من و سلویٰ — قسط نمبر ۸

”کیوں؟” کیا میرا کوئی حق نہیں ہے تم پر؟” اس کی ماں کی آنکھوں میں ایک بار پھر آنسو آگئے۔
”حق ہے آپ کا بلکہ سارے حق آپ کو ہی ہیں۔ جب میں شادی کروں گا آپ ہی کی پسند اور مرضی سے کروں گا لیکن فی الحال میں شادی کرنا نہیں چاہتا۔”
کرم علی نے بے حد نرم آواز میں ماں کو قائل کرنے کی کوشش کی۔
”اور وہ جو بے چارے شادی کی تیاریاں کر کے لوگوں میں دعوت نامے بھی بانٹ چکے ہیں۔ ان کا کیا ہو گا؟ اس لڑکی کے ماں باپ کیا کریں گے اگر اس وقت ہم نے انہیں تمہارا شادی سے انکار پہنچایا؟ وہ تو جیتے جی مر جائیں گے اور وہ بے چاری لڑکی کرم علی! مجھے بد دعاؤں سے بڑا ڈر لگتا ہے میں کسی کی آہ نہیں لینا چاہتی۔”
اس کی ماں نے یک دم پینترا بدلتے ہوئے کہا۔ ”آپ انہیں سمجھا دیں۔ سارا الزام میرے سر پر ڈال دیں۔ بلکہ میری طرف سے معافی مانگ لیں۔ مجھ سے نہیں ہو گی تو کسی نہ کسی سے تو ہو جائے گی اس لڑکی کی شادی۔” کرم علی نے کہا۔
وہ واقعی اس صورت حال سے بہت پریشان ہو رہا تھا۔ بیٹھے بٹھائے ایک مصیبت اس کے گلے پڑ گئی تھی۔
”وہ غریب لوگ ہیں امیر ہوتے تو انہیں مسئلہ نہ ہوتا لیکن اب لوگ لاکھ باتیں کریں گے لڑکی کے بارے میں، تمہیں تو پتا ہے ہمارے لوگوں کا۔”
”آپ انہیں کچھ رقم دے دیں بلکہ جتنی بھی رقم وہ چاہیں انہیں دے دیں۔ ہماری غلطی ہے ہمیں اس کا کچھ خمیازہ تو بھگتنا چاہیے۔” کرم علی نے فوراً سے پیشتر تجویز پیش کی۔ اگرچہ وہ جانتا تھا کہ یہ تجویز بے حد نامناسب تھی۔
اس سے پہلے کہ اس کی ماں کچھ کہتی کرم علی وہاں سے اٹھ گیا اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ جب تک وہ وہاں بیٹھا رہے گا یہ بحث اسی طرح چلتی رہے گی مگر یہ اس کی بھول تھی کہ اس کے وہاں سے ہٹ جانے سے معاملہ ختم ہو جائے گا۔ اسے اندازہ بھی نہیں تھا کہ اس کی ماں اور گھر والوں کے لیے یہ مسئلہ اب ان کی ناک کا مسئلہ تھا۔ وہ اتنی آسانی اور آرام سے پورے معاملے کو گول کر کے کرم علی کو ایک بار پھر بھاگنے کا موقع نہیں دے سکتے تھے۔
اگلے تین دن اس کی ماں اس کے گھر رہی۔ نہ صرف یہ بلکہ اس کے بہن بھائی بھی وہاں آگئے۔ اسے اس بات پر بے حد خجالت اور سبکی کا احساس ہو رہا تھا کہ وہ سب اس طرح اکٹھے اس سے اس کی زندگی کے ایک ایسے مسئلے پر بات کر رہے تھے جس کا ان میں سے کسی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا۔
دوسری طرف اسے اس فیملی اور اس لڑکی سے بھی ہمدردی ہو رہی تھی جو خواہ مخواہ اس کے گھر والوں کی جلد بازی کی وجہ سے اس سارے مسئلے میں آگئی تھی۔ اور کہیں نہ کہیں کرم علی کو احساس جرم بھی ہو رہا تھا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی وہ اپنے آپ کو مجرم سمجھ رہا تھا جو بے عزتی کی تلافی پیسے کے ذریعے کروانا چاہ رہا تھا۔ وہ زندگی میں پہلی بار ایک عجیب مخمصے کا شکار ہو رہا تھا۔
