من و سلویٰ — قسط نمبر ۸

”جہاں گئی تھی وہیں۔”
”وہ ملا آپ سے؟” سلطان نے محتاط لہجے میں کہا۔
”ملا؟۔۔۔۔” وہ بے اختیار ہنسی۔ ”مجھے دیکھ کر اس نے میری طرف پشت کر لی۔ پہچانے جانے کا خوف ہو گا اسے… وہ آج بھی میرا سامنا کرنے سے کترا گیا۔ اتنی شرم آئی اسے مجھ کو دیکھ کر۔” اس نے سگریٹ کا کش لیتے ہوئے تلخی سے کہا۔
”دفع کریں پری جی۔” سلطان نے اسے جیسے دلاسہ دینے کی کوشش کی۔
”ہر چیز دفع نہیں ہوتی سلطان! ہر چیز دفع نہیں کی جا سکتی۔” وہ سگریٹ کو اب ایش ٹرے میں مسل رہی تھی۔
سلطان نے بہت بار اسے اسی حالت میں دیکھا تھا۔ جب وہ ساری ساری رات سگریٹ پیتے ہوئے کمرے میں ٹہلتی رہتی۔ سلطان کو بعض دفعہ پری زاد پہیلی کی طرح لگتی تھی جسے کوئی دوسرا سمجھ نہیں سکتا تھا۔ وہ ایسی الجھی ہوئی ڈور تھی جس کا سرا تلاش کرتے کرتے آپ اس ڈور کو اور الجھا ہواپاتے ہیں۔
”کس چیز کا خوف تھا اسے مجھ سے؟ کس چیز کے جانے کا خدشہ تھا اسے؟” وہ دوسرا سگریٹ نکالتے ہوئے تلخی سے کہہ رہی تھی۔
”وہ کیا سمجھتا ہے کہ میری طرف پشت کر کے کھڑا ہو جائے تو میں اسے پہچان نہیں پاؤں گی؟”
وہ سگریٹ سلگاتے ہوئے ہنسی۔ سلطان نے اس کی آنکھوں کو بھیگتے ہوئے دیکھا۔ وہ ایک بار پھر دھواں اڑانے لگی تھی۔
”کیوں یاد کر رہی ہیں اسے؟ بھول جائیں سب کچھ… وہ آپ کے قابل نہیں تھا پری جی۔۔۔۔”
سلطان نے اسے دلاسہ دینا شروع کر دیا تھا۔ زینی نے کچھ نہیں کہا تھا۔ وہ سگریٹ کے کش لیتی رہی۔ اس کی خاموشی سے سلطان کو گھبراہٹ ہونے لگی تھی۔ اس کی خاموشی جیسے خطرے کا الارم ہوتی تھی اس کے لیے۔ وہ جب تک بولتی رہتی سلطان کو فکر نہیں ہوتی تھی مگر جب اس طرح چپ ہوتی تو…
”پراچہ نے آج فون کیا تھا۔” سلطان نے جیسے اس کی سوچوں کا رخ بدلنے کی کوشش کی۔ اس نے کش لگاتے لگاتے رک کر اسے دیکھا۔
”کہہ رہا تھا کینیڈا والی فلم کا پروڈیوسر آپ سے ملنا چاہتا ہے۔ وہاں کینیڈا بلانا چاہتا ہے آپ کو، چند ہفتوں کے لیے۔”
”اور کس کس کوبلا رہا ہے وہاں وہ؟” زینی نے چند لمحوں کی خاموشی کے بعد کہا۔
”ابھی تو آپ ہی کو بلوا رہا ہے وہ۔ آپ پسند نہ آئیں تو پھر کسی دوسری ہیروئن کو بلوائے گا، وہ پراچہ کہہ رہا تھا۔” سلطان نے اسے بتایا۔
”بڑی تعریف کر رہاتھا وہ کرم علی کی۔ کہہ رہا تھا فن اور فنکار کا صحیح مداح ہے وہ آدمی۔”
”فن اور فنکار…!” وہ زہریلے انداز میں ہنسی۔ ادھ جلا سگریٹ ایش ٹرے میں پھینکتے ہوئے وہ اپنے بیڈ سے اٹھ کھڑی ہوئی ۔ اپنے بیڈ روم میں رکھے ریفریجریٹر سے بیئر کا کین نکلاتے ہوئے اس نے کہا۔
