من و سلویٰ — قسط نمبر ۸

کرم علی بے حس و حرکت اسے دیکھ رہا تھا۔ اس کا چہرہ بے حد خوبصورت تھا لیکن اس کی زبان اتنی ہی بد صورت تھی۔ اس کی زبان پر زہر کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا، کم از کم کرم علی کے لیے۔ آج عمر کے بعد وہ شکل و صورت پر آگئی تھی۔ اب برص تک کب آتی تھی، یہ کرم علی کو دیکھنا تھا۔ وہ اگر یہ سمجھتا تھا کہ وہ زری کے ساتھ حسن سلوک کر کے یاآسائشات سے مالا مال کر کے اس کا دل جیت سکتا تھا تو یہ اس کی زندگی کی سب سے بڑی بھول تھی۔ زری نے اسے غاصب کے علاوہ کبھی کچھ نہیں سمجھا تھا، نہ وہ سمجھ سکتی تھی۔
وہ پورا دن کرم علی آفس میں اپ سیٹ رہا اور شادی کے بعد پہلی بار اس کا دل گھر واپس جانے کو نہیں چاہ رہا تھا۔ اس پورے دن میں اس نے زری کو ہمیشہ کی طرح آفس سے کالز نہیں کیں۔ زری تو خیر اسے پہلے بھی کبھی کال نہیں کرتی تھی۔
وہ رات کو تقریباً دس بجے گھرواپس آیا تھا اور زری تب تک کھانا کھا کر کوئی انڈین فلم دیکھ رہی تھی۔ وہ کرم علی سے بالکل اس طرح پیش آئی تھی جیسے ان دونوں کے بیچ صبح کچھ ہوا ہی نہیں ہو لیکن معمول کا انداز رکھنے کے باوجود اس نے کرم علی سے یہ نہیں پوچھا تھا کہ وہ اتنی دیر سے کیوں آیا ہے۔
کرم علی پوری رات جاگتا رہا اور زری فلم دیکھنے کے بعد بڑے اطمینان سے اس کے برابر گہری نیند سو گئی۔ کئی مہینوں کے بعد اور اپنے آپ سے کیے ہوئے تمام وعدوں کے باوجود کرم علی اس رات ایک بار پھر اس کمرے میں گیا تھا۔ جہاں زینی کی فلمز، میگزینز، پوسٹرز اور تصویروں کا ایک انبار پڑا تھا۔ کئی مہینوں بعد اسے اپنی برص زدہ کلائی پر اس کے ہاتھ کا لمس ”یاد” آیا تھا۔ یاد آیا تھا یا شاید ”محسوس” ہوا تھا۔ کئی مہینوں کے بعد اسے اس کی آواز میں یک دم چھلکنے والی نرمی اور ہمدردی مرہم کے کسی پھاہے کی طرح یاد آئی اور کئی مہینوں کے بعد ایک بار پھر اس کا دل چاہا تھا، وہ زینی کو کچھ بھجوائے۔ اسی طرح کسی بے نام شخص کی طرف سے ،کسی غلط ایڈریس سے۔
پھر اسے یک دم احساس ہوا، وہ شادی شدہ ہے اور زینی کے ساتھ کوئی تعلق دلی یا جذباتی یا کیسا بھی بددیانتی کی سیڑھی پر پہلا قدم ہوتا اور پہلا قدم رکھنے کے بعد دوسرا قدم رکھنے میں کتنا وقت لگتا تھا، بہت کم۔
