آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا ۔ مکمل ناول

سیٹھ صاحب اور شازیہ ٹی وی لاو¿نج میں بیٹھے چائے کا انتظار کر رہے تھے۔رضیہ کچن میں چائے بنا رہی تھی۔وہ آپس میں باتیں کرنے میں مشغول تھے۔

اماں جی کی برسی پر انتظام اچھا تھا۔لوگوں کے کیا تاثرات تھے؟سیٹھ صاحب نے شازیہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

ہر کوئی آپ کی تعریف کر رہا تھا۔آپ نے اتنا خرچ کیا ۔ لوگو ں نے متاثر تو ہونا ہی تھا۔ لوگ آپ کی اچھائی کی مثالیں بے وجہ تو نہیں دیتے ۔شازیہ نے فخریہ لہجے میں کہا۔

اللہ عزت دیتا ہے۔بیگم سوچ رہا ہوں ۔ابا جی کی برسی بھی ایسے ہی مناو¿ں۔“ 

ابھی ان کی برسی میں کافی وقت ہے۔شازیہ نے بے ساختہ کہا۔

اچھا یہ زارا نظر نہیں آ رہی؟ سیٹھ صاحب نے سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔

پھر سے باہر گئی ہے ۔کہہ رہی تھی دوست کو ملنے جا رہی ہوں۔میں نے منع بھی کیا مگر ….“

یہی تو عمر ہے ہنسنے کھیلنے کی۔کچھ نہیں ہوتا۔سیٹھ صاحب نے اپنی عینک اتار کر ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا۔ اتنی دیر میں رضیہ چائے لے کر لاو¿نج میں آگئی۔

صاحب جی۔مجھے آپ سے بات کرنی تھی۔“ 

ابھی پچھلے مہینے ہی تو تمہاری تنخواہ دو سو روپے بڑھائی ہے۔“ 

نہیں صاحب جی!مجھے کوئی اور بات کرنی ہے۔

اچھا کہو….“ 

وہ جی میری بڑی بیٹی ہے نا ساجدہ۔اس کی شادی ہے اور شادی میں کچھ دن رہ گئے ہیں۔

تو پھر….؟سیٹھ صاحب نے چائے کا کپ اٹھاتے ہوئے کہا۔

صاحب جی آ پ کوئی امداد ….“ اس کی بات ابھی پوری نہیں ہوئی تھی کہ سیٹھ صاحب نے اپنی جیب سے بٹوانکالا ۔ شازیہ بھی پاس بیٹھی چپ چاپ چائے پیتی رہی۔

یہ لو….“ سیٹھ صاحب نے اپنے بٹوے سے ایک ہزار کا نوٹ نکال کر رضیہ کی طرف بڑھا دیا۔ وہ چپ چاپ ایک ہزار کا نوٹ پکڑے لاو¿نج سے باہر آگئی۔

یہ غریب بھی نا…. کبھی اس کی شادی ہے ،کبھی وہ مر گیا،کبھی وہاں جانا ہے اور کبھی اس نے آنا ہے ۔ان کو ہر وقت مانگنے کی عادت ہوتی ہے۔شازیہ رضیہ کو لاو¿نج سے باہر جاتا دیکھ کر منہ میں بڑبڑائی۔ سیٹھ صاحب چائے پیتے ہوئے ٹی وی دیکھنے لگے تھے۔

وہ باہر جا کر ہاتھ میں پکڑا ایک ہزار کا نوٹ کافی د یر تک کسی گہری سوچ کی اوٹ میں تکتی رہی۔ پھرمنہ میں بڑبڑائی۔

ساجدہ، تو ٹھیک کہتی تھی۔

٭….٭….٭

یار! تم کب سے اس لڑکی کو کیوں دیکھ رہے ہو؟زارا نے زین سے پوچھا جو ایک خوب صورت لڑکی پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔

یار! وہ لڑکی خوب صورت ہی اتنی ہے کہ اس سے نظریں ہی نہیں ہٹ رہیں۔زین نے زارا کو چھیڑتے ہوئے کہا۔

تم لڑکیوں کی تعریفیں کرنے سے باز نہیں رہ سکتے؟زارا نے آنکھیں نکالتے ہوئے کہا۔

یار! پیاری چیزیں تعریف کے لیے ہی ہوتی ہے۔زین نے پھر سے اسے چڑایا تھا۔زین ابھی بھی اس لڑکی کی طرف ہی دیکھ رہا تھا۔

تم نے میری خوب صورتی کی تعریفیں تو کبھی نہیں کیں۔زارا نے بے ساختہ کہا۔

وہ لڑکی تم سے زیادہ خوب صورت ہے۔اب اسے چھوڑ کر تمہاری تعریفیں کیسے کروں؟زارا نے غصیلی آنکھوں سے زین کو دیکھا تو زین اس کے انداز پر بے ساختہ ہنس پڑا۔

ٹھیک ہے ۔میں پھر چلی جاتی ہوں۔زارا نے غصہ نکالتے ہوئے کہا۔

یار! بس کرو۔ مذاق کر رہا تھا۔وہ لڑکی تم سے زیادہ خوب صورت ہو ہی نہیں سکتی کیوں کہ تم میری محبت ہو۔زین نے اسے پیارسے دیکھتے ہوئے کہا۔ وہ اب چیئر سے اُٹھتے ہوئے رک گئی اور زین کی طرف دیکھ کر مسکرانے لگی تھی۔

