من و سلویٰ — قسط نمبر ۸

شیراز نے سانس روک کر اسے اسٹیج پر نمودار ہوتے دیکھا تھا۔ اور وہ اسے پہچان نہیں پایا تھا۔ وہ جس زینی سے واقف تھا اس میں آور اس اسٹیج پر کھڑی پری زاد میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ وہ بل بورڈز اور میگزینز میں بھی کبھی نظر آنے پر اسے پہچان نہیں پاتا تھا مگر اسے یہ اندازہ نہیں تھا کہ اسے حقیقی زندگی میں اپنے سامنے دیکھ کر اس کے لیے اس میں زینی کی شباہت ڈھونڈنا مشکل ہو جائے گی۔
یہ اس کا چہرہ نہیں تھا جسے پہچاننے میں اسے دقت ہو رہی تھی۔ یہ کوئی اور چیز تھی جو اسٹیج پر کھڑی پری زاد کو اس کے لیے اجنبی بنا رہی تھی۔ اس کا چہرہ نہیں انداز بدل گئے تھے۔ اس نے دوپٹے اور چادر میں لپٹی جس زینی کو ساری عمر گھر میں چار دیواری میں دیکھا تھا وہ کہیں غائب ہو گئی تھی۔ یہ جو اسٹیج پر سینکڑوں مردوں کے سامنے نیم عریاں لباس میں ناچ رہی تھی، یہ کوئی اور تھی۔ شیراز کے چہرے پر خون سمٹ آیا تھا۔ اسے غصہ آرہا تھا۔ وہ اسے ناچتی اچھی نہیں لگی تھی مگر وہ اس سے نظریں بھی ہٹا نہیں پا رہا تھا۔ اس کے نیم عریاں جسم پر گڑی وہاں بیٹھے ہوئے مردوں کی نظریں اس کے لیے ناقابل برداشت ہو رہی تھیں مگر خود اس کی نظریں بھی اس کے جسم کے خدوخال کی پیمائش میں مصروف تھیں۔
اسے اگر اسٹیج پر تھرکتا اس کا وجود اچھا نہیں لگ رہا تھا تو اس کا اٹھتا ہر قدم اور جسم کی ہر حرکت اس کے دل کی دھڑکن کو تیز بھی کر رہی تھی۔ پری زاد کو اگر پاکستان کی ”Most wanted woman” کہا جا رہا تھا تو وہ اس ٹائٹل کی حقدار تھی۔ اس نے اپنی دس منٹ کی پرفارمنس میں وہاں بیٹھے مردوں کے وجود کو جیسے ڈوری سے جکڑ کر اپنی انگلیوں سے باندھ لیا تھا۔ وہ چاہتی تو سول سروسز اکیڈمی میں پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا کٹھ پتلی تماشا شروع کر سکتی تھی۔
اس رات کا پروگرام One woman show تھا۔ وہ پری زاد کی رات تھی۔ مگر وہ پرستان نہیں تھا۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں زینی اگر آتی تو شیراز کی بیوی بن کر، اس سے دو قدم پیچھے رہ کر چلتے ہوئے آتی۔ اسے وہاں بھابھی اور بہن بن کر آنا تھا اور جوبن کر یہاں اس وقت آئی تھی، یہ اس نے کبھی نہیں چاہا تھا۔ یہاں بیٹھے مردوں کی نظروں میں اس کے لیے جو کچھ تھا، وہ دیکھنے کے لیے وہ یہاں کبھی نہ آنا چاہتی جو کچھ ہو رہا تھا وہ اس کی قسمت تھی یا اس کا انتخاب۔ کوئی زینی سے پوچھتا تو وہ اسے اپنی بدقسمتی کہتی اور کوئی دنیا سے پوچھتا تو وہ اسے اس کا انتخاب کہتی۔
