من و سلویٰ — قسط نمبر ۸

اگر کرم علی کے لیے زینی کی کینیڈا سے روانگی کے بعد یہ قصہ ختم ہو گیا تھا تو اس کی فیملی کے لیے یہ اس معاملے کا آغاز تھا۔
اس کی ساری فیملی آہستہ آہستہ پچھلے کچھ سالوں میں کینیڈا منتقل ہو چکی تھی۔ اگرچہ کرم علی نے ان کو ماں باپ کے اصرار کے باوجود اپنے بزنس میں ڈائریکٹ حصہ دار بنانے کے بجائے انہیں اپنا اپنا الگ بزنس شروع کرنے میں مدد کی تھی لیکن اپنا بزنس ہونے کے باوجود ان میں سے ہر کوئی ابھی بھی سال میں آنے والے تمام بڑے اخراجات کے لیے کرم علی کا دروازہ ہی کھٹکھٹاتا تھا اور اس کو ان میں سے کوئی بھی کرم علی کا احسان نہیں سمجھتا تھا۔ ان سب کے نزدیک یہ کرم علی کی ذمہ داری تھی۔ وہ شوکت زمان سے ملنے والی دولت میں ان سب کی ذمہ داریاں اٹھاتا اور کرم علی نے یہ سب کچھ جیسے بخوشی قبول کر لیا تھا۔
یہ سب وہ پچھلے کئی سالوں سے پہلے ہی کر رہا تھا۔ تب بھی جب مہینے میں کمائے جانے والے سارے پیسے پاکستان بھیج کر خود وہ اکثر ادھار لے کر گزارا کرتا تھا اور اب تو خیر اس کی زندگی ہی بدل چکی تھی۔ وہ انہیں ان کے مطالبات سے بہت زیادہ بھی دیتا، تب بھی اس کے اپنے لائف اسٹائل اور زندگی پرکوئی اثر نہیں پڑ سکتا تھا۔
کرم علی کی فیملی کو پری زاد کے بارے میں پہلی بارپتہ تب چلا تھا، جب کرم علی کے بھائی کی مینجر کے ساتھ ہونے والی ایک ”اتفاقی” ملاقات میں آصف کویہ پتہ چلا کہ پانچ کروڑ روپے کی ایک بڑی رقم پاکستان کسی پروجیکٹ کے لیے مختص کی جا رہی تھی۔
وہ پروجیکٹ کیا تھا، آصف کو یک دم یہ کرید لگ گئی تھی اور اس پروجیکٹ کے بارے میں جاننے میں اسے زیادہ دقت نہیں ہوئی تھی لیکن وہ ہکا بکا ضرور رہ گیاتھا۔ بالکل ویسے ہی جیسے اس کے گھر والے اور خاص طور پر کرم علی کی ماں اس فلم کا سن کر ہکا بکا رہ گئی تھی۔ کرم علی کو زندگی میں کبھی بھی فلموں یا ایسی دوسری چیزوں میں دلچسپی نہیں رہی تھی اور اب ایک دم ایک ایسی پاکستانی فلم پر پانچ کروڑ روپے لگانا۔
ابھی وہ سب اسی معمے کو حل کرنے میں مصروف تھے کہ آصف کے ذریعے ہی انہیں پری زاد کی کینیڈا آمد اور پھر کرم علی کے ساتھ اس کی روزانہ کی مصروفیات اور سرگرمیوں کا پتہ چلنے لگا۔ کرم علی سیروتفریح کے لیے جاتا، انہیں یہی چیز دنگ کر دیتی اور کہاں یہ کہ وہ ایک غیر عورت کے ساتھ اور وہ بھی ایک فلم ایکٹریس کے ساتھ سیر و تفریح کے لیے آفس چھوڑ کر جا رہا تھا۔ ان سب کے ہاتھ پاؤں نہ پھولتے تو اور کیا ہوتا۔
