من و سلویٰ — قسط نمبر ۸

جمال کو زری کی منگنی کی اطلاع محلے کے تھڑے پر پتے کھیلتے کسی دوسرے لڑکے نے دی تھی اور جمال نے ہنس کر مذاق میں اس کی بات اڑائی تھی۔ ہر مہینے ہی زری کی کسی نہ کسی کے ساتھ منگنی کی افواہیں اڑتی رہتی تھیں لیکن اس بار خبر لانے والا لڑکا اپنے گھر میں زری کے گھر سے آنے والی مٹھائی کھا کر آیا تھا۔ نہ صرف یہ بلکہ وہ کرم علی کے بارے میں اپنی ماں سے ساری معلومات بھی لے آیا تھا۔ کرم علی کے نام اور اس کے خاندان سے زبانی طور پر محلے کی یہ نوجوان نسل بھی واقف تھی، حتیٰ کہ جمال بھی اور شاید کرم علی کا نام ہی تھا کہ جمال پہلی بار پتے کھیلنا بھول گیا۔ وہ بے حد بے چینی کے عالم میں اٹھ کر گھر آیا تھا اور گھر میں اس کے بد ترین خدشات کی تصدیق مٹھائی کی اس پلیٹ سے ہوئی تھی جو اس کی ماں نے باورچی خانے میں رکھی ہوئی تھی۔ جمال کا دل چاہا، وہ اسی وقت جا کر زری کو گولی مار دے۔
اور زری جانتی تھی کہ جمال کو نہ صرف اب تک اس کے کرم علی کے رشتے کے بارے میں اطلاع مل چکی ہو گی بلکہ وہ اس وقت بے حد جنونی انداز میں اسے مارنے کے لیے غصے میں پاگل ہو ا پھر رہا ہو گا۔ وہ اس شام ہمیشہ کی طرح چھت پر نہیں گئی۔ چھت پر جانے کے لیے اس شام نہ وقت تھا اور نہ موقع اور اگر یہ دونوں چیزیں ہوتیں بھی تو زری میں ہمت نہیں تھی کہ وہ فوری طور پر جمال کا سامنا کرتی۔
صبح حمید کے جانے کے بعد زری نے ماں کو کام پر جانے نہیں دیا اور اب وہ ماں کو ببانگِ دہل بتا رہی تھی کہ اسے کرم علی سے شادی نہیں کرنی، جمال سے شادی کرنی ہے۔
زری کی ماں نے بے حد اطمینان سے اس کا واویلا سنا۔ اس کی ہر بیٹی نے اپنی پسند کے کسی لڑکے کے لیے اسی طرح واویلا مچایا تھا، اس کے لیے یہ سب کچھ نیا نہیں تھا۔
”ہوش کے ناخن لے زری! تو کیوں اس نکھٹو کے پیچھے مر رہی ہے۔”
”وہ نکھٹو ہو جو مرضی ہو، میں اس سے پیار کرتی ہوں۔ مر جاؤں گی، پر اس کے علاوہ کسی اور سے شادی نہیں کروں گی۔” زری نے ماں کو بات پوری نہیں کرنے دی۔
”کیوں گھر آئے رزق کو لات مار رہی ہے زری! ارے ایسا رشتہ تو ہماری سات پشتوں میں کسی لڑکی کا نہیں آیا۔ ارے کروڑ پتی لڑکا ہے، کروڑ پتی۔”
”تم کو شرم نہیں آئی اماں! اس بڈھے کو لڑکا کہتے ہوئے۔ پتہ نہیں کتنی شادیاں کر چکا ہے وہ اب تک اور تم کو لگتا ہے مجھے تو اس سے اچھا رشتہ مل ہی نہیں سکتا۔” زری نے ماں کو ملامت کرتے ہوئے کہا۔
”پہلی شادی ہے اس کی۔ میں نے خود فون پر بات کی ہے اس کی ماں سے اور فرض کر، پہلی نہ بھی ہوئی… پھر بھی دیکھ زری! کتنا پیسہ ہے اس کے پاس۔ ارے دن رات بھی خرچ کرے گی تو ختم نہیں ہو گا۔ ایک کے بجائے دو شادیاں بھی ہوں تو بھی تجھے ان سے کیا لینا دینا۔”
