”یہ کہتا ہے مجھے ایک کینچوا لا کر دیں، میں وہ کھاؤں گا۔ اب آپ خود بتائیں کہ میں اسے کینچوا کیسے کھانے دے سکتا ہوں۔”
سائیکولوجسٹ نے باپ کو سمجھایا کہ بچے پر سختی کرنے سے اس پر نفسیاتی طور پر برا اثر پڑے گا۔ بہتر ہے کہ آپ اسے کینچوا کھانے دیں۔”
باپ کچھ پس و پیش کے بعد مان گیا۔
سائیکولوجسٹ نے اپنے اسسٹنٹ کو بھجوا کر ایک کینچوا منگوایا اور بچے کے سامنے میز پر رکھ دیا۔
بچے نے ایک نظر کینچوے پر ڈالی اور پھر بڑے آرام سے کہا۔
”آپ اس کینچوے کے دو ٹکڑے کریں۔ ایک آپ کھائیں، ایک میں کھاؤں گا۔”
سائیکولوجسٹ اس کے مطالبے پر گڑبڑا گیا۔
”دیکھا میں نے بتایا ہے نا کہ یہ بہت فضول ضدیں کرتا ہے۔” باپ نے کہا۔
سائیکولوجسٹ نے باپ کو تسلی دی اور ایک چاقو کے ساتھ کینچوے کے دو ٹکڑے کیے اور ایک ٹکڑا اٹھا کر اپنے منہ میں ڈال لیا اور اس نے بچے سے کہا ۔”اب تم اپنا ٹکڑا کھاؤ۔”
بچے نے سائیکولوجسٹ کا چہرہ دیکھا اور کہا۔
”آپ نے میرا ٹکڑا کھا لیا۔”
علیزہ کو بے اختیار گھن آئی ”یہ کیا جوک تھا۔ وہ بچہ اور سائیکولوجسٹ دونوں پاگل تھے۔ کینچوا کیسے کھا سکتے ہیں؟” وہ ہنسنے کے بجائے جھرجھری لے کر پوچھتی۔
”جوک تھا بھئی…حقیقت تو نہیں تھی۔” وہ اسے یاد دلاتا۔
”مگر پھر بھی کینچوے۔” اسے ایک بار پھر جھرجھری آئی۔
”اچھا…اچھا چلو، میں تمہیں ایک اور جوک سناتا ہوں۔” وہ جلدی سے ہاتھ اٹھا کر کہتا ”ایک جرنلسٹ ایک مینٹل ہاسپٹل میں گیا وہاں وہ مختلف وارڈز میں پھر رہا تھا کہ اچانک اس کی نظر ایک آدمی پر پڑی جو بہت خاموشی سے ہاتھ میں اخبار لیے کرسی پر بیٹھا تھا۔ اس نے بہت شاندار قسم کا سوٹ پہنا ہوا تھا، جرنلسٹ اس کے پاس گیا اور حیرانی سے پوچھا۔
”کیا آپ پاگل ہیں؟”
اس نے اخبار سے نظر اٹھا کر بڑی سنجیدگی سے کہا۔ ”نہیں۔”
”تو پھر آپ کو یہاں کیوں رکھا ہے؟” جرنلسٹ نے پوچھا۔
”کیونکہ میں نے ایک کتاب لکھی تھی دو ہزار صفحات کی۔”
جرنلسٹ کو شدید حیرت ہوئی اس نے پوچھا۔ ”آپ نے کس چیز کے بارے میں کتاب لکھی تھی؟”
”گھوڑوں کے بارے میں۔” اس نے بڑی سنجیدگی سے بتایا۔
جرنلسٹ غصے کے عالم میں ڈاکٹر کے پاس گیا اور اس سے کہا۔ ” آپ نے بے سوچے سمجھے ایک ذہین آدمی کو پکڑ کر یہاں بند کر دیا جس نے گھوڑوں پر دو ہزار صفحات پر مشتمل کتاب لکھی ہے۔”
ڈاکٹر نے بڑے سکون سے اس کی بات سنی اور کہا۔
”آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ اس شخص نے گھوڑوں پر واقعی دو ہزار صفحات کی ایک کتاب لکھی ہے مگر اس کی کتاب کے دو ہزار صفحات پر صرف ایک ہی بات ہے۔”
”وہ کیا؟” جرنلسٹ نے کچھ تجسس کے عالم میں پوچھا۔ ڈاکٹر نے ایک گہری سانس لی اور کہا ”دگڑ…دگڑ۔”
وہ لطیفہ سنانے کے بعد علیزہ کو دیکھتا جو اب بھی پورے انہماک اور سنجیدگی کے ساتھ اسے دیکھ رہی ہوتی۔ ”سمجھ میں نہیں آیا نا؟” وہ بڑی ہمدردی سے پوچھتا۔ وہ پلکیں جھپکائے بغیر اسے دیکھتی رہتی۔ انکار اور اقرار دونوں مشکل تھے۔
”آپ آسان جوکس سنایا کریں۔”
”مثلاً…ہاں ایسے والے ایک بچہ ماں سے کہتا ہے۔ ”ممی آج مجھے ٹیچر نے ایک ایسے کام کے لیے سزا دی جو میں نے کبھی کیا ہی نہیں۔” ماں حیرانی سے کہتی ہے۔
”کون سا کام؟”
”ہوم ورک۔” بچہ مزے سے کہتا ہے۔
وہ کندھے اچکاتا ہوا لطیفہ ختم کرتا۔ علیزہ ہنسنے لگتی۔ وہ بے اختیار گہرا سانس لیتے ہوئے کہتا۔
”وہ جو آپ میرے جوک سنانے سے پہلے ہنستی ہیں نا، وہی ٹھیک ہے۔ کم از کم مجھے یہ اطمینان تو ہو گا کہ تمہاری حس مزاح اچھی ہے۔” وہ مصنوعی اندازسے خفگی اسے ڈانٹتا۔
وہاں بیٹھے بیٹھے علیزہ کو بہت کچھ یاد آرہا تھا، چاروں طرف چھائی تاریکی ایک ایسا گنبد بن گئی تھی جس کے اندر اسے اپنی اور عمر کی آوازوں کی بازگشت سنائی دے رہی تھی ”اور شاید آج ہم آخری بار یہاں ان سیڑھیوں پر ایک دوسرے کے اتنے قریب بیٹھے ہیں۔”
اس نے دل گرفتی کے عالم میں سوچا۔
”تم آج بہت اچھی لگ رہی تھیں۔” عمر نے یک دم خاموشی کو توڑا۔
”تمہارے علاوہ ہر ایک کو۔” اس نے سوچا۔
”جنید بہت خوش قسمت ہے۔” وہ کہہ رہا تھا۔
”اور میں بہت بدقسمت ہوں۔” اس کے جواب اس کے اندر گونج رہے تھے۔
علیزہ کی مستقل خاموشی شاید اس کے لیے غیر متوقع تھی۔ وہ چند لمحوں کے لیے خود بھی خاموش ہو گیا۔
”آپ واپس نہیں گئے؟” علیزہ نے اچانک اس سے پوچھا۔
”میں جانا چاہ رہا تھا۔ گرینی نے روک لیا۔ سب فیملی ممبرز اکٹھے ہوئے تھے اس لیے۔” وہ مدھم آواز میں بتانے لگا۔