عارفہ سے منگنی ختم ہونے کے اگلے چند سالوں میں کرم علی کے گھر والوں نے وقتاً فوقتاً اس پر شادی کے لیے دباؤ ڈالا تھا۔ اس وقت وہ عارفہ کی شادی ہو جانے کے بعد… خاندان کو دکھانے کے لیے فوری طور پر کرم علی کی کہیں نسبت ٹھہرانا چاہتے تھے۔ لیکن ان کا دباؤ اور حربے کرم علی پر اثر انداز نہیں ہو سکے۔ وہ اگلے کئی سال پاکستان آیا ہی نہیں اور اس نے اپنے والدین کو دو ٹوک الفاظ میں یہ بات کہہ دی تھی کہ وہ اب شادی کرنا ہی نہیں چاہتا۔ اس وقت ہر ایک کا خیال تھا کہ یہ فیصلہ وقتی دکھ اور اشتعال کا نتیجہ ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کرم علی اپنے اس فیصلے پر نظر ثانی کرے گالیکن شوکت زمان سے ملنے والی لمبی چوڑی جائیداد کے بعد اگلے کچھ سالوں میں اس کے کاروبار کو مزید پھیلا دینے کے باوجود کرم علی نے جب شادی میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی تو اس کے گھر والوں کو بالآخر یہ یقین آگیا تھا کہ وہ واقعی شادی کرنا نہیں چاہتا۔ تب تک اس کے باقی بہن بھائیوں کی شادیاں ہو چکی تھیں اور ہر ایک اپنی زندگی میں مصروف ہونے کے بعد کرم علی کی زندگی یا متوقع شادی میں پہلے کی طرح دلچسپی لینا چھوڑ چکا تھا بلکہ اس کے بہن بھائی اب کرم علی کی شادی کے ذکر پر الٹا اپنے والدین کو منع کرتے کہ اگر بھائی جان شادی نہیں کرنا چاہتے تو انہیں شادی کے لیے مجبور نہیں کرنا چاہیے۔ بات شروع ہو کر وہیں ختم ہو جاتی۔
اپنی طرف سے ہر ایک یہ ظاہر کرتا تھا کہ وہ کرم علی کے فیصلے اور جذبات کی کتنی پروا کرتا تھا لیکن اندر ہی اندر وہ سب ایک ہی خوف اور عدم تحفظ کا احساس پالے ہوتے تھے۔ کرم علی کی شادی کی صورت میں اس کے رویے میں آنے والی کسی متوقع تبدیلی کے نتیجے میں ان مالی مراعات اور آسائشات سے محروم ہونے کا خدشہ، جو وہ اب کرم علی سے حاصل کر رہے تھے۔ بیوی اور پھر اپنے بچے ہو جانے کے بعد کرم علی یقینا اپنے بہن بھائیوں اور ان کے بچوں کے مطالبات اس طرح سنتا نہ مانتا جس طرح وہ اب مانتا تھا اور یہ جیسے سونے کی چڑیا ہاتھ سے نکل جانے کے مترادف ہوتا۔ ان میں سے ہر ایک کے لیے یہ تصور بھی سوہان روح تھا۔ وہ آپس میں اس خدشے کا اظہار نہیں کرتے تھے مگر اندر ہی اندر وہ بے حد خود غرض ہو کر یہی چاہتے تھے کہ کرم علی شادی نہ کرے۔
وہ ساری زندگی اسے اپنی اولاد کے لیے گاڈ فادر کا رول ادا کرتے دیکھتے رہنا چاہتے تھے اور کہیں نہ کہیں ان میں سے ہر ایک یہ بھی سوچ رہا تھا کہ کرم علی کی شادی نہ ہونے کی صورت میں اس کی ساری جائیداد اس کے بہن بھائیوں اور ان کی اولاد کے حصہ میں ہی آنے والی تھی اور اس جائیداد کے کئی حصے ہونے کے باوجود وہ اتنی زیادہ تھی کہ ان میں سے ہر ایک اپنی باقی زندگی رئیسوں کی طرح گزار سکتا تھا۔
