من و سلویٰ — قسط نمبر ۸

سر جھکائے زری نے فرش پر نظر آنے والے پیروں کو دیکھنا شروع کیا۔ نکاح خواں ایجاب و قبول سے پہلے کے چند جملے ادا کر رہا تھا اور زری وہ جملے تیار کر رہی تھی جو اسے کہنا تھے اس کے اندر جیسے لاوا ابل پڑنے کے لیے تیار تھا۔
زری نے باری باری سرجھکائے ان پیروں کو دیکھنا شروع کیا، وہ سارے ان لوگوں کے پاؤں تھے جو اس کے وجود کو سیڑھی بنا کر اوپر جانا چاہتے تھے۔ اس کا باپ، ماں، بہنیں چند لمحوں کے لیے اسے ایسا لگا جیسے وہ سارے پیر اس کے جسم کے اوپر سے گزر رہے تھے۔ ہاتھیوں کے کسی جھنڈ کی طرح اسے روندتے، رگیدتے ہوئے۔ چند لمحوں کے لیے اسے اپنا وجود بے حد کچلا ہوااور پامال محسوس ہوا۔ اس نے جیسے گہرا سانس لیتے ہوئے خود کو سنبھالنے کی کوشش کی۔
”آخر وہ کیوں ان لوگوں کے لیے سیڑھی بنے؟ انہیں اپنے اوپر سے گزرنے دے؟” اس نے سوچا لیکن وہ کر ہی کیا سکتی تھی۔ اس کے ہاتھ کٹے ہوئے تھے۔ یہ دوسری سوچ تھی پھر اسے جمال کا خیال آیا۔ خوف کی ایک لہر اس کے جسم میں سے گزر گئی۔
”تم نے اگر ہاں کی تو میں خود کو گولی مار لوں گا۔ تمہارے گھر سے تمہاری بارات جائے گی اور میرے گھر سے میرا جنازہ۔”
اس کے کانوں میں اس کی دھمکی گونجی۔ وہ پچھلی رات چھت پر ایک بار پھر ملے تھے۔ جمال نے اسے وہ ریوالور بھی دکھایا تھا جو وہ کہیں سے لایا تھا۔ زری کو یقین تھا وہ جو کچھ کہہ رہا تھا، وہی کرنے کا ارادہ بھی رکھتا تھا۔ وہ کیا کرتی، نکاح خواں باہر جاتا اور جمال اپنے آپ کو گولی مار لیتا۔
اس کے میک اپ سے لپے پُتے چہرے پر اسے پسینے کے قطرے نمودار ہوتے ہوئے محسوس ہوئے تھے اسے باہر بیٹھے اپنے سے بیس بائیس سال بڑے اس بوڑھے آدمی سے بے پناہ نفرت محسوس ہوئی تھی جو چند گھنٹے پہلے اچانک نکاح کے لیے پاکستان پہنچ گیا تھا۔ اس سے پہلے اس کا نکاح فون پر ہو رہا تھا، وہ شادی کے نام پر اس کا سودا کرنے آیا تھا۔ اسے اتنی ہی نفرت کمرے میں موجود اپنے خونی رشتوں سے ہو رہی تھی جن کی مرضی سے وہ سودا طے پا رہا تھا۔
پوری دنیا میں صرف جمال تھا اس سے سچی محبت کرتا تھا نہ کرتا ہوتا تو اس وقت اس کے لیے اپنی جان دینے پر تیار نہ ہو جاتا۔
کمرہ اس وقت اس کی ساری رشتہ دار خواتین اور مردوں سے بھرا ہوا تھا۔ مووی کیمرہ کی تیز جلا دینے والی روشنی رہی سہی کسر پوری کر رہی تھی۔ اس کا سانس جیسے بند ہو رہا تھا۔
”زرینہ حمید الدین ولد حمید الدین! تمہیں سو تولے سونا اور پانچ لاکھ روپے سکہ رائج الوقت کے عوض کرم علی ولد جہاں داد کی زوجیت میں دیا جا رہا ہے تمہیں قبول ہے؟”
