آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا ۔ مکمل ناول

مجھے آج مزمل بھائی لینے آئے ہیں۔سارا نے روبی سے کہا جو کتابیں سمیٹ رہی تھی۔

تو میں کیا کروں؟روبی نے بے ساختہ کہا۔

یار تم نے کچھ نہیں کرنا۔بس تم میرے ساتھ چلو۔سارا نے اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا۔روبی ہنستی ہوئی اس کے ساتھ چل دی ۔وہ دونوں گیٹ کی طرف بڑھنے لگیں۔سارا روبی کو زبردستی باہر لے گئی تھی۔وہاں سڑک پر مزمل کھڑا تھا۔وہ ان دونوں کو آتا دیکھ کر متوجہ ہوا تھا۔

بھائی اس سے ملو۔یہ میری دوست روبی ہے جس کا میں آپ سے اکثر ذکر بھی کرتی رہتی ہوں۔سارا کی اس بات پر روبی نے چونک کر سارا کو دیکھا ،لیکن پھر اگلے ہی لمحے خود کو قابو میں رکھتے ہوئے مزمل کی طرف متوجہ ہوئی جو اسے ہی دیکھ رہا تھا۔

کیسی ہو روبی؟مزمل نے اسے مخاطب کیا۔

میں ٹھیک ۔روبی نے مختصر جواب دیا۔

سارا کے منہ سے تمہارا بہت ذکر سنا ہے۔مزمل نے گہری مسکراہٹ سجائے کہا۔ روبی کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کہے۔ اس لیے الجھی سی چپ چاپ کھڑی رہی۔

میں تمہیں بھی گھر چھوڑ دوں ؟مزمل نے اگلا سوال کیا۔

نہیں شکریہ۔مجھے لینے آرہے ہوں گے۔روبی نے نظریں ملائے بغیر کہا۔

چلو ٹھیک ہے۔ تم سے مل کر بہت اچھا لگا۔ پھر ملاقات ہوگی۔مزمل یہ کہہ کر اپنی بائیک اسٹارٹ کرنے لگا۔ پھر وہ اسے خدا حافظ کہہ کرچلے گئے۔ روبی سڑک پر کھڑی انہیں دور تک جاتا دیکھتی رہی پھر گہری مسکراہٹ لیے منہ میں بڑبڑائی۔

تم سے مل کر اچھا لگا۔“ 

٭….٭….٭

وہ آج گھر جا کر نا چاہتے ہوئے بھی بار بار مزمل کے بارے میں سوچ رہی تھی۔جیسے وہ اس کے ذہن میں نقش ہو گیا تھا۔

سارا مزمل سے میرے بارے میں پتا نہیں کیا کیا باتیں کرتی آئی ہے۔اس نے کروٹ بدلتے ہوئے دل میںسوچا ۔

سارا کو مزمل کے سامنے میری باتیں نہیں کرنی چاہیے تھیں۔سارا باز نہیں آئی ۔ویسے سارا نے کون سا کچھ غلط کہا ہو گا۔ وہ میری دوست ہے۔ وہ مزمل کے سامنے میری اچھی باتیں ہی کرتی ہو گی۔ اس میں کچھ غلط تو نہیں۔اس نے چھت کو دیکھتے ہوئے دل میں سوچا۔

تم سے مل کراچھا۔وہ ہونٹ دانتوں میں دباتے ہوئے پھر سے اُنہی لفظوں میں کھو گئی تھی۔رات کتنی بیت چکی ہے اسے خبر نہ تھی۔

٭….٭….٭

تم کہاں تھے؟ میں خالہ سے تمہارا پوچھ رہی تھی۔زوئی نے زین کو دیکھتے ہوئے کہا۔ زین نے چمکتی آنکھوں سے اسے دیکھا تھا۔جب سے زوئی آئی تھی زین سے زیادہ گھلتی ملتی نہیں تھی، لیکن آج پہلی بار زین نے زوئی کے انداز میں اپنے لیے اپنائیت محسوس کی تھی۔

میرا کیوں پوچھ رہی تھی؟زین نے سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔

”I was getting bored.I wanna spend some time with you.۔زین اس کی بات پر مسکرایا تھا۔

”Oh really….تو یہ بات ہے۔زین نے بے ساختہ کہا۔

”yes….لونگ ڈرائیو پے چلیں؟زوئی نے مشورہ دیتے ہوئے کہا۔

”Why not.Lets go.“ زین نے خوش دلی سے زوئی کو باہر گھومنے کی دعوت دی تھی۔ وہ اب گاڑی میں بیٹھے ایک دوسرے سے باتیں کر رے تھے۔

