من و سلویٰ — قسط نمبر ۸

”آپ سے کس نے کہا میں اس رشتہ سے خوش نہیں ہوں، یہ ضرور ہے کہ میں اس طرح اچانک شادی طے پانے پر کچھ اپ سیٹ تھا لیکن میری مرضی سے ہوئی ہے میری شادی اور میری منگنی کو ختم ہوئے بہت عرصہ ہو گیا۔ اس منگنی کی وجہ سے اگر آپ یہ سمجھ رہی ہیں کہ میں آپ سے شادی پر معترض تھا تو آپ غلط سمجھ رہی ہیں۔”
کرم علی کا خیال تھا کہ اس نے یا اس کے گھر والوں نے محلے میں ہی کہیں عارفہ کے ساتھ منگنی کے بارے میں سنا ہو گا کیونکہ عارفہ کے گھر والے ابھی بھی اسی محلے میں مقیم تھے اور زری نے یہ نتیجہ اخذ کر لیا ہو گا کہ اتنی طویل مدت سے اس کی شادی نہ کرنے کی وجہ اس کی یہ منگنی ہی ہو سکتی تھی۔ لیکن اسے اندازہ ہی نہیں تھا کہ زری اس کے سر پر اب کون سا بم پھوڑنے والی تھی۔
”میں اس منگنی کی بات نہیں کر رہی ہوں۔” زری نے کہا۔
”پھر؟” کرم علی الجھا۔
”میں پری زاد کی بات کر رہی ہوں جس کے ساتھ آپ کا چکر تھا۔”
زری نے بے حد اطمینان کے ساتھ ہر لحاظ کوبالائے طاق رکھتے ہوئے بے حد عامیانہ انداز میں کہا۔ شکیلہ کو شاید اندازہ بھی نہیں ہو گا کہ اسے شاپنگ کرواتے ہوئے وہ کرم علی کے بارے میں مذاق یا سنجیدگی میں جو بات کہہ رہی تھی۔ وہ زری کسی کمپیوٹر کی ہارڈ ڈسک کی طرح اپنے ذہن میں محفوظ کرتی جا رہی تھی اور پری زاد کا تذکرہ بھی شکیلہ ہی کا کارنامہ تھا۔
شاک جیسا شاک تھا جو کرم علی کو لگا تھا۔ عارفہ کی بات دوسری تھی لیکن پری زاد کے بارے میں تو وہ جانتا تھا یا اس کے گھر والے… باقی کسی شخص کوپری زاد کا علم نہیں تھا تو کیا اس کے گھر والوں نے زری کو پری زاد کے بارے میں بتایا تھا اور وہ بھی اس وقت جب وہ زری کواچھی طرح جانتے تک نہیں تھے۔
”آپ سے کس نے کہا ہے یہ؟” بہت دیر تک اپنے حواس بحال کرنے کے بعد کرم علی نے اس سے کہا تھا۔
”میں نے سنا ہے کسی سے” زری نے بے حد بے نیازی کے ساتھ جواب دیا۔
”پری زاد ایک فلم ایکٹریس ہے جو میری ایک فلم میں کام کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ میر ااس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔”
اس بار کرم علی نے بے حد دو ٹوک انداز میں اس سے کہا، اسے اس وقت زری کی زبان پر پری زاد کا اس انداز میں تذکرہ واقعی بری طرح چبھا تھا۔
”اب یہ تو آپ کو پتہ ہو گا یا پری زاد کو۔”