نکاح خواہ اب بالآخر وہ سوال کر رہا تھا جس کے جواب کی تیاری وہ پچھلے ایک ہفتہ سے کر رہی تھی۔ کمرے میں یک دم خاموشی چھا گئی تھی۔
٭٭٭
ایک لمحہ کے لیے زری کو لگا جیسے اس سننے میں کوئی غلطی ہوئی تھی۔ نکاح خواں اب ایک بار پھر نکاح کے جملے دہرا رہا تھا۔
”پانچ لاکھ روپے اور سو تولے سونا؟” زری نے بے یقینی سے سوچا۔ کیا وہ اتنی قیمتی تھی کہ کوئی مرد اسکی اتنی بڑی قیمت لگا کر اسے گھر لے جاتا… وہ اب سو تولے سونے کی قیمت کے حساب کتاب میں مصروف تھی۔ اور جوں جوں وہ حساب کر رہی تھی۔ اس کے ہاتھ پاؤں پھولتے جا رہے تھے۔ اس کے ذہن سے جمال اس وقت نکل گیا تھا۔ صرف وہی نہیں اس گھر اور اس کمرے میں بیٹھا ہر شخص بھی، یاد رہا تھا تو صرف یہ کہ ایک ہاں اسے آج لکھ پتی بنا دینے والی تھی۔ انکار اسے کیا دیتا اسے اس کے لیے کسی حساب کتاب کی ضرورت نہیں تھی۔
”قبول ہے۔” اس نے بے ساختہ کہا اور پھر دو دفعہ اسے پھر دہرایا ہر دفعہ اس اقرار کے ساتھ اسے لگ رہا تھا جیسے اس کا فنانشل اسٹیٹس بھی تبدیل ہو رہا ہے اور تیسری بار اقرار کرنے کے بعد اس نے خوشی کی ایک عجیب سی لہر اپنے وجود کے اندر دوڑتی محسوس کی۔ اس نے زندگی میں جیک پاٹ ہٹ کر لیا تھا۔ وہ اب اس کمرے میں کھڑی اسے رشک اور حسد بھری نظروں سے دیکھتی ہوئی عورتوں اور لڑکیوں کا حصہ نہیں رہی تھی۔
نکاح خواں اور کمرے میں نکاح کے لیے آئے ہوئے دوسرے مرد اب وہاں سے جا چکے تھے۔ زری کی ماں بڑے فخریہ انداز میں عورتوں کی مبارک بادیں وصول کرتے ہوئے پھولے نہیں سما رہی تھی۔ زری پل بھر میں کرم علی کے بعد اس محلے کا دوسرا Icon بن گئی تھی۔
تھوڑی دیر اور گزری اور اس کے بعد باہر کی طرح اندر بھی نکاح کے چھوہارے بٹنے لگے۔ نکاح ہو گیا تھا اور اب کچھ ہی دیر میں رخصتی ہونے والی تھی اور اس پورے عرصہ میں زری کو پہلی بار جمال کا خیال آیا تھا اور اس کا خیال آتے ہی جیسے اس کا دل دھک سے رہ گیا تھا۔
کرم علی صرف گھر کے چند افراد کے ساتھ نکاح کے لیے آیا تھا اور وہ لوگ باہر گلی میں ہی ایک ٹینٹ میں بیٹھے تھے۔
زری کو یقین تھا جمال اس ٹینٹ میں ہی کہیں ہو گا اور اس نے کرم علی کی طرف سے ایجاب و قبول دیکھا ہو گا اور اس نے زری کے ایجاب و قبول کے بارے میں بھی سنا ہو گا۔ پھر اس نے کیا کیا؟
”یا پھر وہ کیا انتظار کر رہا تھا صحیح وقت کا کہ۔۔۔۔” زری کو زندگی میں پہلی بار جمال سے خوف آیا۔ اس کے کان مسلسل باہر ہونے والے کسی دھماکے اور ہنگامے کے منتظر رہے۔