اور اب 37 سال کی عمر میں کرم علی اچانک کسی عورت میں دلچسپی لیتا نظر آنے لگا تھا اور عورت بھی ایک فلم ایکٹریس۔ ہنگامی طور پر کینیڈا میں ہی آصف کے گھر پر کرم علی کے سارے بہن بھائیوں کا ”اجلاس” منعقد ہوا۔ ہر ایک نے جس حد تک ممکن تھا، اپنی ماں کی مزید برین واشنگ کی کیونکہ باپ کی وفات کے بعد وہی ایسی ”چابی” تھی جسے وہ کرم علی کو استعمال کرنے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ چابی یا ہتھیار… وہ بہ وقت ضرورت ماں کے رول کو بدل لیا کرتے تھے اور وہ پوری دل جمعی سے ان کے ہاتھ میں استعمال ہوتی تھیں۔ ان کا واقعی یہ خیال تھا کہ بڑا بھائی ہونے کے ناتے کرم علی پر ان سب کا ”حق” ہے اور اسے یہ ”حق” ہر وقت ادا کرنا چاہیے کیونکہ اللہ نے اسے بے حدو حساب ماں باپ کی دعاؤں کی وجہ سے نوازا ہے۔ کرم علی ہمیشہ اپنی ماں کے پاس بیٹھ کر سر جھکائے یہی سب کچھ خاموشی سے سنتا تھا، کسی بت کی طرح۔
اور اب اس کی ماں کو ایک بار پھر ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی تیاری ہو رہی تھی۔ ان میں سے ہر ایک کو یقین ہو گیا تھا کہ کرم علی اس ایکٹریس میں اس لیے دلچسپی لے رہا تھا کہ وہ اس سے شادی کرنا چاہتا تھا۔ ”اپنی” مرضی سے ایک ”ایکٹریس” کے ساتھ ”شادی”… ایسا ہو جاتا تو یہ دوقیامتیں تھیں جو ان سب پر بیک وقت ٹوٹتیں۔
ان میں سے کوئی یہ نہیں چاہتا تھا کہ کرم علی عمر کے کسی بھی حصہ میں ”اپنی پسند” کی شادی کرے اور اس پر مستزاد یہ کہ وہ ایک ایکٹریس کے ساتھ شادی کر لیتا جس سے ان کا خاندان کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتا۔ ”ایک ناچنے گانے والی آوارہ عورت”… ان میں سے ہر ایک نے کئی کئی بار اپنی ماں کے سامنے یہ الفاظ دہرائے۔ اتنی بار کہ اس کی ماں واقعی تشویش میں مبتلا ہو گئی تھی۔
تو اب کیا کیا جائے؟
یہ وہ سوال تھاجس پر وہ سب بالآخر اپنا سر جوڑ کر بیٹھ گئے تھے۔ لمبی سوچ بچار کے بعد حل یہ نکالا گیا تھا کہ کرم علی کے لیے ایمرجنسی میں کوئی خوبصورت، کم عمر اور لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والی لڑکی کو ڈھونڈا جائے اور پھر کرم علی کی ماں اسے جذباتی طور پر مجبور کر کے اس کے ساتھ شادی کروا دے۔
لڑکی کاخوبصورت ہونا اس لیے ضروری تھا تاکہ کرم علی کے سر سے اس ایکٹریس کا بھوت اتارا جا سکے اور ان کا خیال تھا کہ وہ کسی بہت ہی خوبصورت لڑکی کے ساتھ ماں کے مجبور کرنے پر فوری طور پر شادی کے لیے تیار ہو جاتا۔ اس کی خوبصورتی، کم عمری کرم علی کے لیے جیسے ایک چارہ ہوتی۔
