من و سلویٰ — قسط نمبر ۸

”آپ کو موویز دیکھنا پسند ہے؟”
اس شام وہ زینی کو لے کر ایک انڈین فلم دیکھنے کے لیے سینما گیا تھا۔ جب پاپ کارن کھاتے کھاتے زینی نے اس سے پوچھا۔
”سچ کہوں یا جھوٹ؟” کرم علی نے بے اختیار کہا۔
”سچ۔”
”نہیں۔” زینی بے اختیار ہنسی۔
”اس کے باوجود کہ آپ ایک فلم پروڈیوسر ہیں۔”
”ایک نیا پروڈیوسر اور یہ فلم میری پہلی اور آخری فلم بھی ہو سکتی ہے۔” کرم علی نے اپنے لفظوں پر زور دیتے ہوئے کہا۔
”فلم بنانے کا خیال کیوں آیاآپ کو؟”
”اگر میں کہوں آپ کو دیکھ کر آیا تو آپ کو یقین آئے گا؟” کرم علی نے مسکرا کر کہا۔
”ہاں!”
”اچھا… آپ تو بہت جلدی مان گئیں۔ کوئی ثبوت بھی نہیں مانگا آپ نے؟”
”پہلے کس کس بات کا ثبوت مانگا ہے میں نے؟” زینی نے قدرے تیکھے انداز میں آس سے پوچھا۔
”مانگا تو نہیں مگر انداز ایسا ہی ہوتا ہے آپ کا۔”
”دیکھیں کرم علی صاحب۔۔۔۔” زینی نے کچھ کہنا چاہا کرم علی نے اس کی بات کاٹی۔
”آپ مجھے کرم کیوں نہیں کہتیں؟”
”کیوں کہوں؟” زینی نے بے ساختہ کہا۔
”آپ مجھے پری زاد کیوں نہیں کہتے؟”
کرم علی بے اختیار مسکرایا۔ وہ اس کا نام لیے بغیر اس سے مخاطب ہوتا تھا اور زینی نے یہ بات نوٹس کر لی تھی۔
”کیونکہ وہ آپ کا نام نہیں ہے۔” کرم علی نے بے ساختہ کہا۔ ”اور جو آپ کا نام ہے وہ آپ کو میری زبان پر برا لگتا ہے۔”
اسکرین پرنظر جمائے اس نے کرم علی کو مکمل طور پر نظر انداز کیا لیکن وہ جانتا تھا کہ وہ جو کہہ رہا تھا وہ سن رہی تھی کچھ دیر دونوں خاموشی سے فلم دیکھتے رہے پھر زینی نے گردن موڑ کر کرم علی سے کہا۔
”مجھے کینیڈا آئے دس دن ہو گئے ہیں۔” اس کا انداز جتانے والا تھا۔
”یہ کیوں بتا رہی ہیں؟”
”اور میری واپسی میںصرف چار دن باقی ہیں۔” اس نے کرم علی کی بات کا جواب دیے بغیر جیسے اُسے اطلاع دی۔
”یہ بری خبر ہے۔ آپ اپنا stayکیا extend کر سکتی ہیں؟”
”نہیں، مجھے واپس جانا ہے میری فلم کی شوٹنگ اسٹارٹ ہو رہی ہے۔”
کرم علی نے اس بار کوئی جواب نہیں دیا، زینی نے اس کے چہرے کو غور سے دیکھا۔ وہ کسی سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔
”کچھ سوچ رہے ہیں؟” اس نے کرم علی کو مخاطب کیا۔ وہ اسے دیکھ کر مسکرایا۔
”کل رات ڈنر کرتے ہیں۔”
”یہ کام پچھلے دس دن سے روز کر رہے ہیں۔” زینی نے جیسے اسے جتایا۔
”لیکن کل رات کا ڈنر میرے گھر پر ہو گا۔”
صرف چند سیکنڈ کے لیے زینی کو جیسے ایک دھچکا لگا تھا، اس طرح خاص طور پر اپنے گھر پرانوائٹ کرنے کا اب کیا مطلب تھا۔ وہ آسانی سے سمجھ سکتی تھی لیکن کرم علی کے منہ سے پھر بھی یہ سن کر اسے دھچکا لگا تھا اور یہ دھچکا کیوں لگا تھا یہ سمجھ نہیں پا رہی تھی۔ یک دم فلم میں اس کی دلچسپی ختم ہو گئی تھی۔
٭٭٭
”آج تو بڑی تیاری کر رہی ہیں آپ؟” سلطان نے اسے جیولری نکال کر دیتے ہوئے کہا۔
”آج اس نے گھر پر ڈنر کے لیے بلایا ہے۔”
سلطان کو اس کا لہجہ بجھا بجھا لگا۔
”گھر پر ڈنر کے لیے بلایا ہے تو پھر آپ کو خوش ہونا چاہیے پری جی! آپ اسی وقت کا تو انتظار کر رہی تھیں۔ روز اسی بات پر غصہ آتا تھا آپ کو کہ وہ مطلب کی بات کیوں نہیں کرتا۔”