”جو تعلق ٹوٹ گیا، اسے ٹوٹا رہنے دو کرم علی! تعلق پھر سے جڑے گا تو بڑی مشکل ہو جائے گی۔ وہ ابھی بھی دل سے نہیں جاتی پھر کیا کیا مصیبتیں پیدا کر دے گی تمہارے لیے۔ اس کا اندازہ ہے تمہیں؟ اور پھر ہے تو وہ بھی ایک ایکٹریس جو تمہیں اپنے ایک فین سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتی۔ ایک امیر اور مال دار مداح جو اسے تالی اور ستائش کے علاوہ بھی بہت کچھ دے سکتا ہے۔ زری میں کھوٹ ہے تو کھوٹ ادھر بھی ہے۔ زری میں خود غرضی ہے تو خود غرضی وہاں بھی ہے۔ زری میں بے مہری اور نا قدری ہے تو ادھر بھی اس کی کمی نہیں۔ زری میں زہر ہے تو شہد وہاں بھی نہیں ہے۔ زری بیوی ہے تمہاری، بری سہی مگر پاک باز توہے اور وہ کیا ہے۔ آنکھوں دیکھی مکھی جسے تم نگلنا چاہتے ہو۔”
اس کا دل اسے پتہ نہیں کیا کیا جتا رہا تھا اور اس کا ذہن پتہ نہیں کیا کیا بتا رہا تھا۔ وہ اس کمرے سے اٹھ کر اس کمرے میں آگیا جس کی وارڈ روب اور closests اس شاپنگ سے بھری تھیں جو اس نے زینی کے لیے کی تھی۔ ہر چیز پر نظر دوڑاتے اس کو پتہ نہیں کیا کیا یاد آرہا تھا۔ وہ سارے دن فلم کی کسی ریل کی طرح اس کی آنکھوں کے سامنے گھومنے لگے تھے۔ اس کی زندگی کے بہترین دن۔
٭٭٭
”فاروق کے گھر والے آئے تھے آج۔ ربیعہ کو پسند کر گئے ہیں۔ کہہ رہے تھے، انہیں جلدی شادی کرنی ہے۔ فاروق پی ایچ ڈی کے لیے باہر جا رہا ہے۔ اسکالر شپ ملا ہے اسے۔ وہ لوگ چاہتے ہیں وہ شادی کر کے بیوی کو ساتھ لے کر باہر جائے۔”
نفیسہ نے بے حد خوشی اور جوش کے عالم میں زینی کے رد عمل کود یکھے بغیر اسے بتاتی جا رہی تھیں۔
”بڑے اچھے لوگ ہیں۔ نیک اور سادہ۔ ذرا بھی بناوٹ اور غرور نہیں ان میں۔ تمہارا بھی کئی دفعہ ذکر کیا انہوں نے اور بڑے اچھے لفظوں میں۔”
نفیسہ نے خاص طور پر اس طرح ذکر کیا جیسے زینی کا اچھے لفظوں میں ذکر ہونا بڑے اچنبھے اور کارنامے کی بات تھی۔ زینی کے چہرے پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ آئی۔ اب اتنی چھوٹی چھوٹی باتوں کو محسوس کرنا چھوڑ دیا تھا اس نے۔
”میں بس یہ چاہ رہی تھی کہ لڑکے کے بارے میں کچھ تحقیق کروا لی جائے اور۔۔۔۔”
اس سے پہلے کہ نفیسہ کچھ اور کہتیں، ربیعہ اندر آگئی۔ ”کوئی ضرورت نہیں ہے کسی تحقیق کی۔ دو سال اس کے ساتھ تعلیم حاصل کی ہے میں نے۔ بہت اچھی طرح جانتی ہوں اسے۔”
اس نے ماں کی بات مکمل نہیں ہونے دی تھی۔ زینی نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا۔ وہ چند ہفتے پہلے کی مرجھائی اور کملائی ہوئی ربیعہ نہیں تھی۔ اس وقت اس کا چہرہ خوشی سے دمک رہا تھا۔ کافی عرصے کے بعد اس کے چہرے پر اس نے ایسے رنگ دیکھے تھے۔ زینی کو واقعی خوشی ہوئی۔
”ربیعہ ٹھیک کہتی ہے۔ وہ جانتی ہو گی فاروق کو اچھے طریقے سے۔ تحقیق کروانے میں وقت ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے۔”
زینی نے یہ نہیں بتایا تھا کہ سلطان بہت پہلے ہی فاروق کے بارے میں جتنی معلومات حاصل کر سکتا تھا، کرچکا تھا۔
