من و سلویٰ — قسط نمبر ۸

”کیوں؟”
”اس کیوں کا میرے پاس کوئی جواب نہیں۔”
”ہونا چاہیے۔”
کرم علی چند لمحے اسے دیکھتا رہا پھر اس نے کہا۔ ”میں”جانور” نہیں ہوں۔”
زینی نے اس کی بات پر بے اختیار قہقہہ لگایا، یوں جیسے کرم علی نے اسے کوئی لطیفہ سنایا تھا۔
”ہر مرد کے اندر ایک جانور ہوتا ہے۔”
”یہ آپ سے کس نے کہا؟” کرم علی کو اس کی بات جیسے چبھی۔
”میرا تجربہ ہے۔” اس نے کرم علی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے کہا۔ اس کی نظروں میں بے باکی نہیں تھی۔ اس کی نظروں میں آگ کی لپٹیں تھیں۔ کرم علی کو آنچ آئی۔
”زندگی کو تجربوں کی نذر نہیں کرنا چاہیے۔” کرم علی نے اس سے نظریں چرائیں۔ وہ راہ فرار تھی جو اس نے ڈھونڈی تھی۔
”تو کس کی نذر کرنا چاہیے؟” وہ اس کے اگلے سوال کا جواب نہیں دے سکا۔ وہ اسے ہر بات پر لاجواب نہیں کر سکتا تھا۔
”آپ ایک عجیب آدمی ہیں۔ پانچ کروڑ کی ایک فلم میں لیڈ رول کے لیے آپ کو مجھ سے کچھ نہیں چاہیے۔ سوال پیدا ہوتا ہے، کیوں؟” زینی نے کچھ دیر اس کے جواب کا انتظار کرنے کے بعد کہا۔
”سوا ل تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ ہر چیز کی قیمت کیوں دینا چاہتی ہیں؟” کرم علی نے قدرے ترش انداز میں کہا۔
”میں کسی کا احسان نہیں لینا چاہتی۔”
”اورآپ اس احسان کی قیمت اپنی عزت کے ساتھ اتارنا چاہتی ہیں۔” کرم علی نے کسی لحاظ سے کے بغیر کہا۔
زینی کا چہرہ ایک لمحے کے لیے سرخ ہوا۔ اسے کرم علی کی بات گالی کی طرح لگی تھی کیونکہ آج تک کسی مرد نے اس سے ایسی بات نہیں کہی تھی۔
”عورت کی ”عزت” بہت ”قیمتی” ہوتی ہے۔” کرم علی نے اپنے لفظوں پر زور دیتے ہوئے کہا۔ زینی کا رنگ کچھ اوربدلا۔ اس نے اسے دوسری گالی دی تھی۔
”عورت کی ”عزت” کے بارے میں مجھے لیکچر ایک ایسے مرد کی زبان سے نہیں سننا جس نے کسی رشتے کے بغیر رات کے اس وقت مجھے اپنے گھر بلایا ہوا ہے۔”
کرم علی چپ رہ گیا، وہ ٹھیک کہہ رہی تھی۔ اس نے بھی اسے ایک ایکٹریس سمجھ کر ہی اتنی دیدہ دلیری سے بلوا لیا تھا۔ ایک شریف لڑکی سمجھ کر اس طرح کیسے بلوا سکتا تھا۔
”آپ ٹھیک کہتی ہیں۔ مجھ سے غلطی ہوئی۔”
اس بار چپ ہونے کی باری زینی کی تھی۔ وہ یہ توقع نہیں رکھتی کہ وہ اتنی آسانی سے فوری طور پر اپنی غلطی کو تسلیم کرے گا۔
”میں پھر بھی یہی کہتا ہوں۔ عورت کی عزت بہت قیمتی ہوتی ہے۔” کرم علی نے اپنے دہرائی۔
”اسی لیے دنیا میں سب سے ”زیادہ” اور سب سے ”کم” قیمت اس کی ”عزت” ہی کی لگتی ہے۔”
