امربیل — قسط نمبر ۱۲

جنید سے بات نہ کرنے یا اسے نظر انداز کرنے کا فیصلہ زیادہ دیر تک قائم نہیں رہا۔
منگنی کے تیسرے دن اسے کوئٹہ جانا تھا اور وہ وہاں جانے سے پہلے اپنے گھر والوں کے ساتھ ان کے ہاں آیا۔ اس کے رویہ سے کسی طرح بھی اس بات کا اظہار نہیں ہوا کہ وہ علیزہ کے اس کا فون ریسیو نہ کرنے پر ناراض ہے۔ اس نے اس سلسلے میں سرے سے علیزہ سے کوئی بات ہی نہیں کی۔
معمول کے خوشگوار انداز میں وہ اس کے ساتھ گفتگو کرتا رہا۔ صرف واپس جانے سے پہلے اس نے لاؤنج سے باہر نکلتے ہوئے علیزہ سے کہا۔
”میرے پیرنٹس خاصے لمبے عرصے سے میری شادی کے بارے میں سوچ رہے تھے۔ خاص طور پر میری بڑی بہن کی شادی کے بعد۔ میری فیملی روایتی قسم کی فیملی ہے جس طرح بڑے بیٹے سے بہت ساری توقعات لگائی جاتی ہیں۔ اسی طرح اس کی بیوی سے بھی خاصی توقعات وابستہ کر لی جاتی ہیں۔ شعوری طور پر یا لاشعوری طور پر۔”
وہ چند لمحوں کے لیے رکا، باقی لوگ لاؤنج سے نکل چکے تھے صرف وہی دونوں ابھی اندر تھے، علیزہ دم سادھے اس کی بات سنتی رہی۔
”میری خواہش ہے کہ آپ ان توقعات پر پورا اتریں کیونکہ توقع اس سے وابستہ کی جاتی ہے جس سے محبت ہوتی ہے یا جسے ہم اپنے بہت قریب پاتے ہیں اور آپ ہماری فیملی کا ایک حصہ بن چکی ہیں۔” وہ سنجیدگی سے کہتا گیا۔
”مجھ سے بات کرنا نہ کرنا کوئی بڑا ایشو نہیں ہے لیکن میں یہ چاہوں گا کہ آپ میری فیملی کے ساتھ رابطے میں رہیں۔ کوئی برائی نہیں ہے اگر آپ ان کے فون ریسیو کر لیں یا ان سے تھوڑی بہت گپ شپ کر لیں یا ان کی دعوت پر ہمارے گھر آ جائیں۔ اس سے خوشی کے علاوہ اور کچھ نہیں ملے گا۔ آپ کو مجبور نہیں کر رہا لیکن آپ میری درخواست مان لیں گی تو مجھے اچھا لگے گا۔”
وہ اپنی بات کے اختتام پر ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ باہر نکل گیا۔ علیزہ قدم نہیں ہلا سکی۔
٭٭٭




