آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا ۔ مکمل ناول

یار چلو باہر چلتے ہیں کہیں گھومنے۔زارا نے زین سے فون پر بات کرتے ہوئے مشورہ دیاتھا۔

میں ضرور چلتا مگر آج نہیں۔کل چلیں گے۔“ 

©”کیوں؟ آج کیوں نہیں۔“ 

یار میری خالہ امریکا سے پاکستان آ رہی ہیں ۔“ 

تو؟

موم نے کاموں کی لسٹ میرے ہاتھ میں تھما دی ہے۔زارا زین کی بات پر بے ساختہ ہنسی۔

اچھا، تو جناب۔ آپ آج کل کاموں میں پھنسے ہوئے ہیں۔زارا نے اسے چھیڑتے ہوئے کہا۔

ہاںیار ۔یہی سمجھ لو۔“ 

ویسے تم نے پہلے تو کبھی اپنی امریکا والی خالہ کا ذکر نہیں کیا؟زارا نے استفسار کیا۔

یار وہ کون سا کبھی پاکستان آئی تھیں۔آٹھ نو سال کے بعد آ رہی ہیں۔“ 

انہیں اتنے عرصے کے بعد پاکستان آنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟زارا نے ایک اور سوال کر ڈالا۔

ارے یار مجھے کیا معلوم۔ خون جوش مار گیا ہو گا۔زارا اس کی بات پے پھر سے بے ساختہ ہنسی تھی۔ اپنی بات پر وہ اب خود بھی ہنسنے لگا تھا۔ 

٭….٭….٭

انور یار تیری بیماری کا سنا تو بھاگا چلا آیا۔رضا انور کی عیادت کے لیے گھر آیا تھا۔

بس یار ہم کھانسی کو معمولی سمجھتے رہے۔ کیا پتا تھا کہ ٹی بی کی علامت بھی ہو سکتی ہے۔انور نے افسردہ لہجے میں کہا۔

اللہ صحت دے گا ۔میرے یار کوفکر نہ کر۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔رضا نے حوصلہ دیتے ہوئے کہا۔

ہاں علاج چل رہا ہے۔اللہ شفا دینے والا ہے۔انور نے بھی پر امید لہجے میں کہا۔انور اب بھی کھانس رہا تھا۔

آگے بی کام میں داخلہ لے لیاتو نے؟رضا نے تجسس میں پوچھا۔

ہاں لے لیا داخلہ۔“ 

تو اپنا سنا کیا کر رہا ہے آج کل؟انور نے رضا سے پوچھا۔

یار میرے ابو نے میرے انکل کو کہہ دیا ہے کہ مجھے جلد باہر بلا لیں۔ میرے ابو نے تو میرا پاسپورٹ بننے کے لیے بھی دے دیا ہے۔ بہت جلد میرا پاسپورٹ بن کر آ جائے گا۔رضا نے وضاحت کی۔

یار تیری تعلیم کا کیا ہوگا؟ تم تو آگے بی اے کرنے والے تھے نا۔ تمہیں باہر جانے کی اتنی جلدی کیا ہے؟رضا نے کچھ الجھے لہجے میں کہا۔

بس گھر کے حالات ایسے ہیں۔ ابو چاہتے ہیں باہر جا کر کوئی جاب کرلوں تو گھر کے حالات اچھے ہو جائیں گے۔ ویسے بھی میں وہاں پر اکیلا نہیں ہوں گا ۔میرے انکل ساتھ ہوں گے اور انکل کہہ رہے تھے کہ….“ اور اسی طرح رضا کافی دیر تک اپنی باہر جانے کی روداد سناتا رہا اورانور اس کی روداد بہت دل چسپی سے سنتا رہا۔

٭….٭….٭

میں نے شہر کا ایک بہت اچھا انگلش میڈیم سکول دیکھ رکھا ہے ایمن کے لیے۔پانچ سال کی ہونے والی ہے۔ہمیں اس کا داخلہ کروا دینا چاہیے۔رابعہ نے بڑے بھائی کو دیکھتے ہوئے کہا جو رجسٹر پر کچھ حساب کتاب لکھ رہے تھے۔

میری بھی یہی خواہش تھی کہ میں اپنے بچوں کو شہر کے سب سے اچھے سکول میں داخل کراو¿ں۔لیکن ….“ بڑے بھائی کچھ کہتے کہتے رک گئے تھے۔

لیکن کیا؟رابعہ نے بے ساختہ پوچھا۔

انور کا علاج ہو رہا ہے۔ یہ ابھی مہینوں چلے گا۔چند ہفتوں کی بات نہیں ہے۔ اخراجات تمہارے سامنے ہیں۔بڑے بھائی نے پیسوں کا انتظام نہ ہونے کی وجہ سے بلاآخر رابعہ کا کچھ زیور بیچ کر انور کا علاج شروع کیا تھا، لیکن اس کے با وجود ان کے وسائل نہیں تھے کہ روبی کی تعلیم اور انور کے علاج کے ساتھ ساتھ گھر چلاتے ہوئے اپنے بچوں کو مہنگے اسکول پڑھنے کے لیے بھیجیں۔ رابعہ ایک دم چپ سی ہو گئی تھی۔

تم میری بات سمجھ رہی ہو نا؟بڑے بھائی نے رابعہ کی آنکھوں کے پردوں میں چھپے معصوم سے شکوے کو بھانپتے ہوئے کہا۔

جانتی ہوں اتنے اخراجات نہیں ہیں ہمارے پاس۔رابعہ نے سنجیدگی سے ہاں میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔

لیکن پھر کب تک ہم ایمن کو اسکول داخل نہیں کروائیں گے؟رابعہ نے تحمل بھرے لہجے میں پوچھا۔

ضروری نہیں ہم مہنگے اسکول داخل کروائیں۔ہم کسی عام اسکول میں بھی ایمن کو بھیج سکتے ہیں۔جب گنجائش نکلے گی میں ایمن کو اچھے اسکول میں داخل کروا دوں گا۔بڑے بھائی نے کہا۔

ہوں….یہی ہو سکتاہے۔رابعہ نے بے تاثر چہرے لے کہا۔

بڑے بھائی کچھ مطمئن ہو گئے اور پھر سے دکان کے حساب کتاب میں مگن ہو گئے۔ وہ اپنے بستر پر لیٹی سامنے دیوار کو گھورتے ہوئے کچھ سوچتی رہی۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

شاہ ماران ۔ افسانہ

Read Next

صحرا کی بلبل؛ ریشماں ۔ انہیں ہم یاد کرتے ہیں

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!