”ہاں مجھے کسی بات سے کیا لینا دینا۔ اس کی عمر زیادہ ہے تو ٹھیک ہے۔ دوسری شادی ہے تو ٹھیک ہے۔ شکل و صورت اچھی نہیں ہو تو بھی ٹھیک ہے۔ میں تمہاری سوتیلی بیٹی ہوں کیا ماں؟” زری تڑپ کر بولی۔
”مرد کی شکل و صورت نہیں د یکھتے جیب دیکھتے ہیں۔ جو اس آدمی کی بھری ہوئی ہے اور جمال کی جیب خالی ہے۔ سوتیلی بیٹی ہوتی تو یہ رشتہ چھوڑ کر جمال سے شادی کرتی تیری تاکہ ساری عمر تو بھی میری طرح لوگوں کے گھر صفائیاں کر کے گھر چلاتی۔ بھوکی مرتی اور پھر جمال کے جوتے بھی کھاتی۔” اس کی ماں کو اب غصہ آنے لگا تھا۔
”جوتے کھاتی لیکن اپنی مرضی کے آدمی کے ساتھ تو رہتی۔ کچھ تو اچھا ہوتا اس آدمی سے۔ کماتا نہیں ہے بس لیکن میری عمر کا ہے۔ اچھی شکل کا ہے۔ میرے پہ جان دیتا ہے وہ۔۔۔۔” اس کی ماں نے اس کی بات پوری نہیں ہونے دی۔
”ابھی جان دیتا ہے۔ بعد میں جان لے لے گا۔ پورا محلہ بھرا پڑا ہے ایسے جان دینے والوں سے جن کی بیویاں روتی پھرتی ہیں۔ خود تیرے باپ نے مجھ سے پسند کی شادی کی تھی۔ سو سو وعدے کیے اور خواب دکھائے تھے مجھے اور اب… اب کیا ہے؟ صبح سے لے کر شام تک جانوروں کی طرح محنت کر کے گھر چلاتی ہوں تب بھی نہ تیرے باپ کی زبان بند ہوتی ہے ، نہ ہاتھ رکتا ہے۔ ساری عمر ہڈیاں تڑوائی ہیں میں نے۔ گھر سے لے کر گلی تک ہر جگہ جوتے کھائے ہیں میں نے تیرے باپ کے اور میں نے کیا تو اپنی بہنوں کو دیکھ، کیا حال ہو رہا ہے ان کا۔ غربت کی چکی نے آٹا نہیں بنایا، بھوسہ بنا کر رکھ دیا ہے انہیں تجھے قسمت ایک موقع دے رہی ہے تو کیوں ضائع کر رہی ہے اسے۔ ارے محلے کا کوئی بھی گھر کرم علی کو اپنی بیٹی دینے کو منٹوں میں تیار ہو جائے گا۔ یہ تو خوش قسمتی ہے ہماری کہ اس کی بہن یہاں آئی۔”
”تم ہزار دفعہ کہو یا لاکھ دفعہ، میں نے اس آدمی سے شادی نہیں کرنی تو نہیں کرنی۔”
زری پرماں کی کہی ہوئی بات نے اثر نہیں کیا تھا۔ اس کی ماں کو اب اس پر شدید غصہ آیا۔ پاؤں سے جوتا اتار کر دور کھڑی زری پر پھینکتے ہوئے اس نے کہا۔
”یہ سب باپ سے کہنا اپنے، وہ گلا نہ گھونٹ دے تو پھر کہنا۔” اس نے زری کو دھمکایا۔
”گھونٹتا ہے تو گھونٹ دے۔ روز مرنے سے ایک بار کا مرنا اچھا ہے۔”
زری کی ماں نے مزید کچھ کہنے کے بجائے گھر سے چلے جانا زیادہ بہتر سمجھا۔
”اماں! میں بات کر رہی ہوں تجھ سے؟”
