من و سلویٰ — قسط نمبر ۸

”اچھا تو پھر نہ کر کام۔ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر گھر بیٹھ جا۔ رئیس باپ کی اولاد ہے تو کیوں کرے گی اس طرح کے چھوٹے موٹے کام۔ ماں ہے نا تیری ناز برداری کرنے اور جوتیاں اٹھانے کے لیے۔”
زری نے جواب میں کچھ کہنے کے بجائے اس گھر کے اکلوتے کمرے سے نکل جانا، بہتر سمجھا تھا۔ اسے پتا تھا اس کی ماں اب اگلے دو گھنٹے اسی طرح بولے گی۔ اور یہ بھی امکان تھا کہ جوتا اتار کر اسے دے مارتی۔
تین گھروں میں صفائی اور برتنوں کا کام کرنے کے بعد گھر آتی تو اپنی زندگی اور گھر سے اتنی ہی بے زار اور اکتائی ہوئی لگتی تھی۔ یہ اس کی زندگی کا پچیس سال کا معمول تھا۔
زری کمرے سے نکل کر صحن میں آگئی تھی۔ اور سیڑھیوں کے نیچے بنے چھوٹے سے باورچی خانے میں جا کر اس نے گلشن سے ان روٹیوں میں سے ایک روٹی اور پلیٹ میں سالن لیا جو اس کی ماں کہیں سے لے کر آئی تھی۔ اور اسے کھاتے ہوئے سیڑھیاں چڑھتی چھت پر آگئی۔ اسے پتا تھا جمال اس وقت تک چھت پر آچکا ہو گا۔ اور چھت پر پہلا قدم رکھتے ہی اس نے جمال کو دیکھ لیا تھا وہ ساتھ والے گھر کی چھت پر کھڑا تھا۔ مگر زری کے گھر کی طرف پشت کیے ہوئے تھا۔
عام طور پر وہ دونوں گھروں کی چھتوں کو ملانے والی چھوٹی دیوار پر بیٹھا ہوتا تھا، مگر اس کا زری کے گھر کی طرف پشت کر کے کھڑا ہونا… زری کے حلق میں ر وٹی کا لقمہ اٹکنے لگا۔ وہ آج پھر کسی بات پر ناراض تھا۔ یہ اس کے معمول میں شامل تھا۔ ہفتے میں دو یا تین بار وہ کسی نہ کسی بات پر اس سے ناراض ہوا کرتا تھا اور زری اسی طرح بوکھلاتی تھی۔ وہ واحد شخص تھا جس کی وہ پروا کرتی تھی اور جس کی ناراضی اس کے لیے کچھ معنی رکھتی تھی۔
”جمال… جمال! کیا ہوا ہے تجھے؟ اس طرح منہ موڑے کیوں کھڑا ہے؟”
زری نے روٹی پلیٹ میں رکھ کر پلیٹ منڈیر پر رکھی اور اسے پکارنے لگی۔ جمال نے پلٹ کر نہیں دیکھا۔ یعنی صورت حال سنگین تھیں۔
زری اگلے لمحہ سوچے سمجھے بغیر دونوں چھتوں کی درمیانی دیوار پر چڑھ کر دوسری طرف کودی اور پلک جھپکتے میں اس کے پاس پہنچ گئی۔
”میری چھت پر کیوں آئی ہے؟ چل اپنے گھر جا!” جمال نے اس کے پاس آتے ہی بگڑ کر کہا تھا۔
”کیا ہوا ہے تجھے؟ اس طرح کیوں بول رہاہے؟” زری نے اس کی بات کا جواب دینے کے بجائے بڑی بے تابی سے کہا۔
”تجھے کیا فرق پڑتا ہے میرے اس طر ح بولنے سے؟”
”کیوں فرق نہیں پڑتا؟ فرق پڑتا ہے تو پوچھ رہی ہوں۔” زری نے اس کا بازو پکڑتے ہوئے کہا۔
”تو نے اختر سے جھمکے لیے ہیں؟”