بعض دفعہ اسے لگتا۔ اسے شادی کر لینی چاہیے تھی۔ اب اس صورت حال کا اس سے زیادہ مناسب حل نہیں ہو سکتا تھا۔ کیونکہ انکار کی صورت میں وہ اپنی ماں اور گھر والوں کی ناراضی کے احساس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں کسی لڑکی کے ساتھ کی جانے والی زیادتی کا احساس جرم بھی اپنے کندھوں پرلے کر پھرتا اور یہ آخری چیز تھی جو اسے زیادہ پریشان کرنے لگی تھی۔ صرف یہ ایشو تھا جس کے بارے میں وہ اپنے گھر والوں کو ٹھیک سے جواب نہیں دے پاتا تھا اور انہوں نے اس کی کمزوری بھانپتے ہوئے اسی ایک بات پر اسے بلیک میل کرنا شروع کر دیا تھا کہ اس کی ضد کی وجہ سے ایک لڑکی کی زندگی اور نیک نامی خراب ہو جانے والی تھی۔
شادی کی تاریخ سے چار دن پہلے کرم علی بالآخر زری سے شادی پر تیار ہو گیا تھا۔ وہ بے حد خفا تھا لیکن اس کی ماں اور گھر والوں کے لیے اتنا ہی کافی تھا کہ وہ سب کی بات مان گیا تھا۔ شادی پر رضامند ہو جانے کے باوجود وہ فوری طور پر شادی کے لیے پاکستان نہیں جا سکتا تھا۔ اگلے تین ہفتے وہ کینیڈا میں بے حد مصروف تھا۔
اس کے گھر والوں نے شادی کی تاریخ میں کوئی تبدیلی کرنے کے بجائے شادی کی اسی تاریخ کو برقرار رکھا۔ وہ کرم علی کے حوالے سے کوئی رسک نہیں لینا چاہتے تھے۔
کرم علی اور زری کا نکاح فون پر کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس وقت تک کرم علی زری کے بارے میں اس کے نام، خوب صورتی اورغربت کے علاوہ کسی چوتھی چیز سے واقف نہیں تھا۔ حتیٰ کہ اس کی خوب صورتی کی تعریفیں سننے کے باوجود اس نے زری کی تصویر تک نہیں دیکھی تھی۔ اور زری کی عمر اور اس کی مرضی کے بارے میں وہ بالکل بے خبر تھا۔ اگر اس کے گھر والے اسے کہیں پہلے یہ بتا دیتے کہ زری اور اس کی عمر میں اتنا فرق ہے تو کرم علی کسی صورت اس شادی پر تیار نہ ہوتا، اسے اسوقت زری قربانی کا ایک بکرا لگتی جو ماں باپ کی مرضی سے قربان کیا جا رہا تھا اور شاید اس شادی سے انکار کرنے کی وجہ لڑکی کی کم عمری ہوتی مگر یہ کرم علی کی بدقسمتی تھی کہ کسی نے اس کے سامنے زری کی عمر کا ذکر نہیں کیا۔
٭٭٭
شیراز، سعید نواز کا داماد تھا۔ یہ جاننے میں زینی کو زیادہ وقت نہیں لگا تھا اور سعید نواز کی بیٹی شینا کے بارے میں اسے معلومات حاصل کرنے میں اس سے بھی کم وقت لگا تھا۔ اسے شینا کی پہلی شادی اور بچے کے بارے میں بھی پتہ چل گیا تھا۔ شیراز نے گھاٹے کا سودا کیا تھا مگر اس سودے میں اسے کتنا گھاٹا ہوا تھا وہ اگر کبھی اس سے ملتی تو ضرور جاننا چاہتی لیکن اسے یہ توقع نہیں تھی کہ اس کی شیراز کے ساتھ ملاقات یوں اچانک ہونے والی تھی، نہ ہی شیراز کے فرشتوں کو یہ خبر تھی کہ وہ قیامت بن کر سیدھا اس کے گھر پر اترنے والی تھی۔
وہ اس شام اشتیاق رندھاوا کے ساتھ تھی اور اسے اشتیاق کے ساتھ کسی سرکاری افسر کے گھر ڈنر پر جانا تھا۔ کوئی اور منسٹر ہوتا توجس اداکارہ کے ساتھ پھرتا، اس کو سات پردوں میں چھپا کر رکھتا کہاں یہ کہ… رندھاوا ان دنوں زینی کے ساتھ کھلے عام پھرا کرتا تھا۔ اس نے پریس میں کبھی اپنے اور پری زاد کے افیئر کی تردید نہیں کی تھی۔ اور پرائیویٹ میں وہ بلا جھجک پری زاد کے ساتھ اپنی محبت کا اعتراف کرتا تھا۔
