من و سلویٰ — قسط نمبر ۸

شام کی چائے کے بعد وہ اسے لانگ ڈرائیو پر لے گیا۔ انہوں نے رات کا کھانا بھی باہر کسی ریسٹورنٹ میں کھایا اور اس سارے وقت کے دوران وہ بڑے سادہ لہجے میں اسے ان جگہوں کے بارے میں بتاتا رہا، وہ جیسے زینی کی برداشت کا امتحان لے رہا تھا۔ وہ ساری باتیں زینی کے لیے بے معنی تھیں۔ وہ اوٹوا کی تاریخ جاننے کے لیے اور وہاں کی ٹورسٹ اٹریکشنز دیکھنے کے لیے وہاں نہیں آ ئی تھی۔
اسے صرف ایک چیز میں دلچسپی تھی۔ پانچ کروڑ کی اس فلم میں لیڈنگ رول اور کرم علی کو جس چیز میں سب سے کم دلچسپی تھی، وہ وہی فلم تھی۔
ساڑھے دس بجے رات وہ اسے ہوٹل واپس چھوڑ گیا تھا۔ وہ اس وقت تک بری طرح اپ سیٹ تھی اور اپنے کمرے میں داخل ہوتے ہی وہاں بیٹھے ہوئے سلطان نے اس کا چہرہ پڑھ لیا تھا۔
”کیا ہوا؟ خیریت تو ہے پری جی؟”
”تم نے نواز پراچہ سے کنفرم کیا تھا کہ کرم علی مووی بنا بھی رہا ہے یا نہیں؟” اس نے چھوٹتے ہی سلطان سے پوچھا۔
”آپ سے اس بارے میں کوئی بات کی کیا؟” سلطان کو بھی تشویش ہوئی۔
”بات ہی تو نہیں کی، اسی لیے توپوچھ رہی ہوں میں۔ بہت سارے نئے پروڈیوسر فلم اناؤنس تو کر دیتے ہیں، بناتے نہیں۔”
اس نے صوفے پربیٹھ کر اپنی جیولری اتارنا شروع کر دی تھی۔
”آپ کہتی ہیں تو میں نواز پراچہ سے دوبارہ پوچھ لوں گا۔ ویسے مجھے تو اس نے بتایا تھا کہ اس نے فلم کی بجٹنگ اورکاسٹنگ شروع کر رکھی ہے۔ کرم علی نے اسے ابتدائی رقم بھیج دی ہے۔ خود کرم علی کا کوئی آدمی بھی نواز کے پاس آکر سارا پیپر ورک کر کے گیا ہے۔” سلطان نے بتایا۔
”آپ کو کرم علی اچھا آدمی نہیں لگا؟” سلطان نے اس سے پوچھا۔
وہ سگریٹ سلگا رہی تھی، اس کی بات پر جیسے چونکی۔
”اچھا آدمی؟” وہ کچھ الجھی۔ ”عجیب آدمی ہے وہ۔”
”کیوں، عجیب کیوں؟” سلطان کو تجسس ہوا۔
”شاید وہ مجھے متاثر کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ چاہتا ہے میں سمجھوں کہ وہ شریف آدمی ہے۔” زینی نے وہاں بیٹھے بیٹھے جیسے خود ہی نتیجہ اخذکرنے کی کوشش کی۔
”لیکن وہ یہ کیوں چاہتا ہے؟” سلطان نے حیرانی سے کہا۔
”یہی تو سمجھ میں نہیں آرہا کہ وہ یہ کیوں چاہتا ہے۔” زینی نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
اگلا دن بھی تقریباً اسی طرح گزرا تھا۔ فرق صرف یہ تھا کہ اس بار کرم علی نے لنچ کے بجائے اسے ڈنر پر بلایا تھا اور ڈنر گھر کی بجائے کسی ریسٹورنٹ میں رکھا تھا۔ پچھلے دن کی طرح اس نے اس رات بھی فلم کے بارے میں بات نہیں کی تھی لیکن اس رات زینی پہلے دن کی نسبت زیادہ پر سکون تھی۔ وہ جیسے بڑے تحمل اور برداشت سے اسے کھلنے کا موقع دے رہی تھی۔ آخر اس نے اسے کینیڈا میں صرف گھمانے پھرانے اور کھانا کھلانے کے لیے ہی تو نہیں بلایا ہو گا۔ کبھی نہ کبھی تو وہ اپنے مطلب پر آتا۔