نکاح کے فوراً بعد رخصتی ہو گئی تھی۔ زری کے گھر والوں نے کھانے کا انتظام کیا تھا مگر کرم علی کے گھر والوں نے کھانے سے منع کر دیا تھا حالانکہ کرم علی کو اب اس طرح کا کھانا اور وہاں کا ماحول معیوب لگ رہا تھا تو وہاں کھانا کھانے پر اور اس طرح کھانا کھانے میں کوئی اعتراض یا جھجک نہیں تھی زری کے والدین جو اس کے سامنے جس طرح بچھ رہے تھے وہ اس پر مسلسل شرمندہ ہو رہا تھا اور اس کی شرمندگی کا آغاز نکاح خواں کے منہ سے زری کی عمر سنتے ہی ہو گیا تھا۔
وہ چند لمحے تک کچھ بول نہیں سکا۔ ایک اٹھارہ سالہ لڑکی کے ساتھ شادی۔ کرم علی کی جگہ کوئی بھی دوسرا مرد اس انتخاب پر بے حد خوش ہوتا لیکن کرم علی کا دل ڈوب گیا تھا۔ اپنے سے آدھی عمر کی لڑکی کے ساتھ شادی کرنے اور خود کشی کرنے میں وہ کوئی زیادہ فرق نہیں سمجھتا تھا۔
چند لمحوں کے لیے وہاں بیٹھے اسے ایسا ہی لگا تھا جیسے وہ کسی کی بیٹی خریدنے وہاں آیا تھا۔ وہ کسی بھی لحاظ سے اس لڑکی کے قابل نہیں تھا۔
وہ دونوں مکمل طور پر Mismatched تھے، وہ جس قدر خوب صورت تھی۔ اسے کوئی بھی ہم عمر اور اچھی شکل و صورت کا یا کم از کم اس سے بہتر شکل و صورت کا شوہر مل سکتا تھا پھر اس کے ماں باپ نے آخر کیا دیکھ کر کرم علی سے اس کی شادی کر دی تھی۔
صرف اس کی دولت؟
کرم علی کے رنج میں اضافہ ہوا…
وہ پندرہ منٹ زری کے گھر میں زری کے ساتھ بیٹھا یہی سب کچھ سوچتا رہا تھا۔ کوشش کے باوجود وہ چہرے پر ایک مصنوعی مسکراہٹ بھی لانے میں ناکام رہا تھا اور اسے یہ اندازہ نہیں ہو سکا کہ اس کے چہرے کی سنجیدگی اور اس کی خاموشی زری کے گھر میں موجود خاندان اور محلے کا ہر فرد نوٹ کر رہا تھا۔
کرم علی نے زری کو دیکھا تھا مگر زری نے ایک نظر بھی اٹھا کر کرم علی کو نہیں دیکھا تھا۔ اس نے صرف ایک سوٹڈ بوٹڈ شخص کے پیروں کو دیکھا تھا جو آکر اس کے پاس بیٹھ گیا تھا۔ اور جس کے اندر آتے ہی ہلچل مچ گئی تھی۔
ہر ایک کرم علی سے بات کرنے کی کوشش کر رہا تھا اور زری نے کرم علی کی خاموشی نوٹ کی تھی۔ ان کے محلے میں کسی بھی شادی میں کوئی بھی دلہا اس طرح گونگا ہو کر نہیں بیٹھتا تھا۔ حتیٰ کہ اس کے اپنے بہنوئی بھی نہیں بیٹھے تھے۔ مگر اس کے ساتھ شوہر کے طور پر بیٹھا ہوا شخص ہوں ہاں اور چند چھوٹے جملوں کے علاوہ کسی سے کوئی بات نہیں کر رہا تھا۔
زری کو کرم علی سے عجیب طرح کی چڑ محسوس ہوئی۔ اس کے کان میں اس کی کسی سہیلی نے کسی رشتہ دار، کسی محلے والی نے کرم علی کے اندر آنے پر دولہا کے بارے میں کوئی تعریفی جملہ نہیں کہا تھا۔ یہ جاننے کے باوجود کہ وہ اس سے دگنی عمر کا اور معمولی شکل و صورت کا تھا۔ زری کی سماعتیں منتظر رہی کہ شاید کوئی کرم علی کے بارے میں کوئی ایک اچھا جملہ کہہ دیتا اور اگر اس وقت اس کے ساتھ جمال بیٹھا ہوتا زری نے تصور کرنا شروع کر دیا تو اس وقت محلے کی ہر لڑکی رشک اور حسد سے مر رہی ہوتی۔ وہ دونوں بلا شبہ چاند اور سورج کی جوڑی تھے۔ (اگر دونوں اپنے منہ بند کر کے بیٹھے رہتے تو)
