امربیل — قسط نمبر ۱۲

وہ اس دن فیروز سنز سے کچھ کتابیں لینے گئی تھی۔ شہلا اس کے ساتھ تھی۔ کتابیں دیکھتے ہوئے وہ دونوں مختلف حصوں کی طرف بڑھ گئیں۔
وہ ایک کتاب کا فلیپ پڑھنے میں مصروف تھی جب اس نے اپنی پشت پر ایک آواز سنی۔کسی نے اس کا نام لیا تھا۔ بے اختیار اس نے پلٹ کر دیکھا اور چند لمحوں کے لئے ساکت رہ گئی۔ وہ جنید ابراہیم تھا۔ فوری طور پر اس کی سمجھ میں نہیں ایا کہ وہ اسے کیا رسپانس دے۔
وہ اب مسکراتا ہوا اس کی طرف آرہا تھا۔ وہ کوشش کے باوجود مسکرا نہیں سکی۔ گردن موڑ کر اس نے ہاتھ میں پکڑی کتاب کو بند کیا اور واپس رکھ دیا۔
جنید تب تک اس کے قریب پہنچ چکا تھا۔ رسمی سی سلام دعا کے بعد اس نے علیزہ سے کہا۔
”مجھے توقع نہیں تھی کہ آج آپ سے یہاں ملاقات ہو گی۔”
وہ سپاٹ چہرے کے ساتھ اسے دیکھتی رہی۔ چند ہفتے پہلے بھوربن میں اس کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی گرم جوشی یک دم ہی کہیں غائب ہو گئی تھی۔ جنید نے اس تبدیلی کو فوراً محسوس کر لیا تھا۔ اس کے انداز و اطوار میں خاصی سرد مہری تھی۔ وہ قدرے خفیف ہو گیا۔
”ہاں مجھے اپنا وقت ضائع کرنے کا خاصا شوق ہو رہا ہے آج کل… میں جگہ جگہ اس طرح کی سرگرمیوں میں ضائع کرتی پھر رہی ہوں۔”
جنید سمجھ نہیں سکا، وہ کس سرگرمی کا ذکر کر رہی ہے۔
اس نے ایک کتاب کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا۔
”اچھی کتابوں کی تلاش کرنا کوئی غیر مناسب سرگرمی نہیں ہے، نہ ہی ایسی سرگرمی ہے جس پر کوئی وقت ضائع کرنے کا لیبل لگا سکے۔”
اس نے لا محالہ یہی اندازہ لگایا کہ وہ اپنے وہاں آنے کے بارے میں بات کر رہی تھی۔ علیزہ نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ جنید کے چہرے پر اتنی سنجیدگی تھی کہ اسے بے اختیار عجیب سی شرمندگی ہوئی۔
”شاید میں واقعی ہر قسم کے ادب آداب بھولتی جا رہی ہوں۔” اس نے دل میں سوچا۔
”آپ بھوربن سے کب آئے؟” وہ بمشکل اپنے چہرے پر ایک نمائشی مسکراہٹ لائی۔




”کافی دن ہو گئے۔” جنید کو اس کے چہرے پر مسکراہٹ ابھرتی دیکھ کر عجیب سی تسلی ہوئی۔
”آپ کا کام ختم ہو گیا؟”
”نہیں، مکمل طور پر تو نہیں… مگر بڑی حد تک۔”
”دوبارہ کب جا رہے ہیں؟”
”ابھی فوری طور پر تو نہیں جاؤں گا… کچھ عرصہ کے بعد چکر لگاؤں گا۔”
وہ خاموش ہو گئی… اور کیا سوال کیا جائے، کسی ایسے شخص سے جس کے لئے آپ کے پاس کوئی حقیقی سوال نہ ہو۔ وہ سوچ میں گم تھی۔
اس کا اندازہ تھا کہ جنید اب اس سے اپنے پرپوزل کے بارے میں بات ضرور کرے گا۔… اس کا اندازہ درست ثابت نہیں ہوا۔ وہ بھی اب خاموش تھا۔ شاید وہ خود بھی سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ وہ علیزہ سے کیا بات کرے یا پھر علیزہ کے تاثرات نے اسے کچھ محتاط کر دیا تھا۔
”آپ اکیلی آئی ہیں؟” چند لمحوں کے بعد جنید نے پھر خاموشی کو توڑا۔
”نہیں۔ میری فرینڈ میرے ساتھ ہے۔” علیزہ نے شہلا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
جنید نے گردن موڑ کر اس طرف دیکھا، جہاں وہ اشارہ کر رہی تھی پھر اس نے مسکراتے ہوئے روانی میں کہا۔
”شہلا!”
وہ منہ کھولے جنید کو دیکھنے لگی… پلکیں جھپکے بغیر… کسی بت کی طرح…
جنید نے گردن موڑ کر اسے دیکھا اور پھر بے اختیار اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا۔
”میری بہن بھی میرے ساتھ آئی ہوئی ہے۔” اس نے بہت تیزی سے بات کا موضوع بدلتے ہوئے کہا۔
”وہ… وہاں ” اس نے کچھ فاصلے پر کھڑی ایک لڑکی کی طرف اشارہ کیا جس کے ساتھ پانچ چھ سال کا ایک چھوٹاسا بچہ بھی کھڑا تھا۔
علیزہ نے اس لڑکی کی طرف دیکھنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ اب بھی پلکیں جھپکائے بغیر جنید کو گھور رہی تھی۔
جنید اس کے تاثرات سے کچھ گڑ بڑا گیا۔
”آپ میری فرینڈ کا نام کیسے جانتے ہیں؟” اس نے جنید کے چہرے پر نظریں جماتے پوچھا۔
”میں… میں نے کچھ دیر پہلے آپ کو اس کا نام پکارتے سنا تھا۔”
وہ الجھی ہوئی نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔ اس کے چہرے پر اب کچھ دیر پہلے کی گھبراہٹ کی بجائے اطمینان تھا۔
علیزہ نے ایک بار پھر گردن موڑ کر شہلا کو دیکھاپھر اس نے کندھے اچکا دیے۔
”آپ پریشان کیوں ہو گئی ہیں؟” جنید نے اب اس سے پوچھا۔




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۱۱

Read Next

کیمرہ فلٹرز — فریحہ واحد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!