آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا ۔ مکمل ناول

جب کوئی پردیس جاتا ہے تو وہ پردیس کا ہو کے رہ جاتا ہے۔ تم باہر تو چلے جاو¿ گے لیکن پھر تمہارے اور ہمار ے درمیان نہ ختم ہونے والا فاصلہ آ جائے گا۔ پھر وہ راستہ ساری عمر چلتے رہنے سے بھی ختم نہیں ہو گا۔انور رات کے ایک بجے کروٹیں بدلتا بڑے بھائی کی باتیں سوچ رہا تھا ۔ بڑے بھائی کے الفاظ کی گونج اسے سونے نہیں دے رہی تھی۔وہ بہت الجھا ہوا تھا۔وہ دو کشتیوں کاسو ار تھا جس میں ایک کشتی کا چپو بڑے بھائی کے ہاتھ میں اور دوسرے کا رضا کے ہاتھ میں تھا اور انور رضا کی کشتی میں سوار ہونے کے لیے تیا رتھالیکن بڑے بھائی کی باتیں اسے الجھا رہی تھیں۔

میں نہیں چاہتا کہ انور مجھ سے اتنا دور چلا جائے کہ میں انور کی شکل دیکھنے کے لیے ترس جاو¿ں۔بڑے بھائی کی باتیں وہ بھولنا چاہتا تھا مگر وہ بھولنے میں ناکام تھا۔ اسی لمحے اسے رضا کی باتیں یاد آئیں جو اس نے فون پر انور سے کہی تھیں۔

یار باہر آکر زندگی کا لطف آیا ہے۔ اپنی من مرضی ہے کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔

یار وہاں دل لگ گیا تیرا ؟

دل نہ لگنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔“ 

جو بھی ہو میں باہر ضرور جاو¿ں گا۔میرا دوست باہر عیش کر رہا ہے اور ایک میں ہوں کہ اتنا پڑھ لکھ کر فارغ پھر رہا ہوں ۔میں اور پڑھ بھی لوں گا تو کون سا تیر مار لوں گا۔ بڑے بھائی خود ہی ٹھیک ہو جائیں گے۔ میں جلد اپنا پاسپورٹ بنواتا ہوں۔اس نے دل میں سوچا۔ وہ اب سوچ کی ایک نئی وادی میں داخل ہو گیا تھا۔

٭….٭….٭

روبی نے سارا کے گھر کی بیل بجائی۔ کچھ دیر میں دروازہ کھلا۔ سامنے مزمل کھڑا تھا۔

روبی۔مزمل نے خوشی ظاہر کرتے ہوئے کہا۔

سار ا گھر پر ہے؟روبی نے بے ساختہ کہا۔

ہاں گھر پر ہے۔ آو¿نااندر آو¿۔مزمل نے اس کے لیے راستہ بناتے ہوئے کہا۔وہ اندر آ گئی تھی۔

تمہیں اپنے گھر میں دیکھ کر اچھا لگ رہا ہے۔مزمل نے اسے گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔

آپ جب بھی مجھے ملتے ہیں تو آپ کویہ ایک ہی جملہ کیوں یاد آتا ہے؟روبی نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔ وہ مزمل سے کئی بار مل چکی تھی۔ اس لیے وہ اب مزمل سے بات کرتے ہوئے جھجکتی نہیں تھی۔ مزمل روبی کی بات پر بے ساختہ ہنسا تھا۔

کیوں کہ مجھے تم سے مل کر واقعی اچھا لگتا ہے۔ میں تمہیں کئی بار مل چکا ہوں۔تم بہت اچھی لڑکی ہو۔ویسے بھی سارا نے تمہارے بارے میں مجھ سے اتنی باتیں کی ہیںکہ تم اب میرے لیے بالکل اجنبی نہیں رہی۔مزمل نے ایک ہی سانس میں سب کہہ ڈالا تھا ۔ روبی نے گہری مسکان سجائے مزمل کو دیکھا۔ مزمل کا انداز اس قدر دوستا نہ تھا کہ کوئی بھی اسے پسند کر سکتا تھا۔

آپ باتیں بنانے میں کافی ماہر ہیں۔

ہاں سارا کا بھائی ہوں۔ سارا کاکچھ تو مجھ پر اثر ہوگا ۔روبی اس کی بات پر ہنسی تھی۔ اسی لمحے سارا نے کمرے سے آواز دی تھی۔

