من و سلویٰ — قسط نمبر ۸

”آج شیراز سے ملی میں۔”
زینی نے سگریٹ سلگاتے ہوئے بتایا۔ وہ ابھی کچھ دیر پہلے ہی اشتیاق رندھاوا کے ساتھ واپس آئی تھی اور اب سلطان اس کے پاس بیٹھا اسے اگلے دن کا شیڈول بتا رہا تھا جب زینی نے اس کی بات کاٹی۔
”کیا؟… کہاں؟” سلطان چونک گیا۔
”اس کے گھر گئی تھی اشتیاق کے ساتھ، اس لڑکی کو دیکھا میں نے جس کے لیے اس نے مجھے چھوڑ دیا۔”
وہ اسے وہاں ہونے والے واقعات بتانے لگی۔ سلطان ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو رہا تھا۔ بہت دیر بعد اسے احساس ہوا کہ صرف وہی ہے جو اس طرح ہنس رہا تھا۔ زینی کے چہرے پر مسکراہٹ تک نہیں تھی۔
”آپ خوش نہیں ہیں۔” سلطان بھی یک دم سنجیدہ ہو گیا۔
”کس بات پر خوش ہوتی… اس آدمی کو اپنی مرضی سے چند ٹکوں کے عوض بکنے والی شے بنتے دیکھ کر، جسے میں پوری دنیا کے عوض بھی کسی کو نہ دیتی۔ یہ وہ آدمی تھا، سلطان! جس کے جوتوں کی دھول زینی اپنے دوپٹے سے صاف کیا کرتی تھی۔ اسے ایسا درجہ دیا تھا میں نے… اور آج مجھے یقین تھا کہ میں اسے اپنے جوتے لانے کو کہوں گی تو وہ مر جائے گا مگر یہ کام کبھی نہیں کرے گا۔ لیکن میں نے شیر کو گھاس کھاتے دیکھ لیا۔”
وہ رو رہی تھی یا ہنس رہی تھی، سلطان سمجھ نہیں سکا۔ بس اسے شیراز پرغصہ آیا۔
”بھول جائیں اسے۔ پری جی! جانے دیں اسے… وہ اس قابل نہیں ہے۔”
اس نے ہزار بار کا دہرایا ہوا جملہ پھر زینی کے سامنے دہرایا۔ وہ چپ چاپ سگریٹ پیتی رہی۔
”وہ میں نے آپ کو ربیعہ باجی کے بارے میں بتایا تھا۔”
سلطان نے یک دم جھجکتے ہوئے کہا زینی کو جیسے کرنٹ لگا۔
”کیا؟”
”وہ کسی لڑکے سے مل رہی ہیں آج کل۔” سلطان نے جھجکتے جھجکتے بتایا… زینی نے سگریٹ ایش ٹرے میں پھینک دیا۔
”کس لڑکے کے ساتھ؟”
”فاروق نام ہے اس کا۔ ربیعہ باجی کے ساتھ یونیورسٹی میں پڑھتا ہے وہ۔ میں نے پتہ کروایا ہے اس کے بارے میں۔ غریب خاندان سے تعلق ہے اس کا، پر اچھا شریف لڑکا ہے، گھر والے بھی بڑے شریف ہیں اس کے۔ مجھے لگتا ہے کچھ دنوں تک رشتہ آئے گا ان کے گھر سے ربیعہ باجی کے لیے۔”
سلطان مزے سے بتا رہا تھا۔ زینی کو اس کی معلومات پر حیرت نہیں ہوئی تھی۔ سلطان کے ذرائع معلومات کیا تھے۔ وہ نہیں جانتی تھی لیکن سلطان سے ملنے والی اطلاعات پر کبھی اسے شبہ نہیں ہوا تھا۔
زینی کو اپنے کندھوں پر ٹکا کوئی بوجھ یک دم ہلکا ہوتا ہو امحسوس ہوا۔ عمران والے واقعے کے بعد بہت دفعہ اسے ربیعہ سے عجیب قسم کی ندامت محسوس ہوتی تھی بعض دفعہ تو اسے اپنا آپ ربیعہ کا مجرم لگتا۔
”کیا سوچ رہی ہیں پری جی؟” سلطان نے اسے چونکا یا۔
”کچھ نہیں۔” زینی نے کہا۔ ”اس کے بارے میں مزید پتا کرواؤ۔”
اس نے سلطان کو ہدایت کی۔
”آپ سے پہلے ہی کروا رہا ہوں۔” سلطان نے مسکراتے ہوئے کہا۔
زینی نے ایش ٹرے میں سگریٹ کو دیکھا۔ وہ جل چکا تھا۔
٭٭٭

