من و سلویٰ — قسط نمبر ۸

”میں نے اسی لیے منع کیا تھا کہ اس طرح بری اور زیورات پر پیسہ لٹانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم اس کے بغیر بھی ان لوگوں سے بہت اونچے ہیں لیکن آپ نے میری ایک بات نہیں سنی اور اس پر بھائی جان نے حد کر دی پانچ لاکھ روپے اور سونا بھی لکھ دیا اسے حق مہر میں، اس پورے محلے کی تمام بیاہی ہوئی لڑکیوں کا حق مہر اکٹھا بھی کر لیں تب بھی وہ اس سے آدھا ہی ہو گا اور ایک آپ بھی۔”
شکیلہ نے اب کرم علی کو مخاطب کر کے بات شروع کر دی۔ اب شادی ہو گئی تھی۔ اب وہی کام ضروری تھا جو وہ سب بیٹھ کر رہے تھے شادی والے دن کرم علی کی ضروری برین واشنگ… اس کے ذہن میں یہ کوٹ کوٹ کر بھرنے کی کوشش کرنا کہ اس کے سسرال والے کتنے گھٹیا اور کمینے لوگ ہیں۔
”میرا خیال ہے شکیلہ! کہ زری اور اس کے گھر والوں کے بارے میں تم لوگوں کو پہلے ہی سب پتا تھا۔ آنکھیں بند کر کے تو تم لوگوں نے رشتہ نہیں کیا۔ وہ کتنے غریب ہیں یا جیسے بھی ہیں یہ سب تو آپ لوگوں کو شادی سے پہلے سوچنا چاہیے تھا۔”
کرم علی نے بے حد ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا اسے اپنے بہن بھائیوں اور ماں کے لہجے میں جھلکنے والی حقارت بری طرح کھلی تھی۔
”ویسے بھی ہم خود اسی محلے میں رہے ہیں۔ اب یہ گندا ہے۔ یہ بدبو دار ہے جیسا بھی ہے ہمارا بچپن یہیں گزرا ہے اور ایک زمانے میں ہمارا گھر زری کے گھر سے زیادہ خستہ حال اور چھوٹا تھا۔ اسی طرح چھتیں ٹپکتی تھیں اس کی اور اس طرح چھت پر کسی کے چلنے سے چھت گرنے کا اندیشہ ہونے لگتا تھا۔” وہ اب اپنی ماں کو دیکھ کر کہہ رہا تھا۔
”اور یہاں کوئی غیروں کا مجمع نہیں تھا۔ سب لوگ ہمارے صرف نام نہیں بگڑے ہوئے نام تک جانتے ہیں ٹھیک ہے اب ہم یہاں نہیں رہتے اللہ تعالیٰ نے ہمیں بہت رزق دیا ہے۔ لیکن اسی گندگی میں پرورش پائی ہے ہم سب نے۔”
چند لمحوں کے لیے کرم علی کی بات پر سب کو جیسے سانپ سونگھ گیا تھا۔ پھر آصف نے مذاق اڑانے والے انداز میں کہا۔
”دیکھا بھائی تو پہلے دن ہی سسرال کی حمایت کرنے لگے ہیں، اب تو انہیں ہماری باتیں بری ہی لگیں گی نا۔”
”یہ حمایت یا طرف داری کی بات نہیں ہے، سچائی ہے۔” کرم علی نے اسے ٹوکا۔
”اب سو سال پہلے اگر ہم اس محلے میں رہتے تھے تو اس کا یہ مطلب تو نہیں ہے کہ آپ ہمیں اسی ایک چیز کے طعنے دینے لگیں۔” شکیلہ نے چڑ کر اور برا مان کر کہا۔
کرم علی کا دل چاہا وہ اسے بتائے کہ اسے یہاں سے گئے جتنے سال ہوئے ہیں۔ وہ اس کے ہاتھوں کی پوروں سے بھی کم ہیں۔ لیکن اس کے ہاتھوں کی لکیروں سے زیادہ گہرا نقش چھوڑے ہوئے ہیں۔
”میں کسی کو طعنہ نہیں دے رہا۔” کرم علی نے نرمی سے کہا پھر ماں سے مخاطب ہو کر بولا۔