اسٹیج پر دس منٹ کی پرفارمنس کے دوران اس نے سامنے بیٹھے مردوں میں صرف ایک مرد کو ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی اور وہ شیراز اکبر تھا۔ اور وہ اسے وہاں نظر نہیں آیا تھا۔ وہ اسٹیج سے بہت دور بیٹھا تھا اور زینی اسے اتنی دور دیکھ نہیں سکتی تھی اور دیکھ بھی لیتی تو کیا ہوتا۔ وہ کیا کرتی، یہ تو وہ خود بھی نہیں جانتی تھی۔
وہ پرفارمنس کے بعد نیچے آکر جس ٹیبل کے گرد بیٹھی تھی۔ شیراز اکبر کو اس ٹیبل کے پاس سے بھی گزرنے پر پسینہ آجاتا۔ اس میز کے گرد بیٹھے ہوئے تمام افسران میں سے کوئی بیس گریڈ سے نیچے کا نہیں تھا۔ صرف پری زاد تھی جو وہاں Wild card entry تھی جس کا کوئی گریڈ ، کوئی اسٹیٹس، کوئی بیک گراؤنڈ نہیں تھا مگر وہ اس ٹیبل پر جیسے چیف گیسٹ کے طور پر موجود تھی۔ اور وہ تمام سرکاری افسر جو ماتھے پر شکنوں کے ساتھ اور سپاٹ چہرے اور سرد آواز اور انداز کے ساتھ اپنے ہر ماتحت اور اپنے پاس کام سے آنے والے افراد سے ملتے تھے۔ ان کے کلف لگے وجود اس وقت پری زاد کے لیے موم کے بن گئے تھے۔ وہ پری زاد کے لیے خوشامدی قہقہے اور مسکراہٹیں چہروں پر لیے ہوئے اس سے جاننا چاہ رہے تھے کہ وہ اس کے لیے کیا کر سکتے ہیں۔ ہر ایک پری زاد سے ذاتی آشنائی چاہتا تھا۔ ہر ایک پری زاد کی یادداشت کا اور پھر اس کی زندگی کے کچھ لمحوں کا حصہ دار بننا چاہتا تھا۔
وہ پاکستان کے ذہین، قابل اور طاقت ور ترین گِدھوں کا ایک ٹولہ تھا جو انڈسٹری کی ایک بدنام لیکن خوب صورت ترین عورت کے قدموں میں بچھنے کو تیار تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جو اس ملک کا نظام چلانے کے لیے تیار کیے جاتے تھے۔ ان میں سے ہر ایک کسی بڑے خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ طبقہ اشرافیہ کا فرد۔ ان میں سے ہر ایک پاکستان اور بیرون ملک کے بہترین اداروں سے تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ تھا۔ ان میں سے کئی ایک سے زیادہ زبانیں بولنے میں مہارت رکھتے تھے۔ ان میں سے ہر ایک کے گھر میں ان ہی جیسے بڑے خاندان کی کوئی خوب صورت اور اعلیٰ اداروں سے تعلیم یافتہ عورت بیوی کے طور پر موجود تھی۔ جو سوسائٹی میں ان کے ساتھ قدم ملا کر چلتی اور لوگ اس کے شوہر کی قابلیت اور عہدے کی وجہ سے رشک کرتے۔
اور اس سب کے باوجود وہ اپنے بچوں کی عمر کے برابر لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والی اور بے حد رسمی تعلیم پانے والی شوبز کی اس بدنام زما نہ ہیروئن کے مداحوں اور عشاق کی فہرست میں اپنا نام چاہتے تھے جس کا حسن اور جس کی شہرت اس کی واحد کوالی فیکیشن تھی اور شوبز میں اتنے سال گزارنے کے بعد زینی جانتی تھی کہ یہ کوالی فیکیشنز اس طرح کی کسی بھی عورت کے لیے بہت کافی تھی۔