سلطان اس کی بات پر جیسے حیران ہوا تھا۔
”دیکھ لیجئے گا آج وہ فلم کی بات بھی کرے گا۔”
”نہیں کرے گا تو بھی میں خود کرواؤں گی۔ بہت کھیل تماشا ہو گیا ہے۔” زینی نے بڑبڑاتے ہوئے اپنے بالوں میں برش کرتے ہوئے کہا۔
کرم علی نے اس رات اسے اپنے گھر کے پورچ میں ریسیو کیا تھا۔ وہ ایک خوبصورت سیاہ ساڑھی میں ملبوس تھی اور آج غیر معمولی طور پر حسین لگ رہی تھی۔
”آپ آج بہت خوب صورت لگ رہی ہیں۔”
کرم علی کچھ دیر کے لیے واقعی اس کے چہرے سے نظریں نہیں ہٹا سکا تھا۔ وہ اتنی ہی radiant (تاباں) نظر آرہی تھی۔
وہ اسے ساتھ لے کر اسی کمرے میں آیا تھا جہاں وہ پہلی بار اس کے گھر آنے پر بیٹھی تھی۔
”پلیز بیٹھیں۔” اس نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود بار کی طرف جانے لگا۔
”میں آج لیمونیڈ نہیں پیؤں گی۔” زینی نے اسے وہیں روک دیا۔
کرم علی نے قدرے حیرانی سے مڑ کر اسے دیکھا پھر مسکرا دیا۔” کچھ اور پینا چاہتی ہیں آپ؟”
”ہاں۔”
”کیا؟”
”آپ لیمونیڈ کے علاوہ کیا پیتے ہیں؟”
”بہت کچھ، چائے، کافی، سوپ، سوفٹ ڈرنکس، جوسز۔۔۔۔”
زینی نے یک دم اسے ٹوکا۔ ”میں شراب میں آپ کی چوائس پوچھ رہی ہوں۔”
چند لمحوں کے لیے کرم علی کو جیسے جھٹکا لگا۔ زینی کے منہ سے اس طرح شراب کے تذکرے نے جیسے اسے کچھ حیران کیا تھا۔
”اوہ… میں شراب نہیں پیتا۔” زینی نے ایک لمحے کے لیے حیران ہو کر اسے دیکھا پھر کھلکھلا کر ہنس پڑی۔
”آپ مذاق اچھا کرتے ہیں۔”
”یہ مذاق نہیں ہے۔” کرم علی سنجیدہ تھا۔
”اگر نہیں پیتے تو کیوں نہیں پیتے؟” زینی نے بے ساختہ کہا۔
”آپ پیتی ہیں؟” کرم علی نے جواب دینے کے بجائے سوال کیا۔
”ہاں۔” اس نے بے دھڑ ک کہا۔
کرم علی کو اندازہ تھا پھر بھی اس کے منہ سے یہ انکشاف سن کرچند لمحوں کے لیے اسے شاک ضرور لگا۔
”مگر میں نہیں پیتا۔”
”یہی تو پوچھ رہی ہوں کہ کیوں نہیں پیتے۔”
”کیونکہ یہ میرے مذہب میں حرام ہے۔” زینی بے اختیار قہقہہ مار کر ہنسی اور پھر بہت دیر تک ہنستی ہی رہی۔ کرم علی محظوظ نہیں ہوا وہ خاموشی سے اسے دیکھتا رہا۔
”مجھے اندازہ نہیں تھا کہ آج رات میں اتنا ہنسوں گی۔”
زینی نے بالآخر اپنی ہنسی پر قابو پاتے ہوئے کہا۔ کرم علی نے اس کی بات پر کوئی تبصرہ کرنے کے بجائے کہا۔
”کیا پیئیں گی آپ؟”
”کم از کم آج رات میں یہاں لیمونیڈ پینے نہیں آئی۔۔۔۔” زینی بھی یک دم سنجیدہ ہو گئی تھی۔
”یہ کھانا پینا، گھومنا پھرنا سب ٹھیک ہے مگر کچھ کام بھی ہونا چاہیے۔ کیا کینیڈا صرف یہ سب کچھ کرنے کے لیے بلایا ہے آپ نے۔”
”نہیں، کام کے لیے ہی بلایا ہے۔” کرم علی نے بے ساختہ کہا۔
”تو پھر کام ہونا چاہیے۔ یہ فلم میرے لیے بہت اہم ہے کرم علی صاحب…! صرف اس فلم میں کاسٹ ہونے کے لیے میں پاکستان میں اپنے سارے کام چھوڑ کر یہاں آئی ہوں۔”
”میں جانتا ہوں۔” کرم علی نے اس کی بات کاٹ کر کہا۔ ”ظاہر ہے آپ فلم کے لیے ہی آئی ہوں گی۔ میرے لیے تونہیں آئیں۔”
وہ نہیں جانتا تھا یہ جملہ اس کے منہ سے کیوں نکلا۔