لڑکی کا کم عمر ہونا اس لیے ضروری تھا تاکہ اس کو ذہنی طور پر کرم علی کی فیملی آسانی سے اپنی مرضی کے مطابق ہینڈل کر سکتی۔ انہیں کسی ”سمجھ دار” لڑکی کی ضرورت نہیں تھی۔ ایک ناسمجھ، کسی حد تک احمق، کمزور اور امیچور لڑکی کی ضرورت تھی، جس کی خامیاں اور کمزوریاں وہ بہ وقت ضرورت اپنے مفاد کے لیے کرم علی کے سامنے لالا کر رکھتے رہتے۔ ان سب کو یقین تھا کہ ایسی کسی لڑکی کی ناسمجھی اور بے وقوفی کرم علی جیسے آدمی کی نظروں میں کبھی بھی اسے ”پسندیدہ بیوی” کا درجہ حاصل نہ کرنے دیتیں۔
اور اس کا لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھنا اس لیے ضروری تھا تاکہ اس کا خاندان اور خود وہ ہمیشہ کرم علی کے خاندان کے دباؤ میں رہتے۔ کسی اچھے خاندان کی لڑکی کو کرم علی کے لیے لانے میں اتنے رسک فیکٹرز تھے کہ اس پر تو ان سب کے درمیان مشترکہ اتفاق رائے تھا کہ لڑکی کو کسی بہت ”غریب گھرانے” سے ہونا چاہے۔ وہ کرم علی کے لیے کوئی ایسا خاندان نہیں چاہتے تھے جس کے ساتھ کسی رشتہ میں منسلک ہونے کے بعد کرم علی کی زندگی میں ایک دوسرے خاندان کی گنجائش، اہمیت یا قدر ہوتی۔ اگر کرم علی کے گھر والوں کے لیے ممکن ہوتا تو وہ ایسی لڑکی کو یتیم خانے سے لانا زیادہ پسند کرتے۔
اب واحد مسئلہ جو رہ گیا تھا، وہ ایسی لڑکی کا ”فوری” انتخاب تھا اور اس فوری انتخاب نے انہیں مجبور کیا کہ وہ اپنے پرانے گھر کے آس پاس کے گھروں اور ان خاندانوں پر نظر دوڑائیں جن کے ساتھ کبھی ان کے تعلقات تھے اور اس ”ریسرچ، نے کرم علی کی ماں کی توجہ ”زری” کے خاندان کی طرف دلائی۔ وہ کبھی ان ہی کے محلے میں رہتے تھے اور زری کا گھر اس پورے محلے میں لڑکیوں کی خوبصورتی کی وجہ سے مشہور تھا۔ کسی زمانے میں عارفہ سے منگنی ختم ہونے کے بعد کرم علی کی ماں کو ایک دو بار کرم علی کا رشتہ طے کرنے کے لیے اس گھر کی لڑکیوں کا خیال آتارہا تھا لیکن بعد میں وہ علاقہ اور پھر پاکستان چھوڑنے کے بعد وہ سارے حوالے اور خیالات ختم ہو گئے تھے۔
زری کا خاندان اب کس حالت میں تھا، اب کون سی بیٹی شادی کے قابل تھی؟اور اس لڑکی کی شکل و صورت اور عمر کیا تھی؟ اب یہ معاملات زیر غور آنے تھے لیکن اس سے پہلے کسی کا پاکستان جانا ضروری تھا کہ زری کے گھر جایا جا سکے۔
اور اس اہم کام کے لیے پاکستان میں مقیم کرم علی کی واحد بہن سے رابطہ کیا گیا جس نے پہلے تو کرم علی کی شادی کے سوال پر ناراضی کا اظہار کیا۔ آخر اس عمر میں بھائی جان کو شادی کی کیا ضرورت ہے؟ اس کے بعد اس نے ان معیاروں کے بارے میں شور واویلا کیا جو کرم علی کی ماں لڑکی اور اس کے گھر والوں میں چاہتی تھی، لیکن جب اسے اوٹوا میں کرم علی اور اس ایکٹریس کے بارے میں تفصیلات سے آگاہ کیا گیا تو اس کے تمام اعتراضات منٹوں میں ختم ہو گئے۔ صورت حال واقعی بہت سنگین تھی۔