وہ پندرہ منٹ سے اس ٹیبل پر ان سات افراد کے ساتھ بیٹھی تھی اور وہ جانتی تھی کہ وہاں موجود ہر ٹیبل پر بیٹھے مرد کی نظریں ان پندرہ منٹ کے دوران اسی ٹیبل پر لگی رہی تھیں۔ ہر ایک نے پری زاد کو اسٹیج پر دیکھا تھا۔ مگر ہر ایک پری زاد کو قریب سے بھی دیکھنا چاہتا تھا۔ وہ کیسے ہنستی تھی۔ اس کی آواز کیسی تھی۔ وہ قریب سے دیکھنے میں کیسی لگتی تھی۔ ان میں سے زیادہ باہمت مرد بہانے بہانے سے اٹھ کر دو چار بار اس ٹیبل کے پاس سے ایک چکر لگا گئے تھے اگرچہ اس ٹیبل کے پاس آکر پری زاد سے متعارف ہونے کی ہمت کسی میں پیدا نہیں ہو سکی تھی۔
سعید نواز بھی اسی ٹیبل پر تھا اور زینی کی تعریف میں سب سے زیادہ پیش پیش بھی۔ شیراز نے بہت دور بیٹھے ہوئے بھی سعید نواز کی نظروں اور انداز کو بھانپ لیا تھا۔ زندگی میں پہلی بار اسے اپنا سسر برا لگ رہا تھا۔
کیوں برا لگ رہا تھا؟
اور اسے صرف سعید نواز نہیں، اس وقت وہاں بیٹھا ہر وہ مرد برا لگ رہا تھا جس کی نظریں زینی پر تھیں۔ وہ پری زاد کے بارے میں کیے جانے والے تبصرے سن رہا تھا اور ان تبصروں کے ساتھ لگائے جانے والے قہقہے بھی۔ بعض پر اس کے کانوں کی لوئیں سرخ ہو رہی تھیں۔ بعض پر اس کے ماتھے پر پسینہ آرہا تھا اور بعض پر اس کو کرنٹ لگ رہا تھا۔ مگر اس نے وہاں بیٹھے بیٹھے مختلف مردوں کی زبان سے پری زاد کی ”ہسٹری” سن لی تھی۔
وہ شہر اور ملک کے کس کس مرد اور بیورو کریسی کے کس کس فرد کے ساتھ ”انوالوڈ” رہی تھی یا انوالوڈ تھی۔ کس کس مرد نے اسے ”تحائف اور قیمت” کے طور پر کیا کیا دیا تھا۔ کس کس کا گھر توڑنے میں پری زاد کا ہاتھ رہا تھا۔ شوبز میں اور شوبز سے باہر مرد اسے کس کس نام سے پکارتے تھے۔
وہاں بیٹھا ہر مرد پری زاد کی زندگی کے پچھلے چار سالوں کے بارے میں سب کچھ جانتا تھا۔ مگر زینب ضیاء کی زندگی کے ابتدائی بیس سالوں کے بارے میں وہاں بیٹھا ہوا صرف ایک مرد جانتا تھا جو اس کا نام بھی اپنی زبان پر لانے سے ڈرتا تھا۔ کیونکہ اسے لگتا تھا پری زاد کی زندگی کے وہ بیس سال اور اس سے اس کا تعلق اسے ڈبونے کے لیے کافی تھے۔ وہ اس کی چچا زاد تھی۔ وہ اس کی خالہ زاد تھی۔ وہ اس کی محبت تھی۔ وہ اس کی منگیتر تھی۔ اور وہ اس کی متروکہ… اور یہ سب اس زمانے کے قصے تھے جب وہ زینب ضیاء تھی۔ ایک باحیا، بات بات پرہنسنے رونے والی لڑکی جس نے زندگی میں شیراز کے چہرے کے علاوہ کسی دوسرے مرد کے چہرے کو کبھی غور سے دیکھا نہیں تھا۔ کسی کے ساتھ بیٹھ کر بات کرنا تو دور کی بات تھی۔ اس زینب ضیاء کے اندر پری زاد کہاں چھپی بیٹھی تھی اس کے اندازوں میں کہاں کوئی فاش غلطی ہوئی تھی فاش غلطی؟ یا پھر… اس نے زینب کو جانچنے اور پرکھنے کے لیے جو فارمولا اپلائی کیا تھا وہ غلط تھا۔