وہ کم عمر تھی لیکن اتنی ہی بے لحاظ تھی، یہ جاننے میں کرم علی کو بہت دیر نہیں لگی تھی لیکن وہ پہلی ہی رات اس کے ساتھ بحث نہیں کرنا چاہتا تھا۔ کیونکہ اپنے اندر کہیں اس کے دل میں زری کے لیے ایک نرم گوشہ ضرور موجود تھا۔ وہ اب بھی سمجھتا تھا کہ زری کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے وہ اس کے لیے مناسب بر نہیں تھا۔ لیکن اب ایک رشتے میں بندھ جانے کے بعد یہ ضروری تھا کہ وہ اس زیادتی کی تلافی کرنے کی حتیٰ المقدور کوشش کرتا اور اس رشتے کو نبھاتا۔
زری کے اس تبصرے پر پھر کوئی مزید تبصرہ کرنے کے بجائے کرم علی نے اپنی جیب سے ایک ڈائمنڈ رنگ نکالی اور زری کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے اسے پہنائی۔ زری نے بے حد مایوسی کے ساتھ اس رنگ کو دیکھا اور پھر بے ساختہ کرم علی سے کہا۔
”بس یہی دیں گے آپ مجھے؟”
کرم علی کے اندر کہیں خنکی بڑھی تھی۔ ”یہ بہت قیمتی ہے۔” وہ یہ کہنا نہیں چاہتا تھا لیکن اسے کہنا پڑا۔
”لیکن شکیلہ باجی نے تو کہا تھا۔ آپ مجھے ڈائمنڈ کا سیٹ دیں گے منہ دکھائی میں۔ ” اس کے لہجے میں استحقاق نہیں تھا۔ لالچ تھا اور کرم علی کو ایسے لہجے پہچاننے میں ملکہ تھا۔ وہ نہیں جانتا تھا شکیلہ نے واقعی زری سے ایسا کوئی جھوٹ بولا تھا یا زری اس سے جھوٹ بول رہی تھی۔
”میرا سب کچھ آپ ہی کاہے… آپ کو ڈائمنڈ سیٹ چاہیے تو ڈائمنڈ سیٹ لے دوں گا۔”
کرم علی نے اس بات پر بحث نہیں کی تھی کہ اس نے ایسا کوئی وعدہ کیا تھا یا نہیں۔
”کب لے کر دیں گے؟” زری نے بے تابی سے کہا۔
”کل لے دوں گا۔ آپ میرے ساتھ چلیے گا میں آپ کی مرضی سے آپ کو سیٹ دلا دوں گا۔”
زری کو تسلی ہوئی۔
”اور وہ میرا حق مہر آپ کب دیں گے؟”
کرم علی چند لمحوں کے لیے اس کی شکل دیکھ کر رہ گیا تھا۔ پھر کچھ کہنے کے بجائے وہ اٹھ کر وارڈ روب کی طرف گیا۔ اپنابریف کیس نکال کر اس نے اسے کھولا، اس میں سے اپنی چیک بک نکال کر ایک چیک سائن کیا اور دوبارہ زری کے پاس چلا آیا۔
”یہ آپ کا حق مہر ہے۔ اگر آپ کا اکاؤنٹ ہے تو آپ یہ اس میں جمع کروا دیں، ورنہ کل صبح میں آپ کا اکاؤنٹ کھلوا کر اس میں جمع کروا دیتا ہوں۔”
”نہیں، یہ میں خودکروا لوں گی۔”
زری نے بے حد تیزی سے اس سے چیک لے لیا وہ ایسے دھوکے نہیں کھا سکتی تھی کہ اپنا اکاؤنٹ کھلوانے اور اس میں رقم جمع کروانے کی ذمہ داری کرم علی کو سونپ دیتی وہ زیادہ پڑھی لکھی نہیں تھی مگر اس نے تین عورتیں تین کہانیاں اور خواتین کے ڈائجسٹوں میں ایسے بہت سارے قصے پڑھے تھے جن میں شوہر بیوی کا حق مہر اسی طرح جعل سازی سے غصب کر لیا کرتے تھے۔ کچھ دیر کے لیے تو اس کا یہ بھی دل چاہا تھا کہ کرم علی سے چیک کے بجائے کیش کا مطالبہ کرتی۔ لیکن اسے خیال آیا کہ پانچ لاکھ روپے اتنی بڑی رقم ہے جو اس وقت کرم علی کے پاس نہیں ہو گی اسے یہ اندازہ نہیں تھا کہ اگر وہ اس وقت کرم علی سے کیش کا مطالبہ کرتی تو کرم علی کے بریف کیس میں غیر ملکی کرنسی کی شکل میں اس رقم سے بہت زیادہ رقم موجود تھی جو زری کو چاہیے تھی اور کرم علی اس کے اس مطالبے کو بھی اسی طرح پورا کرتا۔
