امربیل — قسط نمبر ۱۲

”ہاں۔ میں بھی یہی سوچ رہی ہوں کہ راستے سے کارڈ لے کر پوسٹ کر دوں۔” علیزہ نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔
ایک کارڈ سنٹر سے کارڈ لے کر اس نے کورئیر سروس کے ذریعے جنید کے آفس بھجوا دیا اور خود وہ صالحہ کے ساتھ اس فنکشن میں چلی گئی جو انہیں کور کرنا تھا۔
فنکشنز اور ایک نمائش کو کور کرنے کے بعد وہ صالحہ کو اس کے گھر ڈراپ کرکے جس وقت گھر آئی اس وقت آٹھ بج رہے تھے۔ نانو گھر میں موجود نہیں تھیں۔ علیزہ انہیں گھر پر نہ پا کر مطمئن ہو گئی۔ ان کی عدم موجودگی کا مطلب یہی تھا کہ وہ اس کا انتظار کیے بغیر مسز رحمانی کے ڈنر میں چلی گئی تھیں۔
”میں کھانا لگا دوں؟” مرید بابا نے اسے اپنے بیڈ روم کی طرف جاتے دیکھ کر کہا۔
”نہیں۔ میں کھانا باہر سے کھا کر آئی ہوں۔” علیزہ نے انکار کر دیا۔
”بیگم صاحبہ تاکید کر کے گئی ہیں کہ آپ کھانا ضرور کھائیں۔” خانساماں نے کہا۔




