آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا ۔ مکمل ناول

بڑے بھائی اور رابعہ اپنے بچوں کے ساتھ خوش باش بیٹھے کھانا کھا رہے تھے۔ایک خوشی کا سماں تھا۔وہ ایک مکمل فیملی تھی۔اسی لمحے کسی نے ایک جھٹکے سے گھر کا دروازہ کھولا۔انہوں نے چونک کر دروازے کی طرف دیکھا۔ روبی سوجھی آنکھوں سے روتی ہوئی گھر داخل ہوئی ۔بڑے بھائی لقمہ لیتے ہوئے اسے اس حال میں روتا دیکھ کر رک گئے۔ پریشانی کی وجہ سے لقمہ ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے گر گیا۔ رابعہ بھی بے ساختہ روبی کی طرف دیکھنے لگی۔ روبی نے اندر آتے ہی اپنا بیگ اٹھا کر زمین پر پٹخ دیا۔

خیریت تو ہے نا؟روبی….“ رابعہ نے بے ساختہ پوچھا۔

میری اتنی جلدی شادی کر کے آپ کو کیا ملا؟روبی روتے ہوئے بولی۔

کیا ہوا؟بڑے بھائی نے پریشانی سے لمحہ بھر میں پوچھا۔

آپ نے اچھا کیا۔ جلدی اپنا بوجھ ہلکا کر لیا۔ویسے بھی بھائی کب تک اپنی بہنوں کو گھر بٹھاتے ہیں۔روبی کی بات پر بڑے بھائی نے حیرانی سے دیکھا تھا۔ وہ کچھ کہہ نہیں پائے۔ بس نا سمجھ آنے والے انداز سے روبی کو دیکھتے رہے۔

یہ کیا کہہ رہی ہو روبی ۔ہوش میں تو ہو؟رابعہ نے کچھ غصیلے لہجے میں کہا۔

ہاں ہوش میں ہی ہوں۔ آپ لوگ مجھے دوزخ میں پھینکتے ہوئے ایک بار تو سوچتے۔روبی نے چیختے ہوئے کہا۔

تمہارے گھر والوں کا رویہ تمہارے ساتھ ٹھیک نہیں کیا؟رابعہ نے سوالیہ نظروں سے مسئلے کا سراغ لگاتے ہوئے پوچھا۔

وہ لوگ مجھے گھر کے معمولی کاموں کے لیے روز ذلیل و خوار کرتے ہیں۔انہیں ملا زمہ کی ضرورت تھی بہو کی نہیں۔ مجھے بی ایس سی کروا کر رخصت کر دیا۔مجھے اور پڑھا لیتے تو کیا ہو جاتا؟ لیکن آپ لوگ مجھے پڑھاتے تو کیسے پڑھاتے؟ میں کون سا آپ کی اولاد تھی؟روبی نے چلاتے ہوئے تلخی سے کہا۔بڑے بھائی نے ضبط کرتے ہوئے ہاتھ کی مٹھی بھینچی تھی۔ انہیں ٹھنڈے پسینے آنے لگے اور سانس لینے میں بھی دشواری محسوس ہونے لگی تھی، لیکن وہ خود کو کنٹرول کرتے رہے۔

اپنی زبان بند کرو ۔روبی۔بڑے بھائی نے سختی سے ڈانٹتے ہوئے کہا۔

کیوں؟ کیوں بند کروں؟ آپ کو کیا لگتا ہے میں آپ کو نہیں جانتی؟ آپ مجھے چند تولے سونا نہیں پہنا سکے ۔چند تولے سونے کے پیچھے آپ نے اپنی بہن کی خوشیاں بھینٹ چڑھا دیں۔روبی نے پہلی بار بڑے بھائی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا تھا۔ پہلی بار بڑے بھائی کو محسوس ہوا تھا کہ روبی واقعی بڑی ہو گئی ہے۔ وہ چاہ کر بھی اسے کچھ کہہ نہیں پائے تھے۔بڑے بھائی

نے اپنی پیشانی پر پھیلتا پسینہ صاف کیا ۔

تم سارے حالات جاننے کے باوجود ایسی باتیں کیوں کر رہی ہو؟ تمہیں معلوم ہے کہ انور کی وجہ سے زیور بیچنا پڑا ۔رابعہ نے اسے یاد دلاتے ہوئے کہا۔

آپ کاانور کے لیے زیور بیچنا بنتا تھا۔ آخر اس نے باہر جا کر ڈالر جو بھیجنے تھے۔ میرا زیور مجھے مل جاتا تو آپ کا نقصان ہو جاتا ۔میں سب سمجھتی ہوں۔بھابی میں بچی نہیں ہوں۔روبی نے تلخ لہجے میں کہا اور پاو¿ں پٹختے ہوئے اندر چلی گئی۔ بڑے بھائی ہکا بکا اسے جاتا دیکھتے رہے۔رابعہ سر پکڑ کر بیڈ پر بیٹھ گئی تھی۔