”مجھے آپ سے اکیلے میں بات کرنی ہے۔”
اس کی ماں چونک گئی۔ وہ سب کے بیچ بیٹھے بٹھائے اکیلے بات کرنے پر کیوں اتر آیا تھا۔
”خیریت تو ہے؟”
”خیریت ہی ہے۔” کرم علی نے اٹھتے ہوئے کہا اور ماں کو ساتھ لے کر اس کے کمرے میں آگیا۔ ڈرائنگ روم میں ایک بار پھر زری اور اس کے گھر والوں کے بارے میں تمسخر کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔
”آپ نے مجھے یہ کیوں نہیں بتایا کہ لڑکی اتنی کم عمر ہے” کرم علی نے کمرے میں آتے ہی ماں سے کہا۔
”کتنی کم عمر ہے؟ بیس پچیس سال کی ہے۔ یہ کوئی کم عمر ہے؟” کرم علی کی ماں نے انجان بنتے ہوئے کہا۔
”اٹھارہ سال عمر ہے اس کی یا چلیں زیادہ سے زیادہ انیس کی ہوگی۔” کرم علی نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا۔
”جھوٹ بولتے ہیں اٹھارہ کی کہاں سے لگ رہی ہے۔ لوگ خوا مخواہ غلط عمریں لکھو ادیتے ہیں۔” کرم علی کی ماں نے ناگواری سے کہا۔
”امی! میں جب پاکستان سے گیا تھا۔ اس وقت حمیدالدین کی صرف تین بیٹیاں تھیں۔” کرم علی نے سب لحاظ بالائے طاق رکھتے ہوئے کہا ایک لمحے کے لیے کرم علی کی ماں خاموش ہو گئی وہ واقعی یہ بھول گئی تھی کہ کرم علی حمید الدین کے خاندان کو ان ہی کی طرح جانتا تھا۔
”تو ہم نے کوئی زبردستی شادی تھوڑی کی ہے۔انہوں نے اپنی مرضی سے بیٹی دی ہے ہمیں۔” کرم علی کی ماں نے یک دم بات بدلتے ہوئے کہا۔
”سوال یہ نہیں ہے کہ انہیں اعتراض ہے یا نہیں۔ سوال یہ ہے کہ آپ نے مجھے پہلے یہ بات کیوں نہیں بتائی؟”
”مجھے دھیان نہیں رہا اور یہ کوئی خاص بات تھی بھی نہیں۔” کرم علی کی ماں نے حد درجہ لاپروائی سے کہا۔
”خاص بات ؟ وہ مجھ سے آدھی عمر کی ہے امی! میں اتنی کم عمر لڑکی کے ساتھ شادی نہیں کرنا چاہتا تھا۔”
”تم تو شادی ہی نہیں کرنا چاہتے تھے اور خیر اب تو شادی ہو گئی۔ اب چھوٹی یا بڑی عمر سے کیا فرق پڑتا ہے؟” کرم علی کی ماں نے اس بار پھر اسی اطمینان سے کہا۔
کرم علی کچھ دیر الجھی ہوئی نظروں سے انہیں دیکھتا رہا پھر اس نے بالآخر وہ بات کہی جو اس کی پریشانی کی اصل وجہ تھی۔
”آپ نے ان لوگوں کو یہ بتایا ہے کہ مجھے برص ہے؟”
کرم علی کی بات پر وہ کچھ دیر کے لیے اس کا چہرہ دیکھتی رہی پھر اس نے بڑے آرام سے کہا۔
”نہیں۔”
اس بار کرم علی بول نہیں سکا تھا۔
”یہ بتانے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ تمہارے کون سے چہرے پر برص ہے۔ جسم پر ہے اور جسم کپڑوں میں چھپ جاتا ہے اور پھر یہ کوئی چھوت کی بیماری تو ہے نہیں، جو تمہاری بیوی کو لگ سکتی ہے کہ تمہارے سسرال والوں کو پہلے سے اس کی اطلاع دینا ضروری ہے۔”
”اور اگر کل کو چہرے پر بھی ہو گیا تو؟” کرم علی نے بے حد تیز آواز میں کہا۔
