”آپ آج بہت اچھے موڈ میں ہیں۔”
”میں ہمیشہ اچھے موڈ میں ہوتا ہوں۔” جنید نے برجستگی سے کہا۔
”لیکن آج کچھ غیر معمولی طور پر اچھے موڈ میں ہیں۔”
”اس کی واحد وجہ صبح صبح آپ سے گفتگو بھی تو ہو سکتی ہے۔”
فوری طور پر علیزہ کی سمجھ میں نہیں آیا وہ کیا جواب دے۔ وہ مسکراتے ہوئے خاموش رہی۔
”بہر حال اتنا وقت دینے کے لیے شکریہ۔ میں کارڈ کا انتظار کروں گا۔” جنید نے خدا حافظ کہتے ہوئے کہا۔ علیزہ نے فون رکھ دیا۔
”نانو پلیز، ناشتہ جلدی لگوا دیں۔ مجھے دیر ہو رہی ہے۔”
علیزہ نے ریسیور رکھتے ہی بلند آواز میں نانو سے کہا جو اس وقت کچن میں جا چکی تھیں۔
وہ علیزہ کی آواز سن کر کچن سے باہر نکل آئیں۔
”مرید ناشتہ تیار کر چکا ہے، بس چند منٹوں میں ٹیبل پر لگا دے گا۔ ”تم آج واپس کب آؤ گی؟”
”آپ کیوں پوچھ رہی ہیں؟” علیزہ کو حیرت ہوئی ، وہ عام طور پر یہ سوال نہیں کرتی تھیں۔
”مسز رحمانی نے آج ڈنر دیا ہے۔ پچھلی دفعہ میں تمہاری وجہ سے نہیں جا سکی اور وہ بہت ناراض ہوئیں اور اس بار تو انہوں نے خاص طور پر تاکید کی ہے۔” نانو نے اپنی کلب کی ایک ساتھی کا نام لیتے ہوئے کہا۔
”نانو! میں تو آج بھی خاصی دیر سے ہی آؤں گی۔ مجھے آج ایک دو فنکشنز کی کوریج کے لیے جانا ہے۔ آپ پلیز اکیلی چلی جائیں۔” علیزہ نے فوراً معذرت کرتے ہوئے کہا۔
”مسز رحمانی نے صرف مجھے انوائیٹ نہیں کیا، تمہیں بھی کیا ہے۔” نانو نے اسے جتایا۔
”میں جانتی ہوں لیکن میں کیا کر سکتی ہوں۔ آپ کو پتا ہے میں آج کل بہت مصروف ہوں۔” علیزہ نے وضاحت کی۔
”یہ ساری مصروفیت تم نے خود پالی ہیں۔ کس نے کہا تھا دوبارہ اخبار جوائن کرنے کو…بہتر نہیں تھا گھر میں رہتیں۔ کلب میں آتیں جاتیں۔” نانو نے اسے ڈانٹتے ہوئے کہا۔
علیزہ خانساماں کو ٹیبل پر ناشتہ لگاتے دیکھ چکی تھی۔ وہ صوفہ سے اٹھ کر ڈائننگ ٹیبل کی طرف بڑھ گئی۔
٭٭٭
آفس ہمیشہ کی طرح تھا۔ وہ اپنے کیبن کی طرف بڑھ گئی۔ اس کی میز پر چھوٹے موٹے بہت سے نوٹس رکھے ہوئے تھے۔ اپنا بیگ ایک طرف رکھ کر وہ برق رفتاری سے ان نوٹس کو دیکھنے لگی۔ چند سرکلرز تھے سٹاف کے لیے…کچھ آج کے دن کے حوالے سے ہدایت اور چند دوسرے نیوز پیپرز آرٹیکلز کی کٹنگ جو اس کو بھیجے گئے تھے۔
”تم نے بہت دیر کر دی۔ میں کب سے تمہارا انتظار کر رہی تھی۔” صالحہ اس کے کیبن میں داخل ہوئی۔
”تین دفعہ آئی ہوں تمہاری تلاش میں۔” صالحہ نے کہا۔
”ہاں۔ آج مجھے کچھ ضرورت سے زیادہ دیر ہو گئی۔” علیزہ نے معذرت خواہانہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ ”کتنے بجے نکلنا ہے یہاں سے؟”
وہ صالحہ کے ساتھ ہی ان سوشل ایکٹیوٹیز کی کوریج کے لیے نکلا کرتی تھی۔
