من و سلویٰ — قسط نمبر ۸

سعید نواز نے شیراز اور شینا کے برعکس بے حد خوش دلی اور گرم جوشی سے آگے بڑھ کر زینی کا استقبال کیا۔ شیراز اور شینا اب سعید نواز کے عقب میں تھے، شیراز یک دم ہر قسم کا پروٹوکول اور ادب آداب بھول گیا تھا۔ اسے یہ بھی یاد نہیں رہا تھا کہ اسے آگے بڑھ کر اشتیاق رندھاوا سے مصافحہ کرنا تھا وہ آگے بڑھتا تو اس کو اشتیاق ہی نہیں زینی سے بھی علیک سلیک کرنی پڑتی اور یہ ممکن ہی نہیں تھا۔ زینی اس بار اسے نہ پہچانتی۔
اپنے سے دو فٹ کے فاصلے پر دیکھ کر وہ کس طرح ری ایکٹ کرتی۔ یہ سول سروسز اکیڈمی نہیں تھی، جہاں وہ لوگوں کے ہجوم میں چھپ جاتا، یہاں وہ ہزار معجزوں کی دعائیں کرتا تب بھی معجزہ ہونے والا نہیں تھا۔
”اور یہ میرے داماد… شیراز اکبر۔”
سعید نواز اب بیچ میں سے ہٹ گئے تھے۔ وہ اشتیاق سے اس کا تعارف کرواتے ہوئے بولے۔ زینی نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا۔ شیراز اشتیاق رندھاوا سے ہاتھ ملا رہا تھا اور اس کے چہرے پر مسکراہٹ ہونے کے باوجود اس کے چہرے کا رنگ اڑا ہوا تھا۔ وہ اشتیاق کے ساتھ کھڑی تھی۔ اشتیاق سے ہاتھ ملانے کے بعد شیراز کے لیے سب سے مشکل ترین مرحلہ تھا۔ اسے زینی سے علیک سلیک کرنا تھی۔ اس سے نظریں ملاتے ہوئے۔ وہ اسے اب تک پہچان چکی تھی، اس بارے میں تو شیراز کوکوئی خوش فہمی نہیں تھی۔ لیکن پہچاننے کے بعد وہ اس سے اس طرح کیسے مل سکتی تھی جس طرح ملی تھی۔ بے حد خوش دلی کے ساتھ چہرے پر مسکراہٹ لیے۔
شیراز کو اپنی خوش قسمتی پر یقین نہیں آیا۔ زینی کے انداز میں کوئی شناسائی نہیں تھی اور پھر اسے خیال آیا کہ اس سے کوئی شناسائی ظاہر کرنا وہ بھی افورڈ نہیں کر سکتی تھی وہ بھی اشتیاق رندھاوا کے ساتھ آئی تھی۔ اکیلے آتی تو شاید صور تحال مختلف ہوتی۔ اس خیال نے یکدم جیسے شیراز کو دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کر دیا تھا۔ ابھی وہ اتنا بے بس نہیں ہوا تھا جتنا اس نے خود کو سمجھ لیا تھا۔ اس میں اس کی اور زینی کی پوزیشن تقریباً ایک جیسی آکورڈ تھی، پھر وہ کیوں اتنا خوف زدہ ہو رہا تھا شیراز نے قدرے مطمئن ہوتے ہوئے سوچا۔
زینی تب تک شینا سے مل رہی تھی جس نے اس سے ہاتھ یا گلے ملنے کا کوئی تکلف نہیں کیا تھا۔ اس نے بے حد پر تکلف انداز میں اس سے دور کھڑے کھڑے اسے ہیلو کہنے پر ہی اکتفا کیا۔ ایک بن بلائی ایکٹریس کو وہ اتنی ہی گرم جوشی دکھا سکتی تھی۔
