من و سلویٰ — قسط نمبر ۸

”گلاس کہاں رکھنا ہے مجھے؟” زینی نے لیمونیڈ کا آخری سپ لیتے ہوئے کرم علی سے کہا۔
”مجھے دے دیں۔” کرم علی نے ہاتھ بڑھا کر گلاس اس کے ہاتھ سے لے لیا۔ زینی نے بات بدل دی تھی۔ کرم علی نے محسوس کر لیا تھا۔ اس نے دوبارہ زینی سے فیملی کے بارے میں سوال نہیں کیا تھا۔
”آئیے، آپ کو گھر دکھاتا ہوں۔” بار کے کاؤنٹر پر گلاس رکھتے ہوئے کرم علی نے پلٹ کر اس سے کہا۔ آخری چیز جس میں زینی کو دلچسپی ہو سکتی تھی۔ وہ اس گھر کو دیکھنا تھا۔
”اوہ ضرور۔۔۔۔” اس نے مصنوعی مسکراہٹ کے ساتھ کہا اور کرم علی کے ساتھ چل پڑی۔
(آخر گھر اور گھر میں رکھی ہوئی چیزیں نہیں دکھاؤ گے تو مجھے پتہ کیسے چلے گا کہ تمہارے پاس کتنا پیسہ ہے۔ مجھے مرعوب کیسے کرو گے تم؟)
اس نے کرم علی کے ساتھ چلتے ہوئے سوچا تھا وہ اسے گھر دکھاتے ہوئے مختلف کمروں اورچیزوں کے بارے میں بتا رہا تھا۔ وہ مسکراتے ہوئے بہت زیادہ دلچسپی ظاہر کرتے ہوئے سوچ رہی تھی کہ اسے آج واپسی پر پاکستان کس کس کو کال کرنا تھی۔ کل کا شیڈول کیا تھا؟ دو ہفتے کینیڈا میں قیام کے دوران اسے کیا کیا کرنا تھا اور دو ہفتے کے بعد پاکستان کے بعد اس کی کون سی فلم کی ڈیٹس تھیں اور اس کی ایک کمرشل کی شوٹنگ، وہ اس کے ساتھ گھر میں پھرتے ہوئے اپنے اگلے مہینے کا شیڈول پلان کرتی رہی۔ اس گھر میں اس کی عدم دلچسپی کا یہ عالم تھا۔
وہ اب گھر کے اوپر والے فلور پر تھا۔ وہ اسے ٹیرس پر لے گیا اور وہ اس لاؤنج کی کھڑکی کے بعد وہ دوسری جگہ تھی، جہاں جا کر کھڑا ہونا زینی کو اچھا لگا تھا۔
”آپ کو پتہ ہے، میں نے آ پ کو پہلی بار کہاں دیکھا تھا؟”
وہ کچھ دیر چپ چاپ وہاں کھڑے وہاں سے نظر آنے والے منظر کو دیکھتے رہے پھر کرم علی نے یک دم خاموشی توڑی۔
(کسی اشتہار میں، کسی میگزین میں، ٹی وی کے کسی انٹرویو میں، کسی فلم کی اسکرین پر، کسی سینما کی ہورڈنگز پر) زینی نے جواب جانتے ہوئے بھی اپنے چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ سجاتے ہوئے اس سے پوچھا۔
”کہاں؟”
”دوبئی۔ ای پی بی پی کے ایک فیشن شو میں آج سے چند سال پہلے۔” اس نے اسے تاریخ بتائی۔
زینی کے پیٹ میں جیسے کسی نے گھونسہ دے مارا تھا۔ وہ اس دن، اس تاریخ اور اس فیشن شو کو بھول جانا چاہتی تھی۔
”نیچے چلیں۔” کرم علی کچھ اورکہہ رہا تھا، جب زینی نے یک دم اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا اور پھر مزید انتظار کیے بغیر پلٹ کر نیچے جانے لگی۔ کرم علی نے بے حد حیرت کے ساتھ اسے دیکھا مگر کچھ کہنے کے بجائے اس کے پیچھے آگیا۔
”آپ کو میری کوئی بات بری لگی زینی؟”
زینی کو جیسے کرنٹ لگا تھا۔ اس نے ایک جھٹکے سے پلٹ کر کرم علی کو دیکھا۔ اس کے تاثرات نے کرم علی کو کچھ کنفیوز کیا۔
”کیا ہوا؟”
”آپ نے کیا کہا مجھے؟”
”کیا؟” کرم علی کی سمجھ میں نہیں آیا۔
