من و سلویٰ — قسط نمبر ۸

”چاہے وہ بڈھا ہوتا، بدشکل ہوتا، شادی شدہ ہوتا؟”
”جو مرضی ہوتا میں کر لیتی اس کے ساتھ شادی، تجھے پتہ ہے کہ کرم علی سے تیری شادی سے ہمارے دن پھر جائیں گے۔ یہ جو بھوک اور ذلت کی زندگی ہے اس سے ہم سب نکل جائیں گے تو اپنا نہیں تو ہمارا ہی سوچ لے۔”
”اور جمال اس کا کیوں نہ سوچوں۔”
”کیا ہے جمال میں؟ صرف اچھی شکل… نہ گھر بار نہ کام دھندا اور تو اس سے شادی کے لیے مر رہی ہے۔” گلشن نے تلخی سے کہا۔
”ساری عمر یوں نہیں رہے گا، وہ کام کرنے لگے گا۔”
”کیا کام کرے گا؟ اور کتنے دن کرے گا؟ جس مرد کو کام کی عادت نہ ہو وہ بیوی کو گھر بٹھا کر روٹی نہیں کھلا سکتا۔”
”میں خود کر لوں گی کام باپ کے گھر میں کرتی ہوں تو شوہر کے گھر میں بھی کر لوں گی۔”
”باپ کے گھر میں ساری زندگی نہیں کرنا پڑتا۔ شوہر کے گھر میں کام کرنے لگو تو پھر ساری عمر ہی کرنا پڑتا ہے۔”
”کوئی بات نہیں کر لوں گی میں۔” زری بضد تھی۔
”ساری عمر کام کر کر کے اماں جیسی حالت ہو جائے گی تیری… جوانی میں بوڑھی ہو جائے گی۔”
”گلشن تو۔۔۔۔” گلشن نے ایک بار پھر زری کی بات کاٹی۔
”دیکھ زری! یہ جو محبت ہے نا، یہ انسان کو بڑا رلاتی ہے اور پیسہ جو ہے نا یہ وہ رومال ہے جو ہر آنسو پونچھ دیتا ہے۔ ” گلشن اس وقت اپنی طرف سے جتنی عقل کی باتیں سمجھا سکتی تھی سمجھا رہی تھی۔
”تو میری ایک بات یاد رکھنا گلشن! اماں اور ابا نے میری بات نہ مانی تو میں عین نکاح کے وقت انکار کر دوں گی۔ میں دوسری بہنوں کی طرح خوشی خوشی شادی کر کے اس گھر سے نہیں جاؤں گی۔ کرم کے ساتھ جانے کے بجائے جان دے دوں گی یہاں۔”
گلشن نے بے اختیار اپنا سر پکڑ لیا۔ زری کو سمجھانا اس وقت بھینس کے آگے بین بجانے کے مترادف تھا۔ گلشن کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اسے جمال میں ایسا کیا نظر آرہا تھا، جو وہ اس کے لیے یوں جان دینے پر تیار تھی اور اسے کرم علی کا پیسہ بھی نظر نہیں آرہا تھا… جبکہ وہ تو پیسے کے لیے کچھ بھی کر سکتی تھی اور اب جب واقعی اُسے کچھ بھی کیے بغیر پیسہ حاصل کرنے کا موقع مل رہا تھا تو اسے جمال اور اس کی محبت نظر آنے لگی تھی۔
٭٭٭
سلطان مہورت کی تقریب میں شرکت کے لیے پاشا پروڈکشنز کے اسٹوڈیو میں زینی کے ساتھ داخل ہونے تک خوف زدہ رہا تھا۔ لیکن زینی اور تبریز پاشا کا آنا سامنا ہوتے ہی اس کا حلق میں اٹکا ہوا سانس بحال ہو گیا تھا۔ دونوں بے حد گرم جوشی سے ملے تھے۔ زینی کو دھمکانے کے باجود تبریز پاشا نے پری زاد کو وہاں پا کر سکون کا سانس لیا تھا۔ سلطان کو اگر زینی کی طرف سے کسی غیر معمولی رویے یا حرکت کی توقع تھی تو وہ بہر حال وہاں نظر نہیں آئی تھی اور اس وقت تو صرف سلطان کو ہی نہیں سفیر خان کو بھی جیسے شادی مرگ ہوگیا تھا جب زینی مسکراتے ہوئے خود اس کے پاس گئی اور… فلم کے سیٹ کے علاوہ پہلی بار زینی سفیر سے گلے ملی تھی۔ نہ صرف اس سے بلکہ انور حبیب سے بھی…