اس رات بھی وہ اسی طرح ڈنر کے بعد اسے واپس چھوڑ گیا تھا۔
تیسرے دن وہ اسے وہاں کے کچھ مشہور شاپنگ مال دکھانے لے گیا تھا اور ایسے ہی ایک مال میں ایک شاپ پر زینی نے ایک لیدر بیگ پر پرائس ٹیگ دیکھ کر اسے چھوڑ دیا۔
”کیا ہوا؟” کرم علی کو اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ بیگ اسے اچھا لگا تھا۔
”کچھ نہیں بہت Expensive (مہنگا) ہے۔”
زینی لاپروائی سے دوسرا بیگ دیکھنے لگی۔ اسے وہ بیگ اچھا لگا تھا مگر اتنا نہیں کہ وہ اس پر اتنی رقم خرچ کر دیتی۔
”آپ کو اچھا لگا ہے تو آپ لے لیں I will pay for it (میں اس کی ادائیگی کر دوں گا)۔” کرم علی نے خوش دلی سے آفر کی۔
”مجھے تو اس شاپنگ مال کی ہر چیز اچھی لگ رہی ہے آپ کس کس چیز کے لیے پے کریں گے؟” زینی نے بے حد تیکھے انداز میں اس سے کہا۔
”آپ کو جو اچھا لگ رہا ہے لے لیں۔ اس کی فکر نہ کریں کہ Pay کون کرے گا۔”
”تھک جائیں گے۔” زینی نے عجیب سے انداز میں کہا۔
وہ ہنس پڑا”چوبیس سال نہیں تھکا تو آپ کے چند گھنٹوں سے کیا تھکوں گا۔ آئیں، دیکھتے ہیں آپ شاپنگ کرتے ہوئے تھکتی ہیں یا میں کرواتے ہوئے تھکتا ہوں۔”
زینی اس کے پہلے جملے کا مطلب نہیں سمجھ سکی تھی لیکن اس سے پہلے کہ وہ اس پر کچھ غور کرتی، کرم علی کے اگلے جملے نے جیسے اس کو چیلنج کر دیا تھا۔
”چلیں، دیکھتے ہیں۔” زینی نے ہنس کر کہا۔ کرم علی کو زچ کرنے کا ایک موقع اس کے ہاتھ آرہا تھا، وہ کیسے جانے دیتی۔
اگلے سات گھنٹے کے دوران اس نے بے مقصد اور بلا ضرورت ہر شاپ میں جا کر مہنگی سے مہنگی برانڈڈ چیزیں خریدی تھیں۔ ان میں سے آدھی سے زیادہ چیزیں اس کے لیے بے کار تھیں۔ وہ جانتی تھی، وہ انہیں کہاں استعمال کر سکتی تھی مگر وہ کرم علی کو زیادہ سے زیادہ مالی نقصان پہنچانا چاہتی تھی۔
پاکستان میں جس مرد سے اسے جان چھڑانا ہوتی، وہ اس کے ساتھ یہی کچھ کیا کرتی تھی۔ بار بار اسے مہنگے مالز اور برانڈڈ پروڈکٹس کی شاپس میں لے جا کر بے مقصد خریداری کرتی۔ بہت جلد وہ ان مردوں کے لیے خود اتنی مہنگی پروڈکٹ ہو جاتی تھی جسے ہر کوئی افورڈ نہیں کر سکتا تھا۔
وہ جانتی تھی، کرم علی کے پاس جتنی دولت تھی، وہ فوری طور پر شاید ہونے والے نقصان کا تخمینہ لگانے نہ بیٹھے لیکن بہر حال اس شاپنگ سے اسے پہلا جھٹکا ضرور لگے گا۔ آج تک کوئی عورت اس کو لاکھوں کی نہیں پڑی ہو گی۔