”کیا نام لیا آپ نے میرا؟”
”زینی!” کرم علی نے چند لمحوں کی خاموشی کے بعد کہا۔
”آپ کو میرا نام کیسے پتہ چلا؟”
”میں نے اس فیشن شو میں کسی کو آپ کو اس نام سے پکارتے سنا تھا۔” کرم علی نے قدرے معذرت خواہانہ انداز میں کہا۔
”میں بیک اسٹیج گیا تھا تو کوئی آپ کو اس نام سے بلا رہا تھا۔ مجھے یہ نام اچھا لگا۔” زینی پلکیں جھپکائے بغیر اس کو دیکھتی رہی۔ وہ اس رات بیک اسٹیج کب آیا تھا؟ اور وہ اسے کس حد تک جانتا تھا۔ وہ اور الجھی تھی۔
”آپ مجھ کو پری زاد کے نام سے پکاریں۔”
اس نے چند لمحوں کی خاموشی کے بعد یک دم کرم علی سے کہا اور پلٹ کر سیڑھیاں اترنے لگی۔ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ اسی وقت وہاں سے چلی جائے۔ وہ کرم علی کے پاس مزید نہیں ٹھہرنا چاہتی تھی۔ اس کی موجودگی اور باتیں اسے بے حد عجیب انداز میں ڈسٹرب کر رہی تھیں۔ وہ کوشش کے باوجود اس سے نرمی سے بات نہیں کر پا رہی تھی۔ نہ چاہتے ہوئے بھی تلخ ہو رہی تھی۔
”شاید یہ کل کے سفر کی وجہ سے ہے۔”
سیڑھیاں اترتے ہوئے اس نے سوچا، ورنہ بظاہر آج ایسی کوئی بات نہیں ہوئی تھی کہ وہ اس طرح ری ایکٹ کرتی جس طرح وہ کر رہی تھی۔ اس کے باوجود کہ ابھی کرم علی نے اسے فلم میں کاسٹ کرنے کی ہامی نہیں بھری تھی۔
”کھانا لگ گیا ہے۔” سیڑھیوں کے سامنے کھڑی ہاؤس کیپر نے ان دونوں کو آگے پیچھے نیچے اترتا دیکھ کر مسکراتے ہوئے اطلاع دی۔
زینی کا دل چاہا، وہ اس سے کہے کہ اسے بھوک نہیں ہے اور کم از کم اس وقت تو… لیکن اس نے خاموش رہ کر خود کو ایک مرتبہ پھر کمپوز کرنے کی کوشش کی۔
اس کا رویہ صرف اس کی نہیں، کرم علی کی بھی سمجھ سے باہر تھا۔ اس کا اندازہ تھا کہ وہ اس کی باتوں پر مسلسل الجھ رہی ہے اور کرم علی کا خیال تھا کہ وہ ان باتوں پر خوشی کا اظہار نہ بھی کرتی تو کم از کم اس طرح اپ سیٹ نہ ہوتی۔ پری زاد کا مسئلہ کیا تھا؟ یہ اگر اسے چند سال پہلے سمجھ میں نہیں آیا تھا تو آج بھی نہیں آیا تھا۔ شاید اس کے حسن، خوبصورتی اور شہرت نے اسے مغرور کر دیا تھا۔ کرم علی نے وہی اندازہ لگایا تھا جو زینی کے اس رویے سے کوئی بھی لگاتا۔
کھانے کی میز پر شروع کے چند منٹ بے حد خاموشی سے گزرے تھے پھر کرم علی کو احساس ہوا کہ وہ اس کی مہمان ہے۔ اسے اس کی مہمان نوازی کرنی چاہیے تو دوسری طرف زینی کو احساس ہونے لگا تھا کہ اس نے کرم علی کے ساتھ ضرورت سے زیادہ رکھائی کا مظاہرہ کیا ہے۔
”آپ نے مجھ سے فلم اور شوبز کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی۔”
زینی نے بالآخر کچھ دیر کے بعد گفتگو کا دوبارہ آغاز کرتے ہوئے کہا۔
”اس کے بارے میں پھر کسی دن بات کریں گے، ابھی تو آپ بہت دن یہاں ہیں۔” کرم علی نے مسکرا کر خوش دلی سے کہا۔
”بہت دن نہیں، صرف دو ہفتے۔” زینی نے اسے جتایا۔