انور حبیب اور سفیر نے الجھی ہوئی نظروں کے ساتھ ایک دوسرے کو دیکھا۔ پری زاد کے انداز میں یک دم آجانے والی گرم جوشی ان کی سمجھ سے باہر تھی۔ لیکن جو بھی تھا۔ سفیر خان کو پری زاد سے ملنے والی توجہ اچھی لگی تھی۔ وہ مہورت میں اس کے ساتھ رہی تھی۔ دونوں آپس میں باتیں کرتے رہے اور قہقہوں کا تبادلہ بھی… اور میڈیا کے لوگ ان کے درمیان اچانک نظر آنے والی اس ”کیمسٹری” کے بارے میں چہ میگوئیاں کرتے رہے۔ پری زاد اور سفیرخان کے درمیان صلح… یہ یقینا اگلے دن کے اخباروں میں شوبز کے صفحات کی مین ہیڈلائن بننے والی تھی۔
اور اس صلح یا مفاہمت کی وجوہات کیا تھیں اگلے کئی دنوں اس پر اخباروں میں بحث اور قیاس آرائیاں ہونے والی تھیں لیکن فلم انڈسٹری کے لوگوں نے مہورت کی اس تقریب میں پری زاد اور سفیر کے درمیان ہونے والی اس صلح کو انڈسٹری کے لیے ایک اچھا شگن قرار دیاتھا۔
مہورت سے واپسی پر گاڑی میں سلطان مسلسل چہکتا رہا تھا۔ وہ واقعی بے حد خوش تھا۔ پری زاد نے عقل مندی کا مظاہرہ کیا تھا۔ وہ اسے بتا رہا تھا کہ اس انڈسٹری میں ہمیشہ وہی ہیروئن سب سے لمبے عرصے تک راج کرتی رہی ہے جس کے کسی ہیرو، ہیروئن یا ڈائریکٹر اور پروڈیوسر کے ساتھ تنازعات نہیں رہے اور جو ہیروئن اسکینڈلز اور تنازعات میں انوالو ہوتی رہی ہے وہ صرف چند سالوں سے زیادہ اس انڈسٹری سے غائب نہیں ہوئی بلکہ لوگوں کی یادداشت سے بھی غائب ہو گئی۔
زینی سگریٹ پیتے ہوئے بے حد خاموشی اور سنجیدگی کے ساتھ اس کی باتیں سن رہی تھی اور سلطان کو پورا یقین تھا کہ وہ اس کی باتوں پر غور بھی کر رہی ہے وہ کچھ اور پرجوش ہوتے ہوئے زینی کو نصیحتوں پر نصیحتیں کرنے لگا۔ وہ ہرچیز پر خوش تھا سفیر خان سے صلح پر، انور حبیب کے ساتھ بات چیت پر تبریز پاشا کے ساتھ کی جانے والی پہل پر۔ وہ پری زاد کو اسی طرح کے رویے کا مظاہرہ کرتا دیکھنا چاہتا تھا۔
”کرم علی کی فلم کی ڈیٹس آگئیں؟”
اس نے سلطان کی تمام نصیحتوں، تمام مثالوں، تمام شاباشیوں کے جواب میں سگریٹ کا ٹکڑا گاڑی کی ایش ٹرے میں پھینکتے ہوئے پوچھا۔ ایک لمحہ کے لیے سلطان کچھ شرمندہ ہو گیا اسے یوں لگا جیسے پری زاد نے اس کی ایک بات بھی نہیں سنی تھی۔
”ہاں ڈیٹس آگئی ہیں۔ اس کی شوٹنگ اسٹارٹ ہو رہی ہے اگلے ماہ کی انتیس سے۔ کرم علی سے کوئی رابطہ ہوا آپ کا؟” سلطان نے بات کرتے کرتے اچانک پوچھا۔
”کیوں ہوتا؟” زینی نے جواباً بے حد تیکھے انداز میں اس سے پوچھا۔
”بڑا پتھر دل آدمی ہے۔” سلطان نے بے ساختہ کہا۔
”پتھر دل نہیں ہے۔ بس غرور ہے اسے اپنی دولت پر اور ہونا بھی چاہیے۔ اگر اتنا پیسہ پاس ہو کہ انسان دوسرے کی زندگی اور وجود تک خریدنے پر قادر ہو تو غرور تو ہونا ہی چاہے۔” اس نے بے حد لاپروائی سے کہا۔
پر مجھے تو مغرور نہیں لگا پری جی! مجھے تو بڑا عاجز آدمی لگاہے وہ عاجز مگر تیکھا۔” سلطان نے کرم کی طرف داری کی۔
”عاجز…؟” وہ بے ساختہ ہنسی ”کرم اور عاجز”… اس نے نیا سگریٹ سلگاتے سلگاتے چھوڑ دیا۔ وہ اب کچھ سوچنے لگی تھی۔