بہت غیر محسوس انداز میں اس نے جنید کے گھر آنا جانا شروع کر دیا اور اس میل جول نے آہستہ آہستہ اس کے اس ڈپریشن اور احساس جرم کو کم کرنا شروع کر دیا جس کا شکار وہ منگنی کی رات عمر سے ہونے والی گفتگو کے بعد ہوئی تھی۔ اس کا احساس زیاں مکمل طور پر غائب نہیں ہوا تھا مگر اس کی شدت میں کمی آنا شروع ہو گئی تھی اور اس میں بڑا ہاتھ اس اہمیت کا تھا جو اسے جنید کے گھر میں ملتی تھی۔
جنید کی امی تقریباً روز ہی اس سے فون پر بات کیا کرتی تھیں اور جس دن ان سے گفتگو نہ ہوتی اس دن جنید کی چھوٹی بہن سے گفتگو ہوتی۔ فری کے ساتھ اس کی خاصی دوستی ہو گئی تھی۔ اس کی وجہ شاید یہ بھی تھی کہ جنید کی فری کے ساتھ خاصی بے تکلفی تھی، وہ جنید سے دو سال چھوٹی تھی اور ایک سال پہلے اس کا نکاح ہوا تھا۔
شروع میں جنید کے گھر جا کر وہ بالکل خاموش بیٹھی رہا کرتی تھی اس کی سمجھ میں ہی نہیں آتا تھا کہ وہ وہاں کس کے ساتھ کیا گفتگو کرے وہ ہر بات کا بہت مختصر جواب دیتی اور زیادہ تر یہی کوشش کرتی رہتی کہ کسی لمبی چوڑی گفتگو میں حصہ لینے سے گریز کرے۔ وہ کسی بات پر بھی اپنی رائے نہیں دیا کرتی تھی اور اگر کبھی اسے مجبور بھی کیا جاتا تو وہ اسے ہاں اور نہیں تک ہی محدود رکھتی تھی۔
آہستہ آہستہ اسے اندازہ ہونے لگا کہ اس کی یہ کم گوئی ختم ہوتی جا رہی تھی۔ لاشعوری طور پر، وہ جنید کے گھر اور وہاں کے افراد میں بہت زیادہ انوالو ہونے لگی تھی۔ لاشعوری طور پر وہ اس گھر میں جا کر خود کو بہت پرسکون اور خوش پانے لگی تھی۔
لاشعوری طور پر اسے جنید اور اس کے گھر والوں کی طرف سے کی جانے والی کالز کا انتظار رہنے لگا تھا۔
لاشعوری طور پر وہ اپنے گھر میں بھی جنید اور اس کے گھر والوں کے بارے میں سوچنے لگی تھی نہ صرف یہ بلکہ نانو، شہلا اور دوسرے لوگوں کے ساتھ گفتگو میں اکثر جنید اور اس کے گھر والوں کے حوالے بھی آنے لگے تھے اور لاشعوری طور پر عمر اس کے ذہن سے غائب ہونا شروع ہو گیا تھا۔
منگنی کی رات ہونے والی ملاقات کے بعد اگلے کئی ماہ تک عمر کے ساتھ اس کی کوئی ملاقات یا گفتگو نہیں ہوئی۔ وہ لاہور نہیں آیا۔ اگر آیا بھی تو اس نے نانو سے ملنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ علیزہ کو فون کرنا پہلے ہی بند کر چکا تھا اور نانو کے ساتھ فون پر بات کرتے ہوئے بھی اس نے کبھی علیزہ کے ساتھ بات کرنے کی خواہش ظاہر نہیں کیا اور اگر وہ کرتا بھی تو علیزہ اس سے بات نہ کرتی۔ اس کے اندر اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ اب دوبارہ اس سے گفتگو کر سکے۔
کئی ماہ تک وہ اس بات کے لیے خود کو ملامت کرتی رہی تھی۔ آخر کیوں اس نے عمر کے سامنے اس طرح گڑگڑا کر بھیک مانگی تھی۔ کیوں اس کے سامنے اس طرح زاروقطار روئی تھی۔ اپنی عزت نفس کو کوڑے کے ڈبہ میں کیوں پھینک دیا تھا۔ عمر کے سامنے اپنی رہی سہی عزت کیوں خاک میں ملا دی تھی۔ آخر کیوں وہ خود پر قابو رکھنے میں ناکام رہی تھی۔ وہ سوچتی اور اس کی ندامت اور احساس جرم بڑھتا جاتا۔ اس کی خواہش ہوتی کہ وہ کسی طرح اس رات کو کاٹ کر اپنی زندگی سے الگ کر دے اور یہ اس کا احساس ندامت ہی تھا کہ وہ عمر کا سامنا کرنے یا اس سے بات کرنے کی ہمت خود میں نہیں پاتی تھی۔ عمر اس کی زندگی کی سب سے تکلیف دہ یاد بن چکا تھا۔ اس نے عمر سے نفرت نہیں کی تھی مگر اس نے عمر کی وجہ سے اپنے آپ سے بہت زیادہ نفرت کی تھی۔