”مداح اورپرستار ہونے کے لیے اس فنکار کا عورت ہونا ضروری ہے۔ فن اور فنکار۔” وہ بیئر کے گھونٹ لیتے ہوئے کمرے میں ٹہلنے لگی۔
”یہ کرم علی نام کا مداح ساری عمر وہاں کینیڈا میں کتوں کی طرح کام کر کے پیسہ جوڑتا رہا ہو گا۔ ساری جوانی اس نے پائی پائی جوڑنے میں لگائی ہو گی اور اب جب چار پیسے اس بڑھاپے میں اس کے پاس اکٹھے ہو گئے ہوں گے تو اسے پاکستان کا فن اور فنکار نظر آنے لگے… اور فنکار کو سراہنے کے لیے یہ تو بہت ضروری ہے نا کہ اسے بلوا کر کینیڈا میں اپنے گھر پر بلکہ اپنے بیڈ روم میں رکھا جائے اور اپنے ہی قماش کے”جانوروں” میں بڑے فخر سے اس کی نمائش کی جائے کہ دیکھو جیسے میں ارمانی، ورساچی اور گوچی کی چیزیں خرید کر اپنے گھر لا سکتا ہوں اسی طرح میں انڈسٹری کی ایک بڑی ہیروئن کو بھی اپنے گھر پر منگوا سکتا ہوں… تم میں سے کوئی منگوا سکتاہے؟ نہیں ناں؟”
وہ بیئر کے گھونٹ لیتے ہوئے مسلسل بول رہی تھی۔ سلطان کو چند لمحوں کے لیے لگا جیسے اس کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں تھا۔
”اور بڑھاپے میں اپنی ساری احساس کمتری اور احساس محرومیوں سے نجات حاصل کرنے کا اس سے اچھا طریقہ کیا ہو سکتا ہے کہ فلم انڈسٹری کی سب سے مقبول اور سب سے خوب صورت ہیروئن کو گلے میں ڈالنے والے مفلر کی طرح خرید کر اپنے گلے میں کچھ دیر کے لیے ڈال لیا جائے تاکہ ساری دنیا آپ پر رشک کرے کہ کوئی تو بات ہو گی نا آپ میں کہ وہ اتنی مشہور اور اتنی خوب صورت ہیروئن آپ پر مر رہی ہے… یہی سب کچھ جا کر کرنا ہے نا مجھے کینیڈا میں… تاکہ مرنے سے پہلے وہ بڈھا زمین پر اپنی بنائی ہوئی جنت میں کسی حور کے ساتھ رہ سکے۔”
وہ اب بیئر کا دوسرا کین نکال رہی تھی۔
”اور اس کے بدلے وہ مجھے دے گا ایک عدد فلم… زیورات، تحائف، سیرو تفریح کے ڈھیروں مواقع اور ڈھیر سارا پیسہ… تو سودا کوئی برا تو نہیں، میرا آخر کیا جاتا ہے۔ اسے میری محبت تھوڑی چاہیے اسے میرا دل تھوڑی چاہیے؟ اسے تو میرا وقت چاہیے۔ میرا جسم چاہیے… فن اور فنکار… اور مداح۔”
فریج سے بیئر کا تیسرا کین نکالا۔
سلطان کا دل چاہا، وہ اٹھ کر اسے روک دے۔ مگر اس میں ہمت نہیں تھی۔
”اور یہ سارے مداح وہ ہوتے ہیں جن کی بیویاں اپنے شوہروں کی پارسائی کی قسم کھا رہی ہوتی ہیں۔ کیونکہ ان کے نیک، پاک باز شوہر ہرسال لاکھوں روپیہ خیرات میں دیتے ہیں کئی غریب لڑکیوں کی شادی کے لیے جہیز کا سامان دیتے ہیں اور یہ ساری خاندانی عورتیں ٹی وی اور فلم کی اسکرین پر میرے جیسی عورتوں کو دیکھ کر یا ان پر ہنستی ہیں یا تھوکتی ہیں اپنے ان ہی شوہروں کے پاس بیٹھ کر… یہ جانے بغیر کہ ہم چاہیں تو ان کے شوہر ہمارے تلوے بھی چاٹتے پھریں۔”