جمال کا دل چاہ رہا تھا، وہ زری کا گلا گھونٹ دے۔ وہ اس کے سامنے بیٹھی رو رہی تھی۔ کچھ دیر پہلے ہی وہ محلے میں کسی سہیلی کے گھر جانے کا کہہ کر اس پارک میں آئی تھی۔جہاں جمال اس کا انتظار کر رہا تھا۔ اس نے ہفتے بعد زری کی شادی کے بارے میں بھی سن لیا تھا۔ اور وہ گاڑی بھی دیکھتا آرہا تھا جس پر بیٹھ کر زری تقریباً ہر روز شاپنگ کے لیے جاتی اور پھر رات گئے شاپرز کے ساتھ لدی پھندی واپس آتی۔
”تو دیکھنا جمال! میں مولوی کے سامنے نکاح سے انکار کر دوں گی۔ تو دیکھ لینا۔”
”تو انکار کرے گی؟ تو؟ دولت مند لوگ ہیں وہ۔ کروڑ پتی بڈھا ہے وہ۔ تو کیسے چھوڑ دے گی یہ سب کچھ۔” وہ زہریلے لہجے میں کہہ رہا تھا۔ ”مجھے جھانسہ دے رہی ہے تو… میری زندگی برباد کر دی تو نے۔”
زری کے آنسوؤں میں کچھ اور اضافہ ہو گیا۔
”میں کیا کروں جمال! میر ی کوئی سنتا ہی نہیں۔ ہر ایک کو اپنی پڑی ہوئی ہے۔ ابا کو پیسے دے گئی ہے اس کی بہن۔ ابا کیسے انکار کرے۔ اب مجھے بیچ رہے ہیں وہ۔” زری نے جیسے دہائی دی۔
”وہ نہیں بیچ رہے تو خود بک رہی ہے۔ اپنے لالچ کی وجہ سے۔”
”گالی مت دے مجھے جمال۔” زری تڑپ کر رہ گئی۔
”گالی؟ کیسی گالی؟ تو روز اس عورت کے ساتھ خوش خوش جاتی ہے اس گاڑی میں اور تو کہتی ہے ، یہ زبردستی ہے۔” وہ آج اس کی کسی بات پر یقین نہیں کر رہا تھا۔
”تو کیا کروں؟… نہ جانے کا کہہ کر ابا کے ہاتھوں ماری جاؤں؟” زری یک دم رونا بھول گئی۔
”تجھے کہا ہے میں نے، میرے ساتھ بھاگ چل۔” جمال نے کہا۔
”بھاگ کر کہاں جاؤں؟ کہاں لے جائے گا مجھے بھگا کر، بتا؟ کون سا بنگلہ تعمیر کر رکھا ہے تو نے جہاں تو مجھے رکھے گا؟ چار دن بعد اسی محلے میں واپس آئیں گے اور ابا تجھے اور مجھے دونوں کو مار دے گا۔”
”بنگلے کے طعنے مت دے مجھے۔ پہلے بنگلے میں رہتی ہے کیا تو چار دن گاڑی میں پھر پھرا لیا ہے تو نے۔ اب تو تو بنگلہ ہی مانگے گی رہنے کے لیے صاف صاف کیوں نہیں کہہ دیتی دل بھر گیا ہے تیرا مجھ سے، تجھے کوئی امیر آدمی چاہیے تھا گھر بسانے کے لیے… اور وہ امیر اب مل گیا ہے تجھے۔”
”جو مرضی کہہ لے تو جمال! زری تیری ہے تیری ہی رہے گی۔ تو شادی والے دن گھر کے باہر رہنا۔ میں مولوی کو بتا دوں گی۔ مجھے تیرے ساتھ شادی کرنی ہے۔ پھر ابا کو کرنی پڑی گی تیرے ساتھ میری شادی۔” وہ کھڑی ہوتے ہوئے بولی۔
”ٹھیک ہے گھر کے باہر رہوں گا میں لیکن پستول لے کر اور تو نے اگر نکاح کر لیا نا تو تیرے دروازے کے سامنے گولی ماروں گا اپنے آپ کو پھر میری لاش سے گزر کر تو اس کی گاڑی میں بیٹھے گی۔”
جمال نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ زری بے حد خوف زدہ ہو گئی تھی وہ جمال کو جانتی تھی، وہ ضد پر اتر آتا تو پھر الٹے سے الٹا کام بھی کر گزرتا تھا۔ اس کے لیے اب پہلی بار آگے کنواں، پیچھے کھائی والی صورت حال آگئی تھی۔
کرم علی سے اس کی نفرت میں کچھ اور اضافہ ہوا، یہ واحد کام تھا جو وہ کسی خوف کے بغیر کر سکتی تھی۔
٭٭٭

