امربیل — قسط نمبر ۱۲

”تم لوگ یہاں لنچ کے لئے آئے ہو؟” عمر نے پوچھا۔
”ہاں۔” شہلا نے کہا۔
”اکٹھے لنچ کر لیتے ہیں۔” اس بار جوڈتھ نے کہا۔
”نہیں۔ ہم لوگ اکیلے لنچ کرنا چاہتے ہیں۔”
نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے لہجے میں سرد مہری آگئی تھی اور شاید جوڈتھ نے اسے محسوس بھی کیا تھا۔
”کوئی بات نہیں۔ تم لوگ لنچ کرو۔ ہم دونوں کافی پینے آئے تھے لیکن میں سوچ رہا ہوں کہ کہیں اور پیتے ہیں یہاں کافی رش ہے۔ اچھا خدا حافظ!” عمر نے بڑی آسانی کے ساتھ بات ختم کرتے ہوئے کہا۔ اس نے ایک بار بھی علیزہ کو مخاطب کرنے کی کوشش نہیں کی علیزہ نے پوری گفتگو کے دوران ایک بار بھی عمر کے چہرے پر نظر نہیں ڈالی۔ اس میں اتنی ہمت باقی نہیں رہی تھی۔ وہ صرف جوڈتھ کو دیکھ رہی تھی جو ایک بہت خوبصورت سبز شلوار قمیض میں ملبوس تھی۔ اس میں زیادہ تبدیلی نہیں آئی تھی۔ صرف اس کا ہیر اسٹائل اور بالوں کا کلر بدل گیا تھا۔
علیزہ کو یک دم اپنی بھوک بھی ختم ہوتی ہوئی محسوس ہوئی۔ وہ ان دونوں کو اس وقت تک دیکھتی رہی جب تک وہ دونوں ریسٹورنٹ سے باہر نہیں نکل گئے۔
ویٹر اب ان کی ٹیبل پر کھانا سرو کر رہا تھا مگر کھانے میں اس کی دلچسپی ختم ہو گئی تھی۔ وہ اب یہاں سے بھاگ جانا چاہتی تھی۔
اپنی پلیٹ میں کچھ چاول ڈال کر وہ بے دلی سے شہلا کا ساتھ دینے کے لئے کھانا کھاتی رہی۔ شہلا نے کھانے میں اس کی عدم دلچسپی کو محسوس کر لیا تھا ، مگر اس نے علیزہ سے کچھ نہیں کہا اس کے لیے اتنا ہی کافی تھا کہ وہ کھانا کھا رہی تھی اور اس نے کھانا چھوڑ کر جانے کی کوشش نہیں کی تھی۔