کرم علی کی بہن اگلے دن اس پرانے محلے میں جہاں اس نے پورا بچپن گزارا تھا، زری کا گھر ڈھونڈنے کے لیے چکراتی پھری لیکن بالآخر اس نے زری کا گھر تلاش کر لیا تھا۔
دروازہ زری نے کھولا تھا اور کرم علی کی بہن کا دل دروازے پر زری کی شکل دیکھتے ہی سجدہ شکر بجا لانے کو چاہا۔ نہ صرف گھر کی حالت ویسی تھی جیسی وہ چاہتے تھے بلکہ لڑکی بھی ویسی ہی تھی جیسی ان لوگوں کی خواہش تھی۔ کرم علی کی بہن زری کو نہیں پہچانتی تھی۔ وہ زری کی بڑی بہنوں سے واقف تھی اور زری اس وقت بہت چھوٹی تھی جب اس کی شادی ہو گئی تھی اور وہ وہاں سے چلی گئی تھی۔ زری کے گھر میں اس وقت وہ اور اس کی دو دوسری بہنیں موجود تھیں مگر اس کے ماں باپ میں سے کوئی بھی گھر پر نہیں تھا، اس لیے بڑے حوالے دینے کے باوجود زری یا اس کی بہنوں کو شکیلہ، کرم علی کے گھر یا جہاں داد اور اس کے خاندان کے بارے میں کچھ یاد نہیں آیا لیکن انہوں نے بہر حال شکیلہ کو گھر کے اندر ہی اپنی ماں کا انتظار کرنے کے لیے بٹھا لیا تھا۔ شکیلہ اس کی بہنوں کا نام لے رہی تھی تو یقینا زری کی اماں سے بھی واقف ہو گی۔ زری نے یہی سوچا تھا۔ ایسی کوئی واقفیت اسے نہ بھی نظر آتی تو بھی وہ شکیلہ کے حلیے اور خاص طور پر اس کے سونے کے زیورات سے اس حد تک مرعوب ہو چکی تھی کہ اسے بخوشی اندربٹھا لیا۔
پہلی بار ان کے گھرمیں کوئی ایسا آیا تھا جو ان سے شناسائی کا دعویٰ کر رہا تھا اور سونے سے لدا ہوا تھا۔ زری نے نہ صرف شکیلہ کو فوری طور پر اندر بٹھایا تھا بلکہ وہ اور اس کی بہنیں اس کی جتنی خاطر تواضع کر سکتی تھیں، انہوں نے کی تھی۔
شکیلہ اس خاطر تواضع سے تو خیر کیا متاثر ہوتی لیکن اس نے وہاں ان چند گھنٹوں کے قیام میں ان تینوں بہنوں کے ساتھ گھر میں موجود باقی افراد کا بھی تفصیلی بائیو ڈیٹا حاصل کر لیا تھا اور اس کے تجزیے کے مطابق زرینہ عرف زری کرم علی کے لیے ان تمام معیار پر پوری اترتی تھی جو کینیڈا سے اس کی ماں نے اسے ڈکٹیٹ کروائے تھے۔ زری اسے اپنی دوسری دونوں بہنوں سے زیادہ خوبصورت تو لگی ہی تھی مگر زیادہ سیدھی، بھولی، فرمانبردار، سگھڑ، بااخلاق اور کم گو لگی تھی۔
٭٭٭
”میں کسی ایسی فلم میں کام نہیں کروں گی جس میں سفیر خان ہو اور جسے انور حبیب ڈائریکٹ کرے۔
زینی نے دوٹوک انداز میں تبریز پاشا سے کہا۔
”پاشا پروڈکشنز کی فلم میں کام کرتے ہوئے کوئی ہیروئن شرطیں نہیں رکھتی۔” تبریز پاشا نے بے حد ناگواری سے اس سے کہا۔
”نہیں رکھتی ہو گی۔ میں رکھ رہی ہوں۔ میں نے آپ کو پہلے ہی بتایا تھا، میں تب کام کروں گی جب اس میں سفیر اور انور دونوں نہیں ہوں گے۔”