”آپ مجھے ماہانہ کتنا جیب خرچ دیں گے؟”
اس بار کرم علی کو ہنسی آگئی تھی۔ رونے سے ہنسنا یقینا بہتر تھا۔
”آپ کو کتنا چاہیے؟” وہ رشتوں کے معاملے میں خوش قسمت نہیں تھا اسے اس بات پر کبھی بھی شبہ نہیں رہا تھا۔ پھر وہ زری سے کیا توقعات لگاتا۔
زری نے کچھ دیر سوچنے میں لگائی اسے اندازہ نہیں تھا کہ کرم علی اس سے پوچھے گا۔
”آ… دس ہزار ٹھیک ہیں؟”
زری نے ڈرتے ڈرتے کہا اس کی نظر میں دس ہزار بہت بڑی رقم تھی، پتہ نہیں کرم علی کیا کہتا۔
”میں آپ کو ہر ماہ پچاس ہزار روپے دوں گا۔” زری کو شدید صدمہ ہوا اس نے کرم علی کی مالی حیثیت کا بہت غلط اندازہ لگایا تھا۔ اس نے پچاس ہزار کیوں نہیں مانگے؟ وہ بری طرح پچھتائی ورنہ کرم علی یقینا اسے ایک لاکھ دیتا۔
وہ پچھتا رہی تھی لیکن خوشی سے اس کے ہاتھ پاؤں پھول بھی رہے تھے۔ پچاس ہزار روپے ماہانہ یعنی سال میں چھ لاکھ اس کا حلق یک دم خشک ہو گیا۔ یعنی حق مہر سے بھی زیادہ رقم وہ کرم علی کے ساتھ ایک سال گزار کر اکٹھی کر سکتی تھی اور اگر دو سال رہتی تو بارہ لاکھ… لیکن ایک منٹ دوسرے سال میں مجھے کرم علی سے جیب خرچ بڑھانے کا کہنا چاہیے… دوسرے سال کم از کم ایک لاکھ یعنی سال کے پورے بارہ لاکھ بارہ کو… اور اٹھارہ میں اگر میں یہ حق مہر کے پانچ لاکھ جمع کر دوں تو تئیس لاکھ… اور بارہ تیرہ لاکھ کے تو یہ زیورات ہوں گے ہی۔ تقریباً پینتیس لاکھ… کرم کے ساتھ صرف دو سال میں پینتیس لاکھ روپیہ… لیکن میں نے ابھی اس میں ڈائمنڈ سیٹ کو شامل نہیں کیا۔ ڈائمنڈ سیٹ بھلا کتنے کا ہو گا… زری حساب کتاب کرتے ہوئے پہلی دفعہ الجھی… مجھے ڈائمنڈ سیٹ کے بجائے اس کے بدلے میں بھی کرم سے کیش ہی لے لیناچاہیے۔ زری نے دل ہی دل میں فیصلہ کیا۔
اسے اندازہ نہیں تھا کہ کرم علی اس وقت اس کا ذہن کھلی کتاب کی طرح پڑھ رہا ہے۔
”آپ نے جو صبح مجھے ڈائمنڈ سیٹ لے کر دینا ہے اس کے بجائے آپ مجھے پیسے ہی دے دیں۔”
زری نے بالآخر سر اٹھا کر کہا۔ اس کے لہجے میں پہلی بار کرم علی کے لیے پیار بھری نرمی جھلکی تھی۔ پینتیس لاکھ روپیہ دینے والا آدمی اب اتنی محبت کا تو حقدار تھا ہی۔