”آپ اب لڑکے والوں کے گھر کب جارہی ہیں؟”
”بس اسی ہفتے۔ وہ لوگ تو چاہتے تھے کہ کل ہی آجاؤں میں ان کے گھر لیکن میں نے کہا کہ زہرہ کو ساتھ لے کر جانا ہے۔ وہ اپنے کاموں سے کچھ فارغ ہو جائے توچلیں گے۔ ویسے بھی پسند تو کر ہی گئے ہیں وہ۔ اب تو صرف رسم ہی باقی ہے۔”
نفیسہ نے زینی سے ساتھ چلنے کو نہیں کہا تھا۔ زینی کو ماں پرپیار آیا۔ وہ ربیعہ کی خوشیوں کو اس کے سائے سے بھی اس طرح بچا رہی تھیں جیسے مرغی اپنے پروں کے نیچے اپنے بچوں کو چھپاتی ہے۔ کہیں کچھ ایسا نہ ہوجائے زینی کی وجہ سے کہ ربیعہ کو پھر کچھ کھونا پڑے۔
زینی کو کوئی رنج نہیں ہوا تھا۔ ماں نے بہت عرصے پہلے اسے کمزور سمجھنا چھوڑ دیا تھا کیونکہ وہ پیسے کی وجہ سے یک دم بہت طاقتور لگنے لگی تھی۔ اتنی طاقت ورکہ انہیں لگا اب اسے کسی کے سہارے اور کندھے کی ضرورت ہی نہیں ہے لیکن باقی بچوں کو تھی۔
”آپ لوگ جا کر شادی کی تاریخ کے بارے میں بھی کچھ طے کر لیں کیونکہ شادی کے انتظامات کے لیے ابھی سے۔۔۔۔”
ربیعہ نے زینی کو بات مکمل نہیں کرنے دی۔ ”شادی کے کوئی انتظامات نہیں کرنے ہیں۔ میں نے فاروق سے کہا ہے کہ بس سادگی سے نکاح ہو جائے تو ٹھیک ہے اور اسے کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اس لیے تمہیں انتظامات کے بارے میں پریشان ہونے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ میں اپنے پرانے گھر میں نکاح کروانا چاہتی ہوں اور وہیں سے ہی رخصتی ہو گی۔”
زینی پلکیں جھپکائے بغیر ربیعہ کا چہرہ دیکھتی رہی۔
”خوا مخواہ سادگی سے شادی ہو گی۔ زینی اگر دھوم دھام سے شادی کرنا چاہتی ہے تو شادی دھوم دھام سے ہی ہو گی۔ سسرال والے بعد میں سو سو باتیں کرتے ہیں کہ پیسے بچا لیے اس طرح شادی کر کے۔ اس لیے زینی کو شادی کے انتظامات کرنے دو۔”
نفیسہ نے اس بار ربیعہ کو ڈانٹتے ہوئے کہا۔ وہ ایک بیٹی کی سادگی سے شادی کے نتائج کئی سال بھگتی رہی تھیں۔ اب دوسری کی شادی سادگی سے کرنے کے نام سے بھی خوفزدہ تھیں۔
”ابو کے پیسے ہوتے نا تو میں بھی دھوم دھام سے ہی شادی کرتی مگر مجھے اس کے حرام کے پیسے سے اپنے گھر کی بنیاد نہیں رکھنی اور فاروق کے گھر والے صاف صاف بتا بھی گئے ہیں آپ کو کہ انہیں تین کپڑوں میں رخصتی چاہیے اورجہیز کے نام پر بھی کچھ نہیں چاہیے۔”
ربیعہ نے بے حد فخریہ انداز میں بہن کو دیکھتے ہوئے ماں سے کہا۔
”جیسے ربیعہ چاہتی ہے آپ وہی کریں۔ وہ سادگی سے شادی چاہتی ہے تو سادگی سے ہی سی۔ آپ زیورات اور دوسری ضرورت کی چیزیں۔۔۔۔” ربیعہ نے ایک بارپھر زینی کی بات کاٹ دی۔