”میں اپنے ماں باپ سے بات کروں گا ربیعہ! لیکن مجھے پتہ ہے وہ کبھی نہیں مانیں گے۔ ایک ایکٹریس کی بہن کے ساتھ وہ کبھی میری شادی نہیں کریں گے۔”
فاروق نے کسی لگی لپٹی کے بغیر اس دن ربیعہ کو بتا دیا تھا۔ وہ پچھلے چند روز سے اس کے لیے رشتہ بھیجنے کی بات کر رہا تھا اور ربیعہ اپنے اندر یہ ہمت پیدا کرنے کی کوشش کر رہی تھی کہ اسے یہ بتا دے کہ وہ پری زاد کی بہن تھی۔
دوسری طرف فاروق کو یہ پریشانی تھی کہ وہ ایک امیر گھرانے سے تعلق رکھتی ہے۔ اس کا رہن سہن ان لوگوں کے رہن سہن سے بے حد مختلف تھا پتہ نہیں اس کے گھر والے اس رشتہ کو قبول بھی کریں گے یا نہیں اور اس نے ربیعہ سے جھجکتے جھجکتے… اس خدشہ کا اظہار کر دیا تھا۔ جس پر ربیعہ نے اسے کھل کر بتا دیا کہ اس کا رہن سہن ان سے بھی برا تھا وہ آج بھی جس گھر میں رہتی تھی وہ اس کی بہن کی ملکیت تھی۔ ان کے ٹھاٹھ باٹھ پری زاد کی وجہ سے تھے اس لیے اسے فاروق کے خاندان کا حصہ بننے میں کوئی دقت نہیں ہو گی نہ ہی اس کی ماں اس بات پر کوئی اعتراض کرے گی۔
لیکن یہ سب کچھ سننے کے بعد فاروق یک دم مزید پریشان ہو گیا تھا اور اب وہ ربیعہ کواپنی مجبوری بتا رہا تھا کہ… اس کے گھر بھیجنے سے پہلے اپنے ماں باپ کو یہ سب کچھ بتانا پڑے گا اور اس کے ماں باپ اس رشتہ پر تیار نہیں ہوں گے۔ ربیعہ پر جیسے کسی نے یک دم منوں مٹی ڈال دی تھی۔
عمران کے بعد وہ پہلی بار کسی لڑکے میں دلچسپی لے رہی تھی۔ اس نے پہلی بار شادی جیسے رشتہ میں بندھنے کا سوچا تھا اور اب پھر وہی کچھ ہونے والا تھا جو پہلے ہوا تھا۔
دو دن کے بعد فاروق نے رشتہ بھیجنے سے معذرت کر لی تھی۔ اس نے ربیعہ کواپنی مجبوریوں کی لمبی فہرست سناتے ہوئے کہا تھا کہ وہ کبھی اسے اپنے دل سے نہیں نکال سکتا لیکن اپنے گھر میں لانے کے لیے اسے اپنے والدین کی رضا مندی چاہیے کیونکہ وہ فاروق کا نہیں اس کے والدین کا گھر تھا اور ایک ایکٹریس کی بہن کے ساتھ شادی کی صورت میں خود اس کی بہنوں کی شادیاں نہیں ہو سکیں گی۔ اس لیے وہ یہ قربانی دے رہا تھا۔
ربیعہ اس دن گھر آکر بری طرح روئی۔ اسے لگا تھا۔ وہ ساری عمر زینی کی وجہ سے اسی گھر میں بیٹھی رہے گی۔ خوشیوں کے لیے اور اپنے گھر کے لیے ترستے اس کے ٹکڑوں پر پلتے ہوئے۔
اگلے دو دن اس نے کچھ نہیں کھایا اور اپنے کمرے سے باہر نہیں نکلی نفیسہ بے حد پریشان ہو گئی تھیں۔ وہ فاروق والے معاملہ سے واقف تھیں اور انہیں فاروق کے انکار سے اتنی تشویش نہیں تھی جتنا ربیعہ کے اس طرح کھانا چھوڑ دینے سے۔ انہوں نے زینی کو بھی فاروق کے انکار کے بارے میں بتا دیا۔ زینی کو بے حد رنج ہوا تھا۔ وہ جانتی تھی ربیعہ اس وقت اس کے بارے میں کس طرح سوچ رہی ہو گی۔ اس کے باوجود وہ اس کے کمرے میں گئی۔