اس نے زینی کو سر سے پاؤں تک دیکھا ہو نہ دیکھا ہو مگر زینی نے اسے سر سے پاؤں تک ہی دیکھا تھا۔ یہ وہ عورت تھی جس نے اس کی زندگی بدل کر رکھ دی تھی۔ جس کے بارے میں وہ ہمیشہ سوچتی رہی تھی۔ جس کی خوش قسمتی پر اس نے ہمیشہ رشک کیا تھا۔
ایک لمحہ کے لیے ”زینی” نے ”پری زاد” کے وجود میں دراڑیں پڑتی دیکھیں۔ پھر اس نے خود کو سنبھالنے کی کوشش کی۔ اسے اس وقت پری زاد کے ماسک کی جتنی ضرورت تھی پہلے کبھی نہیں تھی۔
اشتیاق رندھاوا نے اس کی سوچوں کا تسلسل توڑدیا ۔
اس نے پری زاد کو گھر کے اندر چلنے کے لیے کہا۔ شینا نے بے حد خفگی سے باپ کو دیکھا تھا۔ اسے اشتیاق کی طرف سے پری زاد کو دی جانے والی یہ توجہ بے حد بری لگ رہی تھی۔ سعید نواز نے آنکھیں چرا لی تھیں۔ شینا کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ وہاں واحد نہیں تھی، جسے اشتیاق کا پری زاد پر اس طرح قربان ہونا برا لگ رہا تھا۔ وہ اگر شیراز کے چہرے پر ایک نظر ڈال لیتی تو اسے اندازہ ہو جاتا کہ کم از کم زندگی میں پہلی بار ان دونوں کو ایک ہی چیز بری لگ رہی تھی۔
”گھر بڑا خوبصورت ہے آپ کا۔”
زینی نے ڈرائنگ روم میں بیٹھتے ہی مشروب کا گلاس اٹھایا اور ڈرائنگ روم پر نظر ڈالتے ہوئے سعید نواز سے کہا۔
”میرا تھا میں نے شادی پر بیٹی کو گفٹ کر دیا ہے۔” سعید نواز نے بڑے فخریہ انداز میں مسکراتے ہوئے کہا۔
”اوہ تو شیراز صاحب گھر داماد کے طور پر رہ رہے ہیں یہاں۔”
اس کے اگلے جملے نے شیراز کو جیسے چار سو چالیس وولٹ کا کرنٹ لگایا تھا۔ ڈرائنگ روم میں یک دم خاموشی چھا گئی۔ شینا کے ماتھے پر بلوں میں اضافہ ہو گیا تھا۔ جبکہ زینی بے حد آرام سے مشروب کے گھونٹ بھرتی رہی۔ اس خاموشی کو اشتیاق رندھاوا کے قہقہے نے توڑا تھا۔ جو فہمائشی انداز میں ہنستے ہوئے کہہ رہا تھا۔
”گھر دامادی کے بڑے فائدے ہوتے ہیں پری زاد۔ اور نقصان کوئی نہیں۔ کیوں شیراز صاحب؟”
شیراز کو لگا کسی نے اس کے منہ پر جوتا مارا ہو۔
وہ ایک لفظ نہیں بول سکا۔ سرخ چہرے اور مصنوعی مسکراہٹ کے ساتھ اشتیاق اور سعید نواز کو دیکھتا رہا جو ہنس رہے تھے اور زینی مشروب کا ایک اور گھونٹ لے رہی تھی۔
”ویسے آپ کا اپنا گھر کہاں ہے شیراز صاحب؟ ڈیفنس میں؟”
زینی نے دوسرا گھونٹ لیتے ہوئے ایک بار پھر بڑے اطمینان سے پوچھا۔ شیراز جواب نہیں دینا چاہتا تھا۔ مگر صرف زینی ہی نہیں اشتیاق بھی اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے جواب کا منتظر تھا۔
”جی نہیں۔” شیراز نے مدھم آواز میں کہا۔
”اچھا تو ماڈل ٹاؤن میں ؟”
اس نے ایک بار پھر انجان بنتے ہوئے کہا۔