”آئی تو آپ ہی کے لیے ہوں یہ اور بات ہے کہ آپ اپنا اور میرادونوں کا وقت ضائع کرتے رہے ہیں۔”
”کیا مطلب؟” کرم علی کو اس کی بات نے حیران کیا۔
”ڈنر کی بات کر رہی ہیں؟” کرم علی کو اس کی بات سمجھ میں نہیں آئی تھی اور زینی کو اس کی۔
”کس ڈنر کی؟” وہ جھنجھلائی۔ ”آپ کا کیاخیال ہے کہ میں اتنا سج سنور کر آپ کے ہاں ڈنر کرنے آ ئی ہوں؟ میں یہاں آپ کے ساتھ رات گزارنے آئی ہوں۔”
اس نے بے حد صاف لفظوں میں کہا اور پھر کرم علی کا چہرہ دیکھا۔
کرم علی کو لگا اسے سننے میں غلطی ہوئی تھی۔
”ایکسکیوزمی۔” کرم علی نے شاکڈ ہوتے ہوئے کہا۔
”کیا میں اپنی بات دہراؤں؟” زینی نے اسی انداز میں کہا۔ کرم علی کے چہرے کے تاثرات اس کی سمجھ سے باہر تھے۔ آخر اس نے ایسا کیا کہہ دیا تھا کہ کرم علی اس طرح ری ایکٹ کر رہا تھا۔
”اس کی ضرورت نہیں۔ میں نے آپ کو اس لیے یہاں نہیں بلوایا۔” کرم علی نے بمشکل کہا۔ بہت سارے بت ایک بار پھر کرچی کرچی ہونا شروع ہو گئے تھے اور ان کی ساری کرچیاں کرم علی کو زخمی کر رہی تھیں۔
”یہ فلم میرے لیے بہت امپورٹنٹ ہے اور میں اس کے لیے کچھ بھی کر سکتی ہوں۔”
زینی نے ایک بار پھر اپنی بات کو مختلف الفاظ میں دہراتے ہوئے کہا۔ وہ اس چوہے بلی کے کھیل سے واقعی اکتا چکی تھی جو اس کے خیال میں کرم علی اس کے ساتھ کھیل رہا تھا۔
”اس فلم میں کاسٹ ہونے کے لیے آپ کو یہ سب کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔”
کرم علی کوشش کے باوجود اپنے لہجے کو تلخ ہونے سے نہ بچا سکا اور زینی نے اس تلخی کو نوٹ کیا تھا۔ اس نے وہاں آنے کے بعد پہلی بار کرم علی کے لہجے میں تلخی محسوس کی تھی۔
”تو پھر اور کیا چاہتے ہیں آپ مجھ سے؟” وہ بے اختیار الجھی۔ کرم علی کی تلخی نے کچھ عجیب سا اثر کیا تھا اس پر۔
”کچھ بھی نہیں۔” زینی چند لمحے کرم علی کا چہرہ دیکھتی رہی پھر بے اختیار ہنسی۔
”کچھ بھی نہیں… تو پھر کینیڈا آپ نے مجھے کس لیے بلوایا ہے؟”
”اس کام کے لیے بہر حال نہیں بلوایا۔” کرم علی نے بے ساختہ کہا۔
”اور یہ سیرو تفریح، شاپنگ، کھانا پلانا۔ یہ سب کس لیے؟ کوئی نہ کوئی تو ہو گی وجہ اس کی۔” وہ یک دم سنجیدہ ہو گئی۔
”آپ سے ”یہ قیمت” میں نہیں چاہتا۔ میں آپ کی بہت عزت کرتا تھا۔” وہ کچھ کہنا چاہ رہا تھا۔
”تھا؟” زینی نے ہنس کر جیسے سوال کیا۔
کرم علی نے اسے نظر انداز کرتے ہوئے اپنی بات جاری رکھی۔ ”اور آپ اتنے دنوں یہ سمجھتی رہیں کہ میں آپ سے… مائی گاڈ۔” کرم علی کو جیسے سوچتے ہوئے بھی تکلیف ہوئی۔
”یہ فلم انڈسٹری ہے کرم علی صاحب! یہاں یہی سب کچھ ہوتا ہے۔ جتنا بڑا رول، اتنی بڑی قیمت۔” زینی بھی یک دم سنجیدہ ہو گئی۔
”میری فلم کے لیے آپ کو کسی سودے بازی کی ضرورت نہیں۔ مین رول آپ کا ہے۔ آپ کو ہی ملے گا۔” ”ایسے ہی؟” زینی نے طنزیہ انداز میں کہا ۔
”ہاں، ایسے ہی۔”

Loading

Read Previous

من و سلویٰ — قسط نمبر ۷

Read Next

من و سلویٰ — قسط نمبر ۹

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!