”امی نے بتایا ہے، تم نے دو دن سے کھانا نہیں کھایا۔”
وہ اس کے پاس آکر بیڈ پر بیٹھ گئی۔ ربیعہ جسم پر چادر تانے بیڈ پر چت لیٹی چھت کو گھور رہی تھی۔ اس کی آنکھیں سرخ اور سوجی ہوئی تھیں۔
”تمہیں اس سے مطلب؟” اس نے کاٹ کھانے والے انداز میں زینی سے کہا۔
”میری سمجھ میں نہیں آتا، تم آخر اپنے دل میں میرے لیے کون سی کدورت پال رہی ہو۔”
”ہاں کدورتیں پالنے کا حق تو صرف تم کو ہے، تمہاری وجہ سے لوگوں کی زندگیاں برباد ہوتی رہیں مگر کوئی تم سے کچھ نہ کہے۔” اس نے زہریلے انداز میں کہا اور اٹھ کر بیٹھ گئی۔
”تم اگر فاروق کی وجہ سے۔” ربیعہ نے زینی کی بات کاٹی۔
”تم فاروق کو کیسے جانتی ہو؟”
”بے مقصد سوال ہے یہ۔” زینی نے کہا۔
”اگراس کے بارے میں جانتی ہو تو یہ بھی جانتی ہو گی کہ اس نے تمہاری وجہ سے مجھ سے شادی سے انکار کر دیا ہے۔”
”کیوں کر دیا ہے؟… اگر اس کو تم سے محبت ہے، سچی محبت تو اسے تم سے ہر قسم کے حالات میں شادی کرنی چاہیے۔ وہ بہن کے ایکٹریس ہونے کی وجہ سے تمہیں چھوڑ کر بھاگنا چاہتا ہے۔ یہ محبت ہے اس کی؟”
”تم اس کی محبت کے بارے میں کچھ مت کہو۔ اس کی محبت سچی ہے یا جھوٹی۔ صرف میں جانتی ہوں۔” ربیعہ نے تلخی سے کہا۔
”تم مردوں کے بارے میں بہت کم جانتی ہو۔”
”اور تم ضرورت سے زیادہ۔” ربیعہ نے اسے طعنہ دیا تھا۔ وہ اسے نظر انداز کر گئی۔
”میںفاروق سے رابطہ کروں گی۔” ربیعہ نے ایک بار پھر بے حد غصے کے عالم میں اسکی بات کاٹی۔
”کوئی ضرورت نہیں ہے۔ تم اگر اس سے رابطہ کرو گی تو اس کے دل میں میرے لیے اگر کوئی عزت ہے تو وہ بھی ختم ہو جائے گی۔”
زینی کو دھچکا لگا۔ ”اتنی بری ہوں میں؟” اس نے رنجیدہ ہو کر کہا۔
”تم بری ہو گئی ہو۔” ربیعہ نے بے ساختہ نظریں چرائیں۔
”ٹھیک کہتی ہو تم۔”زینی کی آنکھوں میں نمی آئی تھی۔
”چھوڑ دو یہ سب کچھ۔” ربیعہ نے یک دم اس سے کہا پتا نہیں کیوں اسے لگا تھا، اس وقت لوہا گرم ہے۔
”فائدہ؟ اس کے بعد کیا نیک نام ہو جاؤں گی؟” زینی نے سر جھٹک کر کہا۔
”مگر دنیا تمہیں یہ سب کچھ نہیں کہے گی جو اب کہہ رہی ہے۔”
”دنیا جو چاہے کہے، مجھے فرق نہیں پڑتا لیکن اگر اپنے برا کہنے لگیں تو برداشت نہیں ہوتا۔” زینی نے رنج سے کہا۔
”اپنوں کو کبھی آزمانا نہیں چاہیے زینی۔”
”تو کس کو آزمائیں، غیروں کو؟” زینی نے تلخی سے کہا۔
”ایک وقت آئے گا جب تم بہت پچھتاؤ گی، یہ سب جو تم کر رہی ہو اس پر۔” ربیعہ کو پھر غصہ آنے لگا۔
”ہو سکتا ہے لیکن تب زینب تمہارے کندھے پر سر رکھ کررونے نہیں آئے گی۔”
وہ اٹھ کر کمرے سے نکل گئی۔ ربیعہ نے بے بسی سے آنکھیں بند کر لیں۔ زینی کو کوئی نہیں سمجھا سکتا تھا۔
٭٭٭

Loading

Read Previous

من و سلویٰ — قسط نمبر ۷

Read Next

من و سلویٰ — قسط نمبر ۹

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!