وہاں بیٹھے اسے دیکھتے ہوئے شیراز کو پہلی بار کسی غلطی کا احساس ہوا تھا اور وہاں بیٹھے اسے دیکھتے ہوئے شیراز زندگی میں پہلی بار اس کے قد و قامت سے خائف ہو رہا تھا۔ پیسے کی جس دوڑ میں اس نے زینی سے بہت پہلے دوڑنا شروع کیا تھا۔ اس میں وہ اسے فی الحال بہت پیچھے چھوڑ آئی تھی۔ شیراز نے اعتراف کیا تھا۔
”سر! آپ کو سعید نواز صاحب بلا رہے ہیں۔” ایک ویٹر نے اس کے قریب آکر کہا۔
شیراز کو ایسا لگا جیسے کسی نے پوری قوت سے اس کے پیٹ میں گھونسا دے مارا تھا۔ سعید نواز اسے کیوں بلا رہا تھا؟ اور اس وقت اس ٹیبل پر زینی کے سامنے جانا اس ٹیبل پر بیٹھے افراد کے سامنے زینی کے ذریعے پہچانا جانا…
”میرے خدا!” شیراز کا دل ڈوبا۔ اس نے بے اختیار اس ٹیبل کی طرف دیکھاجہاں سعید نواز بیٹھا ہوا تھا۔ وہ اسی کی طرف دیکھ رہا تھا اور اس نے سر کے اشارے سے جیسے ویٹر کے اس بلاوے کی تصدیق کرتے ہوئے شیراز کے لیے راہ فرار اور مسدود کر دی۔ وہ جس پناہ گاہ میں چھپا بیٹھا تھا۔ اسے اس میں سے نکلنے کا حکم دے دیا گیا تھا۔ شیراز کو لگ رہا تھا اس کا دل اس کے جسم سے باہر آجائے گا۔ وہ اتنی ہی رفتار سے دھڑک رہا تھا۔ اس کا اپنا وجود یک دم پتے کی طرح کانپنے لگا تھا۔
اسے پہلی بار روز قیامت پر یقین آیا تھا۔ کرسی سے اٹھ کر کھڑے ہوتے ہوئے اسے اپنی ٹانگیں جواب دیتی محسوس ہوئی تھیں۔ جیب سے رومال نکال کر اس نے سعید نواز کی ٹیبل کی طرف جاتے ہوئے اپنے ماتھے پر پسینے کی بوندوں کو صاف کیا۔ گلے میں باندھی ہوئی ٹائی اب اسے پھندے کی طرح لگ رہی تھی اور اپنے کپڑے اسے پسینے سے بری طرح بھیگتے محسوس ہو رہے تھے۔ اس نے ڈنر جیکٹ نہ پہنی ہوتی تو اس کی سفید شرٹ اس کے جسم سے چپکی صاف نظر آجاتی۔
اس ٹیبل کی طرف جاتے ہوئے اس نے آیت الکرسی پڑھنا شروع کر دی ۔ زینی زندگی میں پہلی بار اسے کوئی بلا کوئی عفریت لگ رہی تھی۔
وہ ٹیبل سے کچھ قدم کے فاصلے پر تھا جب اس نے زینی کو اپنی کرسی سے کھڑے ہوتے ہوئے دیکھا تھا۔ وہ شاید جا رہی تھی اور شیراز اس وقت اس گول ٹیبل کی دوسری طرف تقریباً اس کے بالمقابل تھا۔ صرف ایک سیکنڈ کے لیے اس کی اور زینی کی نظریں ملی تھیں لیکن اس کی آنکھوں میں پہچان کا کوئی رنگ نہیں آیا تھا۔ اگلے ہی لمحے وہ چیف سیکرٹری کے بازو پر ہاتھ رکھتے ہوئے کچھ کہہ کر ہنسی تھی اور اس سے اگلے لمحے میں ٹیبل کے گرد اس طرف بیٹھے ہوئے افسران اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ اس کے اور زینی کے درمیان لوگوں کی دیوار آگئی تھی۔ زینی اب اس کی نظروں سے اوجھل ہو گئی تھی۔شیراز نے برق رفتاری سے زینی کی ٹیبل کی طرف پشت کر لی۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ ان لوگوں کے اپنی کرسیوں سے ہٹنے کی صورت میں وہ ایک بار پھر زینی کی نظروں میں آتا۔ وہ چاہتاتھا کہ وہ وہاں سے چلی جائے۔ وہ واقعی جا رہی تھی۔ زینی نے اپنے سامنے ٹیبل کے دوسری طرف کھڑے ایک افسر سے بات کرتے ہوئے ایک لمحہ کے لئے اپنی طرف پشت کیے کھڑے اس مرد کو دیکھا۔
پھر اس نے اپنے سامنے ٹیبل پر پڑے سوفٹ ڈرنک کے گلاس کا ایک لمبا گھونٹ لے کر گلاس دوبارہ ٹیبل پر رکھ دیا۔
وہ سرخ دھاریوں والی شرٹ نیلی ٹائی لگائے ہوئے تھا اور وہ ٹائی تھوڑی سی ڈھیلی تھی۔ اس کی ٹائی پر لگی ٹائی پن میں یقینا ڈائمنڈ لگے ہوئے تھے۔ اسے یقین تھا وہ ڈائمنڈز ہوں گے۔ اس کے ڈنر جیکٹ کی کالر کی جیب میں سرخ رومال کا کچھ حصہ بے حد خوب صورت انداز میں باہر نکلا ہوا تھا۔ اسے یہ یقین نہیں تھا کہ وہ اب بھی ہیوگو باس پرفیوم استعمال کرتا ہو گا۔ چار سال دو ماہ اٹھارہ دن اور بائیس گھنٹوں کے بعد اس نے شیراز کے وجود پر صرف یہی چیزیں نہیں دیکھی تھیں۔
اس نے سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں خود پر پڑنے والی اس کی آنکھوں کا خوف چہرے سے پھوٹتی پسینے کی دھاریں اور ہاتھ میں پکڑا سفید رومال بھی دیکھ لیا تھا۔ جس سے وہ یقینا اپنا پسینہ صاف کرتے ہوئے آرہا تھا… وہ اگر چیف سیکرٹری کے بازو پر ہاتھ نہ رکھتی تو لڑکھڑا جاتی۔ ایک لمحہ کے لئے اس کا وجود بری طرح سے کانپا تھا۔ اس کے بد ترین خدشات ٹھیک ثابت ہوئے تھے۔ وہ وہیں موجود تھا۔ مگر وہ وہاں اس وقت اس ٹیبل کی طرف کیوں آرہا تھا۔ یہ تو وہ جانتی تھی کہ وہ اس کے لیے نہیں آیا ہو گا۔ ورنہ اس کی آنکھوں میں خوف اور چہرے پر وہ پسینہ نہ ہوتا۔ وہ پہچانے جانے سے خوفزدہ تھا۔ آج بھی اپنے اور اس کے تعلق کے آشکار ہو جانے سے شرمسار تھا۔ زینی نے اس شناخت کو کسی اور وقت کے لیے محفوظ کر لیا۔
اس کی دوسری نظر شیراز پر جب پڑی تھی تب تک وہ اس کی طرف پشت کر چکا تھا۔ وہ جانتی تھی، وہ اب اس کے چلے جانے کا منتظر تھا۔ وہ اس وقت ایسا کبوتر بنا ہوا تھا جو بلی کو دیکھ کر اپنی آنکھیں بند کر کے یہ سمجھنے لگتا ہے کہ وہ بلی کی نظروں سے اوجھل ہو گیا تھا۔ وہ اس کی طرف پشت نہ کرتا تب بھی وہ اسے پہچاننے کی غلطی کبھی نہ کرتی۔ وہاں ٹیبل کے آس پاس کھڑے مردوں میں وہ واحد مرد تھا جو اس کی طرف پشت کیے کھڑا تھا۔ اور اس نے یہ غلطی کر کے اپنے پیروں پر کلہاڑی مار لی تھی۔