زینی دل ہی دل میں ہنستی رہی تھی۔ شاپنگ پر توجہ دینے کے بجائے وہ سات گھنٹے کرم کے چہرے کے تاثرات دیکھتی رہی تھی اور ان تاثرات نے اسے مایوس کیا تھا۔ کرم علی اگر اس کی اس قدر مہنگی شاپنگ سے اپ سیٹ ہوا بھی تھاتو اس کا اظہار اس کی زبان یا چہرے سے نہیں ہوا تھا۔ اس کے چہرے کی مسکراہٹ آخر تک برقرار رہی تھی۔ کسی بھی جگہ یا موقع پر اس کے ماتھے پر ہلکی سی بھی شکن نہیں آئی تھی۔ ہر دکان میں اس کی شاپنگ کے اختتام پر بل بننے کے بعد وہ بے حد پر سکون انداز میں کارڈ نکال کر ادائیگی کرتا، شاپنگ بیگز پکڑتا اور مسکراتے ہوئے اس سے پوچھتا کہ وہ اب کہاں جانا چاہتی ہے۔
ساتویں گھنٹے کے اختتام پر جب زینی بالآخر تھک کرواپس جانے کا ارادہ ظاہر کیا تب تک کرم علی کے تین کریڈٹ کارڈز کی لمٹ ختم ہو چکی تھی۔ وہ اب اپنا debit card استعمال کر رہا تھا۔
اس کی مرسڈیز کار مختلف شاپنگ بیگز اور ڈبوں سے تقریباً بھر چکی تھی صرف آگے کی وہی دو سیٹیں خالی تھیں جس پر وہ دونوں بیٹھے ہوئے تھے۔
اس رات بھی انہوں نے ایک نئے ہوٹل میں بیٹھ کر کھانا کھایا، زینی نے اس کے چہرے پر کچھ پڑھنے کی کوشش کی مگر اسے ناکامی ہوئی، وہاں کچھ بھی نہیں تھا۔ وہ یقینا بہت گہرا آدمی تھا۔
”آپ کو ایک مشورہ دوں؟” اس نے واپسی کے سفر میں بالآخر کرم علی سے کہا۔
‘کیا؟” کرم علی نے چونک کر اسے دیکھا۔
”کبھی کسی ہیروئن کو شاپنگ کی آفر زندگی میں دوبارہ مت کیجئے گا۔”
کرم علی نے حیرانی سے اس کا چہرہ دیکھا۔ ”کیوں؟”
”وہ آپ کا گھر تک بکوا دے گی، فٹ پاتھ پرلے آئے گی آپ کو۔”
کرم علی بے اختیار ہنسا۔ زینی کو لگا جیسے اس نے اس کی بات کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔
”یہ آپ مجھے کیوں بتا رہی ہیں؟ ہمدردی ہو رہی ہے کیا آپ کو مجھ سے؟” اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
”ترس آرہا ہے۔” زینی نے بے ساختہ کہا۔
کرم علی نے بے اختیار قہقہہ لگایا یوں جیسے اس کی بات سے بے حد محظوظ ہوا ہو۔
”چلیں، کوئی جذبہ تو محسوس کیا آپ نے میرے لیے۔”
زینی نے گردن موڑ کر اسے دیکھا۔ وہ گاڑی ڈرائیو کرنے میں مصروف تھایا کم از کم ظاہر یہی کر رہا تھا۔
زینی کچھ دیر منتظر رہی۔ وہ دیکھنا چاہتی تھی وہ آگے کیا کہتا ہے۔ لیکن کرم علی نے مزید کچھ نہیں کہا۔ وہ خاموشی سے ڈرائیو کرتا رہا۔
ہوٹل کی انٹرنس پر زینی کو ڈراپ کرتے ہوئے اس نے بے حد سنجیدگی سے کہا۔
”یہ تو صرف ایک شاپنگ مال تھا۔ اس شہر میں کچھ اور بھی اچھے شاپنگ مال ہیں اگر آپ کے پاس فرصت ہو تو کل ان میں سے کہیں پر لے جاؤں آپ کو۔”
زینی کچھ دیر تک بول نہیں سکی۔ اسے چند لمحوں کے لیے لگا تھا کہ وہ اس پر طنز کر رہا تھا۔ مگر اس کی آنکھوں میں ایسا کوئی تاثر نہیں تھا۔ وہاں سنجیدگی تھی۔