”نہیں۔” اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور کہتی، سعید نواز نے جیسے شیراز کی مدد کرنے کی کوشش کی اس نے شیراز کے علاقے کا نام بتایا۔ شیراز کی خفت کچھ اور بڑھ گئی۔
”اوہ ۔ اچھا۔” زینی نے یوں ظاہر کیا جیسے اسے بڑی مایوسی ہوئی ہو۔ ”ویسے پتہ نہیں کیوں آپ کو دیکھ کر مجھے یوں لگتا ہے جیسے میں آپ کو پہلے کہیں دیکھ چکی ہوں۔”
شیراز کی جیسے جان نکل گئی تھی۔ ڈرائنگ روم میں بیٹھا ہر شخص چونک کر شیراز کو دیکھنے لگا تھا۔
”آپ کے والد صاحب کیا کرتے ہیں؟” اس نے دوسرا چابک مارتے ہوئے کہا۔
شیراز کا جسم ٹھنڈا ہونے لگا تھا۔ اس بار مدد وہاں سے آئی جہاں سے وہ زندگی بھر توقع نہیں کر سکتا تھا۔
”آپ کے والد صاحب کیا کرتے ہیں؟”
یہ شینا تھی جس نے بے حد طنزیہ انداز میں پری زاد سے پوچھا۔
اس کا اگر یہ خیال تھا کہ باپ کے تذکرے پر پری زاد کے منہ سے کوئی جواب نہیں نکل سکے گا۔ تو اسے مایوسی ہوئی تھی۔
”وہ انکم ٹیکس میں کلرک تھے۔ ضیاء نام تھا ان کا۔ بتیس سال سروس کی انہوں نے۔ پھر ان کا انتقال ہو گیا۔ آپ نے بتایا نہیں شیراز صاحب! آپ کے والد صاحب کیا کرتے ہیں؟”
مصیبت ٹلی نہیں تھی۔ اس نے ایک سانس میں شینا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے بے حد فخریہ انداز میں اپنے والد کے بارے میں بتایا تھا اور پھر اسی سانس میں شیراز سے دوبارہ پوچھا تھا۔
”شیراز کے والد سول سروسز اکیڈمی میں تھے۔ سرکاری افسر تھے۔” سعید نواز نے بے اختیار مداخلت کی۔ زینی کے سوال اب اسے بھی چبھنے لگے تھے۔ زینی اس کے جواب پر بے اختیار ہنسی۔
”اوہ۔ پھر تو مجھے یقینا غلطی ہوئی ہے۔” اس نے مشروب کا گھونٹ لیتے ہوئے کہا۔
”اصل میں ہمارے محلے میں ایک لڑکا ہوتا تھا۔ باپ شاید میٹر ریڈر تھا اس کا۔ لڑکا بڑا لائق تھا سی ایس ایس کر لیا تھا اس نے، سنا ہے بڑی اچھی پوزیشن لی تھی اس نے۔ لیکن اس کے بعد اس نے اپنی منگیتر سے منگنی توڑ کر کسی سرکاری افسر کی بیٹی سے شادی کر لی ۔”
اس بار صرف شیراز کا رنگ فق نہیں ہوا تھا۔ سعید نواز اور شینا کا رنگ بھی بدل گیا تھا۔ وہ بڑے آرام سے بیٹھی شیراز کی لائف ہسٹری انہیں بتا رہی تھی۔
”ہوتے ہیں ایسے کتے آدمی بھی۔” اشتیاق چند لمحوں کے لیے یہ بھول گیا تھا کہ وہ کسی کے ڈرائنگ روم میں ہے۔
”لیکن سعید نواز تو ایسے آدمی کو اپنے گھر تک میں نہ گھسنے دیں، کہاں یہ کہ اس سے رشتہ داری کر لیں۔ کیوں سعید صاحب! ”زینی نے اگر جوتا شیراز کے منہ پر مارا تھا تو اشتیاق کی کہی ہوئی بات جوتا بن کر سعید نواز کو لگی تھی۔
