من و سلویٰ — قسط نمبر ۸

”کئی بار اس نے جھوٹ بولا۔ پرانے محلے کے بہت سارے لڑکے اسی کالج میں ہیں، سب نے وہاں تمہارے بارے میں سب کچھ بتایا ہوا ہے۔ ربیعہ نے تو چلو یونیورسٹی میں ہر ایک سے تمہیں چھپا لیا ہے۔ لیکن سلمان بے چارہ کیا کرے۔ پہلے وہ چھوٹا تھا۔ اتنی سمجھ نہیں تھی اُسے… لیکن اب تو ہر بات کی سمجھ ہے اسے زینی! لڑکے کہاں برداشت کرتے ہیں۔ بہنوں کے بارے میں ایسی باتیں۔”
”تم نے ناشتہ کیوں چھوڑ دیا؟” نفیسہ نے اچانک بات کرتے کرتے پہلی بار اس کی پلیٹ کو دیکھا۔
”بھوک نہیں ہے۔” وہ ٹیبل سے اٹھ گئی۔ وہ ربیعہ اور سلمان سے کتنے فاصلے پر چلی گئی تھی۔ اسے اندازہ ہی نہیں ہو سکا تھا۔ ان سالوں میں ایک گھر میں رہتے ہوئے بھی اس کا ان کے ساتھ سامنا کئی کئی ہفتوں کے بعد ہوتا تھا اور وہ بھی بے حد رسمی اور سرسری۔ یہ وہ بہن بھائی تھے جن کے ساتھ وہ اپنے پرانے چھوٹے گھر میں بیٹھ کر روزانہ گھنٹوں باتیں کیا کرتی تھی… اور اب اس بڑے گھر میں اسے ان دونوں کی شکلیں دیکھنا بھی یاد نہیں رہتا تھا۔ وہ عجیب زندگی جی رہی تھی… اور اس کا خیال تھا کہ اس کی زندگی نے کم از کم اب اس کے علاوہ کسی اور کے لیے کوئی مسئلے پیدا نہیں کرنے تھے۔
وہ غلط تھی، ایک بڑا گھر، پر آسائش زندگی اور بے پناہ دولت بھی اس کے اور اس کی فیملی کے ماتھے پر ”عزت دار” کا وہ لیبل نہیں لگا سکے تھے جو پہلے لگا ہوا تھا۔ جب عزت تھی تو معاشرہ انہیں دولت کے حوالے سے تنگ کر رہا تھا۔ اب دولت تھی تو معاشرہ ان سے باعزت ہونے کا مطالبہ کر رہا تھا۔
وہ ان چار سالوں میں بہت کم اس طرح کسی کی باتیں سن کر چپ ہوئی تھی، جس طرح آج نفیسہ کی باتوں نے اسے چپ کر وا دیا تھا۔ اس کی اپنی ماں نے کتنی آسانی کے ساتھ اس کے بہن بھائی کو اس سے اپنا رشتہ چھپا دینے کے لیے کہہ دیا تھا۔
اس کی فراہم کی گئی آسائشیں ان سب کی ضرورت تھیں مگر خود اس کا وجود ان کے لیے رسوائی کا سبب تھا۔ اور اس وجود کے ساتھ ہونے والی شناخت ان میں سے کسی کے لیے بھی ضروری نہیں تھی۔
زندگی کا ہر نیا دن زینب ضیاء کو ایک نیا سبق سکھا رہا تھا۔ وہ سبق جو اسے کوئی اور نہیں سکھا پایا تھا۔
پیسہ اس سے اپنے ہونے کی قیمت وصول کر رہا تھا اور یہ قیمت، ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہی تھی۔
٭٭٭