”پر تم نے تو علاج کروا لیا تھا۔” کرم علی کی ماں کو ایک لمحے کے لیے تشویش ہوئی۔
”کروایا ہے میں نے… لیکن اگر میری قسمت خراب ہوئی تو پھر بڑھنا شروع ہو جائے گا۔” کرم علی نے جھنجھلا کر کہا۔
”اللہ نہ کرے۔” اس کی ماں نے بے ساختہ کہا۔ ”تمہارے چہرے پر بھی برص ہوتا نا تو تمہارے سسرال والوں کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔ وہ ہنس کر اپنی بیٹی دیتے تمہیں۔ انہوں نے تمہاری شکل و صورت نہیں دیکھی۔ جیب دیکھی ہے۔ بیٹی کا آرام و آسائش دیکھا ہے۔”
کرم علی کی ماں نے جیسے نیزے کی انی لے کر کرم علی کے دل میں گاڑ دی تھی۔ یعنی وہ یہ جانتی تھی کہ وہ صرف پیسے کے لالچ کے لیے کرم علی کے ساتھ اپنی بیٹی کا رشتہ طے کر رہے تھے اور اس کی ماں نے یہ رشتہ ہونے دیا۔
”میں ایسی بیوی نہیں چاہتا امی! جس کے ماں باپ میری شرافت نہیں صرف میری دولت دیکھ کر مجھ سے اپنی بیٹی بیاہیں۔”
اس نے بے حد رنج سے کہا ”یہ وہ زمانے نہیں ہیں جب کوئی مرد کی شرافت دیکھ کر اس کے ساتھ اپنی بیٹی کا رشتہ طے کر دے۔ اب صرف مرد کا پیسہ ہی دیکھا جاتا ہے۔ اور تو اگر یہ سمجھتا ہے نا کہ عارفہ کے ماں باپ نے تمہاری شرافت دیکھ کر تمہارے ساتھ اس کا رشتہ کر دیا تھا تو یہ بھی بھول ہے تمہاری۔ انہوں نے بھی تب رشتہ کیا تھا تمہارے ساتھ جب تم نے چار پیسے کمانے شروع کر دیے تھے۔”
اس وقت عارفہ کا طعنہ اسے ایک اور برچھی کی طرح لگا۔ وہ وہاں زری کے ماں باپ اور عارفہ کے ماں باپ کا موازنہ کرنے نہیں آیا تھا۔ لیکن ماں سے بات کرنا جیسے بھینس کے آگے بین بجانے کے مترادف تھا۔
”اور دیکھو، زری کو آج صاف صاف بتا دینا کہ اسے تمہاری ماں اوربہن بھائیوں کی تمہاری طرح عزت کرنی ہے۔ بلکہ اسے صاف لفظوں میں بتا دینا کہ اگر اس کی وجہ سے تمہارے گھر والوں کو کوئی تکلیف ہوئی تو وہ تمہارے گھر میں اس کا آخری دن ہو گا۔”
کرم علی نے بے حد حیرانی سے ماں کی شکل دیکھی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آیا تھا کہ ماں کی اس بات کا کیا جواب دے۔ اس کے چہرے پر یقینا کوئی ایسے تاثرات نمودار ہوئے تھے جنہوں نے اس کی ماں کو یک دم سنبھلنے پر مجبور کیا۔
”میں اس لیے کہہ رہی ہوں بیٹا کہ کل کو تمہارے لیے کوئی مسئلہ پیدا نہ ہو۔ اب اسے تو پتہ نہیں ہے نا کہ تم ہمارے بغیر نہیں رہ سکتے۔ تم اسے خود بتا دو گے تو وہ بھی ذرا اچھے طریقے سے بات کرے گی سب سے… ورنہ تو میں جانتی ہوں کہ بیٹے بیاہتے ہی پرائے ہو جاتے ہیں۔ صرف بیویوں اور سسرال والوں کو ہی فیض ہوتا ہے ان سے۔ اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں کی طرف سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں وہ۔”