” جی۔ جی۔ بالکل۔” وہ بے حد بوکھلا گیا۔
”میرا خیال ہے کھانا لگ گیا ہے۔ آئیں کھانا کھائیں۔” اس نے بات بدلنے کی کوشش کی تھی۔
”آپ لوگ کھائیں۔ میرا تو بالکل موڈ نہیں ہو رہا یہاں سے اٹھنے کا۔” زینی نے بڑے اطمینان سے مشروب کا خالی گلاس سائیڈ ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا۔
”تو یہیں منگوا لیتے ہیں کھانا۔ اگر سعید صاحب کو زحمت نہ ہو تو۔” اشتیاق بھی دوبارہ صوفے پر بیٹھ گیا۔
”نہیں نہیں زحمت کیسی۔ یہیں کھانا سرو کروا لیتے ہیں۔”
سعید نواز نے مصنوعی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
جبکہ شینا نے کھا جانے والی نظروں سے زینی کو دیکھا۔ اس کا بس چلتا تو وہ اس دو ٹکے کی ایکٹریس کو اٹھا کر اپنے گھر سے باہر پھنکوا دیتی جو ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر یوں ادائیں دکھا رہی تھی جیسے وہ وہاں چیف گیسٹ کے طور پر آئی ہو۔ اسے صرف زینی ہی نہیں بلکہ اشتیاق رندھاوا بھی اتنا ہی برا لگ رہا تھا۔
چند لمحوں میں ڈرائنگ روم سے منسلک ڈائننگ روم کی ٹیبلز سے ملازموں نے کھانا لالا کر ڈرائنگ روم میں بیٹھے لوگوں کو سرو کرنا شروع کر دیا۔ جیسے ہی نوکر وہاں سے غائب ہوئے۔ زینی نے بڑے انداز سے اپنی ڈنر پلیٹ اٹھا کر شیراز کی طرف بڑھائی۔
”اگر آپ کو زحمت نہ ہو تو شیراز صاحب تو اس میں کچھ بریانی لا دیں۔”
اس بار پہلی بار شیراز کا دل چاہا وہ زینی کے چہرے پر ایک تھپڑ کھینچ مارے۔ بے عزتی کی کوئی حد ہوتی ہے۔ وہ اتنی زحمت نہیں کر سکتی تھی کہ اٹھ کر ٹرالی سے بریانی لے لیتی۔ اور اگر وہ اٹھ نہیں سکتی تھی تو اسے شیراز کو حکم دینے کے بجائے شینا کی مدد مانگنی چاہیے تھی۔
”اور مجھے کچھ کڑاہی گوشت لا دیں۔”
اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا اشتیاق رندھاوا نے بھی اس کی طرف اپنی پلیٹ بڑھائی تھی شیراز کا دل چاہا۔ وہ اٹھ کر وہاں سے بھاگ جائے۔
”میں ملازم کو بلاتا ہوں، وہ سرو کرتا ہے ہمیں۔” سعید نے سائیڈ ٹیبل پر پڑی بیل کے بٹن کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا۔
”ملازم کی کیا ضرورت ہے۔ میں رندھاوا صاحب سے کہتی تو وہ مجھے کھانا ڈال کر لا دیتے۔ کیوں رندھاوا صاحب؟”
زینی نے جیسے برا مان کر کہا۔
”بالکل۔ تم حکم تو کرو پری زاد۔ کوئی ضرورت نہیں ملازم کی۔ میں خود لا دیتا ہوں کھانا۔” رندھاوا نے زینی کے ہاتھ سے پلیٹ لیتے ہوئے کہا۔
”نہیں۔ نہیں رندھاوا صاحب میں نے تو ایسے ہی کہہ دیا۔ آپ آرام سے بیٹھیں۔ شیراز سرو کر دے گا ہمیں۔”