شہلا کے کھانا ختم کرتے ہی علیزہ نے اس سے کہا ۔ ”میں گھر جانا چاہتی ہوں۔”
یہ جیسے ایک اعلان تھا کہ وہ اب گھومنا نہیں چاہتی۔
”مگر ہم دونوں نے تو یہ طے کیا تھاکہ ہم آج سارا دن ادھر ادھر پھریں گے پھر یک دم تم نے اپنا فیصلہ کیوں بدلا ہے؟ ” شہلا نے اعتراض کیا۔
”بس میں گھر جانا چاہتی ہوں۔ میں کچھ دیر آرام کرنا چاہتی ہوں۔”
وہ اپنا شولڈر بیگ اٹھاتے ہوئے شہلا سے پہلے ہی اپنی کرسی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
شہلا نے بھی اصرار نہیں کیا۔ اس کے گھر کے گیٹ پر شہلا نے گاڑی روک کر ہارن دیا تو علیزہ نے اس کی طرف دیکھے بغیر کہا۔
”شہلا! اب تم جاؤ…میں کچھ وقت اکیلے رہنا چاہتی ہوں۔”
”مگر علیزہ! میں۔۔۔” شہلا نے کچھ کہنے کی کوشش کی۔ علیزہ نے نرمی سے اس کی بات کاٹ دی۔
”پلیز…کچھ دیر کے لیے مجھے واقعی اکیلا رہنے دو…میں اس وقت تنہائی کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں چاہتی، تم میرے ساتھ رہو گی تو میں ڈسٹرب رہوں گی۔”
چوکیدار نے گیٹ کھول دیا۔ شہلا چپ چاپ اسے گاڑی سے اترتے اور جاتے دیکھتی رہی، اس نے گیٹ کے اندر جانے سے پہلے مڑ کر ایک بار شہلا کو دیکھا اور ہلکے سے مسکرائی اس کے بعد وہ اندر غائب ہو گئی۔
٭٭٭
اگلے کئی دن وہ اسی آسیب کی گرفت میں رہی۔ ہر چیز اپنی اہمیت کھو چکی تھی۔ وہ دن اور رات کے کسی بھی لمحے میں عمر کے خیال سے غافل نہیں رہتی تھی اور اگر کبھی کچھ دیر کے لیے کوئی اور خیال اس کے ذہن میں آتا بھی تو صرف چند لمحوں کے لیے اس کے بعد وہ پھر اسی تکلیف دہ خیال میں لوٹ جاتی تھی۔
کئی ہفتوں کے بعد نانو نے ایک بار پھر اس سے جنید ابراہیم کے بارے میں بات کی تھی۔ اس نے اقرار یا انکار کچھ بھی نہیں کیا تھا۔
”آپ جو ٹھیک سمجھیں، کریں۔” اس نے صرف یہ کہا تھا۔
جنید کے ساتھ اس کی نسبت کتنی برق رفتاری کے ساتھ طے ہوئی تھی، اسے اس کی توقع بھی نہیں تھی۔ نانو پہلے ہی ثمینہ اور سکندر سے جنید کے بارے میں بات کر چکی تھیں۔ دونوں بخوشی اس پر پوزل کو قبول کرنے پر تیار ہو گئے تھے۔
سکندر مسقط سے کراچی شفٹ ہونے کے بعد پہلی بار اس سے ملنے لاہور آئے تھے۔ ان کی یہ آمد بنیادی طور پر جنید سے ملاقات کے لیے تھی اور وہ خاصے مطمئن واپس گئے تھے۔
”کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ تم جنید سے ایک بار پھر مل لو۔” باقاعدہ طور پر جنید کے گھر والوں کو اس پر پوزل کے لیے اپنی رضا مندی دینے سے پہلے نانو نے ایک دن اس سے کہا۔
”میں پہلے ہی اس سے مل چکی ہوں۔ ایک بار اور مل کر کیا کر لوں گی؟” اس نے دوٹوک انکار کر دیا۔
”پھر بھی یہ ضروری ہے…پہلے کی بات اور تھی۔۔۔”
علیزہ نے نانو کی بات کاٹ دی۔ ”کیا وہ مجھ سے ملنا چاہتا ہے؟”
”نہیں۔ اس نے ایسی کسی خواہش کا اظہار نہیں کیا…میں خود یہ چاہتی ہوں کہ تم دونوں ایک بار اور آپس میں مل لو بلکہ بہتر یہ ہے کہ تم اس کے سارے گھر والوں سے مل لو۔ یہ اس کی امی کی خواہش ہے۔” نانو نے اسے بتایا۔
”میں اس کے تقریباً سارے گھر والوں سے ہی مل چکی ہوں۔ وہ پچھلے کئی ہفتے سے آ جا رہے ہیں ہمارے گھر۔”علیزہ نے کہا۔
”ٹھیک ہے، وہ آتے رہے ہیں مگر تم سے اتنی بے تکلفی سے گفتگو تو نہیں ہوئی۔ جنید کی امی چاہتی ہیں کہ تم ان کے گھر کھانے پر آؤ۔ کچھ وقت ان کے ساتھ گزارو تاکہ تمہیں ان کے گھر کے ماحول کا اچھی طرح اندازہ ہو سکے۔”
”اس کا فائدہ کیا ہے؟” اسے الجھن ہوئی۔ ”مجھے جنید کو جتنا جاننا تھا، میں جان چکی ہوں۔”
”اگر اس کی امی کی خواہش ہے کہ تم وہاں کچھ وقت گزارو تو تمہیں اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔” نانو نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
”کیا وہ مجھے اکیلے انوائیٹ کر رہی ہیں؟” اس نے چند لمحے خاموش رہنے کے بعد نانو سے پوچھا۔
”نہیں، وہ مجھے بھی ساتھ کھانے پر بلا رہی ہیں۔”
علیزہ نے ایک نظر انہیں دیکھا اور پھر کہا۔ ”ٹھیک ہے مجھے کوئی اعتراض نہیں، آپ انہیں ہمارے آنے کے بارے میں بتا دیں۔”
تیسرے دن شام کو وہ نانو کے ساتھ جنید کے گھر موجود تھی۔




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۱۱

Read Next

کیمرہ فلٹرز — فریحہ واحد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!