زینی نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔ اس کی آواز میں الاؤ تھا اور اس الاؤ میں کیا کیا جل رہا تھا۔ کرم علی کیسے جانتا۔
”مجھے جانا چاہیے۔ خدا حافظ۔” اس نے یک دم دروازے کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے کہا۔
”میں باہر تک چھوڑنے آتا ہوں آپ کو۔” کرم علی نے نہ چاہتے ہوئے بھی کہا۔
”ابھی بھی؟” زینی نے ایک تلخ مسکراہٹ کے ساتھ اس کو دیکھا۔
کرم علی نے اس کی بات کا جواب نہیں د یا۔ کچھ کہنے اور سننے کے لیے اب باقی کچھ نہیں رہا تھا۔ وہ عارفہ نہیں تھی۔ ویسی ہی عورت تھی جن سے وہ پچھلے کئی سالوں سے بھاگتا پھر رہا تھا۔ اس کے ساتھ باہر پورٹیکو تک آتے ہوئے کرم علی نے جیسے سارے ”نتائج” اخذ کیے۔
”کیا میں سمجھوں کہ یہ فلم مجھے ہی ملے گی؟” باہر پورٹیکو میں کھڑی گاڑی کے پاس آکر زینی نے کرم علی سے کہا۔
”صبح میرا مینجر آپ سے ایگریمنٹ سائن کروا لے گا اور آپ کی واپسی کی ٹکٹ بھی کنفرم کروا دے گا۔”’ کرم علی نے ایک ہی جملے میں دونوں کام کیے۔
”میں کبھی نہ کبھی آپ کے اس احسان کابدلہ بھی اتار دوں گی۔” زینی نے چند لمحے خاموش رہنے کے بعد بے حد عجیب لہجے میں کہا۔
”وہ تب ہو گا جب ہم دوبارہ کبھی ملیں گے۔” کرم علی نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
”یہ مت کہیں۔ زندگی بڑی عجیب چیز ہے۔ کب کس کو کس کے سامنے لے آئے کوئی نہیں جانتا۔”
”لیکن میری خواہش ہے کہ میں آپ سے دوبارہ کبھی نہ ملوں پری زاد!”
اس نے ان سارے دنوں میں پہلی بار اس کا نام نہیں لیا۔ پہلی بار اسے پری زاد کہا اور اس کے منہ سے اپنے لیے پری زاد کا لفظ سن کر زینی کی زبان پر آئے بہت سارے لفظ غائب ہو گئے۔
اس نے اسے اس کی حیثیت جتائی تھی۔ وہ اس کے لیے ایک ایکٹریس تھی اور بس… اور وہ اس کا ایک مداح تھا اور بس… سینما میں بیٹھ کر اس کا کام دیکھ کر تالی بجانے والا… اس کے کام کی ستائش میں تفریحی جملے بولنے والا اور بس… اس سے زیادہ تو اس نے زینی کے بارے میں سوچا تک نہیں ہو گا پھر وہ اس سے کیا بحث کر رہی تھی؟ کیوں بحث کر رہی تھی؟ یہ اس کی مہربانی تھی کہ وہ اس کے ”فن” ہی کا دلدادہ تھا اور اسے کسی اور ”کام” کے بغیر وہ فلم دے رہا تھا۔ پھر کرم علی سے کیا توقع لگا رہی تھی۔ اسے کیا جتانا چاہ رہی تھی۔ ان چند لمحوں میں کرم علی کے سامنے کھڑی زینی نے ہر چیز کو ایک بار پھر سے ارینج کر لیا تھا۔ وہ ”پری زاد” تھی۔ ”زینی” نہیں۔ اس کو ”پری زاد” کی طرح پیش آنا تھا ”زینی” کی طرح نہیں۔
