آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا ۔ مکمل ناول

جانتے ہو میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش کیا تھی ؟بڑے بھائی نے انور سے کہا جو ان کے بائیں جانب پارک میں ایک بنچ پر بیٹھا تھا۔ وہ آج بھی چہل قدمی کی غرض سے باہر پارک میں آئے تھے۔یہ ان کی پرانی عادت تھی کہ جب بھی وقت ملتا دونوں گھر کے قریب بنے پارک کے ایک فکس بنچ پر آکر بیٹھ جاتے اور بالکل دوستوں کی طرح اپنے دکھ درد بانٹتے ۔ 

نہیں بڑے بھائی۔ مجھے معلوم نہیں۔انور نے سوالیہ آنکھوں سے دیکھتے ہوئے کہا۔

میری سب سے بڑی خواہش تھی کہ میں پڑھ لکھ کر ایک بزنس مین بنوں۔ میری اپنی کمپنی ہو۔جہاںلوگ میرے ماتحت کام کریں۔ میں بچپن میں جب اخبار دیکھتا تو پینٹ کورٹ پہنے لوگ دیکھ کر میرا بھی دل چاہتا میں بھی ان کی طرح پڑھ لکھ کر پینٹ کورٹ پہنوں۔بڑے بھائی نے لمبی سانس بھرتے ہوئے کہا۔

پھر آپ نے پڑھا کیوں نہیں؟انور نے کھانستے ہوئے کہا۔

جب اماں کی وفات ہوئی تب میں نو دس سال کا تھا ور روبی ایک سال کی۔ تم بھی بہت چھوٹے تھے۔ ا ماں کے جانے کے بعد زندگی بڑی مشکل ہو گئی اور پھر گاو¿ں میں اسکول بھی نہیں تھا۔ پھر اباجی ا ماں کی وفات کے بعدگاو¿ں چھوڑ کر ہمیں شہرلے آئے۔ مجھے پڑھنے کے لیے اسکول ڈال دیا۔میں نے پانچویں پاس کی تھی جب ابا جی کا ایکسیڈنٹ ہو ا اور ان کی کمر کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ ابا جی اسپتال دو ہفتے رہے مگر پھر دم توڑ گئے تھے۔بڑے بھائی ایک ہی سانس میں اپنے ماضی کے ورق پلٹتے گئے۔

پھر کیا ہوا؟وہ بہت دل چسپی سے سن رہا تھا۔

حادثے کی تکلیف کے دوران ہی ابا جی نے اپنی ساری جمع پونجی لگا کر اپنے ایک جاننے والے کے توسط سے مجھے ایک دکان کھول دی تھی۔اس وقت میں چھٹی کلاس میں تھا۔ میں اسکول سے آکر دکان کھول لیتا اور میرا سارا دن دکان پر گزرتا تھا۔

پھر آپ نے ہمیں کیسے پالا بڑے بھائی؟انور زور سے کھانستے ہوئے کچھ سنجیدگی سے بولا۔ 

تمہیں اتنی کھانسی کیوں ہو رہی ہے؟بڑے بھائی نے فکرمندی سے کہا۔

شاید موسمی کھانسی ہے ۔پہلے تو کبھی ایسی کھانسی نہیں ہوئی مجھے ۔ ہو جائے گی ٹھیک۔آپ کیا بتا رہے تھے بڑے بھائی۔ ؟انور بات ٹالتے ہوئے پھر اسی موضوع پر آیا تھا۔ بڑے بھائی نے دوبارہ وہیں سے بات شروع کی ۔

ہاں میں بتا رہا تھا کہ ابا جی کی وفات کے بعد میں نہیں پڑھ سکتا تھا۔تم دونوں اس وقت بہت چھوٹے تھے۔ میںنے ساتویں کے بعد اسکول چھوڑ دیا تھا۔“ 

لیکن آپ نے اسکول کیوں چھوڑا؟انور بے ساختہ بولا۔ 

یارتم دونوں کو اکیلا گھر نہیں چھوڑ سکتا تھااور تم بھی اسکول جانے لگے تھے ۔ دکان کو اگر ٹھیک ٹائم نہ دیتا تو گھر کے اخراجات پورے نہیں ہوتے تھے۔ بس اس لیے تعلیم چھوڑ کر دکان کو وقت دینے لگا اورتم دونوں کا خیال بھی تو کرنا تھا۔ میں نے بہت سوچ بچار کے بعد اسکول چھوڑا تھا ۔

پھر آپ نے یہ اسٹور کیسے بنایا؟انور نے تجسس سے پوچھا۔

میں دکان میں زیادہ مال ڈالنے لگا۔ جب پیسہ ہوتا میں دکان میں مال ڈال لیتا۔بس آہستہ آہستہ محنت کرتے کرتے ایک وقت آیا جب میں ایک جنرل اسٹور بنانے کے قابل ہو گیا۔پھر میںنے وہ چھوٹی سی دکان چھوڑ کر یہ اسٹور بنا لیا تھا۔“ 