وہ کیا کہہ رہی تھی؟ کیوں کہہ رہی تھی یہ نہ سلطان کی سمجھ میں آرہا تھا نہ خود زینی کو … مگر یہ سب کچھ شراب کے نشے کی وجہ سے نہیں ہو رہا تھا۔ اسے آج کچھ اور ہو گیا تھا۔
”اور مت پیئں۔” سلطان نے اسے بیئر کا چوتھا کین نکلاتے دیکھ کر بالآخر ٹوکا۔
”اور تم، تم چاہتے ہو کہ مجھے ہر قیمت پر یہ فلم ملنی چاہیے۔ چاہے مجھے اس کے لیے کچھ بھی کرنا پڑے۔” وہ چوتھا کین کھول کر اب سلطان پر برسنے لگی تھی۔
”کیونکہ یہ بڑی فلم ہے۔ ایک سپرہٹ فلم ضروری ہے تاکہ تم ایک کامیاب ہیروئن کے سیکرٹری بنے رہو۔ تمہیں پیسہ ملتا رہے انڈسٹری کے لوگ تمہیں اپنے سر پر بٹھائے رکھیں۔ میں مارکیٹ سے آؤٹ ہو جاؤں گی تو تم مارکیٹ سے آؤٹ ہو جاؤ گے۔”
سلطان ہکاّ بکّا رہ گیا۔ یہ سب باتیں اس کے لیے نئی نہیں تھیں۔ وہ جس ہیروئن کے ساتھ بھی کام کرتا رہا اس سے یہ سب کچھ سنتا رہا تھا مگر زینی کے منہ سے آج وہ یہ سب کچھ پہلی بار سن رہا تھا۔ اسے ان ہیروئنوں کے منہ سے بھی وہ سب کچھ سن کر دکھ ہوا تھا۔ اسے زینی کی زبان سے بھی یہ سب کچھ سن کر تکلیف ہو رہی تھی۔
زینی اب فریج سے پانچواں کین نکال رہی تھی۔
”اس طرح کی باتیں کیوں کر رہی ہیں پری جی؟”
سلطان کو بے اختیار رونا آیا۔ کسی نے زینی کے اندر جلتی ہوئی آگ پر جیسے پانی کا چھینٹا مارا تھا۔ کین کھولتے کھولتے وہ رک گئی۔
واقعی وہ اس طرح کیوں کر رہی تھی، اسے کیا ہو رہا تھا؟ اس نے جیسے اپنے احساسات کو سمجھنے کی کوشش کی ۔ ہر وجہ ،ہر راستہ ہر سراغ جیسے ایک آدمی کے وجود پر آکر ختم ہو گیا تھا۔
”تم جاؤ سلطان! یہاں سے۔”
اس نے ہچکیوں سے روتے ہوئے سلطان سے شکست خوردہ انداز میں کہا۔ اس سب میں اس کا قصور نہیں تھا۔ اس سب میں صرف اس کا اپنا قصور تھا۔ سلطان کچھ کہے بغیرروتا ہوا کمرے سے چلا گیا۔
وہ کین پکڑ کر صوفے پر آکر بیٹھ گئی… ریفریجریٹر میں پڑا یہ آخری کین تھا اور رات ختم ہونے میں ابھی کئی گھنٹے تھے۔ سول سروسز اکیڈمی ایک بار پھر اس کے سامنے تھی اور وہ اسی طرح منہ موڑے کھڑا تھا۔ ہتک سی ہتک تھی۔
اس نے بیئر پیتے ہوئے ایک اور سگریٹ سلگا لیا۔ غصہ اب رنج میں بدلنے لگا تھا۔ بادل اب گڑگڑانے کے بعد برسنے لگے تھے۔ اسے اس وقت وہاں بیٹھے اب شیراز کا خیال نہیں آرہاتھا۔ اس خوش قسمت لڑکی کاخیال آرہاتھا جو اس کی بیوی تھی۔ جو مسز شیراز اکبر تھی۔ جو اس محفل میں بھابھی اور بہن کے نام سے پکاری جا رہی ہو گی جہاں وہ پری زاد تھی۔