”مجھے زیورات اور دوسری چیزیں بھی نہیں چاہئیں۔ میں نے کہا نا مجھے تمہارے کمائے ہوئے پیسے کو اپنی شادی پر خرچ نہیں کرنا۔ اسے تم اپنی شادی کے لیے محفوظ رکھو۔”
”تم خالی ہاتھ اپنے سسرال جاؤ گی تو بہت عزت کریں گے تمہاری۔ دروازے پر ہی تمہارے گلے میں پھولوں کے ہار ڈالیں گے۔ آخر ایسی بہوئیں روز روز تھوڑی ملتی ہیں، جنہیں حرام اور حلال کا فرق پتہ ہو تا اور وہ حرام سے اتنا بچتی ہوں کہ جہیز کے نام پر ایک تنکا بھی سسرال لے کر نہ جائیں۔ کیونکہ ان کے میکے میں آنے والا روپیہ حرام ہے۔”
زینی نے بے حداطمینان سے یوں کہا جیسے معمول کی گفتگو ہو رہی ہو۔
”طنز کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ چار باتیں سننی پڑیں گی مجھے جہیز نہ لے جانے پر۔ وہ میں سن لوں گی۔” ربیعہ نے برا مان کر کہا۔
”چار باتیں…؟ اب وہ چار باتیں تمہیں کب تک اور دن میں کتنی بار سنائی جائیں گی۔ یقینا تمہیں یہ جاننے میں بھی کوئی دلچسپی نہیں ہو گی کیونکہ تم ”چار باتوں” کے لیے ذہنی طور پر تیار ہو۔ تم نے ہزاروں بار زہرہ آپا کو وہ ”چار باتیں” سنتے دیکھا ہے، اس لیے تمہیں کیا پروا۔”
”دنیا میں سارے لوگ نعیم بھائی اور زہرہ آپا کے سسرال والوں جیسے نہیں ہوتے۔ ہر ایک پیسے کا بھوکا اور کمینہ نہیں ہوتا اور نہ ہر لڑکی کی قسمت ایک جیسی ہوتی ہے۔ ہو سکتا ہے فاروق کے گھر والے بالکل مختلف ہوں۔ ضروری تو نہیں ہے کہ ہر مرد نعیم بھائی ہی کی طرح لالچی ہو گا۔”
”جب تمہیں پاکستان میں ایسامرد ملے جو بیوی کے مال پر نظر نہ رکھتا ہو اور سسرال کی دولت دیکھ کر جس کی رال نہ ٹپکتی ہو اور جس کو ماں باپ سے بیوی اور سسرال سے مانگنے کو اپنا حق سمجھنے کی ہدایت نہ ملی ہو تو مجھے ضرور دکھانا۔ میں اسے چڑیا گھر میں رکھواؤں گی۔”
زینی نے میگزین کی ورق گردانی کرتے ہوئے بظاہر عام اندا زمیں لیکن بے حد ہتک آمیز لہجے میں کہا۔
ربیعہ کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ ”آپ نے سنا، کیا کہا اس نے مجھے؟ اس کی ایسی ہی باتوں کی وجہ سے۔۔۔۔”
نفیسہ نے ربیعہ کی بات کاٹ دی۔
”وہ ٹھیک کہتی ہے ربیعہ! آج کل کوئی ایسا نہیں ہے جو خالی ہاتھ گھر آنے والی بہو کو ہنس کر گلے لگائے۔ لوگوں کا ظاہر اور باطن بہت مختلف ہوتا ہے۔”
”کیا ہو گا زیادہ سے زیادہ جوتے ہی کھانا پڑیں گے زہرہ آپا کی طرح، میں کھا لوں گی لیکن نعیم بھائی کی طرح فاروق کو بھکاری نہیں بناؤں گی کہ وہ ایک ایک چیز کے لیے یہاں آئے اور یہاں پر ہاتھ پھیلائے۔”
زینی نے میگزین ٹیبل پر پھینکا اور اپنا سیل فون اٹھاتے ہوئے کھڑی ہو گئی۔
”ٹھیک ہے، تمہیں اگر یہ سب کچھ پسند نہیں ہے تو نہ سہی۔ یہ تمہاری شادی ہے، اسی طرح ہونی چاہیے جیسے تم چاہتی ہو۔”