”میں جانتی ہوں مرید بابا! لیکن میں کھانا کھا کر آئی ہوں، اب دوبارہ تو نہیں کھا سکتی… آپ نانو کو کہہ دیجئے گا کہ میں نے کھا لیا۔” اس نے خوشگوار انداز میں کہا ۔
”جنید صاحب نے پھول بھجوائے تھے آپ کے لیے۔ میں نے آپ کے کمرے میں رکھ دیئے ہیں۔” وہ مرید بابا کی اطلاع پر خوشگوار حیرت کا شکار ہوئی۔
”میں دیکھ لیتی ہوں۔” وہ خانساماں سے کہہ کر اپنے کمرے کی طرف چلی گئی۔
بیڈ روم کی لائٹ آن کرتے ہی ڈریسنگ ٹیبل پر پڑے ہوئے سرخ گلابوں کے ایک بوکے نے اس کی توجہ اپنی جانب مبذول کروالی۔ وہ بیگ اور فولڈر بیڈ پر اچھالتے ہوئے ڈریسنگ ٹیبل کی طرف چلی آئی۔
ڈریسنگ ٹیبل کے اسٹول پر بیٹھتے ہوئے اس نے پھولوں کو اٹھا لیا۔ اس کی طرف سے بھیجا جانے والا یہ پہلا بوکے نہیں تھا۔ وہ اکثر اسے اسی طرح حیران کیا کرتا تھا۔ اس نے مسکراتے ہوئے بوکے پر لگا ہوا چھوٹا سا کارڈ کھول لیا۔
”Always at your disposal!” (ہمیشہ آپ کے لیے حاضر)
”Junaid Ibrahim”
ہلکی سی مسکراہٹ اس کے چہرے پر نمودار ہوئی۔ ایک گہرا سانس لیتے ہوئے اس نے پھول بوکے سے نکال کر ڈریسنگ ٹیبل پر رکھے ہوئے کرسٹل کے گلدان میں لگا دیئے۔ ایک لمبی ٹہنی والے گلاب کو چھوڑ کر اس نے سارے گلاب گلدان میں سجا دیئے۔
پھر اس واحد گلاب کو لے کر اپنے بیڈ پر آگئی اور اسے بیڈ سائیڈ ٹیبل پر رکھے ہوئے گلاس میں رکھ دیا۔ جگ سے کچھ پانی اس نے اس گلاس میں ڈالا اور پھر اسے دیکھنے لگی۔
اس نے ایک بار پھر ہاتھ میں پکڑے ہوئے اس چھوٹے سے کارڈ کو کھول کر دیکھا، جسے اس نے پھولوں سے الگ کر لیا تھا۔
٭٭٭
عمر کے ساتھ اس رات ہونے والی تند و تیز گفتگو کے بعد اگلے کئی دن وہ بری طرح ذہنی انتشار کا شکار رہی تھی۔ اس رات سونے کے لیے نیند کی گولیاں لینے کے بعد وہ اگلا سارا دن سوتی رہی تھی اور سہ پہر کے قریب جس وقت وہ بیدار ہوئی۔ اس وقت گھر میں شہلا، اس کی ممی اور نانو کے علاوہ اور کوئی موجود نہیں تھا۔
”حد کر دی علیزہ تم تو، سارے گدھے گھوڑے بیچ کر سو گئیں۔ ” اس کے بیدار ہوتے ہی شہلا نے کہا۔ وہ اسی وقت کمرے میں داخل ہوئی تھی اور اس نے علیزہ کو بیڈ پر آنکھیں کھولے دیکھ لیا تھا۔
علیزہ اس کی بات کے جواب میں کچھ کہنے کے بجائے اٹھ کر بیٹھ گئی۔
”تمہیں اندازہ ہے کیا وقت ہو رہا ہے؟” شہلا نے اس کو خاموش دیکھ کر، اس کی توجہ کلاک کی طرف مبذول کرواتے ہوئے کہا۔
علیزہ نے بے تاثر چہرے کے ساتھ دیوار پر لگی ہوئی گھڑی پر نظر دوڑائی۔ وہاں پانچ بج رہے تھے، اسے حیرت نہیں ہوئی۔ وہ پہلے ہی اندازہ کر چکی تھی کہ وہ بہت دیر سے سو رہی تھی۔
”تم مجھے اٹھا دیتیں۔” اس نے اپنے کھلے ہوئے بالوں میں کلپ لگاتے ہوئے کہا۔
”میں نے ایک بار کوشش کی تھی مگر تم اتنی گہری نیند میں تھیں کہ میں نے تمہیں جگانا مناسب نہیں سمجھا۔” شہلا نے کھڑکی کے پردے کھینچتے ہوئے کہا۔ ” سب لوگ تم سے ملے بغیر ہی چلے گئے۔ میں خود بھی صرف اس لیے رکی ہوئی ہوں کہ تم اٹھ جاؤ پھر جاؤں…اور تم ذرا اپنی شکل دیکھو۔ کیا حلیہ بنایا ہوا ہے…آنکھیں دیکھو، کتنی بری طرح سوجی ہوئی ہیں اور سرخ بھی ہیں…تم روتی رہی ہو؟” شہلا کو بات کرتے کرتے اچانک خیال آیا۔
”میں کس لیے روؤں گی؟” وہ بیڈ سے اٹھتے ہوئے سرد آواز میں بولی۔
”تو پھر تمہاری آنکھوں کو کیا ہوا ہے…شاید زیادہ دیر تک سونے کی وجہ سے ایسا ہوا ہے،” شہلا نے کہتے کہتے اچانک بات بدل دی۔
”جنید نے دوبار رنگ کیا ہے۔” وہ ڈریسنگ روم میں داخل ہوتے ہوئے رک گئی۔
”کیوں؟”
”کیوں…کیا مطلب…ظاہر ہے تم سے بات کرنے کے لیے فون کیا تھا۔ ” شہلا نے کہا۔ ”میں نے اسے بتا دیا کہ تم ابھی سو رہی ہو، وہ بعد میں فون کر لے۔”
”میں بعد میں بھی اس سے بات نہیں کروں گی۔” شہلا نے حیرانی سے اسے دیکھا۔ اس کے لہجے میں کوئی غیر معمولی چیز تھی۔
”کیا مطلب ؟”
علیزہ اس کے سوال کاجواب دیئے بغیر ڈریسنگ روم میں داخل ہو گئی۔ شہلا اس کے پیچھے آئی۔ وہ وارڈ روب کھولے اپنے کپڑے نکال رہی تھی۔
”مجھے لگتا ہے۔ تم ابھی بھی نیند میں ہو۔” شہلا نے کہا۔
”تمہیں ٹھیک لگتا ہے، میں واقعی نیند میں ہوں…شاید کوما میں۔” وہ کپڑے نکالتے ہوئے بڑبڑائی۔
”تم جنید سے بات کرنا نہیں چاہتیں؟” شہلا نے کچھ الجھے ہوئے انداز میں کہا۔
”نہیں۔” کسی تو قف کے بغیر جواب آیا۔
”کیوں؟”
” فی الحال تو میں اس کیوں کا جواب نہیں جانتی، جب جان جاؤں گی تو تمہیں بتا دوں گی۔” علیزہ نے وارڈ روب بند کرتے ہوئے کہا۔




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۱۱

Read Next

کیمرہ فلٹرز — فریحہ واحد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!