جمال نے کڑی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔ چند لمحوں کے لیے زری کچھ بول نہیں سکی۔ لیکن پھر اس نے اسی انداز میں کہا۔
”میں پاگل ہوں کہ اس سے کچھ لوں۔”
”اس نے سب لڑکوں کے بیچ کھڑے ہو کر کہا ہے۔”
”اور تو نے اعتبار کر لیا؟” زری نے شاکی نظروں سے اسے دیکھا۔ جھوٹ بولنے کے سوا اس وقت اس کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔
”نہ کروں تو اور کیا کروں۔ سارے محلے کے لڑکے کہتے ہیں کہ وہ تجھے چیزیں دیتے ہیں اور تو ان سے فرمائشیں کرتی ہے۔”
”کبھی تجھ سے کوئی فرمائش کی میں نے؟” زری نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔ جمال پہلی بار کچھ کنفیوژ ہوا۔
”نہیں پر۔۔۔۔”
”تو پھرتو محلے کے لڑکوں کی بات پر کیسے یقین کرتا ہے؟” زری نے آنکھوں میں آنسو بھرتے ہوئے کہا۔
”مجھے غصہ آتاہے جب کوئی تیری بات کرتا ہے۔”
اس کے آنسوؤں نے یک دم جمال کے غصے کو ٹھنڈا کر دیا تھا۔
”سب کو پتا ہے زری تجھ پر مرتی ہے، اس لیے حسد کرتے ہیں سب تجھ سے۔”
”وہ تو جانتا ہوں میں۔”
”پھر بھی لڑتا ہے مجھ سے؟”
”پیار بھی تو کرتا ہوں۔” جمال نے پہلی بار مسکراتے ہوئے کہا۔
”لیکن جھگڑا زیادہ کرتا ہے۔” زری نے آنسو پونچھتے ہوئے شاکی نظروں سے دیکھا۔ اس کے آنسو ہمیشہ کی طرح کارگرثابت ہوئے تھے۔
”اچھا اب نہیں کروں گا۔” جمال نے جلدی سے کہا۔
”روز وعدہ کرتا ہے، روز توڑ دیتا ہے۔” وہ ناراضی سے بولی۔
”تیری قسم، اب ایسا کچھ نہیں کروں گا۔”
”پہلے کس کی قسم کھائی تھی؟” زری نے یاد دلایا۔
”تیری۔” وہ ڈھٹائی سے ہنسا۔
”تو پھر بس رہنے دے۔ ہر بار میری قسم کھاتا ہے، وہ بھی جھوٹی۔ لگتاہے جان سے مارے گا مجھے کسی دن۔” زری نے مصنوعی خفگی سے کہا۔ اس سے پہلے کہ جمال کچھ کہتا ایک کوا منڈیر پر پڑی پلیٹ سے روٹی کا وہ بچا ہوا ٹکڑا اٹھا کر اڑگیا جو زری کھاتے ہوئے آئی تھی۔
”دیکھا… اور لڑ مجھ سے۔ تو مجھ سے لڑتا رہا اور کوا روٹی لے گیا۔” زری نے بے حد خفگی سے منڈیر کی طرف جاتے ہوئے کہا۔
”اب تو اس کا الزام بھی میرے سر ڈال دے۔” جمال نے جیسے اس کامذاق اڑایا۔
”کوے سے چھین کر لاؤں روٹی؟” وہ اب زری کو چھیڑ رہا تھا۔
”اس کے لیے تجھے پر لگا کر اڑنا پڑے گا۔” زری نے جواباً مسکراتے ہوئے کہا۔
”تو کوئی بات نہیں۔ اڑ لوں گا۔”
”ہاں لوگ آسمان سے چاند تارے توڑ کر لاتے ہیں، تو میرے لیے روٹی توڑ کر لائے گا۔ رہنے دے، کھالوں گی نیچے جا کر۔” زری نے منڈیر سے ٹیک لگاتے ہوئے کہا۔
”میں نے اماں سے بات کی ہے۔” جمال نے اس کے پاس کھڑے ہو کر اسی کی طرح منڈیر سے ٹیک لگائی۔
”کیسی بات؟” زری ٹھٹھکی۔
”اپنی اور تیری شادی کی بات۔ وہ اس ہفتے آنا چاہتی ہے تیرے گھر۔”