زری نے ماں کو دروازے سے نکلتے دیکھ کر گلا تقریباً پھاڑتے ہوئے کہا۔ زری کی ماں نے پلٹ کر دیکھنے کی زحمت تک نہیں کی۔ زری دروازے تک ماں کے پیچھے آئی تھی اور شاید گلی میں بھی آجاتی لیکن اس نے ساتھ والے گھر کے دروازے پر جمال کو کھڑے دیکھ لیا تھا جو شاید اس کے انتظار میں وہاں کھڑا تھا۔ زری کو دیکھتے ہی اس نے درشت انداز میں اسے چھت پرآنے کے لیے کہا تھا اور ساتھ ہی اسے یہ دھمکی بھی دی کہ وہ اگر چھت پر نہ آئی تو وہ اس کے گھر آجائے گا۔
زری بے حد حواس باختہ چھت پر پہنچی تھی اور جمال نے اسے دیکھتے ہی اس پر برسنا شروع کر دیا۔ وہ بے حد غصے میں تھا۔ زری نے لاشعوری طور پر جھوٹ بولنا شروع کر دیا۔
”ایسی کوئی بات نہیں ہے جمال! صرف رشتہ آیا ہے ابھی اور۔۔۔۔”
جمال نے بے حد غصے میں اس کی بات کاٹی۔ ”تیری ماں پورے محلے میں مٹھائیں بانٹتی پھر رہی ہے اور تو کہہ رہی ہے کہ صرف رشتہ آیا ہے۔ دھوکا دے رہی ہے تو مجھے، جھوٹ بول رہی ہے مجھ سے بلکہ ہمیشہ بولتی رہی۔”
وہ پہلی بار زری سے اس طرح بات کر رہا تھا۔ لڑتا وہ پہلے بھی تھا مگر اس طرح کا غصہ اس نے جمال میں پہلے نہیں دیکھا تھا۔ زری کی سمجھ میں فوری طور پرجو حل آیا ، وہ آنسو بہانا تھا اور اس نے یہی کیا۔ اس نے روتے ہوئے جمال سے کہا۔
”اماں اور ابا نے زبردستی میر ارشتہ طے کر دیا ہے وہاں۔ اس میں میرا کیا قصور ہے۔ میں تو ابھی اماں سے لڑی ہوں۔ تیری خاطر جوتے کھائے ہیں اس کے اور تو بھی مجھ ہی کو الزام دے رہا ہے۔” جمال اس کے آنسوؤں سے متاثر نہیں ہوا۔
”تو تو کہتی تھی کہ تجھ سے کوئی زبردستی نہیں کر سکتا اور اب منگنی کرا کے بیٹھ گئی ہے۔ کل کو اسی طرح اس کی ڈولی میں بھی بیٹھ جائے گی۔”
”مجھ سے ایسی بات مت کر جمال! میں نے اگر کہا ہے کہ میں تجھ سے شادی کروں گی تو میں تجھ ہی سے شادی کروں گی۔ یہ زری کی زبان ہے۔” زری نے یک دم رونا بند کر دیا۔ اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ اس وقت رونے سے جمال پر الٹا اثر ہو رہا تھا۔
”تیری زبان…؟ تیری کوئی ایک زبان ہو تو میں اس پر اعتبار کروں؟ کتنی بار تجھ سے کہا میں نے کہ اماں کو رشتے کے لیے بھیجوں، پر تو نے ایک دفعہ میری بات نہیں مانی۔ اب دیکھ لیا نتیجہ، اسی دن سے ڈرتا تھا میں۔” جمال کاغصہ کم ہونے میں ہی نہیں آرہا تھا۔
”تو اعتبار کیوں نہیں کرتا۔” جمال نے زری کو بات مکمل کرنے نہیں دی۔
”میں تجھ سے کہہ رہی ہو ں نا کہ میں تیرے علاوہ کسی سے شادی نہیں کروں گی تو نہیں کروں گی۔ زہر کھالوں گی مگر کرم علی کے ساتھ شادی نہیں کروں گی۔”
”زہر مت کھا، تو میرے ساتھ گھر سے بھاگ چل۔” جمال کو یک دم جیسے کوئی خیال آیا۔
”ضرورت پڑی تو یہ بھی کروں گی لیکن ابھی تو رشتہ تڑوانے کی کوشش کر رہی ہوں۔ ابھی بڑا وقت ہے جمال!”