وہ کسی کو اسے ڈراپ کر آنے کی ہدایات دینے میں مصروف تھا۔ زینی نے اس کے گھر پر ایک آخری الوداعی نظر ڈالی۔ ان دونوں کے درمیان مزید کوئی بات نہیں ہوئی تھی۔ سلام دعا کا تبادلہ تک نہیں۔
٭٭٭
اس رات کرم علی کے گھر سے واپس آکر وہ ساری رات ہوٹل میں اپنے کمرے میں بیٹھی جاگتی رہی اور سگریٹ پھونکتی رہی تھی۔ کرم علی کی باتیں چاہنے کے باوجود وہ اپنے ذہن سے نکال نہیں پا رہی تھی۔ وہ نیزے کی انیوں کی طرح اسے چبھ رہی تھیں۔
”عجیب آدمی ہے۔’ ‘ سلطان نے صبح زینی سے رات کا قصہ سننے کے بعد کہا تھا۔
”ہاں، عجیب آدمی ہے لیکن اچھا آدمی ہے۔” اس نے پہلا جملہ کہنے کے بعد کچھ توقف کرتے ہوئے کہا۔
سلطان نے کچھ حیران ہو کر زینی کو دیکھا، وہ پہلی بار اس کے منہ سے کسی مرد کی تعریف سن رہا تھا۔ ایک چھوٹا سا لفظ اچھا کہنے کے لیے زینی کو کتنا تردد کرنا پڑا ہو گا، اسے صرف سلطان ہی جان سکتا تھا اور وہ اسی لیے اس لفظ کو کرم علی کے لیے استعمال کرتے ہوئے سن کر حیران ہوا تھا۔
”واقعی اچھا لگا آپ کو؟” سلطان نے بے حد دلچسپی سے پوچھا۔
”شوبز میں آئے اتنا عرصہ گزر گیا ہے، یہ پہلا مرد ملا ہے مجھے، جس نے میرا ہاتھ تک نہیں پکڑا۔ برا لگنا چاہیے کیا؟” زینی نے جواباً سوال کہا۔
سلطان بول نہیں سکا۔
”ہو سکتا ہے آج فون کرے۔” اس نے کچھ دیر کے بعد زینی سے کہا۔ وہ اپنا سامان پیک کرنے میں مصروف تھی۔
”نہیں کرے گا۔” زینی نے بے تاثر لہجے میں کہا۔
”آپ سے محبت کرتا ہے تو۔۔۔۔” سلطان نے کچھ کہنا چاہا۔
”کس نے کہا محبت کرتا ہے؟” زینی کے ہاتھ رک گئے۔
”آپ نے دیکھا، کس طرح سال بھر سے آپ کو تحائف بھجواتا رہا۔ یہاں بھی آپ کو سر پر اٹھائے پھر ا۔” سلطان نے کرم علی کی حمایت کی۔
”سر سے گرا دیا ہے اب اس نے مجھے۔ تسلی رکھو، اب کوئی تحفہ نہیں آئے گا۔” زینی نے ہنس کر استہزائیہ انداز میں کہا۔
”کیوں، ایسا بھی کیا کر آئی ہیں پری جی؟”
سلطان جیسے ہول کر رہ گیا۔ زینی نے جواب نہیں دیا۔ وہ سامان پیک کرتی رہی۔
”میں فون کروں اسے؟” سلطان کو پتہ نہیں کیا فکر لاحق ہو گئی تھی۔
”کیوں؟” زینی نے برہمی سے اسے دیکھا۔ ”تمہیں پریشانی ہے کہ کہیں فلم ہاتھ سے نہ نکل جائے۔” اس نے تلخی سے کہا۔
”آپ کو لگتا ہے، مجھے بس یہی پریشانی ہے۔” سلطان نے رنجیدگی سے کہا۔
”راستے بند کر کے کیوں جا رہی ہیں پری جی! اگر اچھا آدمی ہے، محبت کرتا ہے تو شادی کر لیں اس سے۔ آج نہیں تو دو سال بعد۔”
زینی کو بے اختیار غصہ آیا۔ ”تمہارا دماغ ٹھیک ہے؟ بیٹھے بٹھائے کیا ہو گیا ہے تمہیں؟”