”ایک ہفتے میں سات دن ہوتے ہیں اور دو میں چودہ۔ بہت وقت ہے ابھی۔” کرم علی نے برجستگی سے کہا۔
”آپ بریانی لیں، آپ کو پسند ہے نا؟” اس نے اپنے لفظوں پر زور دیتے ہوئے کہا۔ زینی نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔
”میری پسند اور ناپسند کے بارے میں کتنا جانتے ہیں آپ؟”
”آپ امتحان لینا چاہتی ہیں؟” کرم علی نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”چلیں یونہی سمجھ لیں۔” زینی بھی مسکرائی۔
”اس ٹیبل پر رکھی ہر ڈش آپ کی پسندیدہ ہے۔ اگر میگزنز میں شائع ہونے والی انفارمیشن کوٹھیک سمجھا جائے تو۔” وہ کرم علی کی بات پر بے اختیار ہنسی۔
”بس صرف یہی پتہ ہے آپ کو کہ میں کیا کھانا اور کیا پینا پسند کرتی ہوں؟”
”اور کیا پتا ہونا چاہیے مجھے؟” کرم علی نے دلچسپی سے کہا۔
”یہ کہ مجھے کیسے مرد پسند ہیں۔” زینی نے بے حد بے باکی سے کہا۔ چند لمحوں کی خاموشی سے وہ بری طرح محظوظ ہوئی۔
”کیسے مرد پسند ہیں آپ کو؟” کرم علی نے کچھ دیر کے بعد بے حد سادہ لہجے میں پوچھا۔
”آپ جیسے۔” زینی نے مسکراہٹ چھپاتے ہوئے بڑی بے ساختگی سے کہا۔
”میرے جیسے؟ یعنی میں نہیں۔” اس بار کرم علی بھی مسکرایا۔
”میں آپ۔۔۔۔”
”آپ نے کباب لیے؟” اس سے پہلے کہ زینی کچھ کہتی۔ کرم علی نے بات کا موضوع بدلنے کی کوشش کی تھی۔
زینی نے مسکراتے ہوئے کرم علی کو دیکھا تھا، یوں جیسے اسے جتانا چاہ رہی ہو کہ جانتی ہے کہ وہ بات بدل رہا تھا۔
”کھانے کے بعد باہر لان میں چلیں گے۔ آپ کو اچھا لگ رہا تھا نا میرا لان؟”
کرم علی نے اس کی مسکراہٹ اور انداز کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے کہا مگر اس نے دل ہی دل میں اعتراف کیا کہ یہ کام بے حد مشکل تھا۔ وہ واقعی خطرناک حد تک خوبصورت تھی۔
”ویسے مجھے اس بات پر حیرانی ہے۔” اس بار زینی نے اس کے سوال اور مشورے کو مکمل طور پر نظر انداز کیا تھا۔
”کیا؟ کس بات پر؟” کرم علی نے چونک گیا۔
”آپ نے مجھے یہاں اپنے گھر میں کیوں نہیں ٹھہرایا؟ ہوٹل میں کیوں ٹھہرایا جبکہ آپ کے گھر پر کوئی نہیں رہتا۔”
کرم علی اس بار کچھ الجھا۔
”میں نے سوچا، آپ اسے مناسب نہیں سمجھیں گی۔”
اس نے چند لمحوں کے بعد کہا۔
”میں کیوں مناسب نہیں سمجھوں گی؟” اس نے بے ساختہ سوال کیا۔ کرم علی ایک بار پھر کچھ دیر کے لیے بول نہیں سکا۔ زینی کا دل پہلی بار بے اختیار کھلکھلا کر ہنسنے کو چاہا۔ وہ جانتی تھی، وہ اس کی بے باکی سے پریشان ہو رہا تھا اور وہ اسے پریشان کرنا چاہ رہی تھی۔ اس وقت کھانے سے زیادہ اسے اس کام میں مزہ آنے لگا تھا۔
”ویل… اگر آپ… آپ یہاں میرے گھر پر آکر رہنا چاہتی ہیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے بلکہ خوشی ہو گی۔”
کرم علی نے قدرے گڑ بڑا کر بے حد نارمل انداز میں اس سے کہا۔
”اور آپ کی خوشی سے بڑھ کر تو میرے لیے دوسری کوئی چیز اہم نہیں۔” زینی نے بے ساختہ اس کی بات کاٹی۔
