کم تم تو ایسی بچوں جیسی باتیں نہ کرو، ہم دونوں جرنلسٹ ہیں اور تم جانتی ہو کہ جرنلسٹس کے اپنےsource of information (معلومات کے ذرائع) ہوتے ہیں۔
”اور یہ کبھی کبھار غلط معلومات اور خبریں بھی دے دیتے ہیں۔” علیزہ نے اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہا۔
”ہاں بالکل دے دیتے ہیں مگر کم از کم اس شخص کے بارے میں میرے پاس جتنی بھی معلومات ہیں وہ بڑے باوثوق ذرائع سے آئی ہیں اور وہ غلط نہیں ہیں۔ غلط ہو ہی نہیں سکتیں۔” صالحہ نے اسی کے انداز میں اپنی بات پر زور دیا۔
”پھر بھی صالحہ! تمہیں ایک بار پھر ان تمام الزامات کی صداقت کو پرکھ لینا چاہیے۔” علیزہ نے اس بار قدرے کمزور آواز میں کہا۔
”اس کی ضرورت ہی نہیں ہے، جب میں کہہ رہی ہوں کہ یہ باوثوق ذرائع سے آئی ہیں تو تم مان لو کہ یہ واقعی باوثوق ذرائع سے آئی ہیں اور غلط نہیں ہو سکتیں۔” صالحہ نے اس کی بات کاٹتے ہوئے مضبوط لہجے میں کہا۔
”مگر مجھے حیرت ہے کہ آخر تم اس آرٹیکل میں موجود الزامات پر اتنی پریشان کیوں ہو رہی ہو۔ اس سے پہلے تو کبھی تم نے اس طرح کی کسی آرٹیکل پر کبھی اعتراض کیا نہ ہی مجھے خبردار کرنے کی کوشش کی ہے پھر اس بار کیا خاص بات ہے۔”
صالحہ کچھ متجسس انداز میں کہا اور پھر بات کرتے کرتے چونک سی گئی۔ ”کیا تم اس شخص کو ذاتی طور پر جانتی ہو؟”
علیزہ اس اچانک پوچھے گئے سوال پر گڑبڑا گئی۔
”نہیں، ایسی کوئی بات نہیں ہے میں اسے ذاتی طور پر کیسے جان سکتی ہوں، میں تو صرف اس لیے تمہیں خبردار کر رہی ہوں کہ تمہارے لگائے گئے الزامات بہت سنگین ہیں اور اخبار میں یہ آرٹیکل شائع ہو جانے کے بعد تمہیں کسی پریشانی کا سامنا بھی کرناپڑ سکتا ہے۔” علیزہ نے کہا۔
”یہ زین العابدین کی دی گئی معلومات پر مشتمل آرٹیکل ہے اور زین العابدین کتنا پروفیشنل ہے اور اس کی دی گئی انفارمیشن کس قدر authentic(معتبر) ہو سکتی ہے تم خود اندازہ لگا سکتی ہو۔”
صالحہ نے اپنے اخبار کے سب سے اچھے انوسٹی گیٹو جرنلسٹ کا نام لیتے ہوئے کہا۔