لیموزین سے پہلا قدم اتارتے ہی زینی نے اس گھر کے حدود اربعہ پر نظر ڈالی تھی جس کی ڈرائیووے کے ذریعے وہ ابھی چند منٹ پہلے گاڑی پروہاں پہنچی تھی۔ وہ پاکستان اور دبئی میں جن لوگوں کے گھروں پر جاتی رہی تھی، ان کے مقابلے میں یہ گھر کچھ بھی نہیں تھا مگر یہ گھر کینیڈا میں تھا اور یہاں اتنے بڑے گھر کا مطلب کیا تھا، یہ زینی سمجھ سکتی تھی۔ جو آدمی پانچ کروڑ ڈبو رہا تھا، اس کا گھر ایساتو ہونا ہی چاہیے تھا۔
ایک مڈل ایجڈ ہاؤس کیپر عورت نے آگے بڑھ کر اسے خوش دلی سے ریسو کیا۔ زینی اس کے ساتھ چلتے ہوئے گھر کے اندر آگئی تھی۔
”کرم علی صاحب کو یک دم کوئی کام پڑ گیا، اس لیے وہ خود آپ کو ریسیو کرنے یہاں نہیں آسکے لیکن وہ ابھی تھوڑی دیر میں آرہے ہیں، راستے میں ہیں۔”
اس پاکستانی عورت نے ایک کمرے میں اسے بٹھاتے ہوئے چائے کافی کے لیے پوچھا۔
”فی الحال کچھ نہیں۔” زینی نے کہا۔
”اس عورت کے جانے کے بعد اس نے کمرے کا جائزہ لینا شروع کیا۔ ایک بہت خوبصورتی سے آراستہ کمرے میں ایک طرف بار بھی تھا۔ وہ کچھ دیر خاموشی سے اس آرام دہ صوفے پر بیٹھی رہی۔ کینیڈا آئے یہ اس کا دوسرا دن تھا اور ابھی تک کرم کے ساتھ اس کی فون پر بھی بات نہیں ہوئی تھی۔ صرف اس کے پی اے نے اسے اور سلطان کو ائیر پورٹ پر ریسیو کرنے کے بعد اوٹوا کے فائیو اسٹار ہوٹل میں انہیں ٹھہرایا تھا۔
زینی کا پہلا اندازہ غلط ثابت ہوا تھا، وہ ائیر پورٹ پر اسے خود ریسیو کرنے آیا تھا، نہ ہی اس نے اسے اپنے گھر پر یا کسی اپارٹمنٹ میں ٹھہرایا تھا۔
پی اے نے اس وقت بھی کرم علی کے بارے میں یہی کہا تھا کہ وہ کسی کام میں مصروف ہے، اس لیے خود اسے لینے نہیں آسکا۔ پھر اس کا پی اے ہی وقفے وقفے سے سلطان کو فون کر کے زینی کی خیریت دریافت کرتا رہا اور مختلف معاملات اور شیڈول کے حوالے سے کو آرڈنیٹ کرتا رہا۔
کرم علی نے وہاں پہنچنے کے بعد پہلی رات ذاتی طور پر کوئی رابطہ نہیں کیا تھا۔ زینی کا دوسرا اندازہ بھی غلط ثابت ہوا تھا۔ زینی کچھ جزبز ہوئی تھی۔ وہ مصروف تھا۔ اسے اس پر یقین نہیں تھا، وہ اتنا مصروف ہوتا تو اسے وہاں کیوں بلواتا اور اب بلوا لیا تھا تو بار بار پی اے کے ذریعے مصروفیت جتانے کا کیا مطلب تھا۔ وہ پاکستان میں کرم علی سے زیادہ ”مصروف” مردوں کے پاس جاتی رہی تھی، جو اس کے لیے دیدہ و دل فرش راہ کیے بیٹھے ہوتے تھے۔ اپنے سب کام چھوڑ کر، ہر مصروفیت کو ترک کر کے… اور یہ ایک ایسا مرد تھا جو اسے وہاں بلوا کر یہ جتا رہا تھا کہ اس کا وقت، اس کا کام اور اس کی زندگی تو بہت اہمیت کی حامل تھی لیکن خود زینی اس کے نزدیک کوئی بے کار شے تھی جسے اس نے آرڈر کر کے منگوا تو لیا تھا لیکن استعمال کرنے کے لیے اسے اپنے مصروف شیڈول سے وقت نہیں مل رہا تھا۔ کرم علی کے خلاف زینی کے دل میں زہر بھرنے لگا تھا۔ اسے وہاں آکر ہتک کا احساس ہو رہا تھا اور اس نے سلطان سے اس کا اظہار بھی کیا تھا۔