”میں نے کیا غلط کہا۔” سلطان سہم گیا۔
”کبھی سوچنا بھی مت کہ۔۔۔۔” وہ کچھ کہتے کتے رک گئی۔ اس کی زبان پر کوئی بات آتے آتے رہ گئی تھی۔
٭٭٭
وہ رات صرف زینی ہی نے جاگ کر نہیں گزاری تھی، کرم علی بھی ساری رات نہیں سویا تھا۔ زینی کے ساتھ چند گھنٹے پہلے کی ملاقات جیسے ایک بھیانک خواب بن کر اسے بار بار یاد آرہی تھی۔ اس کے ساتھ یہ سب کچھ پہلی بار نہیں ہو رہا تھا۔ ہر بار ایسا ہی ہوتا تھا۔ فریب، اشتباہ نظر اور اس کے بعد سفاک حقیقت۔ اس رات اسے عارفہ یاد نہیں آئی تھی لیکن اس کی بد دعا بہت یاد آئی تھی۔
وہ اتنے سالوں سے کسی آسیب کی طرح اس کی زندگی سے چمٹ گئی تھی۔ اس نے ٹھیک کہا تھا۔ اس کی قسمت میں سب کچھ تھا۔ محبت نہیں تھی۔ وہ عورت نہیں تھی جسے وہ چاہتا ، اور وہ اسے اس طرح چاہتی جس طرح عارفہ نے اسے چاہا تھا۔ بے لوث محبت… اس نے اقرار کیا تھا۔ عارفہ جیسا لگنے والا چہرہ عارفہ نہیں ہو سکتا تھا۔ نہ باہر سے ، نہ اندر سے۔
وہ عارفہ کے فریب میں پری زاد کے پاس گیا تھا اور پھر عارفہ کے بجائے اسے زینی سمجھ کر اس کے قریب ہوتا گیا تھا۔ وہ اس کے لیے عارفہ سے الگ وجود رکھنا شروع ہو گئی تھی۔ ایسا وجود جو اسے عارفہ کی یاد نہیں ”دلاتا” تھا۔ اس کی یاد ”بھلاتا” تھا۔ لیکن ایک جھٹکے میں پری زاد نے اس کے پیروں کے نیچے سے زمین کھینچ کر اسے ہوا میں معلق کر دیا تھا۔ اس کی زندگی کی کشتی اب بھی بھنور کے بیچ میں ہی رہی تھی۔
شوبز کی ”عورت” کے ساتھ کرم علی کی یہ پہلی اور آخری شناسائی تھی۔ اس نے اس رات پری زاد کو اپنے گھر اور دنیا سے ہی نہیں جھٹکا تھا، اس کا خیال بھی اس نے اپنے ذہن اور دل سے نکال دیا تھا اور اس وقت اس نے یہ کام بے حد آسانی سے کر لیا تھا۔ اسی رات اس نے مینجر کو پری زاد کے لیے کانٹریکٹ پیپرز سائن کروانے کی بھی ہدایت کر دی تھی۔
اگلے تین دن جو زینی نے وہاں گزارے، اس دوران ان کے درمیان کوئی رابطہ نہیں ہوا تھا۔ کرم علی رابطہ چاہتا بھی نہیں تھا اور اسے اطمینان رہا کہ زینی نے بھی ایسی کوشش نہیں کی۔
جس دن زینی کی فلائٹ تھی، اس شام اس کے مینجر نے کرم علی کو ایک بند لفافہ دیتے ہوئے مطلع کیا کہ زینی نے روانہ ہونے سے پہلے ایئر پورٹ سے مینجر کو فون پر اطلاع دی تھی کہ اپنے ہوٹل کے کمرے میں کچھ سامان اور ریسپشن پر کرم علی کے لیے ایک لفافہ چھوڑ رہی ہے، وہ انہیں اس تک پہنچا دے۔
لفافہ کھولنے تک کرم علی کو اس سامان اور اس خط کے مضمون کے بارے میں تجسس تھا۔ وہ اس کے لیے کیا چھوڑ کر گئی تھی؟ وہ اس سے کیا کہنا چاہتی تھی؟
