آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا ۔ مکمل ناول

ابھی تو انور کے بی کام کا داخلہ بھرا تھا۔اوپر سے اسٹور میں بھی آپ کئی مہینوں سے مال کم ڈال رہے ہیںاب انور کا علاج؟رابعہ نے پریشانی ظاہر کرتے ہوئے کہا۔ بڑے بھائی پاس بیٹھے اس کی بات سن رہے تھے۔

پیسوں کا انتظام کر لوں گا۔ میں دوست سے قرض لے لوں گا، لیکن انور کا علاج ہونا ضروری ہے۔اس کی زندگی کا سوال ہے۔“ 

آپ قرض کس سے لیں گے؟رابعہ نے استفسار کیا۔

ارسلان سے پوچھوں گا۔مجھے لگتا ہے وہ انکار نہیں کرے گا۔

لیکن اس کے والدین تو عمرے پر جا رہے ہیں۔ وہ مشکل ہی قرض کا وعدہ کرے گا۔آپ کوئی اور حل نکالیں۔“ 

اور کیا حل نکالوں؟بڑے بھائی نے رابعہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

آپ ایسا کریں ۔اماں کا جو زیور پڑا ہے اسے….“ 

کیا؟بڑے بھائی نے ناگواری سے کہا۔

رابعہ….اماں کے زیور کی بات دوبارہ مت کرنا۔وہ روبی کی امانت ہے۔میں روبی کے علاوہ اسے کہیں اور خرچ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔

لیکن ….“ رابعہ نے کچھ کہنا چاہا۔

نہیں میں ایسا نہیں کر سکتا۔ میں اپنی ماں کی دی ہوئی امانت میں خیانت نہیں کر سکتا۔انور کے لیے پیسوں کا انتظام کر لوں گا، لیکن اماں کا زیور نہیں بیچوں گا۔“ 

ٹھیک ہے آپ اماں کا زیور نہ بیچیں۔یہ میرے جھمکے ہیں۔آپ انہیں بیچ دیں۔رابعہ نے جھمکے بڑے بھائی کے ہاتھ میں دیتے ہوئے کہا۔

رابعہ….تم مجھے شرمندہ کر رہی ہو۔یہ جھمکے میں نے بہت چاہت سے تمہارے لیے بنائے تھے۔“ 

میرے لیے آپ کی چاہت سب کچھ ہے اور اگر یہ جھمکے نہ بھی ہوں گے تو چاہت کم نہیں ہوگی۔رابعہ نے وہ جھمکے بڑے بھائی کے ہاتھوں میں دیتے ہوئے کہا۔بڑے بھائی سر جھکائے جھمکے دیکھنے لگے۔پھرمسکراکر رابعہ کو دیکھنے لگے۔وہ بھی مسکرا دی۔

میں ذرا بچوں کو دیکھ لوں۔رابعہ یہ کہہ کر کمرے سے باہر آئی اور انور جو کمرے سے باہر کھڑا کب سے بڑے بھائی اور رابعہ کی باتیں سن رہا تھا برق رفتاری سے اپنے کمرے کی طرف بھاگا تھا۔

٭….٭….٭

تمہیں آج کون لینے آئے گا؟روبی نے سموسہ کھاتے ہوئے پوچھا۔

مزمل بھائی…. ویسے تم کیوں پوچھ رہی ہو؟سارا نے روبی کی طرف دیکھتے ہوئے بے ساختہ پوچھا۔ 

ویسے ہی۔روبی نے سموسے کی پلیٹ پر نظریں جمائے کہا۔

تمہارے بھائی سنجیدہ لگتے ہیں۔روبی نے سموسے کی پلیٹ میں چمچ گھماتے ہوئے کہا۔

نہیں۔بس دیکھنے میں سنجیدہ لگتے ہیں، لیکن بہت خوش اخلاق ہیں۔تم نے انہیں دیکھا ہے؟سارا نے استفسارکیا۔

میں نے….؟ ہاں ۔اس دن تمہیں لینے آئے تھے تودیکھا تھا۔“ 

تمہیں کیسے لگے؟سارا نے بے ساختہ کہا۔

کیا مطلب؟

ارے میں نے کچھ فارسی میں نہیں پوچھا جو تمہیں سمجھ نہیں آیا۔سارا نے سر جھٹکتے ہوئے کہا۔

اچھے ہیں۔روبی نے بے تاثر چہرہ لیے کہا۔

اچھا….پھر ان کے بارے میں اتنی بات کیوں کر رہی ہو؟سارا نے اپنے الفاظ پر زور دیتے ہوئے شرارت سے کہا۔

ویسے ہی بات کر رہی تھی۔تم کیا سمجھ رہی ہو؟روبی نے کچھ ڈانٹتے ہوئے کہا۔

اپنی دوست سے جھوٹ بولو گی؟ تمہاری آنکھیں پڑھ لی ہیں میں نے۔سارا نے اسے چھیڑتے ہوئے کہا۔

زیادہ بکواس مت کرو۔روبی نے الجھ کر کہا۔

یارمذاق کر رہی تھی۔سارا نے ہنستے ہوئے کہا۔روبی الجھی آنکھوں سے اسے دیکھتی رہ گئی۔

٭….٭….٭

سیٹھ صاحب گاڑی کا ہارن پہ ہارن بجا رہے تھے۔سرور نے فوراً آگے بڑھ کر گیٹ کھولا، تو لگا۔سیٹھ صاحب نے شیشہ نیچے کرتے ہوئے سرور کو مخاطب کیا ۔سرور سیٹھ صاحب کی بات سننے کے لیے آگے بڑھا۔

ننگے بھوکے لوگوں کو منہ اٹھا کر گھر میں کیوں آنے دیتے ہو؟سیٹھ صاحب نے غصیلے لہجے میںکہا۔ سیٹھ صاحب کے لہجے سے وہ اندازہ لگا سکتا تھا کہ انہیں اس غریب عورت کا یوں گھر داخل ہونا ناگوار گزرا تھا۔

صاحب جی میں نے اسے بہت روکا تھا جی مگر….“

بس بس….“ سیٹھ صاحب نے اسے ٹوکتے ہوئے ہاتھ سے اشارہ کیا تھا۔

لوگ تماشے کرنے چلے آتے ہیں اور تم ان کی دکھ بھری داستان سن کر اندر لے آتے ہو۔اگر چاہتے ہو کہ تمہاری جگہ کوئی اور چوکیدار نہ لایا جائے تو آئندہ احتیاط کرنا۔سیٹھ صاحب نے گاڑی کا شیشہ اوپر چڑھاتے ہوئے کہا ۔

جی صاحب جی۔سرور نے عاجزی کے ساتھ مگر بے ساختہ کہا ۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

شاہ ماران ۔ افسانہ

Read Next

صحرا کی بلبل؛ ریشماں ۔ انہیں ہم یاد کرتے ہیں

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!