سلطان نے بہت گہر ی نظروں سے زینی کا چہرہ دیکھا ۔ وہاں اب کچھ ایسا تھا جو پہلے نہیں تھا۔ وہ بعض دفعہ اسے پری زاد نہیں لگتی تھی پری لگتی تھی۔
*****
ایک لمحہ کے لیے کرم علی کو لگا اس کی ماں اس کے ساتھ مذاق کر رہی تھی۔ لیکن وہاں ان کے چہرے پر ایسے کوئی تاثرات نہیں تھے، جس سے اس کی خوش فہمی کی بھی تصدیق ہوتی۔
”کیا مطلب ہے آپ کا؟” اسے وضاحت طلب کرنا ضروری لگا۔
”مطلب یہی ہے جو تم نے سنا ہے، میں نے تمہاری شادی طے کر دی ہے۔” اس کی ماں نے اطمینان سے کہا۔
”کیوں؟” اس نے بے ساختہ الجھے ہوئے انداز میں کہا۔
”کیوں کا کیا مطلب ہے؟ تم اولاد ہو میری، سب سے بڑی اولاد میری خواہش ہے تمہارا گھر بسا دیکھنے کی۔”
”لیکن میں نے آپ کو بتایا ہے مجھے شادی میں دلچسپی نہیں ہے۔”
”شادی میں دلچسپی ہے یا نہیں ہے اب تمہاری شادی طے کر دی ہے لڑکی والے تیاری کر رہے ہیں۔ دو ہفتوں میں جا کر بیاہنا ہے ہمیں اسے۔”
کرم علی کو لگا جیسے یہ واقعی کوئی مذاق تھا ورنہ اس طرح بیٹھے بٹھائے اس کی ماں اس کی شادی جیسا بڑا فیصلہ اس سے بات کیے بغیر خود اپنے آپ کیسے کر سکتی تھی۔
”مجھ سے پوچھے بغیر آپ نے میری شادی طے کر دی؟” کرم علی کو جیسے شاک لگاتھا۔ ”کرم علی لڑکی اتنی خوب صورت ہے کہ تم دیکھو گے تو تمہیں ماں کے انتخاب پر فخر ہو گا۔”
”بات لڑکی کی خوب صورتی کی نہیں ہے میری مرضی کی ہے۔ میں شادی نہیں کرنا چاہتا، چاہے وہ خوب صورت لڑکی ہو یا بد صورت۔”
”شادی نہیں کرنا چاہتے اور اس ایکٹریس کے ساتھ آوارہ پھر نا چاہتے ہو۔”
کرم علی کی ماں آپنی اولاد کی سخت ہدایات کے باوجود پری زاد کا ذکر چھیڑے بغیر نہیں رہ سکی۔ چند لمحوں کے لیے کرم علی کچھ بول ہی نہیں سکا تھا۔ پری زاد کو وہاں سے گئے کئی ہفتے ہو چکے تھے۔ اس وقت ان حالات میں اس کا ذکر کیوں کر رہی تھیں وہ؟… اس سوال سے بھی زیادہ جو بات اسے ناگوار لگی تھی وہ یہ تھی کہ کسی نے ماں کو اس کے اور پری زاد کے میل جول کے بارے میں بتایا تھا۔ وہ بتانے والے سے بھی واقف تھا اور میل جول کی تفصیلات کس انداز میں بتائی ہوں گی اسے بھی جانتا تھا۔ وہ اس کے بھائیوں میں سے کوئی ایک تھا۔ یقینا آصف۔”
”کون سی ایکٹریس؟” کرم علی نے بالآخر اپنے اعصاب پر قابو پاتے ہوئے کہا۔
”تم کو اچھی طرح پتا ہے کون سی ایکٹریس… میرا منہ نہ کھلواؤ تم… تم کو سوچنا چاہیے تھا کہ چھوٹے بہن بھائی کیا سوچیں گے کیا کہیں گے جب بڑا بھائی ایک بد نام زمانہ ایکٹریس کو پہلے کینیڈا بلوائے گا پھر اسے ساتھ لے لے کر دن رات پھرے گا۔”
اس کی ماں اب وہ سب کچھ کہہ رہی تھی۔ جو اسے مختلف اولادوں کی طرف سے کرم علی اور پری زاد کے بارے میں بتایا گیا تھا یا کہا گیا تھا۔
”میں ساری عمر کرم علی کی مثالیں دیتی رہی دوسرے بچوں کو اور کرم علی آخر میں اس طرح کا کام کرنے لگا۔”
کرم علی نے شدید رنج سے ماں کی بات کاٹی۔ ”وہ میری ایک فلم میں کام کرنے کے سلسلے میں یہاں آئی تھی۔ میرے لیے ایک ایکٹریس ہے اور کچھ نہیں۔”