”تیرا دماغ خراب ہے جمال!” زری نے بے ساختہ کہا۔
”کیوں، اس میں دماغ خراب ہونے والی کیا بات ہے؟ تجھے اعتراض کیا ہے اگر میں اپنی ماں کو تیرے گھر بھیجوں گا؟” جمال نے کچھ بگڑ کر کہا۔
”ہے اعتراض مجھے۔ ابا دو دن میں مجھے تیرے ساتھ رخصت کر دے گا۔”
زری نے سنجیدگی سے پلیٹ میں پڑا سالن انگلی سے چاٹتے ہوئے کہا۔
”تو اچھا ہی ہے نا۔ تو نہیں چاہتی کہ تو میرے گھر آجائے؟”
”چاہتی ہوں۔ مگر اس سے پہلے یہ چاہتی ہوں کہ تو کوئی کام کر۔”
”ڈھونڈ تو رہا ہوں کام۔” جمال نے بے حد بے زاری سے کہا۔ یہ واحد موضوع تھا جس کا ذکر اسے زری کی زبان سے بھی برا لگتا تھا۔
”ایسے ڈھونڈتے ہیں کام؟ سارا سار ا دن آوارہ لڑکوں کے ساتھ پھرتا ہے، پتّے کھیلتا ہے۔” زری نے اسے گھرکا۔
”تو اور کیا کروں۔ کام نہیں ملتا تو وقت تو گزارنا ہے مجھے۔”
”اور اس پر تو شادی کرنا چاہتا ہے۔ بیوی اور گھر چلانے کے لیے پیسے کہاں سے آئیں گے تیرے پاس؟”
”آجائیں گے، پہلے بیوی تو آجائے؟” جمال نے اسی بے فکری سے کہا۔
”میں اسی لیے شادی نہیں کرنا چاہتی ابھی۔ میں نہیں چاہتی کہ پہلے میں اپنا خرچ اٹھاتی ہوں پھر گھر کا بھی اٹھانا پڑے۔” زری نے بے حد سنجیدگی سے کہا۔
”میں نے کب کہا کہ تو گھر کا خرچ اٹھا۔” جمال نے برا مانتے ہوئے کہا۔
”کہا تو نہیں پر ہوگا ایسے ہی۔”
”مجھے تیری ایسی باتیں اچھی نہیں لگتیں۔”
”اچھا چل، نہیں کرتی ایسی باتیں۔” زری نے جلدی سے کہا۔
”تیرا باپ تیری شادی کے لیے اتنا تیار بیٹھا ہے کہ کسی کے ساتھ بھی کر دے گا تیری شادی۔ پھر روتی رہنا مجھے یاد کر کے۔” جمال نے جیسے اسے ڈرایا۔
”ایسے ہی کر دے گا۔ شادی تو میں تجھ سے ہی کروں گی جمال! پر کروں گی تب جب تو کوئی کام کرے گا میں نے اب گلے میں کوئی اور پھندا ڈال کر نہیں بیٹھنا۔” زری نے صاف گوئی سے کہا۔
”اچھا چل چھوڑ۔ کوئی اور بات کر۔” جمال کو خدشہ ہوا کہ وہ کام کے بارے میں اسے پھر کوئی لمبا لیکچر دے گی۔
زری کو جمال اپنے باپ کی کاپی لگتا تھا مگر اس کے باوجود وہ پاگلوں کی طرح اس پر جان چھڑکتی تھی۔ وہ گلی کے سو لڑکوں کے ساتھ فلرٹ کرتی تھی مگر یہ صرف جمال تھا جس کے عشق میں وہ واقعی مبتلا تھی۔ وہ دونوں تقریباً ہم عمر تھے اور زری کی طرح جمال بھی نکما،نکھٹو سہی مگر شکل و صورت کے اعتبار سے محلے کا سب سے خوب صورت لڑکا تھا اور زری ہی کی طرح دل پھینک بھی تھا۔ مگر زری کے برعکس وہ یہ کام اپنے محلے سے کچھ دور کرتا تھا۔ کیونکہ وہ جانتا تھا کہ زری اسے رنگے ہاتھوں پکڑ لے گی۔ وہ ایسی ہی تیز تھی۔ اور اس کے بعد وہ زری سے تو جاتا ہی ساتھ ہی اس مالی امداد سے بھی جاتا جو وہ وقتاً فوقتاً اس کی کرتی تھی۔
