آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا ۔ مکمل ناول

حاجی صاحب۔ کھانا لگا دوں؟ان کی بیوی نے چارپائی پر بچھائی چادر کی سلوٹیں درست کرتے ہوئے کہا۔

میں کھانا کھا آیا ہوں۔ وہ اسدللہ کے بیٹے کی شادی تھی۔نکاح پڑھوانے کے لیے مجھے بلایا تھا۔ آج جمعے کے بعد وہاں چلا گیا تھا۔ بس وہیں سے کھانا بھی کھا آیا۔حاجی صاحب نے چار پائی پر بیٹھ کر جوتے اتارتے ہوئے کہا۔

اچھا! حاجی صاحب۔ آپ سے بات کرنی تھی۔ان کی بیوی پاس بیٹھتے ہوئے بولی۔

ہاں کہو۔کیا بات ہے۔حاجی صاحب نے سر سے ٹوپی اتارتے ہوئے کہا۔

وہ رخسانہ اور زینب کے سسرال والے شادی کا کہہ رہے ہیں۔اس نے حاجی صاحب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

ان کا ایک بیٹا اور چھے بیٹیاں تھیں۔ فیصل پانچ بہنوں سے چھوٹا تھا۔ رخسانہ اور زینب حاجی صاحب کی بڑی بیٹیاں تھیں۔ان دونوں بیٹیوں کا رشتہ ایک ہی گھر میں طے ہوا تھا۔ فیصل ابھی پڑھ رہا تھا۔

شادی ایسے کیسے کر لیں۔ان کا جہیز بھی تو تیار کرنا ہے۔حاجی صاحب نے اپنی بیوی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

وہ کافی زور دے رہے ہیں۔وہ شادی کے لیے تیار ہیں۔“ 

لیکن ہمارے پاس ابھی اتنے اخراجات نہیں ہیں۔حاجی صاحب نے کچھ فکرمندی سے کہا۔

پھران کو کیا جواب دوں؟ بیوی نے استفسار کیا۔ 

ان سے کہو اتنی بھی کیا جلدی ہے۔کر لیں گے شادیاں۔حاجی صاحب اب بیوی کی طرف دیکھ کر کہہ رہے تھے۔

میں ان سے یہ کہہ چکی ہوں لیکن وہ جلدفرض ادا کرنا چاہتے ہیں۔

ایک ہی وقت میں دو بیٹیوں کے لیے جہیز بنانا ہزاروں کا خرچہ ہوتا تو کب کا کر چکا ہوتالیکن یہ لاکھوں کا خرچہ ہے۔حاجی صاحب نے کچھ پریشانی سے کہا۔

مجھے پتا ہے، لیکن بیٹیوں کی شادی بھی تو کرنی ہے۔اب انہیں کب تک انتظار کروائیں گے؟“ 

ایک بندہ گھر کے اخراجات پورے کرے، تعلیم کی فیس پور ی کرے یا بیٹیوں کا جہیز…. تم نے چھے بیٹیوں کی بجائے دوبیٹے ہی دیے ہوتے تو آج میرے یہ حالات نہ ہوتے۔حاجی صاحب نے کچھ چبھتے لہجے میں کہا۔اتنی دیر میں عشا کی اذان سنائی دی۔ حاجی صاحب نے فوراً جوتا پہنا اور سر پر ٹوپی رکھتے ہوئے تسبیح تھام لی۔

عشاءکی نما ز کا وقت ہو گیا ہے۔یہ کہہ کر وہ اپنی ٹوپی سیدھی کرتے ہوئے چل دیے۔ ان کی بیوی چپ چاپ ساکن آنکھوں سے انہیں کچھ کہے بغیر دیکھتی رہی۔ وہ چاہ کر بھی کچھ کہہ نہیں پائی تھی۔

٭….٭….٭

میری بیٹی تیار ہو کر کہاں جا رہی ہے؟سیٹھ صاحب نے زارا کو دیکھتے ہوئے پیار سے کہا جوانہی کی طرف آ رہی تھی۔وہ بلو جینز اور ریڈ شرٹ پہنے ہوئے تھی۔براو¿¸ بال شانوں پر بکھرے تھے۔اس کی موٹی خوب صورت آنکھیں بلیک گلاسز سے باہر جھانکتے ہوئے اور بھی خوب صورت لگ رہی تھیں اور ہاتھ میں پکڑا برینڈڈ بیگ اس کی امیری کا پتا دیتا تھا۔

بابا!میں دوست کو ملنے جا رہی ہوں۔اس نے لاو¿نج میں بیٹھے سیٹھ صاحب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

آپ نے اسے سر پر چڑھا رکھا ہے۔ جب دیکھو دوست ۔جب دیکھو باہر جانا ہے۔پارٹی ہے۔سارا دن یونیورسٹی میں گزارنے کے بعد بھی اس کے دوست اس کی جان نہیں چھوڑتے ۔شازیہ نے لقمہ دیاجو لاو¿نج میں بیٹھی سیٹھ صاحب کے ساتھ چائے پی رہی تھی۔

ماما! اب ایسی بھی بات نہیں ہے۔زارا نے اپنی ماں کے پاس بیٹھتے ہوئے کہا۔ سیٹھ صاحب مسکرانے لگے۔