”تمہاری فلم؟ کیوں بنا رہے ہو تم یہ فلم؟ تعلق کیا ہے آخر تمہارا اس فلم سے؟ آج تک ہمارا خاندان کبھی کسی اسٹوڈیو کے پاس سے بھی نہیں گزرا اور تم فلم بنانے بیٹھ گئے۔ ٹھیک ہے یہاں کینیڈا میں آکر رہتے ہیں مگر پیچھے پورا خاندان ہے بہنوں کے سسرال ہیں، بھائیوں کے سسرال میں کیا کیا باتیں نہیں کریں گے لوگ۔ جب فلم پاکستان میں لگے گی تمہاری یا لوگوں کو پتہ چلا کہ تم ایسا کوئی کام کر رہے ہو۔”
”آپ کیا سمجھتی ہیں کہ ہر کوئی جو فلم بناتا ہے وہ دنیا سے منہ چھپا کر بیٹھ جاتا ہے۔ کچھ نہیں ہوتا۔ بڑے بڑے عزت دار فلمیں بناتے ہیں اورمیں تو صرف شوق کے لیے بنا رہا ہوں… کوئی بزنس شروع نہیں کر رہا۔”
اس نے نہ چاہنے کے باوجود ماں کو وضاحت دینا شروع کی لیکن اس کی ماں اس وقت اس کی کوئی بات سننے پر تیار نہیں تھی۔
”شوق کے لیے بنا رہے ہو یا جیسے بھی بنا رہے ہو اب یہ شادی کے بعد ہی بنانا تم۔”
”آپ میرے ساتھ یہ نہیں کرسکتیں آپ جانتی ہیں میں شادی نہیں کرنا چاہتا۔”
”شادی نہیں کرنا چاہتا اور اس چڑیل کے لیے جوگ لے کر بیٹھنا چاہتا ہوں۔ ” کرم علی کی ماں کا اشارہ اس بار عارفہ کی طرف تھا۔
”اس کا نام نہ لیں۔” کرم علی نے بے ساختہ کہا۔
”کیوں نام نہ لیں۔ اس نے شادی کر لی بچے ہو گئے اس کے اور تم آج بھی اس کے لیے بیٹھے ہو۔”
”میں کسی کے لیے نہیں بیٹھا ہوں۔” کرم علی نے جھنجھلا کر کہا۔ ”یہ میری زندگی ہے میں نہیں چاہتا کسی کو اس میں شامل کروں تو آپ لوگوں کو کیا اعتراض ہے آپ لوگ تو خوش ہیں نا اپنی زندگیوں میں۔”
”میں تو تب تک خوش نہیں ہوں گی جب تک تمہارا گھر نہیں بسے گا کرم علی! میں تب تک بے چین ہی رہوں گی۔ باپ تمہارا تم سے کہتے کہتے مر گیا۔ تم نے اس کی بات نہیں مانی اب کیا ماں کو بھی اسی طرح نامراد کر کے قبر میں اتار دے گا؟”
کرم علی کی ماں نے آنکھوں میں آنسو بھرتے ہوئے کہا۔ کرم علی سٹپٹا کر رہ گیا۔ وہ ان کے غصے سے لڑ سکتا تھا آنسوؤں سے نہیں اور خاص طور پر ابھی جب وہ ایسی کسی صورت حال کے لیے تیار ہی نہیں تھا۔ اس کی ماں اس سے ملنے ویک اینڈ پر اس کے گھر آئی تھی اور وہ یہ توقع نہیں کر رہا تھا کہ اگلے چند گھنٹوں میں ان دونوں کے درمیان یہ گفتگو ہو رہی ہو گی۔
”آپ کو کیوں یہ غلط فہمی ہو رہی ہے کہ میں ایسا کچھ۔” اس کی ماں نے اسے بات مکمل نہیں کرنے دی۔
”اگر ایسا کچھ نہیں ہے تو پھر تم میری بات مان لو۔”
”کیسے مان لوں میں آپ کی بات؟ مجھے شادی نہیں کرنی ہے۔”
”کوئی وجہ بھی تو ہونی چاہیے تمہارے پاس شادی نہ کرنے کی۔”
”میں آپ کو وجہ بتا دوں گا مگر فی الحال آپ کوئی اور بات کریں۔ میں اس موضوع پر بات نہیں کروں گا۔”
”میں صرف اسی ایک چیز کے بارے میں بات کرنے آئی ہوں، وہاں پاکستان میں ہم نے تاریخ بھی طے کر دی ہے اور تم کہہ رہے ہو کہ تم اس موضوع پر بات کرنا نہیں چاہتے۔”
کرم علی ہونق بنا ماں کا چہرہ دیکھتا رہا۔
”آپ کیسے مجھ سے بات کیے بغیر میری شادی کی تاریخ طے کر سکتی ہیں۔”

Loading

Read Previous

من و سلویٰ — قسط نمبر ۷

Read Next

من و سلویٰ — قسط نمبر ۹

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!