وہ زری کا ہمسایہ تھا اور پانچویں کے بعد اسکول سے بھاگ گیا تھا۔ وہ اگلے پانچ سال بھی وہاں رہتا تو تعلیم اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی تھی۔ وہ محلے میں ہونے والے چھوٹے موٹے جرائم میں بھی شریک رہتا تھا اور واقعی خوش قسمت تھا کہ ابھی تک جیل نہیں پہنچا تھا۔
اور ان تمام حرکات کے باجود زری اس کے عشق میں پاگل تھی۔ جمال کو دیکھ کر جیسے اس کی سانس چلتی تھی، اس کا دل دھڑکتا تھا اور جمال اس بات سے بخوبی واقف تھا۔ نہ صرف اس کی اس کمزوری سے بلکہ اس کمزوری کو استعمال کرنے کے طریقے سے بھی۔
اسے زری کی محبت سے زیادہ محلے کی سب سے خوب صورت لڑکی کو تمغے کے طور پر اپنے سینے پر سجانے اور دنیا کی ستائش سمیٹنے میں زیادہ دلچسپی تھی۔ اگرچہ وہ زری سے محبت کرتا تھا مگر یہ محبت زری کی اس سے کی جانے والی محبت جتنی طاقتور نہیں تھی۔
اور جہاں تک زری کا تعلق تھا۔ وہ جمال کے عشق میں پاگل ہونے کے باوجود شادی کے نام پر بری طرح بدک جاتی تھی۔ جمال کے گھر میں غربت کا وہی عالم تھا جو وہ خود اپنے گھر میں دیکھ رہی تھی۔ وہ ایک جہنم سے دوسرے جہنم کا فاصلہ کم از کم اپنی مرضی سے طے نہیں کرنا چاہتی تھی اور جمال کا گھر فی الحال اس کے لیے ایک دوسرا جہنم ہی تھا۔ اس کے باوجود وہ دن میں خواب دیکھنے کی عادی تھی۔ ایسے خواب جن میں جمال کو وہ محنت سے کام کرتا دیکھتی اور پھر چند مہینوں اور چند سالوں میں ایک کے بعد ایک ترقی کے زینے طے کرتے دیکھتی۔ پھر ایک پر آسائش گھر، ایک آرام دہ خوب صورت زندگی، ویسی زندگی جیسی وہ محلے کے ان گھروں میں دیکھتی تھی جہاں کوئی نہ کوئی مرد کمانے کے لیے بیرون ملک گیا ہوتا۔ اس کا بس چلتا تو وہ جمال کو بیرون ملک بھی پہنچا دیتی مگر وہ جانتی تھی صرف یہ ایک ایسا خواب تھا جس کا حقیقت میں بدلنا مشکل تھا۔
زری اور جمال، دونوں کے پاس اتنے وسائل نہیں تھے کہ ایسا ممکن ہو سکتا اور ایسا ممکن ہو بھی جاتا تو زری کو یہ احساس تھا کہ جمال سہل پسند تھا۔ وہ کبھی زندگی میں آگے بڑھنے کی جدوجہدمیں اس طرح ہاتھ پاؤں نہیں مار سکتا تھا جس طرح زری اسے مارتا دیکھنا چاہتی تھی۔ وہ زندگی میں چور دروازے ڈھونڈنے اور استعمال کرنے پر یقین رکھتا تھا اور اس کے اور زری کے درمیان محبت کے علاوہ یہ واحد مشترک خصوصیت تھی۔
٭٭٭

Loading

Read Previous

من و سلویٰ — قسط نمبر ۷

Read Next

من و سلویٰ — قسط نمبر ۹

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!