زینی نے جیسے بات ختم کرتے ہوئے بحث ختم کی تھی۔
شادی کی ساری تیاری واقعی ویسے ہی ہوئی تھی جیسے ربیعہ نے چاہی تھی۔ بے حد سادگی اور کسی شور ہنگامے کے بغیر۔ البتہ اس کے سسرال کے لیے نفیسہ نے زیورات اور تحائف لیے تھے جن کے بارے میں ربیعہ کو شادی کے دن تک پتانہیں چلا تھا اور جب اسے پتاچلا تب تک وہ چیزیں اس کے سسرال والوں تک پہنچ گئی تھیں۔ وہ خون کے گھونٹ پی کر رہ گئی تھی۔
شادی سے ایک رات پہلے زینی رات گئے اس کے کمرے میں آئی تھی۔ ربیعہ تب تک لائٹ بجھا کر سونے کے لیے لیٹنے ہی والی تھی۔ زینی کواپنے پاس دیکھ کر وہ حیران ہوئی۔
”کوئی کام ہے؟” اس نے زینی سے پوچھا۔
”نہیں، ایسے ہی کچھ دیر تمہارے پاس بیٹھنا چاہتی ہوں۔”
اسے اس رات زینی بے حد سنجیدہ لگی تھی۔ وہ بہت دیر چپ چاپ ربیعہ کے پاس اس کے بستر پر بیٹھی رہی پھر ربیعہ کے ہاتھ پکڑ کر ان پر لگی مہندی دیکھنے لگی۔
”بہت گہرا رنگ آیا ہے۔” اس نے مدھم آواز میں زینی کو کہتے ہوئے سنا۔ اسے پتا تھا، وہ مہندی لگوانے کی بہت شوقین تھی۔
”تمہاری شادی پر تمہارے ہاتھوں پر لگے گی تو تمہارے ہاتھوں پر بھی بہت گہرا رنگ آئے گا۔”
ربیعہ نے پتہ نہیں کیا سوچ کر اس سے کہا۔ زینی ہنس پڑی۔ وہ اس نے ربیعہ کے ہاتھ چھوڑ دیے۔ ربیعہ منتظر بیٹھی رہی۔ بہت دیربعد جب اس نے سر اٹھایا تو ربیعہ نے اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھے، اسے تکلیف ہوئی۔
”مجھ سے کوئی غلطی ہوئی ہو تومجھے معاف کر دینا۔” اس نے زینی کو کہتے سنا۔ ربیعہ چاہتے ہوئے بھی اس وقت کچھ نہیں کہہ سکی۔
”میری وجہ سے تم لوگوں کوبہت زیادہ تکلیف اٹھانا پڑی ہے۔” اس نے زینی کو پہلی بار اعتراف کرنے سنا۔
”بعض دفعہ سب کچھ ہاتھ سے نکل جاتا ہے ربیعہ! لاکھ کوشش کرے آدمی کچھ نہیں کر سکتا۔” وہ بہت مدھم آواز میں رک رک کر بول رہی تھی۔ اور اتنے سالوں میں پہلی بار ربیعہ کی ہمت نہیں ہو پا رہی تھی کہ وہ اسے ملامت کر سکے۔ وہ کام جو وہ ہمیشہ کرتی تھی، زینی بہت دیر اس کے پاس چپ چاپ بیٹھی رہی تھی پھر اس نے ربیعہ کا ہاتھ پکڑ کر اس پر کچھ رکھا۔ وہ سونے کا ایک چھوٹا سا لاکٹ تھا۔
”یہ حرام کے پیسے کا نہیں ہے۔ ابو کی پنشن کے پیسوں کا ہے۔”
ربیعہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ زینی وہاں رکی نہیں، وہ اسی طرح اٹھ کر وہاں سے چلی گئی۔
٭٭٭
”آپ نے مجھے بتایا ہی نہیں کہ آپ نے میرے لیے اتنی شاپنگ کر رکھی ہے۔”