”امی آپ کیسی باتیں کر رہی ہیں؟” کرم علی پریشان ہو گیا۔ ”آپ کی ضد پر شادی کر رہا ہوں۔ ورنہ میں تو شادی کرتا ہی نہیں اور اب آپ سمجھ رہی ہیں کہ یہ شادی میرا خون سفید کر دے گی۔”
”میں جانتی ہوں میرا کرم علی بڑا فرمانبرداراور سعادت منداولاد ہے یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ ماں کی نافرمانی کرے مگر پھر بھی تیرے بہن بھائیوں کو بڑا خوف ہے کہ تو اب بدل جائے گا۔”
کرم علی نے بے اختیار گہرا سانس لیا تو اس کی ماں کی زبان پر اس کے اپنے لفظ نہیں تھے وہ اس کے بہن بھائیوں کے خدشات اور خیالات کو زبان دے رہی تھی۔
٭٭٭
زری نے کرم علی کے جسم پر موجود برص کے نشانات اس کے ساتھ کھانا کھاتے ہوئے دیکھے تھے۔ کرم علی اب شلوار قمیص میں ملبوس تھا اور اس کی کلائیوں سے اوپر نظر آنے والے بازو اوراس کے کھلے گریبان سے نظر آنے والے برص زدہ جسم کو دیکھ کر زری کو جیسے کرنٹ لگا تھا۔
وہ کچھ دیر پہلے ہی آکر اس کے سامنے اس ٹیبل پر بیٹھا تھا جس پر کھانا لگا ہوا تھا۔ زری کو عجیب سی کراہیت محسوس ہوئی تھی اس سے… اس کی شادی ایک برص زدہ آدمی سے ہو گئی تھی۔ پتہ نہیں یہ اس کے ماں باپ نے اس سے چھپایا تھا یا کرم علی اور اس کے گھر والوں نے اس کے ماں باپ سے۔
زری کا خون کھولنے لگا تھا تو یہ وجہ تھی اس کے خاندان سے رشتہ جوڑنے کی کیونکہ کرم علی کو کوئی اورمعزز اور متمول خاندان اپنی بیٹی دینے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ وہ وقفے وقفے سے کھانا کھاتے ہوئے کرم علی کے آستینوں سے نظر آنے والے بازو اور کھلے گریبان سے نظر آنے والے سینے پر برص کے نشان دیکھ کر جھلستی رہی۔
اس کی ساس نند اور گھر کے چند دوسرے لوگ اس کے ساتھ بیٹھے کھانا کھاتے اور باتیں کرتے رہے مگر زری کی بھوک غائب ہو گئی تھی، سب کے اصرار کے باوجود اوراپنی پسند کی چیزیں سامنے ہونے کے باوجود اس نے بہت کم کھایا۔
اسے سامنے بیٹھے ہوئے شخص سے شدید نفرت ہو رہی تھی۔ اسے جمال شدت سے یاد آنے لگا۔ اسے بری طرح رونا بھی آنے لگا تھا۔
کرم علی اس وقت صرف اسے اپنی خوشیوں کا قاتل لگ رہا تھا اورکچھ نہیں، کھانے کے دوران اس نے کرم علی کی شادی کے سلسلے میں اس کے گھر کے افراد کے کچھ مطالبات سنے جو کرم علی نے بخوشی مانے تھے۔
وہ چند لمحوں کے لیے ہکا بکا رہ گئی تھی آخر اس شخص کے پاس کتنا پیسہ تھا کہ وہ لاکھوں روپے کے تحائف یوں اپنے بہن بھائیوں اور ان کے بچوں کو دے سکتا تھا اور اتنی آسانی سے؟ زری کو فوراً اپنا حق مہر یاد آگیا تھا۔ زیور تو پہلے ہی اس کے پاس تھے۔ البتہ اسے کرم سے حق مہر کے پانچ لاکھ روپے لینے تھے اور وہ چاہتی تھی کہ وہ جتنی جلدی یہ رقم لے لیتی اتنا بہتر تھا۔ کرم علی کے خدشات ٹھیک ثابت ہوئے تھے۔ اس کی زندگی میں ایک ایسا رشتہ شامل ہو گیا تھا جسے اسے استعمال کرنے کے علاوہ کسی دوسری شے میں دلچسپی نہیں تھی۔