”میں سوچ رہی ہوں کہ خود ہی بعد میں دو چار دکانیں پھر کر اپنی مرضی سے خرید لوں گی۔”
زری نے کرم علی کو پہلی مسکراہٹ سے نوازتے ہوئے کہا۔ یہ وہ مسکراہٹ تھی جس کا جادو وہ تب چلایا کرتی تھی جب اس محلے کی دکان سے کوئی چیز پیسوں کے بغیر لینا ہوتی تھی۔ کرم علی محلے کی دکان پر بیٹھا وہ مرد نہیں تھا جو زری کی اس مسکراہٹ کے لیے کچھ بھی دے سکتا تھا۔ وہ اس کا شوہر تھا جو اپنی بیوی کو اس کے بغیر بھی کچھ بھی دے سکتا تھا۔ لیکن زری اس چیز کو تب سمجھتی جب اس نے اپنی زندگی میں اپنے آس پاس ایسے مرد دیکھے ہوتے۔ اس نے یہی سیکھا تھا اور جو کچھ اس نے سیکھا تھا وہ اسے استعمال کررہی تھی۔ لیکن وہ زندگی کے یہ فارمولے غلط آدمی پر استعمال کر رہی تھی۔
اس کے سامنے بیٹھا شخص زندگی کے بازار میں رشتوں کی بار ٹریڈ میں دلچسپی رکھتا تھا نہ وہ اجناس کا یہ کاروبار کر سکتا تھا۔
”ٹھیک ہے میں آپ کو اس کے لیے بھی رقم دے دوں گا۔ یا وہ بھی ابھی چاہیے آپ کو؟” کرم علی کے لہجے میں اگر غیر محسوس طریقے سے کوئی طنز آیا تھا بھی تو زری نے اسے محسوس نہیں کیا۔
”نہیں، آپ بے شک کل دے دیں۔”
زری کے لہجے میں مٹھاس بڑھ گئی تھی اور ایک عجیب طرح کی فرمانبرداری بھی آگئی تھی… اب پہلے کی طرح اس کی نظر کرم علی کے برص کے داغوں پر بھی نہیں جا رہی تھی… نہ ہی کرم علی سے اس طرح کی شدید نفرت محسوس ہو رہی تھی جو وہ کچھ دیر پہلے تک محسوس کر رہی تھی… اور سب سے بڑی بات کہ اسے ا س وقت جمال بھی یاد نہیں آرہا تھا۔
”کچھ اور؟” کرم علی نے اس سے پوچھا۔
”نہیں اور کچھ نہیں… کچھ اور چاہیے ہو گا تو میں بتا دوں گی آپ کو؟” زری نے بے حد فرمانبرداری سے کہا۔
”ضرور۔” کرم علی نرمی سے کہتا ہوا بیڈ سے اٹھ گیا۔
”آپ تھک گئی ہوں گی چینج کر کے سو جائیں۔”
زری نے بے حد حیرانی سے ٹیرس کا دروازہ کھول کر باہر نکلتے ہوئے کرم علی کو دیکھا… وہ اس کی بات نہیں سمجھی تھی۔
کرم علی ٹیرس پر پڑی کرسیوں میں سے ایک پر بیٹھ گیا۔ اندر سے اے سی کی مصنوعی خنکی سے باہر موسم گرما کی رات کی حدت میں اسے عجیب سا سکون ملا تھا۔ ہر طرف گہرا سکوت تھا جسے وقتاً فوقتاً کسی گاڑی کی آواز توڑتی یا پھر آسمان سے گزرتا کوئی جہاز مگر اندر چھائے ہوئے سکوت کو کوئی چیز نہیں توڑ رہی تھی… وہاں کوئی آواز کوئی سرگوشی کوئی گونج نہیں تھی۔ بس ایک پاتال تھا اور اس کی نہ ختم ہونے والی وسعت تھی۔
کچھ دیر کے بعد اس کے عقب میں موجود شیشے کے سلائیڈنگ ڈور سے آنے والی روشنی بھی ختم ہو گئی تھی۔ زری شاید لائٹ بجھا کر سونے کے لیے لیٹ گئی تھی۔