وہ زری کی بات پر حیران رہ گیا۔ وہ حسب عادت اس وقت بے حد میٹھے انداز میں اس سے بات کر رہی تھی اور بے حد خوش نظر آرہی تھی۔ نہ صرف یہ بلکہ اس نے کرم علی کے آتے ہی اسے آج خاص طور پر اس کے لیے کھانا پکانے کی اطلاع دی تھی اور کرم علی کی چھٹی حس نے اسے خبردار کرنا شروع کردیا تھا۔ اس کھانے کی کوئی وجہ ضرور ہو گی اور وہ وجہ اگلے چند منٹوں میں ہی سامنے آگئی تھی۔
”کیسی شاپنگ؟” کرم علی نے کچھ حیران ہو کراس سے پوچھا۔
”آپ اس طرح انجان نہ بنیں۔ مجھے پتہ ہے آپ یہ سب شادی کی سالگرہ کے لیے اکٹھا کر رہے ہیں لیکن میں نے نکال لی ہیں ساری چیزیں وہاں سے۔” زری نے بے حد لاڈ سے کہا۔
کرم علی کو کرنٹ لگا تھا، وہ جان گیا تھا کہ وہ کن چیزوں کی بات کر رہی ہے۔ وہ یقینا زینی کی شاپنگ تھی۔ فوری طور پر اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیسے ری ایکٹ کرے۔
”اور وہ ایک کمرہ ہے، اس کی چابی نہیں مل رہی مجھے۔ ہاؤس کیپر بتارہی تھی کہ آپ کے پاس ہے۔ ” زری اب اس کمرے کی بات کر رہی تھی جس میں زینی کی تصویریں اور فلمز پڑی تھیں۔ ”ہاؤس کیپر کہہ رہی تھی کہ آپ نے بہت عرصے سے اسے صاف بھی نہیں کروایا۔ مجھے چابی دے دیں، میں صاف کرواتی ہوں اسے۔ ویسے اس کمرے میں ہے کیا؟”
زری کا انداز بظاہر بہت نارمل تھا لیکن کرم علی جانتا تھا اس کمرے کی چابی اس کے ہاتھ لگنے کا مطلب کیا تھا؟ زری کے ہاتھ میں وہ طعن و طنز کی ایک اور تلوار پکڑا دیتا۔ وہ بہت کم اب اس کمرے میں جاتا تھا لیکن اس کے باوجود وہ زینی سے متعلقہ تمام چیزیں ضائع کرنے پر اپنے دل کو آمادہ نہیں کر سکا تھا۔
”اس کمرے میں کچھ نہیں ہے اور مجھے اگر اس کمرے کی صفائی کروانی ہو گی تومیں ہاؤس کیپر سے کروا لوں گا۔ آپ زحمت نہ کریں۔”
”نہیں تو نہ سہی۔ میں تو آپ کے لیے ہی کہہ رہی تھی۔”زری نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔ وہ فی الحال مکمل طور پر ان چیزوں کو استعمال کرنے کے خیال میں مگن تھی جو وہ اس closet سے نکال کر لائی تھی۔
”مجھے ہر وقت شاپنگ سے ٹوکتے رہتے ہیں اور خود دیکھیں کتنی کتنی مہنگی چیزیں خرید لائے ہیں میرے لیے۔”
زری اب بھی بڑے لاڈ سے خوشی سے جگمگاتی آنکھوں کے ساتھ کہہ رہی تھی۔ کرم علی خاموش رہا۔ ٹھیک تھا، وہ یہ سب کچھ استعمال کر لیتی۔ آخر کتنی دیر تک وہ ساری چیزیں وہ رکھ سکتا تھا۔ رکھ کر ضائع کرنے سے بہتر تھا کہ وہ کسی کے استعمال میں آتیں اور اس کی بیوی ہونے کے ناطے اس کا حق کسی بھی دوسری عورت سے زیادہ تھا۔
”چپ کیوں ہیں آپ؟” زری نے بالآخر اس کی خاموشی کو محسوس کیا تھا۔ اب سامان کا اتنا انبار ہاتھ میں آنے کے بعد فرض تھا کہ وہ کچھ نہ کچھ تو ”محسوس” کرتی۔
