آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا ۔ مکمل ناول

یارکال اٹھاو¿۔ پلیز ۔یار۔زارا بے چینی سے منہ میں بڑبڑائی۔ وہ موبائل پر زین کو کالز پر کالز کر رہی تھی لیکن کوئی جواب نہ پاتے ہوئے اسے غصہ آ رہا تھا۔وہ آج اسلام آباد سے کراچی واپس آ گئی تھی۔

پتا نہیں اسے کیا ہو گیا ہے۔ جب بات کرو مصروف ہوں۔ نہ جانے اس کے کون سے کام ہیں جو ختم ہی نہیں ہوتے۔وہ اب موبائل کو گھورتے ہوئے بڑبڑا ئی اور پھر سے کال ملانے لگی۔

کیا مصیبت ہے۔پھر سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا تھا۔ وہ اضطراب میں اٹھی اور سیدھا گاڑی لے کر اس کے گھر پہنچ گئی تھی۔ 

مجھے زین سے ملنا ہے۔اس نے چوکیدار سے کہا۔

وہ تو جی۔ زوئی بی بی کے ساتھ باہر گئے ہیں۔“ 

زوئی ؟زوئی کون؟زارا کو جیسے زوئی کا نام سن کر جھٹکا سا لگا۔

ان کی کزن ہے جی۔ انگلینڈ سے آئی ہے۔چوکیدار کی بات سن کر زارا بے حد حیران ہوئی تھی کیوں کہ اس نے زین کے منہ سے زوئی کا کوئی ذکر نہیں سنا تھا۔

٭….٭….٭

سوری یار۔ میں نے تمہاری کالز اب دیکھیں۔زین نے رات کو زارا سے کال پر بات کرتے ہوئے کہا۔

زوئی کے ساتھ جی بھر کے گھوم آئے ہو کہ ابھی بھی کوئی کمی رہ گئی ہے؟زارا نے بے حد تیکھے لہجے میں کہا۔زین کو ایک بار کرنٹ لگا۔ کیوں کہ اس نے زارا سے زوئی کا ذکر کبھی کیا ہی نہیں تھا۔

تم میرے گھر آئی تھیں؟ تم کراچی کب پہنچی؟زین نے بے ساختہ پوچھا۔

تمہیں میرے کراچی واپس آنے سے کیا؟میرے اسلام آباد جانے سے تمہیں آزادی جو مل گئی تھی ۔ “ 

یہ تم مجھ سے کیسی باتیں کر رہی ہو؟ زوئی میری فرسٹ کزن ہے۔میں اس کے ساتھ کبھی بھی باہر گھومنے جا سکتا ہوں۔ مجھے اس کے لیے اجازت کی ضرورت نہیں۔زین نے دو ٹوک کہا۔

مجھے تم سے یہ ہر گز امید نہیں تھی۔تم میرے ساتھ یہ سب نہیں کر سکتے۔زارا نے شکست خوردہ لہجے میں کہا۔

یار تم مجھے غلط سمجھ رہی ہو۔ ایسا ویسا کچھ نہیں ہے۔ زوئی میری کزن ہے۔ جو میرے گھر مہمان ہے۔ وہ جلد انگلینڈ واپس چلی جائے گی۔زین نے معاملہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی۔

میں جانتی ہوں میری جگہ کوئی نہیں لے سکتا۔زارا نے بے ساختہ کہا۔

میں تمہاری جگہ کسی کو دے بھی نہیں سکتا۔تم یہ کیوں بھول جاتی ہو کہ تم میری محبت ہو۔زین نے دھیمے لہجے میں کہا۔زارا کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی تھی۔

میں نے تمہیں اسلام آباد بہت مس کیا۔زارا اب اپنے اصل لہجے میں آئی تھی۔

یارمیں نے بھی تمہارے بغیر گن گن کے دن گزارے ہیں۔زین نے پیار بھرے لہجے میں کہا۔ 

٭….٭….٭

کسی نے دروازہ اپنی پوری طاقت لگا کر کھٹکھٹا یا تھااور ساتھ میں چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا۔

حاجی صاحب….! “

حاجی صاحب….! “

حاجی رضوان صاحب کچھ پریشانی کے عالم میں دروازے کی طرف بڑھے۔ انہوں نے جوتا پہننا بھی مناسب نہ سمجھا اور فوراً دروازہ کھولا۔وہ انور تھا۔

کیا ہوا انور۔ سب خیریت ہے؟

وہ فیصل….“ وہ بوکھلاہٹ میں جلدی بول نہیں پا رہا تھا۔

کیا ہوا؟ کیا ہوا فیصل کو؟حاجی صاحب نے بے حد بے چینی سے پوچھا ۔ 

فیصل کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے۔انور نے لمبے سانس بھرتے ہوئے بہ مشکل بتایا تھا ۔معلوم ہوتا تھا وہ کافی دور سے دوڑتا ہوا آیا ہے۔ 

کیا؟حاجی صاحب نے پریشانی میں کہا۔

ہاں۔ فیصل سول اسپتال میں ہے۔

تمہیں کس نے بتایا؟

مجھے اسپتال سے کال آئی ہے۔ انہیں فیصل کے موبائل سے میرا نمبر ملا ہو گا۔ مین روڈ پر اس کا ایکسیڈنٹ ہوا ہے۔لوگوں نے ایمبولینس بلا کر اسے اسپتال پہنچا دیا ۔انور نے ایک ہی سانس میں ساری بات سنا دی تھی۔فیصل حاجی رضوان کا اکلوتا لاڈلا بیٹا تھا۔انہوں نے پریشانی سے اپنا سر جھٹکا ۔اور جلدی سے گھر سے بائیک نکال لائے ۔ انہوں نے انور کو ساتھ بٹھایا اور سیدھا سول اسپتال کا رخ کیا۔ وہ ابھی گلی کی نکڑ مڑے ہی تھے کہ بھولے نے انہیں دیکھ لیا ۔وہ نمکو کھا رہا تھا اور اس کے دائیں ہاتھ کا ا نگوٹھا اس کی چین میں تھا جسے وہ کبھی دائیں جانب اور کبھی بائیں جانب گھما رہا تھا۔ وہ ایک دم سے نمکو کھاتا ہوا رک کر تجسس سے انہیں دیکھنے لگا۔ پھر گلی کی نکڑ مڑا ۔ فیصل کے حادثے کی خبر سن کر محلے کے کچھ لوگ جمع ہو گئے تھے۔بھولابھی اب ان کی بات سننے لگا تھا۔ 

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

شاہ ماران ۔ افسانہ

Read Next

صحرا کی بلبل؛ ریشماں ۔ انہیں ہم یاد کرتے ہیں

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!