چیف سیکرٹری اور چند دوسرے افسران پری زاد کو گاڑی تک چھوڑنے گئے تھے۔ زینی کو یقین تھا کہ وہ اس کی ٹیبل تک آیا تھا اور یہ صرف تب ممکن تھا جب ٹیبل پر بیٹھے کسی شخص کے ساتھ اس کا کوئی تعلق یا رشتہ ہوتا۔ اس ٹیبل پر اس کے ساتھ نو افسران بیٹھے تھے۔ زینی کو یقین تھا کہ وہ ان نو لوگوں میں سے کسی کا داماد تھا… اور اس ٹیبل پر بیٹھے نو افراد میں سے تین انکم ٹیکس کمشنر تھے۔ سعید نواز، شفاعت علی شاہ اور سلیم نورانی۔
گاڑی تک پہنچتے ہوئے وہ نو افراد سے تین افراد تک پہنچ چکی تھی۔ اور ان تینوں میں سے وہ کس کا رشتہ دار تھا۔ یہ جاننا اب اس کے لیے دشوار نہیں تھا۔
٭٭٭

شیراز نے یقینا اس کے نہ پہچاننے پر خد اکا سینکڑوں دفعہ نہیں تو دسیوں بار ضرور شکر ادا کیاتھا۔ قیامت آتے آتے ٹل گئی تھی۔
مگر اس رات گھر جا کر اس نے پہلی دفعہ زینی کے بارے میں سوچا تھا۔ وہ آخر اسے پہچان کیوں نہیں سکی تھی۔ کیا اس کا چہرہ اب اس کے لیے اتنا غیر اہم ہو گیا تھا کہ وہ چند گز کے فاصلے پر کھڑے ہوکر بھی اسے نہیں پہچان سکی تھی۔ یا پھر اس نے جان بوجھ کر اسے نظر انداز کیا تھا۔ لیکن وہ پہچان کر اسے نظر انداز کیسے کر سکتی تھی۔
وہ بے چین ہو کر کمرے میں پھرتا رہا وہ جس زینی سے واقف تھا۔ وہ پروانوں کی طرح اس کے گرد گھومنے کی عادی تھی اور آج جسے دیکھ کر آیا تھا، اس کی بے اعتنائی اسے جیسے سوئی کی طرح چبھ رہی تھی۔
”لیکن اس نے صرف ایک نظر ڈالی تھی مجھ پر اور اتنے عرصے کے بعد صرف ایک نظر ڈالنے پر وہ کیسے پہچان جاتی مجھے۔” شیراز نے جیسے خود کو سمجھانے کی کوشش کی پھر جیسے تصدیق کے لیے آئینے کے سامنے جا کر کھڑا ہو گیا۔ اس کا ہیر اسٹائل، لباس، انداز سب کچھ بدل چکا تھا۔ یہاں تک کہ صحت اور رنگت بھی پہلے کی نسبت بہت اچھی ہو چکی تھی۔ پھر ایک نظر میں زینی کیسے اسے پہچان سکتی تھی۔ شیراز نے اپنے آپ کو بہلایا۔
لیکن زینی ان تمام بہلاوؤں کے باوجود اس کے ذہن سے نہیں نکل سکی تھی۔
ایک لمبے عرصے کے بعد وہ اس طرح زینی کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ اسی طرح جس طرح وہ تب سوچا کرتا تھا جب وہ اس کی زندگی کا حصہ تھی۔ اسے اس کا لباس، اس کا انداز، اس کی بے باکی کچھ بھی اچھا نہیں لگا تھا۔ اس کے باوجود اس سے مرعوب تھا۔ اسے ملنے والی اس اہمیت سے خائف ہو گیا تھا جو اس نے وہاں اپنے سینئر افسران کو اسے دیتے ہوئے دیکھی تھی۔ وہ ہر اس مرد کے بارے میں سوچ کر اس سے حسد محسوس کر رہا تھا جس کے ساتھ اس نے لوگوں کے منہ سے پری زاد کے کسی اسکینڈل کے بارے میں سنا تھا۔