”بیوی تھی تو بچہ ہو گا… یا ہوں گے ایک پرفیکٹ فیملی جس میں اس کی کوئی گنجائش نہیں نکلتی تھی وہ اس کی طرف منہ موڑ کر نہ کھڑا ہوتا تو آخر کیا کرتا۔
زینب ضیاء آخر اس کی تھی کون، ایک مسترد کی گئی منگیتر ۔ اس نے آخر اس پر ایسی کون سی قیامت توڑ دی تھی وہاں اس سے چھپ کر… وہ کیا چاہتی تھی وہ آکر اس کے گلے میں پھولوں کا ہار ڈالتا وہ اب اس کو Justify کرنے لگی تھی۔
اس نے کین اور سگریٹ بجھاتے ہوئے میز پر رکھ دیے… زندگی اس طرح کیسے ہو جاتی ہے جیسے اس کی ہو گئی تھی۔ لگتا تھا وہ کسی بھیانک خواب سے گزر رہی ہے۔ کسی طویل خواب سے بس فرق یہ تھا کہ یہ خواب وہ جاگتے میں دیکھ رہی تھی۔
٭٭٭
کرم علی نے زینی کو پہلی بار دوبئی میں کیٹ واک کرتے ہوئے اس شو میں دیکھا تھا جو زینی کا بیرون ملک پہلا شو تھا… اور وہ اس کے چہرے سے نظر نہیں ہٹا سکا تھا۔ وہ حیرت انگیز حدتک عارفہ سے مشابہت رکھتی تھی اور اسے دیکھ کر کرم کو پہلا خیال عارفہ کا ہی آیا تھا۔
زینی اگر اس رات شیراز کی شادی کے بارے میں سوچ سوچ کر پاگل ہو رہی تھی تو کرم علی اسے دیکھ کر اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھا تھا… وہاں ریمپ پر اسے دیکھ کر عارفہ نام کا جو باب وہ بند کر آیا تھا کئی سالوں بعد وہ ایک بار پھر کھل گیا تھا زخم ایک بار پھر ادھڑنے لگے تھے۔
زینی جتنی دیر تک ریمپ پر رہی کرم علی جیسے کسی ٹرانس میں کھڑا اسے دیکھتا رہا۔ وہ زندگی میں پہلی بار کوئی فیشن شو دیکھ رہا تھا۔ زینی کے بیک اسٹیج جاتے ہی وہ بے تابی سے اس کے پیچھے وہاں گیا تھا۔ وہ زینی سے ملنا چاہتا تھا اس سے تعارف حاصل کرنا چاہتا تھا۔ مگر زینی اس وقت وہاں جو کچھ کر رہی تھی اور جس ذہنی کیفیت میں نظر آرہی تھی۔ کرم کے لیے اس حالت میں اس کی طرف کوئی پیش قدمی کرنا بے حد مشکل تھا۔ واحد چیز جو وہاں اس کے بارے میں جان پایا تھا وہ اس کے دو نام تھے۔ زینی اور پری زاد۔
اسے اس رات وہاں سے واپس کینیڈا چلے جانا تھا اور وہ جانے سے پہلے ایک بار زینی سے ملنا چاہتا تھا مگر وہ اس کوشش میں بھی ناکام ہو رہا تھا۔ البتہ اس نے زینی کو ایک بار پھر ہوٹل کی لابی میں بے حد ابتر ذہنی کیفیت کے ساتھ چکر کاٹتے دیکھ لیا تھا۔ وہ اس وقت سگریٹ پی رہی تھی اور بے حد اپ سیٹ تھی۔ وہ جانتا تھا۔ وہ شراب کے نشے میں تھی۔ یہ بھی پوچھنا کرم کے لیے مشکل نہیں تھا۔
مگر اسے پریشانی کیا تھی؟