اور اب یہاں دوسرے دن لنچ پر اس کا استقبال بھی تقریباً اسی انداز میں ہوا تھا۔ ایک پاکستانی ہاؤس کیپر اور کرم علی کی مصروفیت کا بہانہ۔ زینی کو یقین تھا، وہ اس سٹنگ روم میں اسے گھنٹوں انتظار کروائے گا۔
وہ صوفہ سے اٹھ کر فرنچ ونڈوز کے پاس آکر کھڑی ہو گئی۔ کھڑکی سے باہر نظر آنے والے منظر نے کچھ دیر کے لیے اسے جیسے اپنی جانب کھینچ لیا تھا۔ گھر کے ارد گرد وسیع اور خوبصورت لان تھا جس نے بھی اس کی لینڈ اسکیپنگ کی تھی، اس نے کمال کی لینڈ اسکیپنگ کی تھی۔
وہ روکری میں لگے فوارے سے گرتے ہوئے پانی کو دیکھتی رہی۔ قد آدم فرینچ ونڈوز کے سامنے کھڑے اسے یوں محسوس ہوا تھا جیسے وہ کچھ دیر کے لیے لان کے بیچ میں جا کھڑی ہوئی ہے۔ اس نے اندازہ لگانے کی کوشش کی تھی کہ وہ کتنے سالوں کے بعد صرف یوں سبزے کو دیکھنے کے لیے کھڑی ہوئی ہے۔ چند لمحوں کے لیے وہ یہ بھول گئی تھی کہ وہ کس کے گھر میں کس لیے کھڑی ہے۔ چند لمحوں کے لیے وہ پری زاد کو بھی بھول گئی تھی۔
اور پھر اس نے اچانک اپنے عقب میں قدموں کی چاپ سنی تھی۔ اس نے بے اختیار پلٹ کر دیکھا۔ کرم علی اور اس کا پہلا آمنا سامنا ہوا تھا وہ ابھی ابھی کھلے دروازے سے اندر آیا تھا۔ چند لمحوں کے لیے زینی کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کس طرح ری ایکٹ کرے۔
اسے یقین نہیں تھا کہ وہ کرم علی تھا یا کرم علی کا بھیجا ہوا کوئی آدمی، کسی اور بہانے کے ساتھ…
”السلام علیکم۔ میں کرم علی ہوں۔ سوری آپ کو انتظار کرنا پڑا۔”
کرم علی نے مصافحہ کرنے کے لیے ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے اس سے کہا۔ زینی کے کچھ اور اندازے غلط ثابت ہوئے تھے۔ اس نے اسے گھنٹوں انتظار نہیں کروایا تھا۔ نہ وہ عمر رسیدہ تھا، نہ ہی اس کے چہرے پر وہ خباثت نظر آرہی تھی جو وہ اس سے پہلے اس طرح کے تمام مردوں کے چہروں پر دیکھتی آئی تھی۔ وہ چھتیس سینتس سال کا ایک عام شکل و صورت کا لیکن بے حد شریف اور مہذب نظر آنے والا مرد تھا۔ ایک برانڈڈ آفس سوٹ میں ملبوس اس وقت کرم علی کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل تھا کہ اس نے زندگی میں کبھی مشکل وقت دیکھا تھا۔