سن لیں آپ نے اپنی بہن کی باتیں؟ آپ نے ساری زندگی اپنے بہن بھائیوں پر صرف کردی۔ یہ صلہ ملا آپ کو؟رابعہ درد بھرے لہجے میں بول رہی تھی۔بڑے بھائی گم صم بیٹھے سنتے رہے۔ وہ کچھ بول نہیں پا رہے تھے۔ وہ روبی کی باتوں کی وجہ سے شاکڈ تھے۔انہیں اپنے اعصاب پر ایک زبردست بوجھ محسوس ہو رہا تھا۔

میری ہمیشہ سے خواہش تھی کہ میں بھی اپنے بچوں کو اچھے مہنگے اسکول میں بھیجوں۔ اچھا پہنوں، اچھا اوڑھوں۔ میں بھی شاندار زندگی گزاروں، لیکن آپ نے ساری عمر اپنے ان بہن بھائیوں کی خاطر داری میں گزار دی۔آپ نے ہمارے لیے کیا ،کیا؟ کبھی سوچا آپ نے؟رابعہ نے دل میں رکھے سارے شکو وںکی لسٹ بڑے بھائی کے سامنے رکھتے ہوئے کہا۔

اس سے پہلے کہ بڑے بھائی کچھ کہتے ان کے بائیں بازو میں اچانک سے شدید درد نمودار ہوا۔وہ تکلیف سے سمٹ کر بیڈ پر ڈھے گئے تھے۔ وہ درد کی وجہ سے کراہتے ہوئے اپنے سینے پر ہاتھ رکھتے تو کبھی اپنا بائیں بازو تھامنے کی کوشش کرتے لیکن درد میں اس قدر شدت تھی کہ وہ درد برداشت نہ کر سکے اور بے ہوش ہو گئے۔ رابعہ چونک کر اُن کی طرف لپکی۔ وہ ان کی یہ حالت دیکھ کر ڈر گئی تھی۔ وہ لمحہ پہلے کیا کہہ رہی تھی اسے کچھ یاد نہیں تھا۔وہ ان کی یہ حالت دیکھ کرچیخنے لگی۔ پھربڑے بھائی کو ایمبولینس بلوا کر اسپتال لے جایا گیا تھا۔

٭….٭….٭

زارا کی پھو پھو نے عاصم کے لیے زارا کا ہاتھ مانگا ۔زارا زین سے علیحدگی کے بعد اپنی زندگی میں مگن رہنے لگی تھی۔عاصم سے اس کی پہلے ہی دوستی تھی۔اس لیے زارا کے لیے فیصلہ کرنا آسان تھا۔ لہٰذا عاصم اور زارا کی منگنی کے لیے زارا کی پھو پھوکراچی آئی ہوئی تھی۔

آج بھی ان کے لیے پر تکلف ڈنر سجایا گیا تھا ۔ وہ ڈنر کرتے ہوئے خوش دلی سے گپ شپ لگاتے رہے۔پھر ڈنر کے بعد زارا اور عاصم لان میںٹہلنے کے لیے باہر آئے تھے۔

میں تم سے ملنے کے لیے بے تاب تھا۔میری انتظار کی گھڑیاں آخر ختم ہو ہی گئیں۔عاصم نے زارا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جو ہاتھ باندھے اس کے ساتھ ساتھ چل رہی تھی۔

”Oh really اس بات میں اب کتنا سچ ہے مجھے نہیں پتا۔زارا نے اسے چھیڑتے ہوئے کہا۔

تو تمہیں لگتا ہے میں تم سے جھوٹ بولتا ہوں؟ “ 

سبھی لڑکے بولتے ہیں۔زارا نے سنجیدگی سے کہا۔

لیکن میں محبت میں جھوٹ کا سہار ا نہیں لیتا۔عاصم کی بات پر زارا نے اسے بے ساختہ دیکھا۔

٭….٭….٭

زارا کی شادی کا دن آن پہنچا تھا۔ سیٹھ سیف اللہ نے اپنی بیٹی کی شادی کے لیے شہر کا سب سے بڑا اور سب سے مہنگا ریسٹورنٹ چنا تھا جس کا ایک رات کا رینٹ لاکھوں میں تھا۔ زارا اور عاصم کے لیے لاکھوں کا اسٹیج تیار کیا گیا تھا۔ان کے لیے اسٹیج تک جانے کا جو راستہ تھا وہ بھی نہایت خوبصورتی سے آراستہ کیا گیا تھا۔لوگوں کو زارا کی قسمت پر رہ رہ کر رشک آ رہا تھا۔ اب شادی پر مدعو کیے گئے مہمان اپنی اپنی قیمتی آرا دینے سے باز نہیں رہ سکتے تھے لہٰذا تبصرے زور شور پر تھے۔ مہمان عورتوں میں سے ایک نے کہا ۔