”یہ شادی آپ کی مرضی سے ہوئی ہے؟”
کرم علی اور اس کے درمیان تنہائی میں یہ پہلا جملہ تھا جو کرم علی نے بولا تھا کچھ دیر کے لیے زری ساکت بیٹھی رہ گئی تھی۔ کیا کرم علی کو کوئی شک ہو گیا تھا؟ کیا جمال نے کرم علی کو کچھ؟ وہ یک دم پریشان ہو گئی تھی اور جب زری پریشان ہوتی تو اس کی ساری حسیات کام کرنے لگتی تھیں۔
”جی!” اس نے بے حد مختصر جوابدیا۔
کرم علی مطمئن نہیں ہوا تھا ایک جی اس کے سوال کا جواب ہوتا اگر وہ اپنے معاشرے کو اچھی طرح سے جانتا ہوتا۔
”میرا مطلب ہے آپ کے والدین نے آپ کو میرے ساتھ شادی کے لیے زبردستی مجبور تو نہیں کیا؟” کرم علی نے اب اپنے سوال کو کچھ تبدیل کرتے ہوئے کہا۔
”نہیں” زری نے ایک بار پھر اسی طرح نظریں جھکائے ہوئے کہا۔
”میرے بارے میں سب کچھ بتایا تھا آپ کے والدین نے آ پ کو؟ میرا مطلب ہے میری عمر، میری شکل و صورت۔”
زری نے اس بار اس کی بات کاٹ دی، اسے اب کرم علی کی اس بے وقت کی تفتیش پر غصہ آرہا تھا۔
”صرف آپ کے برص کے بارے میں نہیں بتایا تھا انہوں نے مجھے۔”
کرم علی چند لمحوں کے لیے خاموش ہو گیا وہ واقعی نادم تھا۔
”آئی ایم سوری میں نہیں جانتا تھا کہ میری امی اور بہن اس بات کو آپ کے گھر والوں سے چھپائیں گے، مجھے آج ہی پتہ چلا اور میں بہت شرمندہ ہوں۔”
زری کا دل چاہا کہ وہ کہے کہ اس کے شرمندہ ہونے کا اسے کیا فائدہ تھا۔
”بہت ساری چیزیں اور بھی ہیں جن کے بارے میں مجھے بھی یہیں آکر پتہ چلا اور میں اس وجہ سے کافی اپ سیٹ ہوں۔ میں شادی کو ایک بہت ہی مقدس بندھن سمجھتاہوں اور میں اس میں کسی زبردستی کا قائل نہیں ہوں۔ اگر اس رشتے میں آپ کی مرضی شامل نہیں ہے اور آپ اس شادی سے ناخوش نہیں تو آپ بلا جھجک مجھے بتا دیں۔ میں بہت اچھے طریقے سے اس سارے مسئلے کا کوئی حل نکال لوں گا اور آپ پر کوئی الزام نہیں آئے گا۔ آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔”
کرم علی کا اندازہ نہیں تھا کہ وہ اس کی اس تسلی کے جواب میں اس کے منہ سے کیا سننے والا تھا۔ اسے اندازہ ہو تا تو وہ یقینا زری سے اس وقت یہ گفتگو نہ کر رہا ہوتا۔
”آپ تو خود اس رشتہ پر خوش نہیں ہیں؟” زری نے اس بار جھنجھلا کر اس سے کہا۔ کرم علی کی ہمدردی کا اس پر الٹا اثر ہوا تھا۔ چند لمحوں کے لیے وہ بول نہیں سکا۔ وہ زری سے جواباً اس سوال کی توقع نہیں کر رہا تھا۔

Loading

Read Previous

من و سلویٰ — قسط نمبر ۷

Read Next

من و سلویٰ — قسط نمبر ۹

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!