یہ واحد سوال تھا جس کے جواب میں اسے دلچسپی تھی۔ وہ زینی کی مدد کرنا چاہتا تھا۔ ہر طرح کی مدد اور اسی لیے اس نے ہوٹل سے چیک آؤٹ کرتے ہوئے کسی موہوم سی امید میں زینی کے لیے ریسپشن پر اپنا وزیٹنگ کارڈ چھوڑا۔
موہوم سی امید امید ہی رہی تھی۔ اگلے کئی ہفتے بے تابی سے انتظار کرنے کے باوجود زینی نے اس سے کوئی کانٹیکٹ نہیں کیا تھا۔ لیکن اس چیز نے کرم کے حوصلے کو پست نہیں کیا تھا۔
پری زاد کے بارے میں تب تک میڈیا میں بہت کچھ نہیں لکھا جا رہا تھا مگر جو کچھ لکھا جا رہا تھا۔ وہ کرم کی نظروں سے گزر رہا تھا۔ یہ صرف پری زاد تھی جس کی وجہ سے اس نے شوبز میں دلچسپی لینا شروع کر دی تھی۔ یہ ممکن نہیں تھا کہ زینی کے بارے میں کسی میگزین میں کچھ شائع ہوتا اور کرم علی اسے حاصل نہ کرتا۔
شروع میں وہ اس کے لیے عارفہ کا ہی ایک تسلسل تھی مگر جوں جوں وقت گزرتا گیا تھا۔ وہ اس کے لیے عارفہ سے ہٹ کر بھی ایک وجود ایک اہمیت رکھنے لگی تھی۔ وہ ان دنوں طوفانی رفتار سے شہرت کے زینے چڑھ رہی تھی اور اس کی بڑھتی ہوئی شہرت نے کرم کو کسی حد تک خائف کر دیا تھا۔ اس کا ایڈریس حاصل کرنے کے باوجود وہ اس سے رابطہ کرنے کی ہمت نہیں کر پا رہا تھا۔
وہ نہیں جانتا تھا۔ زینی اس رابطے کو کیا مفہوم دے گی… لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا تھا کرم کے دل میں اس سے ملنے، اس سے بات کرنے کی خواہش بڑھتی گئی تھی اور اس سے ملنے اور اس کی توجہ حاصل کرنے کے لیے اس نے وہی حربہ استعمال کیا تھا جو پری زاد جیسی ہیروئن تک رسائی حاصل کرنے کے لیے کوئی بھی آدمی کرتا۔ فلم پروڈیوس کرنے میں اس کی دلچسپی زیرو تھی۔ اور اسے اس بات کی بھی پروا نہیں تھی کہ وہ اتنے بڑے بجٹ کی فلم پر اپنا پیسہ ضائع کرے گا۔ کسی تجربہ اورذاتی دلچسپی کے بغیر۔
اس نے فلم کا ڈائریکٹر منتخب کرتے ہوئے اسے صاف لفظوں میں بتا دیا تھا کہ وہ اس فلم میں کس کو کاسٹ کرنا چاہتا تھا۔ اس نے ساتھ ہی اسے یہ بھی بتا دیا تھا کہ وہ پری زاد سے ملنے کی خواہش رکھتا تھا اور کرم علی کو اندازہ بھی نہیں ہوا تھا کہ انڈسٹری کے ان بڑے ڈائریکٹرز میں سے ایک نے اس کی اس خواہش اس فلم اور پری زاد سے ملنے کے حوالے سے اس کے بارے میں وہی رائے بنائی تھی جو کوئی بھی بنا سکتا تھا اور اس رائے نے پراچہ کو بالکل اسی انداز میں زینی سے رابطے پر مجبور کیا تھا جس طرح ایسے کام کے لیے ڈائریکٹر کسی ہیروئن کو کسی پروڈیوسر سے ملنے کے لیے تیار کرتا۔
٭٭٭
”سلمان کو کسی سے کہہ کر امریکہ بھجوا دو زینی!”
