”زندگی میں ایسی بہت سی باتیں ہوتی ہیں، اب اس سب کو بھول جاؤ۔ اپنے آپ کو اتنا Condemn(ملامت)یا Criticize (تنقید) کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔”
Criticize “یا Condemn نہیں کرنا چاہئے تو کیا کرنا چاہئے۔ اپنی تعریف کرنی چاہئے۔ کہ بہت اچھا کام کیا ہے۔” اس کی آواز میں موجود ملال بہت واضح تھا۔
”کہیں باہر چلتے ہیں۔” شہلا نے یک دم بات کا موضوع بدلنے کی کوشش کی ۔
”ہاں، کہیں باہر چلتے ہیں۔” شہلا کو حیرت ہوئی جب وہ بلا تامل تیار ہو گئی۔
”سارا دن پھرتے ہیں، کہیں آوارہ گردی کرتے ہیں اور تم مجھ سے عمر کے علاوہ ہر چیز کے بارے میں بات کر سکتی ہو بس اس کے بار ے میں کچھ نہ کہنا۔” وہ کارپٹ سے اٹھتے ہوئے کہہ رہی تھی۔
”ٹھیک ہے۔” شہلا بخوشی رضامند ہو گئی، اسے اس کی تجویز پر کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔
”تمہیں ذوالقرنین یاد ہے؟” شہلا گاڑی ڈرائیور کر رہی تھی جب علیزہ نے یک دم اس سے پوچھا۔
”اچھی طرح مگر تمہیں اس وقت اس کا خیال کیسے آگیا؟” شہلا نے کچھ حیران ہو کر اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”دس سال پہلے میں نے عمر کے بارے میں یہ غلط اندازہ لگایا ہوتا ، تو آج میں اسی طرح خودکشی کی کوشش کرتی جس طرح ذوالقرنین کے ساتھ بریک اپ کے بعد کی تھی۔ دس سال پہلے میں نے ذوالقرنین کے ہاتھوں جتنی ہتک محسوس کی تھی، آج بھی اتنی ہی کی ہے۔”
وہ بات کرتے کرتے رک کر گردن موڑ کر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔
”دوسروں پر انحصار کرنے سے زیادہ تباہ کن چیز اور کوئی نہیں ہوتی۔ مجھے عمر پر کبھی اس حد تک انحصار نہیں کرنا چاہئے تھا۔”
”علیزہ تم ضرورت سے زیادہ جذباتی ہو رہی ہو۔” شہلا نے نرمی سے اسے ٹوکا۔
”زندگی میں بہت دفعہ ، بہت سے لوگوں کے لئے ہم کچھ محسوس کرتے ہیں پھر شاید کچھ توقعات بھی لگا بیٹھتے ہیں… بعض دفعہ ہر چیز ویسے نہیں ہوتی جیسے ہم چاہتے ہیں۔” وہ گاڑی ڈرائیور کرتے ہوئے اسے سمجھا رہی تھی۔
”لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ انسان خود کو Self-condemnation اور خود ترسی کا شکار بنا دے۔”
”تم بہت آسانی سے مجھے نصیحت کر سکتی ہو۔” علیزہ نے اس کی باٹ کاٹ دی۔” تم میری فیلنگز کو ، میری تکلیف کو محسوس کر ہی نہیں سکتیں۔”
”علیزہ! میں۔۔۔” شہلا نے کچھ کہنا چاہا، علیزہ نے رنجیدگی سے اس کی بات کاٹ دی۔
”تمہارے پاس سب کچھ ہے۔ ماں باپ… بہن بھائی اور جس شخص کو تم نے پسند کیا، اس سے تمہاری انگیجمنٹ ہو گئی… ہر رشتہ ہے تمہارے پاس۔” اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔ ”میرے پاس ان میں سے ایک بھی نہیں ہے سات سال سے میں نے باپ کی شکل نہیں دیکھی اور وہ اسی ملک میں ہے۔ چار سال سے میں اپنی ماں سے نہیں ملی، ان دونوں کی ڈائیوورس اور دوسری شادی کے بعد میں اتنے سالوں میں ان سے کتنی بار ملی ہوں۔ میں تمہیں گن کر بتا سکتی ہوں۔ پچھلے دس سال میں میرا ہر رشتہ اور تعلق عمر سے شروع ہو کر اسی پر ختم ہو جاتا ہے… میرے لئے وہ میری پوری فیملی بن چکا ہے۔ ہر رشتہ۔۔۔” وہ چند لمحوں کے لئے رکی۔
”تمہیں اتنے رشتوں میں سے اگر کسی ایک رشتہ سے محروم ہونا پڑے تو تمہیں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اس کی کمی پوری کرنے کے لئے دوسرے رشتے ہیں، دوسرے لوگ ہیں، میرے پاس دوسرا کوئی نہیں ہے۔”
I get Umar I get everything.