٭….٭….٭

رات کے سوا گیارہ بج چکے اوربڑے بھائی ابھی تک گھر نہیں آئے تھے۔انور کو رہ رہ کر ان کا خیال ستا رہا تھا۔اس کی نظریں بار بار دروازے کی طرف اٹھتیںپھر مایوس ہو کر لوٹ آتیں۔بڑے بھائی کے گھر آنے پر سب کا خوش دلی سے ان کو ملنا روز کا معمول تھا۔ کچھ ہی دیر میں بائیک کی آواز سنائی دی ۔انور دروازہ کھولنے کے لیے بے تاب تھا پھر بھی نجانے کیوں وہ اٹھ کر بڑے بھائی کے لیے دروازہ کھول نہیں پایا تھا۔وہ ٹی وی دیکھنے میں ویسے ہی مگن رہا جیسے وہ بڑے بھائی کے آنے سے پہلے تھا۔بڑے بھائی نے سب کو سلام کیا۔سبھی بڑے بھائی کو ملنے لگے سوائے انور کے۔انور کو اپنے اندر ایک عجیب گھٹن محسوس ہونے لگی۔وہ کھلی فضا میں بھی خود کو قیدی محسوس کر رہا تھا۔آخرکار بہت حوصلہ نکالنے کے بعد وہ ٹی وی بند کر کے اٹھا ۔بڑے بھائی رات کا کھانا کھا چکے تھے ۔ بھابی کچن میں برتن سمیٹ رہی تھی۔ بڑے بھائی کمرے میں اکیلے تھے۔ انور بڑے بھائی کے کمرے میں گیا۔ بڑے بھائی اپنے بیٹے کو سلا رہے تھے۔

انور! بڑے بھائی کے بلانے پر اسے جیسے کرنٹ لگا۔ نہ جانے کون سا احساس اسے بڑے بھائی کے قریب جانے سے روک رہا تھا یہ وہ خود بھی نہیں سمجھ پایا تھا۔

جی بھائی؟انور نے دھیمے اور ڈگمگاتے لہجے میں کہا۔

کیا بات ہے؟بڑے بھائی اُٹھ کر بیٹھ گئے۔

کچھ نہیں، بڑے بھائی۔انور وہاں سے بھاگ جانا چاہتا تھا۔ اس کے لیے بڑے بھائی سے بات کرنا پہلے کبھی اتنا دشوار نہ تھا۔

تم جھوٹ بہت بولتے ہو۔ برا کرتے ہو۔بڑے بھائی کی بات پر وہ کمرے سے نکلتا ہوا ایک دم سے رک گیا۔ آخر پلٹ کر بولا۔

بڑے بھائی! میں نے کل آپ سے بہت بد تمیزی کی ہے۔مجھے معاف کر دیں۔آخر انور کی زبان سے وہ لفظ نکل آئے جو قطرے کی پہلی بوندھ کی طرح سہمے بیٹھے تھے۔

یار! اس میں معافی کی کیا بات ہے؟بڑے بھائی نے پر سکون لہجے میں کہا۔ انور نے بے ساختہ بڑے بھائی کو دیکھا۔

تم نے ٹھیک کہا تھا۔ جو فیل ہوتا ہے زندگی بھی اسی کی خراب ہو تی ہے۔دوسروں کو ٹینشن نہیں لینی چاہیے۔بڑے بھائی نے انور کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔انور نے نظریں جھکائے حلق میں اٹکا تھوک نگلا۔

مجھے احساس ہے۔مجھے وہ سب نہیں کہنا چاہیے تھا ۔مجھ سے غلطی ہوئی ہے۔انور نے پھر سے اپنا مدعا واضح کیا۔

نہیں تم نے کوئی غلطی نہیں کی۔ فیل میں ہوا ہوں، میں…. “ بڑے بھائی نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔

میں تمہاری تربیت کرنے میں فیل ہوا ہوں۔ میں تمہاری نگرانی کرنے میں فیل ہوا ہوں۔ نقصان میرا ہوا ہے ۔انور…. تمہارا کچھ نہیں گیا۔بڑے بھائی آخر پھٹ پڑے۔ ان کے منہ سے نکلا ایک ایک لفظ اس کے وجود میں ایک لہر دوڑا گیا تھا۔

بھائی! مجھے معاف کر دیں۔ بس ایک بار…. ایک بار معاف کر دیں۔انور بڑے بھائی سے لپٹ کر رونے لگا۔

میں ضرور پڑھوں گا…. میں دل لگا کر پڑھوں گا۔ میں اب آپ کو کبھی تنگ نہیں کروں گا۔وہ اب بھی روتا ہوا کہہ رہا تھا۔ بڑے بھائی نے اس کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرا۔ بڑے بھائی نے اپنے آنسو بہ مشکل ضبط کیے۔رابعہ گرم دودھ کا گلاس ہاتھ میںلیے دروازے میں کھڑی نم آنکھوں سے مسکراتی ہوئی انہیں دیکھتی رہی۔ 

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

شاہ ماران ۔ افسانہ

Read Next

صحرا کی بلبل؛ ریشماں ۔ انہیں ہم یاد کرتے ہیں

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!