”کب شفٹ کروں؟ کل یا آج؟” اس نے بے حد سنجیدگی سے کہا۔ کرم علی بول نہیں سکا۔ زینی بے حد سنجیدگی سے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے دیکھتی رہی پھر کرم علی نے اسے یک دم قہقہہ مار کر ہنستے ہوئے دیکھا۔ کرم کا چہرہ بے اختیار سرخ ہوا۔ اسے اس وقت احساس ہوا تھا کہ وہ اس کے ساتھ مذاق کر رہی تھی۔
”گھبرائیں مت کرم علی صاحب! میں آپ کے گھر شفٹ ہونے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔”
”میں کیوں گھبراؤں گا؟”
”یہ تو آپ کو پتہ ہو گا۔”
زینی کچھ اور ہنسی۔ یک دم اجنبیت اور تکلف کی وہ دیوار انہیں اپنے درمیان گرتی ہوئی محسوس ہوئی جو پچھلے چند گھنٹوں میں ان کو پریشان کرتی آرہی تھی۔
”بہت ساری وجوہات ہو سکتی ہیں گھبرانے کی لیکن بہر حال اب میں ان وجوہات کے بارے میں آپ سے بات نہیں کروں گی۔”
”مجھے آپ کے اپنے گھر پر آکر رہنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے اور نہ ہی یہ بات میرے لیے پریشان کن ہے۔” کرم علی نے بالآخر بڑے دو ٹوک انداز میں کہا۔ ”لیکن اگر مجھے یہ اندازہ ہوتا کہ میرے گھر کا ذکر آ پ کے موڈ کو اس قدر خوشگوار کر دے گا تو میں یہ ذکر آپ سے پہلے کرتا۔”
زینی اس کے ساتھ کیا کر رہی ہے۔ کرم علی اب تک سمجھ چکا تھا۔
”اب تک کتنی موویز دیکھی ہیں آپ نے میری؟” زینی نے ایک بار پھر موضوع بدلا۔
”ایک بھی نہیں۔”
کرم علی کا خیال تھا، وہ اس کی بات پر چونکے گی مگر وہ چونکی نہیں تھی، وہ مسکرائی تھی۔ ”اس کے باوجود آپ مجھے فلم میں ہیروئن کاسٹ کرنا چاہتے ہیں۔ حیرت کی بات ہے۔” کرم علی نے اس کی بات کا جواب دینے کے بجائے اس سے کہا۔
”باہر چلیں۔”
وہ فلم کا ذکر آتے ہی بات بدل دیتا تھا۔
کیوں؟وہ فلم بنا رہا تھا پھر فلم کے تذکرے سے اتنا بھاگ کیوں رہا تھا؟
زینی نے بے حد سنجیدگی سے اس کے چہرے کو دیکھا پھر اٹھ کر اس کے ساتھ باہر آگئی۔ لان میں چلتے ہوئے وہ اسے وہاں پودوں اورپھولوں کی ورائٹیز اور ناموں کے بارے میں بتاتا رہا۔ زینی نے یاد کرنے کی کوشش کی۔ آخری بار کسی مرد نے اسے اتنا بورکب کیا تھا۔ اسے کوئی دوسرامرد یاد نہیں آیا تھا۔ اسے آج تک بہت سے مردوں سے نفرت محسوس ہوئی تھی، گھن بھی آئی تھی۔ مگر کرم علی سے وہ بور ہو رہی تھی۔ اس کا دل چاہ رہا تھا، وہ اس سے کہے کہ وہ اسے گھر میں آئے ایک عام مہمان کی طرح نہیں ”پری زاد” کی طرح ٹریٹ کرے۔ شرافت کا جو لبادہ اپنے اوپر چڑھا کر پھر رہا ہے، اسے اتار کر اصلی روپ میں آئے، اس سے ملنے والا کوئی مرد اپنی اصلیت دکھانے میں اتنی دیر نہیں لگاتا تھا، جتنی دیر کرم علی لگا رہا تھا۔

Loading

Read Previous

من و سلویٰ — قسط نمبر ۷

Read Next

من و سلویٰ — قسط نمبر ۹

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!