”رشتہ تڑوانے کی کوشش…؟ تیرا باپ مانے گا تیری بات؟” حمید کو جمال ہی نہیں، پورا محلہ جانتا تھا۔
”تو مجھے تھوڑا وقت تو دے۔ میں ٹھیک کر لوں گی سب کچھ۔ اگر ابھی تک شادی نہیں ہوئی کسی دوسرے کے ساتھ تو اب بھی نہیں ہو گی۔”
”پورے محلے کے لڑکے مذاق اڑا رہے ہیں میرا۔”
”اڑانے دے ۔ مجھے محلے کے لڑکوں کی باتیں مت بتایا کر۔” زری اب جمال کو کمزور پڑتا دیکھ کر شیر ہو رہی تھی۔
”تجھے پتا ہے زری! میں تیرے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اگر یہ کرم علی یہاں ہوتا تو میں جا کر اس کو مار دیتا لیکن اب میں خود کو مار سکتا ہوں اور میں اپنی جان دے دوں گا اگر تو نے اس سے رشتہ کو ختم نہ کروایا۔”
جمال کی آنکھوں میں اب آنسو آگئے تھے۔زری کے دل کو کچھ ہونے لگا۔ کرم علی سے اس کی نفرت میں یک دم شدید اضافہ ہو گیا تھا۔
٭٭٭
شکیلہ دو دن بعد پھر وہاں آن موجود ہوئی تھی اور اس بار وہ یہ پیغام لے کر آئی تھی کہ انہیں دو ہفتے کے اندر اندر کرم علی کی شادی کرنی تھی۔ حمید اور اس کی بیوی نے بخوشی اس کا یہ مطالبہ قبول کر لیا تھا، وہ جانے سے پہلے شادی کے انتظامات کے لیے حمید کو کچھ رقم دینے کے ساتھ انہیں یہ بھی بتا گئی تھی کہ انہیں صرف سادگی سے نکاح اور رخصتی چاہیے۔ وہ شادی کی باقی تقریبات خود ہی کینیڈا میں منعقد کر لیں گے۔ حمید اور اس کی بیوی کے لیے یہ ایک اور نعمت غیر مترقبہ تھی۔ وہ پہلے ہی شادی چار کپڑوں میں کرنے والے تھے۔ لیکن اب شکیلہ کی اس آفر کا صاف صاف مطلب یہ تھا کہ حمید اس رقم کو بھی بچا لیتا جو بظاہر شادی کے انتظامات کے لیے رکھی گئی تھی۔
پہلی بار صحیح معنوں میں زری کے ہاتھوں کے طوطے اڑے تھے دو ہفتے میں شادی کا مطلب تھا کہ اس کے پاس انکار کر نے اور ماں باپ کو منانے کے لیے وقت نہ ہونے کے برابر تھا۔ پہلے اگر وہ ماں سے جھگڑ کر اسے منا رہی تھی تو اب وہ منتوں پر آگئی تھی مگر اس کی ماں ٹس سے مس نہیں ہو رہی تھی۔ زری کا سلائی اسکول جانا بند کر دیا گیا تھا۔ اور حمید کی بیوی اب چوبیس گھنٹے گھر میں رہنے لگی تھی۔ اس نے ان تمام گھروں کا کام وقتی طور پر چھوڑ دیا تھا۔ گھر میں ویسے بھی شکیلہ کی شادی کے انتظامات کے لیے دیے گئے پیسے اتنے تھے کہ وہ اگلے کئی ماہ اطمینان سے گھر میں بیٹھ کر کوئی کام کیے بغیر کھا سکتے تھے۔