”وہ تو بارہ بجے ہی نکلیں گے…میں تمہیں یہ آرٹیکل دکھانا چاہ رہی تھی۔” صالحہ نے چند پیپرز اس کی ٹیبل پر رکھ دیئے۔
”اس وقت ضروری ہے؟ میں دراصل یہ سارے پیپرز دیکھنا چاہ رہی ہوں…کیا یہ کل کے نیوز پیپر کے لیے جا رہا ہے؟” علیزہ نے اس کے آرٹیکل پر نظر ڈالتے ہوئے کہا۔
”نہیں۔ کل کے نیوز پیپر کے لیے تو نہیں جا رہا مگر شاید پرسوں چلا جائے۔ میں چاہتی تھی تم اس کو دیکھ لو۔ سائرہ نے تو اس کو کچھ مختصر کرنے کے لیے کہا ہے۔ میں نے کوشش کی ہے مگر زیادہ ایڈیٹنگ کرنے سے اس کا اوور آل تاثر خراب ہو جائے گا۔” اس نے ایڈیٹر کا نام لیتے ہوئے کہا۔
”پھر تو میں اسے گھر بھی لے جا سکتی ہوں، کل تمہیں دے دوں گی۔ آج مجھے ذرا یہ کام نپٹانے دو۔” علیزہ نے کہا۔
”ٹھیک ہے۔ کل دے دینا…مگر رات کو رنگ کرکے مجھے بتا ضرور دینا کہ تم نے اسے پڑھ لیا ہے۔” صالحہ نے اس کے کیبن سے نکلتے ہوئے کہا۔
علیزہ نے اس کے آرٹیکل کو اپنے فولڈر میں رکھ لیا اور دوبارہ اپنی میز پر پڑے ہوئے کاغذات دیکھنے لگی۔
گیارہ بجے تک وہ اسی طرح کام کرتی رہی۔ چند بار وہ آفس کے دوسرے حصوں اور ایڈیٹر کے پاس بھی گئی۔ بارہ بجے وہ اور صالحہ آفس سے نکلنے کی تیاری کر رہے تھے جب اس کے موبائل پر میسج آنے لگا۔
”Still Waiting for the Card” (کارڈ کے لیے انتظار کر رہا ہوں)
وہ میسج پڑھ کر بے اختیار مسکرائی، اس کے ذہن سے جنید کے ساتھ صبح ہونے والی گفتگو اور کارڈ غائب ہو چکا تھا۔
”جنید کا میسج ہے؟” صالحہ نے اسے موبائل کا پیغام پڑھ کر مسکراتے دیکھ کر پوچھا۔
”ہاں!” علیزہ نے سر ہلایا۔ صالحہ نے اس کے ساتھ چلتے ہوئے گردن آگے بڑھا کر اس کے موبائل پر نظر ڈالی۔
”یہ کون سے کارڈ کا انتظار ہو رہا ہے؟” صالحہ نے مسکراتے ہوئے کچھ تجسس آمیز انداز میں کہا۔ ” اس کی برتھ ڈے ہے؟”
”نہیں۔ برتھ ڈے نہیں ہے۔” علیزہ نے موبائل بیگ میں رکھتے ہوئے کہا۔ ”وہ شمع نے جو ویلفیئر ہوم شروع کیا ہے اس کا نقشہ میں نے جنید سے بنوایا تھا، اس نے کچھ چارج کیے بغیر ہی کام کر دیا جبکہ شمع صرف یہ چاہتی تھی کہ وہ نسبتاً کم چارج کرے۔”
علیزہ نے اپنی ایک کولیگ کا نام لیتے ہوئے کہا۔
”صبح اس سے اسی کے بارے میں بات ہو رہی تھی۔ میں نے شکریہ ادا کیا تو اس نے کہا۔ بہتر ہے میں کارڈ بھیج دوں…میں نے کہا ٹھیک ہے بھجوا دوں گی۔ اب یہاں آکر میں اتنی مصروف ہو گئی کہ مجھے یاد نہیں رہا اور وہ شاید ابھی کارڈ چاہ رہا ہے۔”
”تو ہم باہر تو جا ہی رہے ہیں۔ تم رستے سے کارڈ لو اور کورئیر سروس کے ذریعے بھجوا دو۔” آفس کے بیرونی دروازے سے نکلتے ہوئے صالحہ نے کہا۔