بھائی کون ہے؟ “ 

روبی آئی ہے۔مزمل نے بلند آواز کہا۔سارا بھاگتی ہوئی خوشی سے باہر آئی۔

لوآ گئی میڈم۔ میں اب چلتا ہوں۔مزمل نے سارا کو آتے دیکھ کر کہا۔ روبی سارا کو ملنے لگی لیکن اس کا سارا دھیان مزمل کی طرف تھا جو اپنے کمرے کی طرف جا رہا تھا۔اس کے بعد روبی اور مزمل کی دوستی شدت پکڑتی گئی۔ سارا اور روبی نے ایف ایس سی کے فوراً بعد بی ایس میں داخلہ لے لیا تھا ۔ مزمل جب بھی سارا کو کالج لینے جاتا تو روبی سے بھی اکثر ملاقات ہو جاتی۔روبی بھی پہلے سے کچھ زیادہ سارا کے گھر آنے جانے لگی تھی۔

٭….٭….٭

رضیہ برتن دھو رہی تھی جب اس کے گھر کا دروازہ کسی نے زور زور سے کھٹکھٹایا۔ رضیہ نے دروازہ کھولا تو سامنے ساجدہ تھی۔ ساجدہ کی آنکھیں رونے کی وجہ سے سوجھی ہوئی تھیں۔ رضیہ کو دیکھتے ہی وہ اپنی ماں سے لپٹ کر رونے لگی۔

کیا ہوا ؟ ارے بول بھی کیا ہوا ؟رضیہ اضطراب میں اسے جھنجھوڑتے ہوئے بولی۔

اماں!میں برباد ہو گئی۔“ 

ارے یہ کیا کہہ رہی ہو؟ کیا ہوا؟“ 

صابر نے مجھے طلاق دے دی۔رضیہ نے پریشانی میں بے ساختہ اپنا ہاتھ منہ پر رکھ لیا۔ رضیہ بیٹی کا دکھ سن کر اپنے آنسو روک نہیںپائی تھی۔

اماں صابر کی ماں نے حق مہر میرے منہ پر مارا اور گھر سے نکال دیا۔وہ سسکیاں لیتے ہوئے رو رہی تھی۔

اماں ہمارے ساتھ دھوکا ہوا ہے۔ صابر نے اپنی بہن سے مانگ کر مجھے زیور پہنایا تھا۔اسی لیے زیور حق مہر میں بھی نہیں لکھا۔ساجدہ کی روداد سن کر رضیہ پر جیسے قیامت ٹوٹ گئی تھی۔

٭….٭….٭

تم نے کبھی کسی لڑکی کو پرپوز کیا؟زوئی کے سوال پر زین چونکا تھا۔ پھر وہ زوئی کی طرف دیکھ کر کچھ کہے بغیر مسکرانے لگا تھا کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ مسکرانا کسی بھی بات کو چھپانے کا بہترین طریقہ ہے۔

کسی لڑکی نے تمہیں پرپوز کیا؟زوئی نے بے تابی سے اگلا سوال کیا۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ زوئی کسی نہ کسی بات کی کھوج میں ضرورتھی۔

”No “ زین نے طمانیت بھرے لہجے میںکہا۔

”Its impossible.I don’t believe that.“ زوئی نے ہنستے ہوئے حیرانی سے کہا۔

تمہیں یقین کیوں نہیں؟زین نے استفسار کیا۔

”you are a handsome guy.Anyone can like you.“ زوئی نے واضح کہا۔ زین اس کی بات پر بے ساختہ ہنسا تھا۔

چلو یہ تو معلوم ہوا کہ میں زوئی کو ہینڈسم لگتا ہوں۔زین نے اسے چھیڑتے ہوئے شرارت سے کہا۔زوئی اس کی بات پر بے ساختہ ہنسی تھی۔ زوئی زندگی سے بھرپور لڑکی تھی ۔وہ زین کے ساتھ اپنا ایک ایک موومنٹ انجوائے کرنے لگی تھی۔زین کو بھی اس کے ساتھ گپ شپ میں مزہ آنے لگا تھا۔پھر آہستہ آہستہ روزانہ ان دونوں کی باہر ایک ساتھ گھومنے کی عادت بن گئی تھی۔زین کو اس کے ساتھ وقت کا پتا ہی نہیں چلتا تھا۔ وہ ایک دوسرے کے عادی ہونے لگے تھے۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

شاہ ماران ۔ افسانہ

Read Next

صحرا کی بلبل؛ ریشماں ۔ انہیں ہم یاد کرتے ہیں

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!