”کل نہیں پھر سہی، جلدی کیا ہے؟”
زینی نے بے حد ٹھہرے ہوئے انداز میں کہا۔
کرم علی نے اسٹیرنگ سے ہاتھ اٹھاتے ہوئے بے حد اطمینان سے کہا۔ ”مجھے کوئی جلدی نہیں۔”
زینی کچھ کہنے کے بجائے گاڑی سے اترنے لگی۔ کرم علی گاڑی سے نکل کر باہر کھڑا ہو گیا۔ زینی نے پلٹ کر اسے دیکھا تک نہیں تھا۔ وہ ہوٹل کی اینٹرنس میں داخل ہو گئی تھی۔ چند پورٹرز گاڑی سے شاپنگ بیگز نکال کر اندر لے جا رہے تھے۔ کرم علی کچھ دیر وہاں کھڑا اندر دور جاتی زینی کو دیکھتا رہا جس نے ہوٹل کے اندر جانے کے کچھ دیر بعد جھک کر اپنے ہائی ہیلڈ جوتوں کو اتارا… جن کو پہنے وہ سات گھنٹے چلتی ہوئی شاپنگ کرتی رہی تھی۔
کرم علی کو بے اختیار ہنسی آئی تھی۔ زینی کویقینا اندازہ نہیں تھا کہ وہ اتنی دور سے اسے دیکھ سکتا تھا ورنہ وہ کبھی اس طرح جوتے نہ اتارتی۔ کرم نے شاپنگ مال میں کئی بار اسے اپنے جوتے بدل لینے کا مشورہ دیا تھا مگر زینی نے لاپروائی سے اسے رد کر دیا تھا، وہ کرم کو یہ امپریشن نہیں دینا چاہتی تھی کہ وہ شاپنگ کرتے ہوئے تھک رہی تھی۔ کرم علی نے اصرار نہیں کیاتھا۔
وہ عجیب لڑکی تھی۔ کرم علی اسے سمجھ نہیں پا رہا تھا۔ وہ اس کے ایک جملے سے اس کے بارے میں آیک نتیجہ اخذ کرتا اور اس کا اگلہ جملہ اس نتیجے کو غلط ثابت کر دیتا۔ وہ جانتا تھا، محسوس کر سکتا تھا کہ وہ اس سے چڑ رہی تھی۔ اسے زچ کرنا چاہتی تھی۔ وہ بعض دفعہ اس پر طنز کرتی بعض دفعہ اس کا مذاق اڑاتی محسوس ہوتی اور بعض دفعہ لگتا کہ اس سے فلرٹ کی کوشش کر رہی ہے مگر اس نے کسی بھی لمحے زینی کو اپنے آپ سے متاثر ہوتے نہیں پایا تھا۔ کرم علی کو یہ توقع تھی بھی نہیں۔ اسے زینی میں دلچسپی تھی۔ زینی کا اس میں دلچسپی لینا یا نہ لینا اس کے لیے اہمیت نہیں رکھتا تھا لیکن وہ یہ ضرور چاہتا تھا کہ وہ خود اپنے لیے کرم علی کے جذبات اور احساسات کو کسی غلط طریقے سے نہ لے، جب سے اس سے ملاقات ہوئی تھی وہ جیسے کرم علی کے اعصاب پر سوار ہونے لگی تھی۔ الجھانے اور پریشان کرنے کے باوجود کرم علی کو عارفہ کے بعد پہلی بار کسی عورت نے اس طرح اٹریکٹ کیا تھا اور وہ اس کی زندگی میں آنے والی پہلی عورت تھی جس کے ساتھ وہ اتنا وقت گزار رہا تھا۔ اور سالوں کے بعد اسے اپنی زندگی اچھی لگنے لگی تھی۔
اور یہ صرف اس لیے تھا کیونکہ وہ ہر روز زینی سے مل رہا تھا۔
٭٭٭
وہ اس رات بھی بے حد اپ سیٹ کمرے میں پہنچی تھی۔ اگلے پندرہ منٹ تک دونوں پورٹرز وہ سامان اس کے کمرے میں پہنچاتے رہے جو انہوں نے کرم علی کی گاڑی سے نکالا تھا اور سلطان بے حد خوشی اور اشتیاق کے عالم میں ان شاپنگ بیگز کو کھول کھول کر دیکھا رہا۔