شکیلہ دو دن کے بعد ایک بار پھر آگئی تھی۔ اس دن وہ زری کو کپڑوں جوتوں اور دوسری چیزوں کی شاپنگ کروانے کے لیے آئی تھی اور اس دن زری نے زندگی میں پہلی بار اس گاڑی میں سفر کیا جسے اس سے پہلے اس نے ٹی وی پر دیکھا تھا۔ ان ڈراموں کے کردار ان گاڑیوں میں سفر کرتے تھے یا پھر سڑک پر ویگن کا انتظار کرتے ہوئے دیکھا تھا جس میں آج وہ شکیلہ کے ساتھ سفر کر رہی تھی اور اس نے پہلی بار اس گاڑی کے اندر بیٹھ کر اس کے شیشوں سے باہر نظر آنے والی دنیا اور اس دنیا کے پیدل، سائیکل سوار اور بسوں ویگنوں میں لٹکتے لوگوں کو دیکھا۔ اسے ان پر ترس آیا۔ ایئرکنڈیشنڈ گاڑی کے اندر کی دنیا ایسی ہوتی ہے۔ اسے ایک عجب سی مسرت ہوئی تھی۔ الجھن اضطراب، بے چینی اور کرم علی سے نفرت کے باوجود اسے گاڑی میں بیٹھنا اچھا لگا تھا۔
شکیلہ مسلسل باتیں کر رہی تھی پچھلی سیٹ پر اس کے برابر بیٹھی ہوئی اسے کینیڈا میں کرم علی کی پرتعیش زندگی کے بارے میں بتا رہی تھی اس کے گھر کا سائز، کمروں کی تعداد، گاڑیوں کے ماڈل، گاڑیوں کی تعداد، وہ کہاں کہاں سفر کر چکا تھا وغیرہ، لیکن زری کی توجہ اس وقت کسی وغیرہ پر نہیں تھی۔ وہ صرف اس گاڑی کی آرام دہ سیٹ اور ایئرکنڈیشنر کی خنکی سے محظوظ ہو رہی تھی۔
سڑک کے کنارے کھڑی اس کی عمر کی کسی بھی لڑکی کی نظر سے اس کی نظر ٹکراتی تو وہ بڑی آسانی سے اس کی آنکھوں میں وہ حسرت اور رشک پڑھ سکتی تھی جو کبھی خود اس کی آنکھوں میں ایسی گاڑیوں میں بیٹھنے والی لڑکیوں کو دیکھ کر جھلکتا تھا۔
ایک عجیب سانشہ تھا جو اس وقت زری کو اپنے اعصاب پر سوار ہوتا محسوس ہو رہا تھا اور یہ صرف آغاز تھا، شکیلہ اس دن صبح سے شام تک اسے شہر کی مہنگی ترین دکانوں پر لے جا کر خریداری کرواتی رہی تھی۔ ایسی دکانوں پر جن کو اس نے سڑک سے گزرتے ہوئے بھی غور سے دیکھا تک نہیں تھا کیونکہ اسے یقین تھا، وہ زندگی میں کبھی ان دکانوں پر جا کر کچھ خریدنے کے قابل نہیں ہو سکتی تھی۔
زری کو پہلے چپ لگی تھی تو اب سکتہ ہو گیا تھا۔ اس کے سامنے جو کپڑا خریدنے کے لیے پسند کرنے کو دکھایا جا رہا تھا، اسے ان میں آ نتخاب کرنا مشکل ہو رہا تھا۔ ہر کپڑا پہلے سے اچھا ، مہنگا اور نفیس تھا۔ زری کو اس کپڑے کو ہاتھ لگاتے ہوئے جھجک ہو رہی تھی اور اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ شکیلہ دھڑا دھڑ کیسے ان کپڑوں میں نقص نکالتے ہوئے انہیں رد کر رہی تھی۔ زری نے بہت دفعہ ان ایئر کنڈیشنڈ دکانوں میں اپنے ماتھے کا پسینہ پونچھا۔