”ان کو تو میں فلم میں لوں گا۔ میری ضرورت ہے۔ سفیر تو پروڈیوس بھی کر رہا ہے یہ فلم۔ انور کو ہٹا بھی دوں سفیر کو نہیں ہٹا سکتا۔ ” تبریز پاشا نے بے حد صاف لفظوں میں اسے بتا دیا۔
”تو پھر مجھے مت لیں، کسی دوسری لڑکی کو لے لیں۔ ویسے بھی چارپیئر تو پہلے ہیں اس میں۔ میں کیا کروں گی اس فلم میں۔”
”تم اور سفیر لیڈ ہو اس فلم کی۔”
”فلم کی لیڈ مت کہیں، پندہ سین اور چار گانوں کی لیڈ کہیں۔” زینی ہنسی۔ تبریز کو اس کی ہنسی کھلی۔
”بہت غرور آگیا ہے تم میں۔ چار فلمیں سائن کر لی ہیں تو تم سمجھ رہی ہوں کہ سرخاب کے پر لگ گئے ہیں تمہیں۔”
”سرخاب کے پر تو کسی کو بھی نہیں لگے ہوتے۔ مجھے نہیں لگے تو تبریز پاشا کو بھی نہیں لگے۔”
چند لمحوں کے لیے زینی کے ڈرائنگ روم میں خاموشی چھا گئی تھی۔ تبریز پاشا نے آج تک فلم انڈسٹری میں آنے والی بڑی سے بڑی ہیروئن کے نخرے اٹھائے تھے۔ انہیں دولت سے مالا مال کیا تھا۔ ان کی قسمتیں بھی بدلی تھیں لیکن اس نے کسی ہیروئن کو ”دو ٹکے کی طوائف” سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں دی تھی کیونکہ وہ فلم انڈسٹری میں آنے والی ہر ہیروئن کے پورے شجرہ نسب کو جانتا تھا۔ وہ بازار کے کس گھر کے کس کوٹھے کی، کس عورت کی پیداوار تھی۔ اس کی ماں،نانی، پرنانی کون تھی اور اس کے مستقل گاہک کون تھے؟
سامنے بیٹھی ہوئی ہیروئن کا شجرہ بھی وہ جانتا تھا۔ یہ بھی جانتا تھا کہ اس کا تعلق بازار سے نہیں، اس کے خاندان میں سے کوئی بھی وہاں کا نہیں۔ وہ اس کی ماں اور بہنوں کا نام نہیں جانتا تھا لیکن یہ جانتا تھا کہ پری زاد کے مستقل گاہک کون تھے، اس کی قیمت کیا تھی پھر وہ اسے ”دو ٹکے کی طوائف” نہ سمجھتا تو کیا سمجھتا اور کسی طوائف کی زبان پرتبریز پاشا کا ذکر اس طرح آتا، یہ وہ کیسے برداشت کرتا۔
”پری زاد کو پچھلے دو تین دن سے بخار ہے، طبیعت خراب ہے ان کی۔ اسی لیے آج کل چھوٹی چھوٹی باتوں پر الجھ پڑتی ہیں۔ میں سمجھاتا۔۔۔۔”
سب سے پہلے سلطان نے صورت حال کو سنبھالنے کی کوشش کی تھی، یہ جاننے کے باوجود کہ اب بہت دیر ہو چکی ہے۔ تیر کمان سے نکل چکا تھا۔ اس کے باوجود اس نے تبریز کا غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی۔ تبریز پاشا نے اس کی یہ کوشش ناکام بنا دی۔ اس نے نہ صرف سلطان کی بات کاٹی بلکہ اسے چند منٹوں میں انڈسٹری میں استعمال ہونے والی غلیظ ترین گالیوں سے بھی نوازا تھا۔ سلطان چپ رہا تھا، زینی نہیں اور یہ اس کی دوسری فاش غلطی تھی۔ وہ گالیاں جو پہلے تبریز سلطان کو دے رہا تھا، اب اسے دینے لگا تھا۔ اس کی آواز بے حد بلند تھی۔