”نہیں ایسے ہی کچھ سوچ رہا تھا۔” کرم علی نے مصنوعی مسکراہٹ کے ساتھ اسے ٹالا۔ ”ایک تو آپ سوچتے بڑا ہیں۔” زری نے بڑے ناز سے کہا۔ ”میری سہیلیاں کہتی ہیں بڑی عمر کے آدمی اسی طرح ہوتے ہیں جس طرح آپ ہیں۔ ایسے ہی سنجیدہ اور چپ چپ رہنے لگتے ہیں لوگ اس عمر میں۔”
زری نے بظاہر ہمدردی سے کرم علی کو بتایا تو وہ مسکرایا۔ کرم علی ”بڑی عمر کا آدمی” کی تعریفیں سننے کا عادی ہو چکا تھا۔
”میں جب آپ کی عمر کا تھا تو تب بھی اتنا ہی خاموش اور سنجیدہ تھا، جتنا اب ہوں۔” کرم علی نے جیسے اسے اطلاع دی۔
”مجھے کیا پتہ؟ میں تو پیدا بھی نہیں ہوئی تھی تب۔” زری نے بے حد معصومیت سے کہا۔ کرم علی بے اختیار ہنسا۔ زری الجھی۔
”یہ ہنسے کیوں ہیں آپ؟”
”آپ نے بالکل صحیح بات کی، اس لیے؟” زری نے کرم علی کو مشکوک نظروں سے دیکھا۔ کرم علی ہنسنے یا مسکرانے کا عادی نہیں تھا اور زری اس کی اس سنجیدگی کی اتنی عادی ہو چکی تھی کہ اب اگر وہ کبھی مسکراتا بھی تو زری بہت سے شبہات اور خدشات کا شکار ہو جاتی۔
” دو تین دن سے آفس سے آپ سے بات نہیں کرپا رہا ۔ جب بھی فون کرتاہوں، فون بزی ہوتا ہے اور سیل فون آپ اٹھاتی نہیں ہیں۔”
کرم علی نے یک دم خیال آنے پر پوچھا۔
”ہاں… وہ… میں… فون پر بات کر رہی ہوں گی پاکستان… آپ نے کس وقت فون کیا؟ زری یک دم سنجیدہ ہو گئی۔
میں نے وقفے وقفے سے دو تین بار فون کیا۔ چند گھنٹوں کے فرق سے… ہر بار فون بزی ملا… اور یہ دو تین دن سے ہو رہا ہے۔ پاکستان… اتنی لمبی کال… خیریت تو ہے وہاں؟”
”ہاں، خیریت ہے۔ بس اداس ہوتی ہوں تو کال کر لیتی ہوں۔ اب مجھے کیا پتا تھا آپ اس پر بھی اعتراض کریں گے اور اس طرح جاسوسی کرتے پھریں گے میری۔” زری کا موڈ یک دم بگڑ گیا۔
کرم علی ہکا بکا رہ گیا۔ ”جاسوسی… آپ کیسی باتیں کر رہی ہیں۔ میں کیوں جاسوسی کروں گا آپ کی؟”
”یہ تو آپ کو پتہ ہو گا کہ آپ کیوں کر رہے ہیں؟ کیاشک ہے آپ کو مجھ پر کہ اس طرح بار بار فون کرتے ہیں آفس سے۔”
کرم علی کے حلق سے آواز نہیں نکل سکی۔ وہ باتیں جو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھیں، وہ دہرا رہی تھی۔
”میں کسی شک کی وجہ سے آپ کو فون نہیں کرتا۔ آپ جانتی ہیں، میں ہمیشہ آفس سے آپ کو فون کرتا ہوں۔” کرم علی نے وضاحت کر دینے کی کوشش کی۔ زری کے الزام پر واقعی اس کی سٹی گم ہو گئی تھی۔
”روز تو نہیں کرتے آپ فون۔”
”ہاں، کبھی بہت مصروف ہوں تو نہیں کرتا یا آپ نے بتایا ہو کہ آپ گھر پر نہیں ہوں گی تو نہیں کرتا، ورنہ تو ایک دو بارفون کرتا ہوں میں آپ کو اور صرف آپ کی خیریت دریافت کرنے کے لیے۔”
”کیوں، میری خیریت کو کیا ہوا؟” زری نے تیز آوازمیں کہا۔ کرم علی کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ اس سے کیا کہے۔