اور یہی وہ لمحہ تھا جب زری نے کرم علی کو جمال کے ساتھ replace کر دیا تھا اس کے ساتھ بیٹھا ہوا شخص اب کرم علی نہیں تھا جمال تھا۔
پندرہ منٹ بعد گھر سے گاڑی تک کا سفر کرتے اس نے بہت بار کسی فائر کی آواز کا انتظار کیا۔ کرم علی اب آگیا تھا زری کو یہ اندیشہ بھی ہو رہا تھا کہ جمال خود کشی کرنے کے بجائے کرم علی کوبھی مار سکتا تھا۔ ویسے تو اسے کرم علی کی زندگی میں کوئی دلچسپی نہیں تھی لیکن یہاں یہ مسئلہ تھا کہ اس کے پانچ لاکھ اور سو تولے سونا بھی کرم علی کی موت کے ساتھ ہی ڈوب جاتا۔
اس لیے وقتی طور پر گاڑی کی طرف جاتے ہوئے زری نے جمال سے زیادہ کرم علی کی زندگی کے لیے دعا کی۔ گاڑی میں خیر و عافیت سے بیٹھ جانے کے بعد اسے حیرت ہونے لگی تھی۔ جمال آخر کہاں غائب ہو گیا تھا؟ اور اس کی یہ حیرت بہت دیر تک قائم نہیں رہی۔
گاڑی کے گلی سے نکل کر سڑک پر آتے ہی اس نے گاڑی کی کھڑکی سے جمال کو دیکھ لیا تھا۔ وہ گلی کے نکڑ پر کھڑا بے حد وحشت زدہ نظر آرہا تھا۔ زری کا دل کسی پرندے کی طرح پھڑ پھڑایا۔ وہ رخصتی کے وقت نہیں روئی تھی لیکن اب ایک دم اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے تھے۔ گاڑی آگے بڑھ چکی تھی۔ جمال پیچھے رہ گیا تھا۔
برابر بیٹھے کرم علی نے اس کی سسکی سنی پھر چونک کر اسے دیکھا۔ وہ سر جھکائے ہوئے دوپٹے کی اوٹ میں تھی اور وہ اس کا چہرہ نہیں دیکھ سکا مگر اسے یقین تھا کہ وہ رو رہی تھی۔
اس نے ٹشو باکس اٹھا کر زری کے سامنے کر دیا۔ ”پلیز۔”
زری نے اسے پہلی بار خود سے مخاطب ہوتے سنا۔ دوسری طرف بیٹھی کرم علی کی ماں بھی یک دم زری کی طرف متوجہ ہوئی تھی اور اس نے زری کو اپنے ساتھ لگا کر تسلیاں دینا شروع کیا تھا۔ زری نے ایک ٹشو نکال لیا تھا لیکن اس نے اسے استعمال نہیں کیا۔ وہ پرفیومڈ ٹشو اس قدر نرم اور ملائم تھا کہ زری کو اس سے آنسو پونچھ کر ضائع کرنا اچھا نہیں لگا۔
زری نے ایک لمحہ کے لیے پھر تصور کیا کہ وہ کرم علی نہیں جمال تھا جو اس کے آنسوؤں سے پریشان ہو گیا تھا اور اس تصور نے اس کے آنسوؤں کو روک دیا تھا۔ کرم علی کی ماں نے فاتحانہ نظروں سے کرم علی کو دیکھتے ہوئے زری کو تھپکی دی۔ وہ یہ سمجھی کہ زری اس کی تسلیاں سن کر چپ ہوئی ہے۔