لفافے کے اندر خط نہیں تھا۔ صرف کاغذ پر چند جملے تحریر تھے۔ اس کا نام اور کسی القاب کے بغیر۔
”آپ کے ساتھ کی گئی شاپنگ کی چیزیں چھوڑ کر جا رہی ہوں۔ مجھے مفت میں کچھ بھی لینے کی عادت نہیں ہے۔ آپ نے ٹھیک کہا تھا، آپ ”جانور” نہیں ہیں۔ مدت کے بعد ایک ”انسان” سے مل کر خوشی ہوئی۔”
اس تحریر کے آخر میں زینی نے اپنا نام بھی نہیں لکھا تھا۔ کرم علی نے اس کاغذ کے ٹکڑے کر کے اسے ویسٹ پیپر باسکٹ میں پھینک دیا۔ اسے وہ تحریر بری لگی تھی۔
گھر واپسی پر اس نے اپنے بیڈ روم کو اس سامان سے بھرا ہوا پایا تھا۔ ہاؤس کیپر نے شاید یہ سوچ کر وہ ساری چیزیں اس کے کمرے میں اسٹاک کر دی تھیں کہ وہ اس کی شاپنگ تھی جو مینجر نے گھر پہنچائی تھی لیکن ان شاپنگ بیگز اور ڈبوں کے انبار کو دیکھ کر کرم علی کا موڈ بری طرح آف ہوا۔ زندگی میں پہلی بار کوئی اس کی چیزیں اس کے منہ پر مار گیا تھا۔ کم از کم کرم علی کو اس وقت زینی کی یہ حرکت ایسی ہی لگی تھی۔ کرم علی کو اگر آج تک لوگوں کے اپنے آپ سے بے دھڑک مطالبوں اور خود غرضانہ فرمائشوں سے تکلیف پہنچی تھی تو آج ان تحائف کی واپسی بھی اسی طرح کی تکلیف پہنچا رہی تھی۔ ان میں سے ہر چیز تقریباً اسی طرح جوں کی توں واپس آگئی تھی۔ کچھ چیزوں کو شاید دیکھنے کے لیے ان کی پیکنگ کھولی گئی تھی مگر کسی بھی چیز کو استعمال نہیں کیا گیا تھا۔
ان چیزوں کو وہاں سے اٹھوا کر دوسرے کمرے کی خالی وارڈ روبز اور Closets میں رکھواتے ہوئے کرم علی کو آدھ گھنٹہ لگا تھا۔ یہ اطلاع بھی مل گئی تھی کہ وہ جانے سے پہلے ہوٹل کے دونوں کمروں کے ڈیوز ادا کر گئی تھی۔ اس ایڈوانس کے علاوہ جو ان کمروں کو بک کرواتے ہوئے کرم علی کی کمپنی نے ادائیگی کی تھی، اگر پلین کی ٹکٹس پہلے خریدی نہ گئی ہوتیں تو اس وقت وہ شاید ان کی خریداری کی ادائیگی کے بارے میں بھی سن رہا ہوتا۔ کرم علی کو اس پر مزید غصہ آیا تھا۔ وہ اپنے آپ کو کیا سمجھتی تھی؟ وہ اس کو کیا جتانا چاہتی تھی؟ یہ کہ وہ بڑی خوددار تھی۔
”خود دار؟ جو ایک معمولی فلم کے لیے کسی بھی مرد کے ساتھ۔۔۔۔”
کرم علی نے تلخی سے سوچا۔
”اس میں اور ایک طوائف میں کیا فرق ہے” کرم علی اسے معاف کرنے پر تیار نہیں تھا۔ وہ اس کے بارے میں جتنا برا سوچ سکتا تھا، سوچ رہا تھا۔ جتنابدظن ہو سکتا تھا، ہو رہا تھا۔
٭٭٭

Loading

Read Previous

من و سلویٰ — قسط نمبر ۷

Read Next

من و سلویٰ — قسط نمبر ۹

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!