منگنی کے بعد کئی ماہ اس نے عمر کا ذکر نہیں سنا تھا حتیٰ کہ نانو بھی اس کے بارے میں بالکل خاموش تھیں۔ پہلے کی طرح اس کا فون آنے پر وہ علیزہ کو اس سے ہونے والی گفتگو سے مطلع نہیں کرتی تھیں اور علیزہ جانتی تھی وہ ایسا جان بوجھ کر کرتی تھیں۔ وہ شعوری طور پر کوشش کر رہی تھیں کہ علیزہ عمر کو مکمل طور پر اپنے ذہن سے نکال دے مگر انہیں یہ پتا نہیں تھا کہ یہ کام عمر پہلے ہی کر چکا ہے۔ اب اگر وہ علیزہ کو اس کے فون کے بارے میں بتا بھی دیتیں تو وہ اس کے لیے کسی پریشانی کا باعث نہیں بن سکتا تھا۔ کم از کم علیزہ کا یہی خیال تھا۔
عمر جہانگیر اس کی زندگی سے ہوا کے کسی جھونکے کی طرح پلک جھپکتے میں نہیں نکلا تھا۔ وہ اس کی زندگی سے ایک تندوتیز طوفان کی طرح گزر کر گیا تھا۔ ہر چیز کو اڑاتے اور گراتے ہوئے، ہر چیز کو ملیامیٹ کرتے ہوئے اس طوفان کے گزر جانے کے بعد ملبے کے علاوہ پیچھے کچھ بھی نہیں بچا تھا اور علیزہ کو اس ملبے پر دوبارہ ایک عمارت کھڑی کرنے کے لیے کتنی محنت کرنی پڑی تھی۔ اس کا اندازہ صرف وہ ہی کر سکتی تھی اور جو چیز اتنی تباہی اور بربادی کرکے گزری ہو اسے فراموش کر دینا مشکل نہیں ناممکن ہوتا ہے۔ وہ غیر محسوس طور پر انسان کے لاشعور کا حصہ بن جاتی ہے اور لاشعور سے شعور تک آنے میں اسے صرف چند سیکنڈ لگتے ہیں اور علیزہ کو خوف تھا کہ اس طوفان کے چھوڑے ہوئے نقوش دوبارہ نہ ابھرنے لگیں۔
جنید سے منگنی کے ایک ہفتہ کے بعد اس نے ایک انگلش اخبار جوائن کر لیا تھا جو ملک کے چند بڑے اخبارات میں سے ایک تھا۔ یہاں کام کرنا اس کے لیے ایک منفرد تجربہ تھا۔ اخبار کو جوائن کرنا ڈپریشن سے فرار کی ایک کوشش تھی جسے اس نے اضافی مصروفیت میں ڈھونڈنا چاہا تھا مگر اخبار جوائن کرنے کے بعد اسے اندازہ ہوا کہ وہاں اس کے کرنے کے لیے بہت کچھ تھا۔ بہت سی ایسی چیزیں اور ایسے تجربات جن کا موقع اسے پہلے نہیں ملا تھا جب وہ ایک نسبتاً غیر معروف میگزین کے ساتھ منسلک تھی۔
یہاں اسے پروفیشنل جرنلسٹس کے ساتھ کام کرنے کا موقع مل رہا تھا۔ ان لوگوں کے ساتھ کام کرنے کا اور ان لوگوں سے سیکھنے کا جن کے آرٹیکلز واقعی پڑھے جاتے تھے اور پھر ان پر بڑی تعداد میں تبصرے بھی کیے جاتے تھے۔
وہ لوگ جنہیں اندر کی خبر ہوتی تھی اور حکومت کی ہر پالیسی کی تفصیلات ان کی انگلیوں پر ہوتی تھیں۔
انہیں ہر آنے اور جانے والے کی خبر ہوتی تھی جو گڑے مردے اکھاڑنے میں ماہر سمجھے جاتے تھے اور جن سے ہر حکومت خوفزدہ رہتی تھی۔ جن کی تنقید اور بیان کردہ حقائق پر حکومتی اور انتظامی عہدے داران کو وضاحتی نوٹ جاری کرنے پڑتے تھے۔
وہ اخبار کے دفتر میں اپنے کو لیگز کے درمیان ہونے والے بحث مباحثہ سنتی اور وہ ان کی معلومات اور طرز استدلال پر رشک کرتی۔
جمہوریت کا چوتھا ستون بھی اتنا ہی طاقتور تھا جتنے باقی تین ستون۔ اتنے طاقتور کہ بعض دفعہ وہ باقی تینوں ستونوں کو ہلا دیتا تھا۔
علیزہ اخبار کے پولیٹیکل پیجز سے وابستہ نہیں تھی۔ وہ سوشل ایشوز پر آرٹیکلز لکھتی تھی اور مختلف تقریبات کی کوریج بھی کرتی اور ان تقریبات کو کور کرنے کے دوران اسے جرنلسٹس کے ساتھ لوگوں کے غیر معمولی رویے پر حیرت ہوتی۔
اخبار میں لگنے والی ایک سرخی لوگوں کے لیے کتنی اہمیت رکھتی تھی۔ فرنٹ پیج نیوز آئٹم بننے کے لیے لوگ کیسی کیسی حرکات اور کیسے کیسے بیانات دینے پر اتر آتے تھے ۔ اخبار میں آنے والا نام ایک عام اور غیر معروف آدمی کو معروف کر دیتا تھا، مسلسل خبریں چھپتے رہنے سے کسی شخص کو جہاں لوگوں کی یادداشت سے اوجھل نہ ہونے کی سہولت رہتی تھی، وہیں انگلش اخبار میں چھپنے والی خبر اس کلاس تک رسائی کا ذریعہ بن جاتی تھی جسے رولنگ یا ایلیٹ کلاس کہا جاتا ہے۔




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۱۱

Read Next

کیمرہ فلٹرز — فریحہ واحد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!