کرم علی اب مکمل تاریکی میں تھا اور اس تاریکی میں جو چہرہ اس کے ذہن کی اسکرین پر ایک جھماکے کے ساتھ نمودار ہوا تھا۔ اس نے اسے حیران کر دیا تھا۔ کرم علی بے اختیار کراہا۔ یہ کوئی وقت تھا یادآنے کا؟… یاد بڑی ظالم ہوتی ہے۔ ہمیشہ غلط وقت پر غلط جگہ آتی ہے۔
اس نے اس آخری ملاقات میں زینی کو پرپوز کرنے کے لیے اس رات اسے اپنے گھر بلایا تھاجس رات زینی نے اسے…
کرم علی نے اس کے لیے خریدی ہوئی انگوٹھی اس کے جانے کے بعد اس ٹیبل سے اٹھا لی تھی جہاں وہ اسے لے کر بیٹھنے والا تھا اور زینی نے اگر دھیان دیا ہوتا تو وہ اس ٹیبل پر پڑی اس نازک سی ڈبیا اور اس کے گرد موجود فلورل اریجمنٹس کو دیکھ چکی ہوتی اور شاید اسے کوئی تجسس ہوتا یا ہو سکتا ہے وہ کوئی سوال پوچھتی۔
ایسا سوال جس کا جواب کچھ دیر کے لیے زینی کے ہونٹوں پر مہر لگا دیتا۔ وہ کچھ نہ کہتی جس نے کرم علی کے ہونٹوں کو سی دیا تھا۔ شاید کوئی بھرم رہ جاتا… کوئی بھرم
لیکن جب کوئی بھرم نہیں رہا تھا جب وہ زینی کی اصلیت اچھی طرح جان چکا تھا۔ جب اس کو زینی سے گھن بھی آئی تھی۔ تب بھی اب تک وہ کیوں اس کے ذہن میں اٹکی ہوئی تھی۔ سلگتی ہوئی چنگاری کو کون سی شے ہوا دے رہی تھی۔
عارفہ زینی کی طرح خوب صورت نہیں تھی اس سے کرم علی کا آواز کا رشتہ تھا جو کئی سال چلا تھا۔ زینی سے تعلق کچھ اور طرح کا تھا۔ اتنی لمبی مدت کا نہ سہی لیکن تعلق کی گہرائی عارفہ جیسے تعلق ہی کی طرح تھی۔ اور اب جب ایک تیسری عورت اس کی زندگی میں آگئی تھی تو اسے عارفہ کی بد دعا یاد آئی تھی لیکن زینی خود یاد آئی تھی۔ شاید کہیں نہ کہیں اسے
زینی اور زری میں کوئی مماثلت نظر آئی تھی۔ کیا مماثلت تھی؟ اس نے اپنے ذہن سے اس مماثلت کو جھٹکنے کی کوشش کی۔ اس خیال کو نکالنے کی کوشش کی۔ وہ دونوں عورتیں اس کی زندگی میں پیسے کے لیے آئی تھیں۔ پہلی ایکٹریس تھی رسوائے زمانہ تھی۔ ان دونوں کا آپس میں کوئی رشتہ نہیں تھا لیکن اس کا دل عجیب انداز میں اس کی طرف کھنچتا تھا۔ دوسری اس کی بیوی تھی ایک مقدس رشتے میں پوری دنیا کے سامنے اس کے ساتھ بندھا تھا وہ… اور وہ جدوجہد کرنے میں مصروف تھا کہ کسی طرح وہ اپنے دل میں زری کواس کی ساری خامیوں سمیت جگہ دے سکے۔
اور زینی… اسے شبہ نہیں تھا کہ وہ اپنے ہر عیب ہر برائی کے ساتھ پہلے ہی اس کے دل کے اندر تھی۔
٭٭٭

Loading

Read Previous

من و سلویٰ — قسط نمبر ۷

Read Next

من و سلویٰ — قسط نمبر ۹

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!