آپ اسٹور بنانے کے بجائے کوئی اور کاروبار بھی تو کر سکتے تھے؟انور نے استفسار کیا۔

ہاں کر سکتا تھا، لیکن مجھے جنرل اسٹور چلانے کا تجربہ تھا۔اسی کام میں تو آنکھ کھولی تھی۔ بس پھر یہی کام شروع کرنا مناسب سمجھا ۔بڑے بھائی نے آج پہلی بار انور کو اپنی زندگی کے پرانے صفحے پلٹ کر دکھائے تھے جو کٹھن سفر سے کم نہ تھے۔

میری وہ خواہش اسی پرانی دکان کی کسی اینٹ تلے دبی کی دبی رہ گئی۔ کئی بار وہ اینٹ اکھاڑنے کی کوشش کی لیکن کندھوں پے ذمہ داریاں ہی اتنی تھیں کہ اینٹ اکھاڑنے سے پہلے ہی میرے کندھے جواب دے جاتے تھے۔بڑے بھائی نے پارک کی دوسری طرف بیڈ منٹن کھیلتے بچوں کو دیکھتے ہوئے دھیمے انداز میں کہا۔انور شاید بڑے بھائی کے جذبات باخوبی سمجھ سکتا تھا۔وہ معنی خیز آنکھوں سے بڑے بھائی کا چہرہ پڑھنے کی کوشش کر رہا تھا ۔

بڑے بھائی۔آپ نے زندگی میں ہمارے لیے بہت قربانیاں دی ہیں۔میں اب بڑا ہو گیا ہوں۔میں آپ کی ہر خواہش پوری کروں گا۔بڑے بھائی نے چمکتی آنکھوں سے مسکراتے ہوئے اسے دیکھا۔ انور کو لگا جیسے بڑے بھائی کی سارے دن کی تھکن ختم ہو گئی ہے۔

میں زندگی میں جو کچھ کرنا چاہتا تھا میں وہ نہیں کر پایا۔اب میں تم لوگوں کو اسی منزل پر دیکھنا چاہتا ہوں جو میں نے اپنے لیے سوچی تھی۔بڑے بھائی نے مزید وضاحت کی تھی۔ 

بڑے بھائی ۔میں آپ کے دل کی مراد پوری کروں گا۔انور نے پورا یقین دلاتے ہوئے کہا۔بڑے بھائی پیار سے اسے دیکھنے لگے۔ 

اور پھر وہ وہاں سے اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔

٭….٭….٭

وہ دونوں ایک بہت مہنگے ہوٹل میں بیٹھے تھے اور ایک ساتھ کینڈل لائٹ ڈنر کرنے والے تھے۔ زارا نے آج زین کو انوائٹ کیا تھا کیوں کہ آج زین کی برتھ ڈے تھی۔ وہ اسے wishکر چکی تھی اور مہنگے ترین تحفے تحائف دینے کا سلسلہ بھی پورا ہو چکا تھا۔ یہ دن پچھلے کئی سالوں سے ایسے ہی منایا جا رہا تھا۔ یہ celebrationsان دونوں کے لیے نئی نہیں تھیں۔زین پہلے ہی جانتا تھا کہ زارا اسے کسی اعلیٰ ہوٹل میں انوائٹ کرے گی بالکل ویسے ہی جیسے وہ اسے کئی سالوں سے اس کی برتھ ڈے پر انوائٹ کرتی آئی تھی۔وہ اب کینڈل لائٹ ڈنر کے لیے تیار تھے کیوں کہ ٹیبل سج چکا تھا۔

اگر میں تمہیں wishنہ کرتی تو تمہیں کیسا لگتا ؟زارا نے اپنی محبت کا احساس دلاتے ہوئے کہا۔

ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ تم مجھے wishکرنا بھول جاو¿ اور وہ بھی میری برتھ ڈے پر…. مجھے معلوم ہے تم کئی دنوں سے میرے لیے تحفہ لینے کے لیے شاپنگ مال کے چکر لگا رہی ہو۔زین نے بے ساختہ کہا۔

مجھے تمہارے لیے ہمیشہ پرفیکٹ تحفے کی تلاش ہوتی ہے اور پر فیکٹ تحفہ ایک بار شاپنگ مال جانے سے نہیں ملتا۔زارا نے مسکراتے ہوئے کہا۔

لیکن تم مجھے جو بھی تحفہ دیتی ہو وہ ہمیشہ پرفیکٹ ہوتا ہے۔ میں جانتا ہوں تمہیں میری پسند ناپسند معلوم ہے۔

اتنا جانتے ہو مجھے؟

تمہیں نہیں جانتا تو اور کسے جانتا ہوں؟“ 

اور کسی کو جاننا بھی مت۔زارا نے حق جتاتے ہوئے کہا۔زین بے ساختہ ہنسا تھا۔

جانتی ہو زندگی میں سب سے زیادہ محبت میں نے تم سے کی ہے۔تم میری زندگی کی پہلی اور آخری محبت ہو۔زین نے محبت بھرے لہجے میں کہا۔

میں بھی تمہارے بغیر ادھوری ہوں۔تمہارے بغیر میں زندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔زارا نے پیار سے دیکھتے ہوئے کہا۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

شاہ ماران ۔ افسانہ

Read Next

صحرا کی بلبل؛ ریشماں ۔ انہیں ہم یاد کرتے ہیں

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!