اس کے مصافحہ کے لیے بڑھے ہوئے ہاتھ کو دیکھ کر زینی پہلی بار کنفیوز ہوئی۔ پہلی بار اس طرح کے کسی مرد نے اس سے ہاتھ ملانے کے لئے ہاتھ بڑھایا تھا۔ ایک نظر کرم علی کے چہرے پر ڈالتے ہوئے اس نے ایک مصنوعی مسکراہٹ کے ساتھ کرم علی سے ہاتھ ملایا۔
”آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی۔” زینی نے ہمیشہ ہر ایک سے کہا جانے والا جملہ اس سے بھی دہرایا۔
”لیکن مجھ سے زیادہ خوشی نہیں ہو گی آپ کو۔” کرم علی نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”پلیز بیٹھیں۔” اس نے زینی سے کہا اور بار کی طرف جاتے ہوئے بولا۔
”آپ کیا پیئیں گی؟”
”جو آپ پلائیں گے۔” زینی نے بے ساختہ کہا۔ (یہاں پینے پلانے ہی تو آئی ہوں میں۔)
کرم علی اب بار کی دوسری طرف پہنچ گیا تھا۔ زینی دوبارہ کھڑکی کی طرف چلی آئی۔
”آپ کا گھر بہت خوبصورت ہے۔”
کرم علی نے ڈرنک تیار کرتے ہوئے اسے دیکھا۔ وہ کھڑکی کے سامنے کھڑی باہر دیکھتے ہوئے کہہ رہی تھی۔
”آپ کو خوبصورت لگا تو واقعی خوبصورت ہو گا۔”
”کب سے ہیں یہاں پر؟”
”دس گیارہ سال سے۔”
”بہت لمبا عرصہ ہے۔”
”اب نہیں لگتا۔”
”اور آپ کی فیملی؟”
”وہ بھی سب یہیں ہیں۔ میرے ساتھ اس گھر میں نہیں رہتے، لیکن اس شہر میں ہیں۔ میرے والد صاحب کا انتقال ہو چکا ہے۔ بہن بھائی ہیں، ماں ہے۔ میرے چھوٹے بھائی کے ساتھ رہتی ہیں۔” کرم علی بتا رہا تھا۔
”آپ کے ساتھ کیوں نہیں رہتیں؟” زینی نے گردن مو ڑ کر اسے دیکھا۔
”میرے ساتھ رہ کر کیا کریں گی؟ اس اکیلے گھر میں سارا دن اکیلے بیٹھ کر۔ میں تو صبح کا گیا رات کو آتا ہوں۔ اکثر سفر کرتا رہتا ہوں۔ وہ میرے پاس رہ کر کیا کرتیں؟”
”آپ کے بیوی بچے کہاں ہیں؟”
”میں نے شادی نہیں کی۔”
(جھوٹ… شادی نہیں کی… بیوی کو کچھ دن کے لیے کہیں بھجوا دیا ہو گا۔ شاید پاکستان… شاید کہیں اور… اب پری زاد کو منگوایا جا رہا ہے تو بیوی کی گنجائش کہاں سے نکلتی… لیکن جھوٹ بولنا تو ضروری ہے نا ، ورنہ میری ہمدردیاں کیسے سمیٹی جائیں گی۔)
”کیوں شادی نہیں کی؟”
(اور اب یہ کہے گا کہ آج تک صحیح عورت ملی ہی نہیں۔) زینی نے سوال کرتے ہی جواب ڈھونڈ لیا تھا۔
”ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔”
ایک لمحے کے لیے زینی بول نہیں سکی۔ اس نے بے حد تحمل بھرے انداز میں جیسے اس پر ٹھنڈا پانی انڈیل دیا تھا۔ وہ اب دونوں گلاس لیے اس کے پاس آگیا۔
”آپ پہلے مرد ہیں جسے شادی کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ کیا اس لیے کیونکہ آپ کی زندگی میں بہت سی عورتیں آتی جاتی رہتی ہیں؟”