اس رات بھی زینی اس کے ساتھ یہی سوچ کر گئی تھی کہ وہ اسے اپنے کسی واقف کار کے گھر لے جا رہا تھا۔ افسر کا نام کیا تھا اسے اس میں دلچسپی نہیں تھی۔ لیکن اس گھر کے ڈرائیو وے پر گاڑی میں بیٹھے دور پورٹیکو میں استقبال کے لیے کھڑے تین لوگوں میں سے ایک کو دیکھ کو وہ پچھتائی اسے اشتیاق رندھاوا سے اس افسر کا نام پوچھ لینا چاہیے تھا۔ زینی کے دل کی دھڑکن بڑھ گئی تھی۔ وہ شیراز کا گھر تھا۔ یا پھر شاید سعید نواز کا۔ اگلے چند لمحوں میں اسے پتا چل جاتا۔
شیراز بے حد ہشاش بشاش موڈ میں شینا اور سعید نواز کے ساتھ اشتیاق رندھاوا کو ریسیو کرنے کھڑا تھا۔ وہ اشتیاق کی نجی مصروفیات تھیں اور وہ اپنی سرکاری گاڑی کے بجائے ذاتی گاڑیوں میں سے ایک استعمال کر رہا تھا، جسے اس کا ذاتی ڈرائیور چلا رہا تھا۔
گاڑی ڈرائیووے پر ان کی طرف آرہی تھی اور پورٹیکو سے ابھی کچھ فاصلے پر ہی تھی جب شیراز نے بھی زینی کو گاڑی کی عقبی سیٹ پر اشتیاق رندھاوا کے ساتھ دیکھ لیا۔ وہ ایک پل میں برف کا بت بن گیا تھا۔
اشتیاق رندھاوا کو سعید نواز نے اپنی ایکسٹینشن اور ایک پرمٹ کے حصول کے ساتھ ساتھ شیراز کی ایک دوسری جگہ پوسٹنگ کے لیے گھر میں ڈنر پر بلایا تھا۔ سعید نواز کے ساتھ اس کی اچھی علیک سلیک تھی اور سعید نواز نے یہ ڈنر اپنے گھر کے بجائے ان دونوں کے گھر پر ارینج کر لیا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ شیراز کو خاص طور پر اشتیاق رندھاوا سے متعارف کروائے۔
اور اب اشتیاق کے ساتھ گاڑی میں موجود دوسرے فرد نے شیراز کے سارے جوش و جذبے پر وزیر داخلہ کے گھر پر آنے کے احساس تفاخر کو مٹی کر دیا تھا۔
وہ اس کے ساتھ کیوں آئی تھی؟ وہاں اس کے گھر اس وقت شیراز کو اشتیاق رندھاوا کی وہ آمد اور ملاقات بھی کوئی سازش لگ رہی تھی۔
”یہ پری زاد کو کیوں اٹھا لایا ہے ساتھ؟” شینا نے بھی اس کی طرح دور سے اسے دیکھ لیا تھا اور اس نے سعید نواز سے بڑبڑاتے ہوئے پوچھا۔ اس سے پہلے کہ سعید نواز کوئی جواب دیتا گاڑی پورٹیکو میں آکر رک گئی۔
سعید نواز کے دو ملازمین نے آگے بڑھ کر گاڑی کے دروازے کھولے اشتیاق پہلے گاڑی سے اترا تھا اور اترنے کے بعد وہ سعید نواز سے ملنے کے بجائے دوسری طرف سے اترنے والی پری زاد کا منتظر رہا تھا۔
”دیکھیں سعید صاحب! ہم کس کو اپنے ساتھ لے کر آئے ہیں۔” اس نے بڑی خوش دلی کے ساتھ زینی کو ان سے متعارف کرواتے ہوئے کہا۔
”ارے رندھاوا صاحب! یہ تو خوش قسمتی ہے ہماری کہ آج آپ کے ساتھ ساتھ پری زاد نے ہمارے غریب خانے پر آنے کی زحمت کی۔”

Loading

Read Previous

من و سلویٰ — قسط نمبر ۷

Read Next

من و سلویٰ — قسط نمبر ۹

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!