وہ بدتمیزی کا مقابلہ کر سکتا تھا جہالت کا نہیں، اورزری میں دونوں ”صفات” بدرجہ اتم تھیں۔ کرم علی لفظ ڈھونڈنے لگا۔
”آپ کو اچھا نہیںلگتا کہ میں آپ کو آفس سے فون کروں؟” کرم علی نے سنجیدگی سے اس سے پوچھا۔
”نہیں۔” تڑاخ سے جواب ملا۔
”لیکن میر ادل چاہتا ہے کہ آپ سے بات کروں۔”
کرم علی نے اپنی ساری عزت نفس کو جیسے کوڑے کے ڈبے میں ڈال کر اس سے کہا۔ وہ اس سے یہ نہیں کہہ سکا تھا کہ زری کوآفس سے فون کرنے کے لیے اسے بھی اپنے دل کو مجبور کرنا پڑتا تھا، ورنہ وہ بھی اس کی آواز اور باتوں سے اسی طرح الجھتا تھا جیسی وہ الجھتی تھی لیکن وہ پھر بھی حتی المقدور یہ کوشش کررہا تھا کہ کسی نہ کسی طرح یہ شادی چلے کم از کم اس کی طرف سے زری کو کوئی شکایت نہ ہو کہ وہ اس کا خیال نہیں رکھتا یا اس پر توجہ نہیں دیتا۔
”کیوں بات تو کرتے ہیں آپ روز مجھ سے۔ صبح آفس جاتے ہوئے اور پھر رات کو بھی تو واپس آجاتے ہیں پھر بے وقوفوں کی طرح دو دو تین تین بار فون کرنے کی کیا ضررت ہے۔ پاکستان تو میں اس لیے کال کرتی ہوں کہ وہ لوگ میرے ساتھ نہیں ہیں۔”
اس نے جیسے کرم علی کے لیے کچھ کہنے کو چھوڑا ہی نہیں تھا۔ کچھ دیر پہلے کا اس کا خوش گوار موڈ اب غائب ہو چکا تھا۔
”ہر کام پر پابندی، ہر بات پر اعتراض۔ یہ کیوں کر رہی ہو؟ وہ کیوں کر رہی ہو؟ پتہ نہیں وہ کون سے مرد ہوتے ہیں جو بیویوں پر اعتماد کرتے ہیں اور انہیں آزادی دیتے ہیں۔ یہاں تو گلے میں رسی ڈال کر کھونٹے سے باندھ دیا ہے مجھے۔ اس سے تو اپنے باپ کے گھر بیٹھی رہتی تو سکھی رہتی میں۔”
وہ اب مسلسل بول رہی تھی۔ کرم علی اب اس وقت کو پچھتا رہا تھا جب اس نے زری سے فون کے بارے میں پوچھا تھا۔
”اب اگر فون کو ہاتھ بھی لگایا میں نے تو میرا نام زری نہیں۔ ماں باپ کو کہہ دوں گی کہ سمجھ لیں زری مر گئی۔ بڑی عمر کے آدمی سے شادی کر کے دفن تو خیر پہلے ہی کر دیا انہوں نے مجھے۔ اب فاتحہ بھی پڑھ لیں۔”
کرم علی نے کچھ کہنے کے بجائے کمرے سے باہر نکلنا زیادہ بہتر سمجھا تھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ اس کی سوچ اور ذہنیت کا مورد الزام کس کو ٹھہرائے۔ اس کی کم عمری کو؟ اس کی کم تعلیم کو؟ اس کی غربت کو؟ اس کے ماحول کو؟ اس کے ماں باپ کی تربیت کو یا اپنی بدقسمتی کو؟ زری اس کی زندگی کا وہ بھیانک خواب تھا جسے وہ جاگتے میں دیکھ رہا تھا۔
*****

Loading

Read Previous

من و سلویٰ — قسط نمبر ۷

Read Next

من و سلویٰ — قسط نمبر ۹

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!