کرم علی ایک بار پھر گاڑی سے باہر دیکھنے لگا۔ اس کی ماں نے بڑے غور سے اپنے بیٹے کے چہرے کو دیکھا اور دل ہی دل میں عارفہ پر دس لعنتیں بھیجیں۔ اس کے خیال میں وہ یقینا اس وقت اسی چڑیل کے بارے میں سوچ رہا ہوگا۔ کرم علی کا اترا ہوا چہرہ بتا رہا تھا۔ وہ کچھ مایوس بھی ہوئی تھی وہ زری کو دیکھ کر اس طرح خوش نہیں ہوا تھا جس کی وہ توقع کر رہی تھی ۔ ”اتنی خوبصورت اورکم عمر بیوی دوسرے بیٹوں کے لیے لاتی تو وہ خوشی سے پاگل ہو رہے ہوتے اور ایک یہ ہے کہ اب بھی عارفہ کو لے کر بیٹھا ہوا ہے۔” کرم علی کی ماں دل ہی دل میں اس سے گلہ ہونے لگا۔
زری کو کرم علی کے پاکستان والے گھر پہنچتے ہی جیسے غش آگیا تھا۔ ایک بار پھر جمال اس کے ذہن سے غائب ہو گیا۔ اسے یہ تو اندازہ تھا کہ وہ کسی بنگلے میں رہتے تھے مگر وہ بنگلہ ایسا بھی ہو سکتا ہے یہ اس کے وہم گمان میں بھی نہیں تھا۔ ویسا ہی گھر جیسا وہ انڈین فلموں یا ٹی وی کے ڈراموں میں دیکھتی تھی، زری کو پہلی بار اپنی قسمت پر رشک آیا تھا۔ کرم علی کے گھر میں اس وقت اس کے گھر کے برعکس بالکل سناٹا تھا۔ اس کے جوچند بہن بھائی اس کی شادی میں شرکت کے لیے اس کے ساتھ کینیڈا سے پاکستان آئے تھے۔ وہ ڈرائنگ روم میں خوش گپیوں میں مصروف تھے۔
زری کو انہوں نے چند ابتدائی رسومات کے بعد اس کے کمرے میں پہنچا دیا تھا کیونکہ فی الحال وہ زری کو اس قابل نہیں سمجھتے تھے کہ اسے وہاں اپنے ساتھ بٹھا کے اس کے سامنے اس طرح گفتگو کر سکتے، جیسے وہ اس کی عدم موجودگی میں کر سکتے تھے اور شاید دوسری اہم وجہ یہ تھی کہ فی الحال سب سے پہلی زری اور اس کے خاندان کی طرف سے منعقدہ شادی کی اس تقریب کوہی ڈسکس کرنا تھا۔ جس میں سب نے بڑی بیزاری کے ساتھ شرکت کی تھی۔ اس لیے وہاں سے زری کو بھیجنا ضروری تھا۔
زری کو پہلا غش اگر اس گھر میں داخل ہوتے ہوئے آیا تھا تو دوسرا اس کمرے میں داخل ہوتے ہوئے آیا تھا جو اس کا تھا۔ اس کی نند اسے صوفے پر بٹھانے کے بعد اسے بتا گئی تھی کہ وہ کچھ دیر میں اس کے لیے کھانا بھجواتی ہے وہ آرام کرنا چاہے تو کر لے۔
مگر زری آرام کیسے کر سکتی تھی۔ نند کے دروازہ بند کر کے باہر جاتے ہی اس نے خوشی سے مغلوب ہوتے ہوئے کمرے میں چلنا پھرنا اور وہاں پڑی چیزوں کو چھو چھو کر دیکھنا شروع کر دیا وہ جیسے یہ یقین چاہتی تھی کہ وہ کوئی خواب تو نہیں دیکھ رہی ہے۔ اس پورے تناظر میں جو واحد چیز اسے جمال کی یاد دلاتی تھی وہ کرم علی تھا اور کرم علی فی الحال کمرے سے باہر تھا۔
٭٭٭