زینی اس کے ہاتھ سے گلاس لیتے، چاہتے ہوئے بھی خود کو طنز کرنے سے نہیں روک سکی۔ کرم علی نے چونک کر اسے دیکھا پھر بے اختیار مسکرایا۔
”آپ کو کیا لگتا ہے، میری زندگی میں بہت سی عورتیں آتی ہوں گی؟”
وہ اس کے سوال پر حیران ہوئی پھر اس نے کہا۔
”کوئی نہ کوئی تو آئی ہو گی۔”
کرم علی کے چہرے سے مسکراہٹ ایک لمحہ کے لیے غائب ہو ئی پھر وہ کھلکھلا کر ہنس پڑا۔
”کوئی نہ کوئی تو ہر ایک کی زندگی میں ہوتا ہے۔ آپ کی زندگی میں نہیں ہے کیا؟”
زینی کے چہرے سے مسکراہٹ یک دم غائب ہو گئی۔ اس نے جیسے اسے برفیلے پانی میں دھکا دے دیا تھا۔ کرم علی سے نظریں چراتے ہوئے اس نے جیسے خودکو سنبھالنے کی کوشش میں ہاتھ میں پکڑے گلاس میں موجود ڈرنک کی طرف پہلی بار متوجہ ہو کر اس سے سپ لیا اور ڈرنک کا پہلا سپ لیتے ہی اسے زبردست اچھو لگا۔ گلاس کو حیرت سے دیکھتے ہوئے اس نے کرم علی سے کہا۔
”یہ کیا ہے؟”
”یہ لیمونیڈ ہے۔”
کرم علی نے اپنے ہاتھ میں پکڑا ٹشو اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کچھ حیرانی سے کہا۔
زینی نے ٹشو پکڑتے ہوئے بے ساختہ کرم علی کے عقب میں نظر آنے والے بار کو دیکھا، جہاں سے وہ یہ ڈرنک لایا تھا پھر اس نے بے حد الجھی ہوئی نظروں سے کرم علی کو دیکھا اور ٹشو سے اپنے ہونٹوں کو صاف کرتے ہوئے اس نے کچھ کہنا چاہا۔
”میں نے کسی میگزین میں پڑھا تھا کہ آپ کو لیمونیڈ بہت پسند ہے۔”
زینی نے کچھ کہنے کے بجائے لیمونیڈ کا اگلا سپ لیا۔ یوں جیسے اس کے ذائقہ کو محسوس کرنا چاہتی ہو۔ کرم علی لیمونیڈ کے سپ لیتے ہوئے اس کے تاثرات کو بہت غور سے دیکھتا رہا۔
”حیرت ہے، یہ آپ کا فیورٹ ڈرنک ہے اور آ پ اس کے ذائقے کو پہچان نہیں سکیں۔”
”بہت عرصے کے بعد میں یہ پی رہی ہوں۔”
”کیوں؟” کرم علی کو تجسس ہوا۔ زینی نے جواب نہیں دیا۔ چار سال کے بعد پہلی بار کوئی مرد اسے پریشان کر رہا تھا۔ وہاں کھڑکی کے سامنے کھڑے اس کے ساتھ لیمونیڈ پیتے ہوئے اسے اپنا آپ احمق لگا۔ وہ کینیڈا لیمونیڈ پینے نہیں آئی تھی۔
وہ کرم علی سے کچھ اور الجھی تھی۔
”آپ نے اپنے بارے میں کچھ نہیں بتایا مجھے؟” کرم علی نے کچھ دیر خاموش رہ کر اس سے پوچھا۔
”مثلاً کیا؟” اس نے چونک کر کرم علی کو دیکھا۔
”اپنی فیملی کے بارے میں۔”

Loading

Read Previous

من و سلویٰ — قسط نمبر ۷

Read Next

من و سلویٰ — قسط نمبر ۹

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!