آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا ۔ مکمل ناول

کھانا لگا دو۔بہت بھوک لگی ہے۔کاشف نے جوتا اتارتے ہوئے کہا۔ وہ آفس سے واپس آیا تھا۔روبی اپنے کمرے میں بیڈ پر لیٹی میگزین پڑھ رہی تھی۔

باہرسے لے آئیں۔روبی نے میگزین سے نظریں ہٹائے بغیر کہا۔

کیوں ؟ کھانا نہیں بنایا؟کاشف نے کچھ حیرانی سے پوچھا۔ 

امی کو بخار ہے۔روبی نے بے پروائی سے کہا۔

تو روز رات کا کھانا امی بناتی ہیں؟کاشف نے مزید حیرانی سے پوچھا۔

ہاں وہی بناتی ہیں۔روبی نے ابھی بھی میگزین سے نظریں نہیں ہٹائی تھیں۔

امی کو بخار تھا تو کھانا تم بنا لیتی۔کاشف غصہ ضبط کرتے ہوئے بولا۔کاشف کے ساتھ یہ پہلی بار نہیں ہوا تھا۔ان کی شادی کو چھے ماہ گزر گئے تھے لیکن ابھی تک روبی نے کاشف کو دل سے اپنا شوہر تسلیم نہیں کیا تھا۔ وہ ابھی بھی مزمل کی یادوں میں جیتی مرتی رہتی تھی۔

میں کیوں بناتی؟ سارا دن جانوروں کی طرح کام نہیں ہوتا مجھ سے۔روبی نے میگزین سے نظریں ہٹاتے ہوئے کہا۔

تمہارا مسئلہ کیا ہے؟ اس گھر میں صرف تین افراد ہیں۔ میری ماں کی خدمت تم سے نہیں ہوتی تو نہ کرو میں خود کر لوں گا۔ میری خدمت تو تم پر فرض ہے نا؟مجھے ایسا کیوں لگتا ہے کہ تم مجھے اپنا شوہر ہی نہیں سمجھتی؟کاشف نے شادی کے بعد پہلی بار دل میں چھپے سارے اندیشے ظاہر کیے تھے۔

ہاں۔ میں تمہیں اپنا شوہر نہیں سمجھتی۔ میرا تمہارے ساتھ دل کا کوئی رشتہ نہیں ہے۔ یہ شادی ایک بوجھ ہے جو اٹھائے پھر رہی ہوں۔روبی نے تقریباً چلاتے ہوئے کہا اور ہاتھ میں پکڑا میگزین غصے سے فرش پر پٹخ دیا تھا۔

جب سے شادی ہوئی ہے تم مجھ سے اچھے انداز سے بات تک نہیں کرتی۔اگر یہ شادی بوجھ تھی تو تم نے ہاں کیوں کی تھی؟آخر کاشف کا صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔

میں نے سوچا تھا تم میری قدر کرو گے۔ مجھے محبت دو گے، لیکن مجھے یہ نہیں پتا تھا کہ تم بات بات پر مجھے ذلیل کرو گے اور اپنی ماں کی طرف داری کرتے ہوئے مجھے خوار کرو گے۔ مجھے تمہارے ساتھ رہنا ہی نہیں ہے۔ میں جا رہی ہوں اپنے بڑے بھائی کے گھر۔روبی نے بے ساختہ چلاتے ہوئے کہااور غصے سے اٹھ کر الماری سے کپڑے نکالنے لگی ۔کچھ ہی لمحوں میں اس نے بیگ تیار کر لیا تھا۔کاشف سر پکڑے بے بسی سے بیٹھا رہا۔وہ جان گیا تھا کہ یہ گھر بسانا نہیں چاہتی۔روبی نے بیگ اٹھایا اور تیزی سے کمرے سے نکل گئی۔ کاشف کے دل میں جو اس کی تھوڑی بہت بیوی کی حیثیت سے عزت تھی آج وہ بھی ختم ہوگئی تھی۔کاشف نے اسے ایک بار بھی روکنے کی کوشش نہیں کی تھی۔

٭….٭….٭

یار میرے گھر والے زوئی سے میری شادی کر رہے ہیں۔زین نے بے بسی سے کہا۔وہ زارا سے فون پر بات کر رہا تھا۔

”What.Are you serious.?“ زارا بے ساختہ بولی۔

”Yes.I am serious“ 

یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ تم نے انکار نہیں کیا؟ “ 

یار۔میں بے بس ہوں۔سارے گھر والے مجھ پر زور دے رہے ہیں۔ میں پھنس گیا ہوں۔ میرے پاس کوئی راستہ نہیں ہے۔ “ 

ایسا نہیں ہو سکتا۔ تم کچھ کرتے کیوں نہیں؟زارا نے بے حد بے چینی سے کہا۔

میں کیاکروں؟ میں گھر والوں سے کہہ چکا ہوں کہ مجھے زوئی سے شادی نہیں کرنی، لیکن وہ میری کوئی بھی بات سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔“ 

اور تم کیا چاہتے ہو؟زارا نے دھیمے لہجے میں کہا۔

میں…. میں کیا چاہتا ہوں؟ کیا تم نہیں جانتی؟زین نے استفسار کیا۔

نہیں جانتی۔ اسی لیے پوچھ رہی ہوں۔زارا نے کچھ تلخی سے کہا۔

میں زوئی سے شادی کے لیے کیسے ہاں کر سکتا ہوں؟ میں تو موم کو بہت جلد تمہارے گھر بھیجنے والا تھا۔

تو ٹھیک ہے تم ان سے دوٹوک کہہ دو کہ تم زوئی سے شادی نہیں کرو گے۔زارا نے مشورہ دیا۔

یار….میں انکار کرنے کا ہر طریقہ اپنا چکا ہوں، لیکن میری کوئی سنتا ہی نہیں ہے۔ موم کے لیے خالہ بہت اہم ہیں۔وہ خالہ کی بات کبھی نہیں ٹال سکتیں۔

تو پھر؟زارا نے بھرائی آواز میں کہا۔وہ بات کرتے ہوئے رو رہی تھی۔

میں تمہیں بہت چاہتا ہوں۔میں تمہارے ساتھ زندگی گزارنا چاہتا تھا، لیکن قسمت میں کچھ اور لکھا تھا۔میں بہت بے بس ہوں۔مجھے معاف کر دینا۔زین کے الفاظ نے زارا کو اندر سے توڑ دیا تھا۔ اس نے روتے ہوئے کال کاٹ دی اور موبائل سامنے دیوار پر دے مارا۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

شاہ ماران ۔ افسانہ

Read Next

صحرا کی بلبل؛ ریشماں ۔ انہیں ہم یاد کرتے ہیں

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!