میری ایک ہی بیٹی ہے۔میں اس کے ناز نہیں اٹھاو¿ں گا تو اور کس کے اٹھاو¿ں گا؟“ 

ناز اٹھانے کا یہ مطلب تو نہیں کہ بیٹی ماں کو وقت دینا ہی بھول جائے۔شازیہ ابھی بھی سنجیدہ تھی۔

اوماما! میں آج واپس آکر آپ کے ساتھ خوب ساری باتیں کروں گی، لیکن اب مجھے جانا ہے۔اس نے اپنی ماں کی پیشانی چومتے ہوئے کہا۔ شازیہ اور سیٹھ صاحب اسے تیزی سے باہر جاتا دیکھ کر مسکراتے رہے۔

وہ گیٹ سے باہر نکلی توسامنے گاڑی میں اس کا یونیورسٹی کا دوست زین بیٹھا تھا۔ وہ دونوں دو سال سے ایک ساتھ یونیورسٹی میں تھے۔ دونوں ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے۔ زین بھی اسے دل سے چاہتا تھا۔ وہ دونوں ایک ساتھ زندگی گزارنے کی ساری قسمیں کھا چکے تھے۔ ان کا یونیورسٹی میں آخری سال تھا۔ تعلیم پوری ہونے کے فوراً بعد وہ دونوں ایک دوسرے کو اپنانے کے لیے مکمل تیار تھے۔

یار تم کتنا انتظار کرواتی ہو مجھے۔ محبت میں اتنا انتظار جان لیوا ہو سکتا ہے۔زین نے شرارت سے کہا۔

ایک خوب صورت لڑکی کا اتنا انتظار کرنا تو بنتا ہے۔اس نے شرارت سے آنکھیں سکیڑتے ہوئے کہا اور فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئی۔

ویسے آج اتنی خوب صورت کیوں لگ رہی؟

آج…. کیا مطلب ہے تمہارا ؟

ارے میرا مطلب ہے کہ آج تم سے نظریں ہٹانے کو جی نہیں چاہتا۔وہ زین کے الفاظ پر بے ساختہ ہنسی تھی۔

٭….٭….٭

یار۔ میرے انکل انگلینڈ رہتے ہیں۔وہاںان کی بہت بڑی کمپنی ہے۔وہ مجھے باہر بلالیں گے۔ باہر بہت پیسہ ہے۔یہاں پاکستان میں پڑھ لکھ کر کچھ نہیں ملتا۔رضا نے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ رضا انور کا دوست تھا اور ان کی دوستی کافی گہری تھی۔

ہاں یار۔بات تو ٹھیک کر رہا ہے۔پاکستان میں واقعی کچھ نہیں رکھا۔ا نو ر نے گردن موڑ کر دائیں جانب بیٹھے رضا کو دیکھتے ہوئے کہا ۔

تو بھی پاکستان چھوڑاور انگلینڈ آ جا۔ آئی کام کر کے تو نے کون سا معرکہ مارنا ہے؟

میں انگلینڈ ؟ لیکن بڑے بھائی کے بغیر میں کیسے رہوں گا؟انور کو بڑے بھائی سے دور جانے کے خیال پر جیسے جھر جھری سی آئی تھی۔ رضا کا اس کی بات پر بے ساختہ قہقہہ بلند ہوا تھا۔

ارے پاگل ہے؟ دودھ پیتا بچہ ہے جو ساری عمر بڑے بھائی کے قدموں میں گزار دے گا؟

بڑے بھائی کے بارے میں ایسا مت کہہ۔میں بڑے بھائی کو چھوڑ کر کہیں نہیں جاو¿ں گا۔ “ 

اچھا ٹھیک ہے بابا۔نہ جا۔ میں تو انگلینڈ جاو¿ں گا۔تو کر آئی کام۔پھر کرنا بی کام۔پھر کرنا ایم کام اور تب تک تو بوڑھا ہو جائے گا۔رضا نے یہ کہتے ہوئے پھر سے طنزاً قہقہہ لگایا تھا۔

ہاں پڑھوں گا۔تمہیں اس سے کیا؟ تم چلے جانا انگلینڈ ۔انور نے غصیلے لہجے میں کہا۔رضا پھر سے ہنس دیا۔

غصہ تھوک دے۔کیسے منہ بنا کر بیٹھ گیا ہے۔چل کرکٹ کھیلتے ہیں۔رضا کی بات پر انور نے مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے ہاں میں سر ہلایا تھا۔

٭….٭….٭

باہر بہت پیسہ ہے۔ پاکستان کو چھوڑ….“رات سوتے وقت اس کے کانوں میں رضا کی باتیں گھوم رہی تھیں۔ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی وہی باتیں بار بار سوچ رہا تھا۔

میںتو انگلینڈ جاو¿ں گا۔ تو کر آئی کام۔ آئی کام کر کے کون سا معرکہ….“ اس نے خود کو ان باتوںسے آزاد کرنے کے لیے زور سے اپنا سر جھٹکا تھا اور کروٹ بدل کر سونے کی کوشش کرنے لگا۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

شاہ ماران ۔ افسانہ

Read Next

صحرا کی بلبل؛ ریشماں ۔ انہیں ہم یاد کرتے ہیں

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!