” I think that mom was right about Pakistani boys.“ زوئی نے سائیڈ ویو مرر سے باہر دیکھتے ہوئے کہا۔

”It meansتم نے پاکستانی لڑکوں کے بارے میں جو سوچا تھا ویسا نہیں ہوا؟ زین نے بے ساختہ کہا۔

”yes.I dislike Pakistani boys.but….“ 

لیکن کیا؟زین نے فٹ سے پوچھا۔

لیکن اب ایسا نہیں ہے۔زوئی نے مسکراتے ہوئے بولی اور بے ساختہ زین کی طرف دیکھنے لگی۔

”Good to know that.“ زین خوشی سے بولا تھا۔پھر زوئی زین سے اپنے پاکستان آنے کے بعد جو احسا سات تھے وہ شیئر کرتی رہی۔وہ ہنس ہنس کر اس کی باتیں انجوائے کرتا رہا اور کومنٹ دیتا رہا۔ انہیں پتا ہی نہیں چلا کب اور کیسے ان دونوں کی دوستی ہو گئی تھی۔

٭….٭….٭

یار میں تجھے ملنے آیا تھا۔میں انگلینڈ جا رہا ہوں۔رضا نے گر م جوشی سے ملتے ہوئے کہا۔ انور کو جیسے جھٹکا سا لگا تھا۔

یار واقعی تو جا رہا ہے؟

ہاں دو دن بعد میری فلائٹ ہے۔اسی لیے تمہیں ملنے چلا آیا۔

یہ تو بہت خوشی کی بات ہے۔ تمہارے انکل بہت اچھے ہیں۔تمہارا خیال کرتے ہیں۔بہت خوش قسمت ہو۔انور کو اس کی قسمت پر رشک آیا تھا ۔کیوں کہ انور اپنی باہر جانے کی دلی خواہش کم از کم رضا سے چھپا نہیں سکتا تھا۔وہ پڑھ تو رہا تھا لیکن وہ اصل میں باہر جانا چاہتا تھا۔وہ پاکستان میں جاب نہیں کرنا چاہتا تھا کیوں کہ اسے لگتا تھا کہ باہر جا کر پیسہ کمانا پاکستان میں پیسہ کمانے سے آسان ہے۔ 

خوش قسمت ہی سمجھ لو۔ ویسے تو فکر نہ کر۔ میں بہت جلد تجھے بھی با ہر بلا لوں گا۔ تو بس جلدی سے بی کام پورا کر۔رضا نے اس کی دبی خواہش بھانپتے ہوئے کہا۔

یار بڑے بھائی مجھے باہر نہیں جانے دیں گے۔“ 

کیوں؟

وہ کہتے ہیں پڑھ لکھ کر پاکستان میں جاب کرنی ہے۔ویسے بھی وہ میرے بغیر نہیں رہتے۔وہ مجھے باہر نہیں جانے دیں گے۔“ 

او ہو۔ بڑے ا یسی ہی باتیں کرتے ہیں۔ایک بار تم باہر جا کر انہیں پیسہ بھیجو گے تو وہ تم سے راضی ہو جائیں گے۔رضا نے منٹوں میں حل نکالتے ہوئے کہا۔

بات تو ٹھیک کرر ہا ہے۔انور نے کچھ سوچتے ہوئے سر ہلایا۔

تمہارابی کام ہونے میں چھے ماہ رہ گئے ہیں۔ اتنی دیر میں، میں وہاں جا کر سیٹ ہوتا ہوں۔ پھر تمہیں بھی جلد بلا لوں گا۔

بہت شکریہ یار۔میرا اتنا خیال کرتا ہے۔انور نے تشکر بھرے لہجے میں کہا۔

یار۔ پڑھ لکھ کر بھی پیسہ ہی کمانا ہے۔تو باہر جا کر دو پیسے زیادہ کما لے گا۔تو اچھا رہے گا۔رضا نے بے پروائی سے کہا۔

توبس اب اپنا پاسپورٹ تیار رکھ۔رضا نے اپنی دوستی کا پوار حق جتاتے ہوئے کہا۔انور کی آنکھوں میں بے پناہ چمک ابھری تھی۔ اس کے بعد انور کے اندر باہر جانے کی خواہش بہت مضبوطی پکڑ گئی تھی۔اب وہ ہر حال میں باہر جانا چاہتا تھا۔چاہے کچھ بھی ہو جائے۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

شاہ ماران ۔ افسانہ

Read Next

صحرا کی بلبل؛ ریشماں ۔ انہیں ہم یاد کرتے ہیں

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!