”میرے ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر تم گالی مت دو۔” زینی چلائی۔
تبریز پاشا اس سے زیادہ بلند آواز میں چلایا۔ ”تمہارا ڈرائنگ روم…؟ تمہارے باپ نے دیا ہے تمہیں یا بھائی نے؟ یا کسی شوہر نے؟ میرا گھر ہے یہ جو تمہیں رہنے کے لیے دیا ہے میں نے۔”
اس نے یہ چند جملے کہنے سے پہلے بعد میں اور بیچ میں بے تحاشا گالیوں کا استعمال کیا تھا۔
زینی اس بار کچھ بول نہیں سکی تھی، وہ واقعی اسی کا گھر تھا۔
”میں آج ہی اس گھر کو خالی کر دیتی ہوں۔ تم سنبھال رکھو اپنے گھر کو اپنے پاس اور اپنا منہ بند کرو۔” زینی نے بالآخر اس سے کہا۔
”ہاں، خالی کرو اس گھر کو لیکن اس فلم میں تم کیا، تمہاری ماں اور بہن بھی کام کریں گی۔ تم پاشا کی فلم میں کام نہیں کرو گی تو میں دیکھوں گا، تم اس گھر سے نکل کر کسی دوسری فلم کے سیٹ پر بھی کس طرح پہنچو گی۔ تم نے تبریز پاشا کو سمجھا کیا ہے؟ میں تو تمہیں زمین میں زندہ گاڑ کر تم پر کتے چھوڑ دوں تو اس پورے ملک میں کوئی ایک آدمی آکر مجھ سے سوال نہیں کر سکتا اور تم اشتیاق رندھاوا کی رکھیل بن کر یہ سمجھنے لگی ہو کہ جو چاہو گی کرو گی، کوئی تمہیں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ یہ فلم انڈسٹری ہے،بڑی بڑی ہیروئنیں آکر چلی گئیں یہاں سے۔ بہتوں کو فارغ کر دیا میں نے… بہتوں کو دن دہاڑے سڑک پر مروا دیا میں نے… کوئی انگلی تک نہیں اٹھا سکا تبریز پاشا پر… اور تم… میں آج تیزاب پھنکوا دوں تمہارے چہرے پر تو ہیروئن تو کیا… کوئی مرد تمہیں اپنے جوتے صاف کرنے کے لیے بھی نہیں بلائے گا۔ کل رات آٹھ بجے میری فلم کا مہورت ہے۔ وہاں خود آجانا، ورنہ میرے آدمی آکر تمہیں لے جائیں گے۔”
تبریز پاشا مزید کچھ کہے بغیر ڈرائنگ روم سے نکل گیا۔
زینی سرخ چہرے کے ساتھ وہاں کھڑی رہی۔ وہ پاکستان فلم انڈسٹری کی کامیاب ترین، معروف ترین اور مقبول ترین ہیروئن تھی اور اس نے اپنے ڈرائنگ روم میں کھڑے ہو کر انڈسٹری کے طاقتور ترین مردوں کے تکون میں سے ایک سے وہی کچھ سنا تھا، جو اس سے پہلے انڈسٹری کی ہر معروف ہیروئن سن چکی تھی یا پھر کسی نے اس لیے نہیں سنا ہو گاکیونکہ کسی نے بھی تبریز پاشا کو وہ سب کچھ کہنے کی جرأت نہیں کی ہو گی جو اس نے کہا تھا۔
”آپ کو کتنی بار سمجھایا ہے میں نے پری جی! لیکن آپ نے میری بات نہیں سنی۔ ان ہی باتوں کی وجہ سے ڈرتا تھا۔”
سلطان نے اسے مخاطب کیا۔ ”آخر کیوں اس طرح بات کی آپ نے تبریز پاشا کے ساتھ۔ دریا میں رہ کر مگرمچھ سے کیوں بیر لے رہی ہیں آ پ؟”

Loading

Read Previous

من و سلویٰ — قسط نمبر ۷

Read Next

من و سلویٰ — قسط نمبر ۹

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!