چار سال میں پہلی بار اس نے شینا کے بجائے زینی کے لئے کمرے میں ٹہل ٹہل کر رات گزاری تھی۔ اسے زینی کے ساتھ گزارا ہوا ہر پل یاد آرہا تھا۔ ہر وہ یاد جسے وہ آسائشوں اور تعیشات کے ڈھیر کے نیچے دفن کیے بیٹھا تھا۔ یک دم پتہ نہیں کیسے ایک بار پھر وہ زندہ ہو گئی تھی۔ بہت عرصے کے بعد اس رات پہلی بار اس کا دل زینی سے ملنے کو چاہا تھا۔ وہ اس کا سامنا کرنا چاہتا تھا۔ سامنا کر کے وہ کیا کرنا چاہتا تھا یہ اس کے ذہن میں واضح نہیں تھا۔
شاید اس نے اس کا فیصلہ زینی کے رد عمل پر چھوڑ دیا تھا اور زینی کا رد عمل شیراز کے لیے غیر متوقع نہیں ہو سکتا تھا۔
وہ بچپن سے اسے جانتا تھا۔ اس کے مزاج اور کمزوریوں کو سمجھتا تھا اور دنیا میں فی الحال وہی ایک عورت تھی جس کے بارے میں شیراز کو یقین تھا وہ ہزار غلطیاں کرنے کے باوجود جب چاہے اسے ایموشنلی بلیک میل کر سکتا تھا۔
اور وہ غلط نہیں تھا۔ اس کا زینی کے بارے میں ہر اندازہ ٹھیک تھا۔ صرف پری زاد کے بارے میں اس کا ہر اندازہ غلط تھا۔
٭٭٭
سلطان نے کمرے کی لائٹ آن کی۔
”لائٹ آف کر دو۔ مجھے اندھیرے میں رہنے دو۔”
وہ بیڈپر چت لیٹی ہوئی بے اختیار غصے میں چلائی تھی۔
سلطان نے گھبرا کر لائٹ آف کر دی اور اس کے پاس بیڈ پر آکر بیٹھتے ہوئے بیڈ سائیڈ ٹیبل لیمپ آن کر دیا۔
”کپڑے بدلے بغیر آتے ہی لیٹ گئی ہیں پری جی…! طبیعت تو ٹھیک ہے؟”
سلطان نے تشویش کے عالم میں اس کا ہاتھ پکڑ کر جیسے نبض چیک کرنے کی کوشش کی۔
”بس طبیعت ٹھیک ہے۔ باقی سب کچھ خراب ہے۔”
وہ عجیب سے انداز میں ہنستے ہوئے بڑبڑائی۔ اٹھ کربیٹھتے ہوئے اس نے بیڈ کے کراؤن سے ٹیک لگائی… پھر اس نے بیڈ ٹیبل پر پڑا سگریٹ کیس کھولا اور ایک سگریٹ نکالی۔ اس کے لائٹر اٹھانے سے پہلے سلطان نے لائٹر اٹھا لیا تھا۔
زینی نے سگریٹ ہونٹوں میں دبا کر سلطان کے ہاتھ میں پکڑے ہوئے لائٹر سے سگریٹ سلگایا۔
”کیا ہوا ہے؟ مجھے نہیں بتائیں گی تو کس سے کہیں گی پری جی؟”
سلطان نے ہمدردی سے لائٹر ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا۔ زینی اس کی بات پر ہنس پڑی۔
”ٹھیک کہتے ہو تم… تمہیں نہیں بتاؤں گی تو اور کس کو بتاؤں گی… اب وہ زمانہ تو نہیں رہا کہ ہر بات اللہ سے کہتی تھی میں۔”
سلطان نے چونک کر اسے دیکھا۔ وہ سگریٹ کے کش لے رہی تھی مگر اس کی آنکھوں میں وحشت تھی۔
”آج شیراز کو دیکھا میں نے۔” اس کی آواز میں کرچیوں سی چبھن تھی۔
”کہاں؟” سلطان کو بے اختیار اس پر ترس آیا۔

Loading

Read Previous

من و سلویٰ — قسط نمبر ۷

Read Next

من و سلویٰ — قسط نمبر ۹

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!