”آپ نے زری کی ماں کو دیکھا۔ بیٹی کی شادی پر بھی پھٹا ہوا دوپٹہ پہنے پھررہی تھی۔ اتنا تو انسان ہوش کرے کہ اپنے کپڑے ہی دیکھ لے۔ اور باپ شادی کے موقع پر دس روپے کی چپل پیروں میں اٹکائے پھر رہا تھا۔ حالانکہ اتنی بڑی رقم دی ہم لوگوں نے کہ شادی کے اخراجات ان کے لیے کوئی مسئلہ نہ ہو جائیں لیکن انہوں نے تو مجھے لگتا ہے ان پیسوں میں سے ایک روپیہ بھی شادی پر خرچ نہیں کیا۔ ساری کی ساری رقم رکھ لی ہو گی۔ یہ اس طرح کے لوگوں کی ذہنیت ہوتی ہے۔ بیٹی کو بیاہنے پر تو ان کے تین کپڑے بھی نہیں لگے۔ آج تو زری کاپورا گھر شکرانے کے نفل ادا کر رہا ہوگا۔”
شکیلہ کے آخری جملے پر ڈرائنگ روم میں ایک قہقہہ پڑا تھا صرف کرم علی تھا جس کے ماتھے پر شکنیں آئی تھیں۔ اسے شکیلہ کی باتوں سے زیادہ اس قہقہے پر اعتراض ہوا تھا۔ ان سب نے جیسے ایک لفظ کہے بغیر صرف ہنس کر شکیلہ کے بیان کی تائید کی تھی۔
”اور اتنا گندا محلہ میں نے زندگی میں کبھی نہیں دیکھا۔ اتنی گندگی اور خود زری کے گھر کی حالت دیکھنے والی تھی۔ مجھے تو اندر بیٹھتے ہوئے ڈر لگ رہا تھا چھت پر بچے کھیل رہے تھے اور ان کے پیروں کی دھمک سن کر مجھے لگ رہا تھا کہ کسی بھی وقت چھت گر جائے گی۔”
یہ کرم علی کی ماں تھی کرم علی نے بے یقینی سے ماں کو دیکھا۔ وہ ان کی مرضی سے وہاں بیاہا گیا تھا اور کچھ دن پہلے تک اسی گھر کے ساتھ رشتہ جوڑنے کے لیے وہ اسے اللہ کے واسطے دے رہی تھی۔
”میں سمجھتی تھی کہ چلو کسی ہوٹل یا میرج ہال میں نکاح کی تقریب کر لیں گے یہ لوگ۔ اس لیے اتنے پیسے بھجوائے میں نے پر یہ اتنے کمینے لوگ ہیں کہاں انہوں نے گلی میں دروازے کے سامنے ٹینٹ لگا کر بٹھا دیا ہمیں… میں تو شرم سے پانی پانی ہو رہی تھی۔ ارے ہمیں کہاں عادت ہے۔ اس طرح گلی میں بیٹھ کر مجمع لگانے کی… تم نے کہا نہیں تھا ان لوگوں سے کہ کسی ہوٹل یا میرج ہال میں انتظام کریں؟”
کرم علی کی ماں نے شکیلہ سے قدرے خفگی سے کہا۔
”اب ایسی باتیں بھی کیا میں کہتی ان سے؟” شکیلہ نے جواباً کہا ”انہیں خود پتہ ہونا چاہیے تھا پہلی بیٹی تو نہیں بیاہ رہے تھے۔ اپنی حیثیت کا نہ سہی ہماری حیثیت کا تو خیال رکھنا چاہیے تھا انہیں اور پھر آخر پیسے ہم نے خیرات کے طور پر تو نہیں دیے تھے۔ انتظامات کے لیے دیے تھے اب اگر انہیں شادی کے انتظامات کامطلب گلی میں ایک ٹینٹ، چار کرسیاں، میٹھے اورنمکین چاولوں کے ساتھ بڑے گوشت کے شوربے پر مشتمل سالن لگتا ہے تو امی اس میں میں کیا کر سکتی ہوں؟” شکیلہ نے بے زاری سے کہا۔

Loading

Read Previous

من و سلویٰ — قسط نمبر ۷

Read Next

من و سلویٰ — قسط نمبر ۹

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!