سعید نواز نے اندر آتے ہوئے ملازم کو ہاتھ کے اشارے سے باہر جانے کا کہا۔ وہ اندر سے پیچ و تاب کھا رہے تھے۔ شیراز نے کچھ کہنے کے بجائے اٹھ کر ان دونوں سے پلیٹیں لے لی تھیں۔
شینا نے اسے کھانا سرو کرتا دیکھ کر اپنی پلیٹ رکھ دی۔ اس کی بھوک یک دم ختم ہو گئی تھی۔ اسے سعید نواز اور شیراز دونوں پر بے تحاشا غصہ آرہا تھا۔
اس رات سعید نواز کے ڈرائنگ روم میں صرف زینی اور اشتیاق رندھاوا نے کھانا کھایا تھا۔ شینا ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھی تھی، اور شیراز کھانا سرو کرتا رہا تھا۔ زینی نے اتنا کھانا کھایا نہیں تھا لیکن ہر چیز کے لیے شیراز کو دوڑایا ضرور تھا۔
وہ بار بار پلیٹیں بدلتی رہی تھی اور اس کے سامنے بھری ہوئی پلٹیوں کا ایک ڈھیر اکٹھا ہو گیا تھا۔ وہ صرف کھانا منگوا رہی تھی اور یہ چیز شینا اور سعید نواز دونوں نے نوٹ کر لی تھی۔
کھانے کے دوران ہی سعید نواز نے اشتیاق رندھاوا سے ان معاملات کے بارے میں بات کی، جس کے لیے اس نے دراصل اسے بلوایا تھا۔ شیراز کویقین تھا وہ ان معاملات کے بارے میں بھی کچھ نہ کچھ ضرور کہے گی۔ مگر خلاف توقع وہ خاموش رہی تھی۔ صرف شیراز کی پوسٹنگ کی بات پر اس نے بے حد معنی خیز انداز میں مسکراتے ہوئے شیراز کو دیکھا تھا۔ جو نظریں چرا گیا تھا۔
جس وقت وہ جانے کے لیے گھر کے پورٹیکو تک پہنچے۔ شیراز نے خداکا شکر ادا کیا تھا۔ سعید نواز کا موڈ بھی بے حد خوشگوار تھا کیونکہ تمام معاملات طے پا گئے تھے۔ اور وہ اب پہلے سے بڑھ کر رندھاوا کے سامنے بچھ رہا تھا۔
لاؤنج کے دروازے سے باہرنکلتے نکلتے زینی رک گئی اور اس نے بے حد معصومیت سے شیراز سے کہا۔
”ارے میں اپنے جوتے تو ڈرائنگ روم میں بھول ہی گئی۔ شیراز صاحب ذرا میرے جوتے تو اندر سے لا دیں۔”
وہ ساڑھی میں ملبوس تھی اور کسی نے بھی اسے ڈرائنگ روم میں جوتے چھوڑتے نہیں دیکھا تھا۔ وہ نہ کہتی تو شاید کسی کو پتہ بھی نہ چلتا کہ وہ اس وقت جوتوں کے بغیر ہے۔
سعید نواز، شیراز اور شینا تینوں ایک دوسرے کو دیکھ کر رہ گئے تھے۔ وہ مسکراہٹیں جو چند لمحے پہلے تک ان تینوں کے چہروں پر تھیں، وہ اب غائب ہو گئی تھیں۔ اس سے پہلے کہ سعید نواز پورچ میں کھڑے کسی ملازم کو جوتے لانے کے لیے اندر بھجواتا اور اپنے داماد کی بچی کھچی عزت بچانے کی کوشش کرتا۔ اشتیاق نے ہنستے ہوئے شیراز سے کہا۔
”ہاں… ہاں… شیراز صاحب! پری زاد کا جوتا لا دیں۔ بڑے خوش قسمت ہیں آپ کہ آپ کو پری زاد کا جوتا اٹھانے کی سعادت نصیب ہو رہی ہے۔”