”یہ پکی بات ہے پری جی! کہ کرم علی آپ کو اپنی فلم میں لے رہا ہے۔”
سلطان نے ان پورٹرز کے آخری چکر کے بعد جیسے اعلان کرنے والے انداز میں کہا تھا۔ وہ اب زینی کے پیروں کا مساج کرنے میں مصروف تھا۔
”ورنہ اس طرح کون لاکھوں کی شاپنگ کرواتا ہے۔”
سلطان کو ان چیزوں کی اصل قیمت کا اندازہ نہیں تھا نہ ہی زینی کو یہ پتا تھا کہ اس نے مجموعی طور پر آج کرم علی کی کتنی رقم خرچ کروائی تھی۔ لیکن اسے یہ اندازہ ضرور تھا کہ کینیڈین ڈالرز میں بھی وہ آج تک کی جانے والی اس کی زندگی کی سب سے مہنگی اور بے مقصد شاپنگ تھی۔
اس نے کرم علی کا بیس پچیس لاکھ روپیہ ڈبویا تھا مگر اسے تسلی نہیں ہوئی تھی کیونکہ اس نے کرم علی کو پریشان نہیں دیکھا تھا۔ اسے لگ رہا تھا جیسے اس نے اپنے سات گھنٹے بے مقصد ضائع کیے۔
”مجھے لگتا ہے پری جی! یہ آدمی آپ کے عشق میں مبتلا ہے۔” سلطان جیسے دور کی کوڑی لایا تھا۔
”تم اپنی بک بک بند کرو گے؟” زینی اس کے جملے پر بری طرح چڑی۔
”میں سچ کہہ رہا ہوں پری جی! مجھے تو اچھا آدمی لگنے لگا ہے یہ، دیکھ لیں ابھی تک اس نے کوئی غلط حرکت نہیں کی۔ کتنی عزت اور احترام سے ہر روز رات کو یہاں چھوڑ جاتا ہے آپ کو۔”
”ابھی دن کتنے ہوئے ہیں مجھے یہاں۔”
”پھر بھی پری جی! اس کو بھی تو اندازہ ہے کہ آپ کو چلے جانا ہے، ایسا ویسا آدمی ہوتا تو تین دن بہت ہوتے ہیں اس کے لیے۔” سلطان اب اس کے پیروں کا مساج کرتے ہوئے بے حد سنجیدہ نظر آرہا تھا۔
”ہر چیز کی قیمت ہوتی ہے سلطان! یہ سب کچھ جو تمہیں نظر آرہاہے نا میرے ارد گرد بکھرا ہوا، اس سب کی قیمت ادا کرنی پڑے گی مجھے اس لیے مجھے کرم علی نہ تو فیاض لگ رہا ہے نہ عاشق۔ عیاش آدمی ہے اور عیاش آدمی کی جیب جتنی بڑی ہو گی، وہ اپنی عیاشیوں پر اتنا ہی پیسہ خرچ کرے گا۔” وہ تلخی سے کہہ رہی تھی۔
”کبھی کبھی مرد دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر بھی کرتا ہے یہ سب کچھ۔” سلطان نے مدھم آواز میں کہا۔
”مرد کا دل نہیں ہوتا سلطان!” اس نے تلخی سے کہا۔
”عورت کا ہوتا ہے؟” سلطان نے رنجیدہ آواز میں کہا۔ اسے پتہ نہیں کیا یاد آیا تھا۔
”عورت کا بس دل ہی ہوتا ہے۔ اس کا تو پورا وجود دل پر مشتمل ہوتا ہے۔” اس نے سلطان کا چہرہ دیکھتے ہوئے کہا۔
”کرم علی اچھا آدمی ہے۔” سلطان نے ایک بار پھر جیسے اصرار کیا۔
”مجھے برے آدمیوں کی نسبت اچھے آدمیوں سے زیادہ ڈر لگتا ہے سلطان!”
سلطان اس بار بول نہیں سکا، وہ صرف زینی کے پاؤں دباتا رہا۔
٭٭٭

Loading

Read Previous

من و سلویٰ — قسط نمبر ۷

Read Next

من و سلویٰ — قسط نمبر ۹

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!