”I lose him I lose everything
شہلا خاموش رہ گئی، وہ کچھ کہہ بھی نہیں سکتی تھی۔
”تم ٹھیک کہتی ہو، ہمیں کسی اورٹاپک پر بات کرنی چاہئے۔ ” شہلا نے یک دم کہتے ہوئے بات کا موضوع بدلنا چاہا۔
”ایسا کرتے ہیں آج کہیں آوارہ گردی کرتے ہیں سارا دن گھر نہیں جاتے۔ بس شام کو جائیں گے۔ بلکہ یوں کرو آج رات تم میرے ساتھ میرے گھر رہو یا پھر میں تمہارے ساتھ رہ لوں گی۔” وہ اسے تسلی دے رہی تھی۔ علیزہ نے کچھ بھی کہنے کی بجائے صرف اسے دیکھا۔
”ہاں ٹھیک ہے، آج کا دن اکٹھے گزارتے ہیں باہر ہی۔” وہ بڑبڑائی۔
٭٭٭
علیزہ کو مطمئن کرنے کی اس کی ساری کوششیں اس وقت بری طرح ناکام رہیں جب وہ دونوں ایک ریسٹورنٹ میں جا کر بیٹھیں۔ شہلا نے ویٹر کو آرڈر نوٹ کروایا اور ویٹر کو گئے ابھی چند منٹ ہی ہوئے تھے جب شہلا نے عمر کو جوڈتھ کے ساتھ ریسٹورنٹ میں آتے دیکھا۔ وہ دونوں اس وقت جس ٹیبل پر بیٹھی ہوئی تھیں۔ وہ ایسی جگہ پر تھی کہ اندر آنے والے ہر شخص کی پہلی نظر ان پرہی پڑتی۔نہ صرف شہلا نے عمر کو دیکھا تھا بلکہ عمر کی بھی اندر داخل ہوتے ہی ان پر نظر پڑی تھی وہ ٹھٹھک گیا تھا۔
شہلا نے علیزہ کو دیکھا۔ وہ بھی عمر اور جوڈتھ کو دیکھ چکی تھی۔ شہلا کا خیال تھا عمر ان دونوں کی طرف نہیں آئے گا لیکن اس کی یہ توقع غلط ثابت ہوئی ۔
عمر جوڈتھ سے کچھ کہہ رہا تھا پھر شہلا اور علیزہ نے جوڈتھ کو بھی اپنی ٹیبل کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے دیکھا۔ علیزہ نے ان دونوں سے نظریں ہٹا لیں۔
”ہیلو! ” عمر نے قریب آکر کہا علیزہ نے سر اٹھا کر نہیں دیکھا۔ شہلا اپنی کرسی سے کھڑی ہو گئی تھی۔
”ہیلو علیزہ !” ا س بار علیزہ نے جوڈتھ کی گرم جوش آواز سنی۔ وہ بھی اپنی سیٹ سے کھڑی ہو گئی۔
اس نے جوڈتھ کی طرف ہاتھ بڑھایا مگر جوڈتھ نے اس کا ہاتھ تھامنے کی بجائے اسی پرانی بے تکلفی اور گرم جوشی کے ساتھ آگے بڑھ کر اس کے دونوں گالوں کو خیر مقدمی انداز میں چوما۔
”مجھے یقین نہیں آرہا کہ یہ علیزہ ہی ہے، خوبصورت تو یہ پہلے ہی تھی مگر اب… کیوں عمر؟”
وہ علیزہ کے دونوں کندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے بڑی بے تکلفی کے ساتھ عمر سے پوچھ رہی تھی۔ علیزہ کا دل چاہا وہ اپنے کندھوں سے اس کے ہاتھوں کو جھٹک دے۔
عمرنے اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔
”بہت سالوں کے بعد دیکھا ہے میں نے تمہیں علیزہ ! کتنے سالوں بعد، کچھ یاد ہے تمہیں؟”
علیزہ نے مسکرانے کی کوشش کی، وہ جانتی تھی یہ بہت مشکل کام تھا۔
”نہیں۔” اس نے یک لفظی جواب دیا۔ اپنی آواز اسے بے حد کھوکھلی لگی تھی، صرف چہرے ہی نہیں آوازیں بھی انسان کی کیفیات کا آئینہ ہوتی ہیں۔
جوڈتھ اب شہلا سے ہیلو ہائے میں مصرو ف تھی۔