وہ اس صبح شوٹنگ کے لیے نکلنے سے پہلے ناشتے کی ٹیبل پر تھی جب نفیسہ نے اس سے کہا۔
زینی ناشتہ کرتے کرتے رک گئی۔ ”کیوں؟ امریکہ کس لیے؟ وہ پڑھ رہا ہے یہاں۔ یہ بیٹھے بٹھائے آپ کو اسے باہر بھجوانے کی کیا دھن سوار ہو گئی ہے؟”
”وہ بڑا پریشان رہتا ہے آج کل۔” نفیسہ نے کہا ۔
”کیوں؟”
”وہاں امریکہ میں کچھ دوست ہیں اس کے… کہہ رہا تھا کسی طرح وہاں پہنچ جائے تو پھر کچھ نہ کچھ کر لے گا وہاں… میں نے کہا میں زینی سے بات کر کے بتاؤں گی۔”
”آپ نے بتایا نہیں وہ پریشان کیوں ہے؟” زینی نے ماں کی بات کاٹ دی تھی۔
”تم کو پتہ ہے زینی۔” نفیسہ نے کچھ دیر کی خاموشی سے بعد کہا۔
”مجھے پتہ ہوتا تو میں آپ سے کیوں پوچھتی۔ مجھے نہیں پتا اسی لیے پوچھ رہی ہوں۔”
”تمہاری وجہ سے پریشان رہتا ہے۔ پرسوں بھی کالج میں لڑکوں کے ساتھ اس کا جھگڑ ا ہو گیا تھا۔ وہاں کالج میں لڑکے تمہاری وجہ سے باتیں کرتے ہیں اسے… پرسوں بھی کچھ لڑکوں نے تمہاری کچھ خراب تصویریں کالج کی دیواروں پر لگا دیں۔ سلمان لڑ پڑا پھر گھر آکر کمرے میں بند ہو گیا دو دن کچھ کھایا نہیں اس نے، ہر دوسرے تیسرے ہفتے یہی ہوتا ہے۔مجھے تو اب سلمان سے ڈر لگنے لگا ہے۔ وہ بھی کیا کرے لوگوں سے کہاں تک چھپاتا پھرے کہ تم اس کی بہن ہو حالانکہ میں نے اس سے کہا تھا کہ غصہ کرنے یا لڑنے کے بجائے تم صاف مکر جایا کرو تمہارے ساتھ اس کا کوئی رشتہ نہیں ہے۔”
نفیسہ کی سادگی میں کہی ہوئی بات اسے خنجر کی طرح چبھی تھی۔ نفیسہ نے زینی کے فق ہوتے ہوئے چہرے کو نہیں دیکھا وہ سلمان کے بارے میں پریشان بولتی رہیں۔

Loading

Read Previous

من و سلویٰ — قسط نمبر ۷

Read Next

من و سلویٰ — قسط نمبر ۹

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!