آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا ۔ مکمل ناول

آپ کی انور سے بات ہوئی؟رابعہ رات کو بستر بچھاتے ہوئے بولی۔بڑے بھائی اپنے بستر پر لیٹے تھے ۔وہ اپنا بازو آنکھوں پر رکھے کچھ سوچ رہے تھے۔

ہاں!“ بڑے بھائی نے مختصر جواب دیا۔

کیا کہا پھر انور نے؟

کہتا ہے اماں جی کا زیور بیچ دو۔ باہر جا کر کماو¿ں گا تو زیور بنا دوں گا ۔بڑے بھائی نے اب آنکھوں سے بازو ہٹا لیا تھا۔

تو پھر آپ نے کیا سوچا؟

زیور میرے پاس امانت ہے۔ میں اسے نہیں بیچ سکتا۔ روبی کی بھی تو شادی کرنی ہے ۔ وہ اس کی شادی پر کام آئے گا۔بڑے بھائی ابھی بھی اپنی بات پر بضد تھے۔

عزیز۔آپ بات سمجھنے کی کوشش تو کریں۔انگلینڈ کا ویزا بہت مہنگا ہے۔ہم سے پیسوں کا انتظام نہیں ہو گا اور ہم اتنا قرض بھی نہیں پکڑ سکتے۔ ہم نے انور کوسمجھا کر بھی دیکھ لیا ہے۔ کیا فائدہ ہوا؟ انور چھوٹا بچہ تو ہے نہیں جو ڈانٹ کر چپ کروا دیں۔ وہ جوان ہو چکا ہے۔ اب ایک ہی حل ہے اور وہ یہ کہ زیور بیچ کر اسے باہر بھیج دیں۔رابعہ ان کے پاس بیٹھتے ہوئے بولی۔بڑے بھائی اس کی بات سنتے رہے۔

ویسے بھی وہ باہر جا کر جب کمائے گا تو خود ہی زیور بھی بنا دے گا۔اسے بھی پتا ہے کہ زیورروبی کی امانت ہے۔ویسے بھی روبی ابھی پڑھ رہی ہے۔جب تک اس کی شادی کا وقت آئے گا تب تک انور زیور بنا دے گا۔آپ فکر کیوں کرتے ہیں؟رابعہ نے ہر مسئلے کا حل منٹوں میں نکالتے ہوئے کہا۔

زیور بیچ دوں…. روبی کیا سوچے گی؟بڑے بھائی نے الجھتے ہوئے کہا۔

روبی انور کی بہن ہے۔وہ اپنے بھائی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنے گی۔وہ سمجھدار لڑکی ہے۔مجھے نہیں لگتا کہ وہ کچھ ایسا ویسا سوچے گی اور ویسے بھی انور اس کا زیور لٹا دے گا تو پھر اسے کوئی اعتراض کیوں ہو گا۔رابعہ نے دوٹوک کہا۔ بڑے بھائی نے کچھ سوچتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا ۔اب وہ تھوڑے مطمئن نظر آنے لگے تھے۔

آپ اتنی فکر مت کیا کریں۔سب ٹھیک ہو جائے گا۔آپ کو ڈاکٹر نے بھی ٹینشن لینے سے منع کیا تھا۔ آپ کی اسی عادت کی وجہ سے آپ کا بلڈ پریشر ہائی رہنے لگا ہے۔رابعہ نے فکرمندی سے کہا۔

ٹینشن کون لیتا ہے؟ ٹینشن آجاتی ہے بن بلائے مہمان کی طرح۔بڑے بھائی نے چھت کو گھورتے ہوئے کہا۔رابعہ ان کا مرجھایا چہرہ دیکھتی رہی۔

بڑے بھائی نے آخر حالات کی نو عیت کو بھانپتے ہوئے اماں جی کا زیوربیچ دیا اور انور انگلینڈ چلا گیا تھا۔ وہ اپنے دوست رضا کے انکل کی کمپنی میں جاب کرنے لگا تھا۔اسے اپنی تعلیم کی وجہ سے اچھی جاب مل گئی تھی۔ وہ وہاں جا کر بے حد خوش تھا۔رضا کو بھی انور کے آنے کی بہت خوشی تھی ۔

٭….٭….٭

زارا اور عاصم خوب صورت موسم کا مزہ لینے کے بعد اب ریسٹورنٹ میں ڈنر کے لیے بیٹھے تھے۔زارا اور عاصم ہنس ہنس کر باتیں کر رہے تھے۔وہ ایک دوسرے کے ساتھ خوشگوار وقت گزارنا اچھی طرح جانتے تھے۔

تم پر سرخ رنگ بہت اچھا لگتا ہے۔عاصم نے زاراکو معنی خیز نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔

مجھ پر تو سارے رنگ ہی اچھے لگتے ہیں۔زارا نے شرارت سے کہا۔

ٹھیک کہا۔ خوب صورتی ہو تو ہر رنگ ہی اچھا لگتا ہے۔عاصم نے پھر سے اس کی تعریف کی تھی۔

آج تم میری تعریفیں بہت کر رہے ہو۔خیر تو ہے نا؟زارا نے شرارت بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔

یار۔میں تو تمہاری زندگی بھر تعریفیں کرنے کے لیے تیار ہوں۔وہ عاصم کی بات پر بے ساختہ ہنسی تھی۔ہنستے ہوئے زارا کی نظر کچھ فاصلے پر بیٹھے زین اور زوئی پر پڑی۔ زین اور زارا کی نظریں بے ساختہ آپس میں ملی تھیں۔ زارا ایک دم سے چونک گئی اور ہنسنا بھول گئی تھی۔

٭….٭….٭

آج خالہ خورشید آئی تھی۔ روبی کے لیے بہت اچھا رشتہ بتا کر گئی ہے۔رابعہ نے بڑے بھائی کے پاس کھانے کی ڈش رکھتے ہوئے کہا۔

کیا بتایا خالہ نے؟بڑے بھائی نے استفسار کیا۔

خالہ بتا رہی تھی کہ بہت اچھے لوگ ہیں۔لڑکا پڑھا لکھا ہے اور بینک میں بہت اچھی جاب کرتا ہے۔“ 

رشتہ تو اچھا لگتا ہے۔دیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔بڑے بھائی نے لقمہ لیتے ہوئے کہا۔

میں بھی یہی سوچ رہی تھی۔ روبی کی پڑھائی کا بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ وہ بی ا یس سی کر چکی ہے۔ ہمیں یہ رشتہ دیکھ لینا چاہیے۔رابعہ نے گلاس میں پانی ڈالتے ہوئے کہا۔

ٹھیک ہے۔ پھر تم روبی سے بات کر لو۔بڑے بھائی نے پانی کا گلاس اٹھاتے ہوئے کہا۔ رابعہ نے ہاں میںسر ہلایا۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

شاہ ماران ۔ افسانہ

Read Next

صحرا کی بلبل؛ ریشماں ۔ انہیں ہم یاد کرتے ہیں

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!