شکیلہ اسے جیسے کسی اور دنیا میں لے آئی تھی۔ کپڑے جوتے کاسمیٹکس زیورات وہ ہر دکان میں جا کر بوکھلا رہی تھی۔ اور ہر دکان میں خریداری کے بعد بھی اسے یقین نہیں آتا تھا کہ اس نے وہاں سے اپنے لیے کچھ خریدا تھا۔
رات کے دس بجے سامان کے انبار کے ساتھ جب شکیلہ اسے اس کے گھر چھوڑ کر گئی تو زری کے طور اطوار بدلے ہوئے تھے۔ اس کی ماں اور بہنیں خریدی ہوئی چیزوں کو کھول کھول کر دیکھتے ہوئے بالکل اسی طرح سکتے میں آرہی تھیں، جس طرح وہ ان چیزوں کو دکانوں میں دیکھ کر ہو رہی تھی۔ ایک عجیب سی مرعوبیت تھی جو اب ان سب کے انداز میں زری کے لیے آگئی تھی۔
وہ رات کے پچھلے پہر تک ان چیزوں کو اوڑھ اور پہن کر دیکھتی اور خوش ہوتی رہی تھی لیکن ان چیزوں کے سمیٹے جانے اور اس کی نظروں کے سامنے سے غائب ہونے کے بعد اس کے ذہن میں اس دن پہلی بار جمال کا خیال آیا تھا… وہ یک دم بے چین ہو گئی۔ اسے لگا جیسے ان چیزوں کی خریداری کر کے اس نے جمال سے بے وفائی کی تھی۔ وہ سارا دن اس کا چھت پر انتظار کرتا رہا ہو گا اور ہو سکتا ہے اب بھی چھت پر بیٹھا ہو۔ اسے جب نیند نہیں آتی تھی تو وہ اس طرح رات کو چھت پر آکر بیٹھا رہتا تھا۔
وہ اٹھ کر کمرے سے باہر جانے لگی۔
”کہاں جا رہی ہو؟” گلشن نے اسے ٹوکا۔
”کہیں نہیں۔ ” زری نے بات گول کرنے کی کوشش کی۔
”ابا آج چھت پر ہی سو رہا ہے۔” گلشن نے بے حد جتانے والے انداز میں اسے بتایا۔
وہ جھنجھلا کر واپس کمرے میں کونے میں پڑی اپنی چار پائی پر آگئی۔
”بڑی خوش قسمت ہے تو زری! سچی مجھے بڑا رشک آرہا ہے تجھ پر۔”
”مجھے نہیں چاہیے ایسی قسمت… میں جمال کے بغیر مر جاؤں گی۔” زری نے بے حد غصے سے کہا۔
”انسان روٹی کے بغیر مر جاتا ہے، دوائی کے بغیر مر جاتا ہے۔ محبت کے بغیر کوئی نہیں مرتا۔” گلشن نے بے حد اطمینان سے کہا۔
”تو تم کیوں نہیں کر لیتیں کر م سے شادی؟” زری نے تڑخ کر کہا۔
”اگر وہ لوگ مجھے پسند کر کے گئے ہوئے تو ہنس کر کرتی میں اس سے شادی۔” گلشن نے دوبدو کہا۔

Loading

Read Previous

من و سلویٰ — قسط نمبر ۷

Read Next

من و سلویٰ — قسط نمبر ۹

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!