شیراز نے اس بار کسی کی طرف نہیں دیکھا، اس نے صرف بے حد شاکی نظروں کے ساتھ مسکراتی ہوئی زینی کو دیکھا اور اندر چلا گیا۔
”بہت بری عادت ہے میری، جہاں جاؤں جوتے اتار دیتی ہوں۔ اچھی عادت نہیں ہے نا رندھاوا صاحب؟”
اس نے پہلے معذرات خواہانہ انداز میں سعید نواز سے کہا پھر بڑی ادا سے اشتیاق رندھاوا سے۔
”کیوں، اچھی عادت نہیں ہے پری زاد! ہم غلام ہیں نا جوتے اٹھانے کے لیے۔ تم ایک بار کیا دس بار جوتے اتار دو۔ ” اس سے پہلے کہ زینی کچھ کہتی، شیراز اس کے سینڈلز لے کر باہر آگیا۔ اس نے تقریباً پھینکنے والے انداز میں سینڈلز کو زینی کے پیروں میں رکھا اور جیسے اپنے پیروں پر کلہاڑی ماری۔
زینی نے ایک لمحہ ضائع کیے بغیر اس سے کہا۔
”شیراز صاحب! ذرا انہیں پہنا بھی دیں۔” اس نے اپنی ساڑھی پیروں سے کچھ اوپر اٹھا لی تھی۔ شیراز کے ہاتھ کانپنے لگے تھے۔ زینی اتنا ذلیل کیسے کر سکتی تھی اسے۔
”شیراز صاحب! مجھے تو اب حسد ہونے لگا ہے آپ سے۔ ارے ایسے ناز تو پری زاد نے کبھی ہم سے بھی نہیں اٹھوائے۔”
اشتیاق نے ہنستے ہوئے سعید نواز کے کندھے پر ہاتھ مارا۔ سعید نے بھی ہنسنے کی کوشش کی تھی۔ جوتے نہ پہنانے کا سوال ہی نہیں تھا۔ شیراز نے زمین پر بیٹھ کر زینی کے پیروں میں سینڈلز پہنا دیے۔ اس وقت اس کا دل چاہا تھا زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائے۔
یہ سب کچھ اگلے بہت دنوں تک گھر کے ان نوکروں کی زبان پر رہنا تھا جو اس وقت وہاں آس پاس موجود تھے۔
”آپ سے مل کر بڑی خوشی ہوئی شیراز صاحب! اب ملتے رہیں گے۔ ” اس کے سیدھا کھڑا ہونے پر زینی نے اس سے کہا تھا۔ شیراز نے کوئی جواب نہیں دیا۔
گاڑی کے پورٹیکو سے نکلتے ہی شینا پاؤں پٹختے ہوئے وہاں سے اندر چلی گئی تھی۔ شیراز نے جیب سے رومال نکال کر اپنے ماتھے کو خشک کیا۔ سعید نواز کے چہرے پر اب کسی قسم کی کوئی مسکراہٹ نہیں تھی۔ وہ بے حد سرد مہری کے ساتھ باہر جاتی گاڑی کو دیکھ رہا تھا۔ اور جیسے ہی وہ گاڑی گیٹ سے نکلی، سعید نواز بھی اندر چلا گیا۔
شیراز نے فوری طور پر ان کے پیچھے اندر جانے کی کوشش نہیں کی۔ وہاں اس کا کیا حال ہونے والا تھا، وہ نہیں جانتا تھا۔ اس کا دل ڈوب رہا تھا۔ وہ اس کی زندگی کی بدترین رات تھی۔ وہاں کھڑے اس نے سوچا تھا۔ یہ اس کی غلط فہمی تھی۔
٭٭٭

Loading

Read Previous

من و سلویٰ — قسط نمبر ۷

Read Next

من و سلویٰ — قسط نمبر ۹

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!