زارا تو حور لگ رہی ہے حور۔“ 

دس لاکھ کا لہنگا پہن رکھا ہے۔حور تو لگے گی۔دوسری مہمان عورت نے لقمہ دیا۔

اورسنا ہے ۔کروڑوں کی جائیداد کے ساتھ ساتھ شاندار بنگلہ بھی سیٹھ صاحب نے زارا کے نام کیا ہے۔ایک اور نے لقمہ دیتے ہوئے کہا۔

مل ملا کر یہ تو کروڑوں کی شادی ہو گئی ہے۔پہلی والی نے حیرانی سے کہا۔ 

ارے بھئی…. اپنا پیسہ دنیا کو دکھاتے ہیں اور کچھ نہیں۔دوسری مہمان عورت ناک چڑھاتے ہوئے بولی۔اتنی دیر میں شازیہ ان کے پاس آئی تھی۔ پہلی عورت چہرے پر مسکراہٹ سجائے بولی۔

شادی کا انتظام دیکھ کر دل خوش ہو گیا۔ ایسی شادی تو پہلے کبھی دیکھی ہی نہیں۔ بڑی قسمت پائی ہے زارا نے۔“ 

سب اللہ کا دیا ہوا ہے ۔شازیہ نے مسکراتے ہوئے بے ساختہ کہا۔

خوش قسمت کیوں نہ ہو آخر سیٹھ سیف اللہ کی بیٹی ہے اور سیٹھ صاحب کی تعریف کے لیے تو لفظ بھی کم پڑ جاتے ہیں۔دوسری عورت نے بھی مسکراتے ہوئے تعریفوں کے پل باندھے۔

مجھے خوشی ہے کہ آ پ کو سب پسند آیا ہے۔شازیہ نے خوش کن لہجے میں کہا۔

یہ کیا بات ہوئی۔ شادی کی اتنی اعلیٰ تقریب کسے پسند نہیں آئے گی ا ور زارا تو آج اتنی خوب صورت لگ رہی ہے کہ اس سے نظریں ہی نہیں ہٹ رہیں ۔وہ اب زارا اور عاصم کی تعریفوں کے پل باندھنے لگی تھیں۔

٭….٭….٭

سیٹھ سیف اللہ نے فلاحی اداروں کے ساتھ مل کر غریبوں کو مفت تعلیم دینے کے لیے اسکول کھولا تھا۔ اسی اسکول کے افتتاح کے لیے سیٹھ سیف اللہ کو تقریب میں مدعو کیا گیا تھا۔سیٹھ صاحب تقریب پر جانے کے لیے اپنی گاڑی میں بیٹھے تھے۔ڈرائیور کے ہارن دینے پر سرور نے آگے بڑھ کر گیٹ کھولا ۔سیٹھ صاحب نے گاڑی میں بیٹھے بیٹھے سرور کو پاس بلایا تھا۔

کھانا یتیم خانے بھیج دیا ہے؟سیٹھ سیف اللہ نے تصدیق کرتے ہوئے پوچھا۔آج جمعرات تھی۔ سیٹھ صاحب ہر جمعرات کو باقاعدگی سے دیگیں پکوا کر غریبوں میں مفت کھانا تقسیم کرتے تھے۔

جی صاحب جی۔سرور نے عاجزی سے سینے پر ہاتھ رکھے اور سر جھکائے جواب دیا۔

مدرسوں میں بھی بھیج دینا تھا۔سیٹھ صاحب نے سمجھاتے ہوئے کہا۔

جی صاحب جی۔میں مدرسوں میں بھی بھیج دیتا ہوں۔سرور نے سیٹھ صاحب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اور کچھ ہمت سمیٹتے ہوئے کہنے لگا۔ 

صاحب جی۔ آپ سے بات کرنی تھی جی۔آپ مصروف ہوتے ہیں اس لیے بات نہیںکر سکا۔سرور نے دھیمے لہجے میں کہا۔

ہاں کہو۔کیا کہنا ہے۔گاڑی میں بیٹھے بیٹھے سیٹھ صاحب نے گھڑی پر ٹائم دیکھتے ہوئے جلدی میں کہا۔ 

صاحب جی۔ میں نے پہلے بھی آپ کو بتایا تھا جی ۔میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔میری بیوی بھی بیمار رہتی ہے۔میرا اس تنخواہ میں گزارا نہیں….“ 

ہوں….دیکھتے ہیں۔سیٹھ صاحب نے گاڑی کا شیشہ اوپر چڑھاتے ہوئے بے ساختہ کہا۔سرور چپ چاپ گیٹ بند کرنے لگا ۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

شاہ ماران ۔ افسانہ

Read Next

صحرا کی بلبل؛ ریشماں ۔ انہیں ہم یاد کرتے ہیں

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!