آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا ۔ مکمل ناول

محلے کے سارے لڑکے گلی میں کرکٹ کھیل رہے تھے جن میں فیصل ،حیدر اور انور سر فہرست تھے۔ ابھی انور نے بیٹنگ شروع ہی کی تھی کہ بڑ ے بھائی کی بائیک ان کے پاس آ کر رکی۔بڑے بھائی بائیک سے اتر کر کچھ اضطراب میں انور کی طرف بڑھے ۔

ہر وقت کرکٹ، ہر وقت کھیل۔ کیا تماشا لگا رکھا ہے؟بڑے بھائی نے انور کا سختی سے بازو پکڑ کر جھنجھوڑا۔ ایک دم سے وہاں سناٹا چھا گیا۔ لڑکے حیرانی سے دونوں بھائیوں کو دیکھ رہے تھے۔ انور ہکا بکا بڑے بھائی کو دیکھتا ہوا ماجرا سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا، لیکن اسے محلے کے دوسرے لڑکوں کے سامنے اپنی بہت بے عزتی محسوس ہوئی تھی۔

گھر چلو۔ میں نے کہا جلدی کرو۔گھر پہنچو۔بڑے بھائی نے بے حد غصیلے لہجے میں کہا۔ انور بیٹ زور سے زمین پر پٹک کر بڑے بھائی کے ساتھ گھر کی طرف چل دیا۔اس نے جیسے اپنی بے عزتی کا سارا غصہ بیٹ پر نکال دیا تھا۔

یہ دیکھو ۔کیا گل کھلائے ہیں تم نے پیپرز میں۔بڑے بھائی نے انور کو اس کا آئی کام کا رزلٹ تھماتے ہوئے کہا۔انور نے بے ساختہ اپنا رزلٹ دیکھا۔

کیا ہوا؟رابعہ نے تجسس سے پوچھا۔ روبی بھی کمرے سے نکل آئی۔

اس نا لائق کا حال دیکھ لو۔اس کا رزلٹ آ گیا ہے۔دو مضامین میں فیل ہے۔بڑے بھائی نے وضاحت دی۔

کیا؟روبی نے پریشانی سے کہا۔انور سر جھکائے چپ چاپ اپنے رزلٹ کے طول و عرض ناپتا رہا۔

میں تمہیں کہتا رہا کہ پڑھ لو۔ تم نے ٹیوشن کا کہا میں نے وہ بھی رکھوا دی۔ تم نے دل لگا کر پڑھا ہوتا تو آج یہ سب نہ ہوتا ۔بڑے بھائی کو انور پر رہ رہ کر غصہ آ رہا تھا۔

اب ایسی بھی بات نہیں ہے۔میں نے پڑھا تھا۔انور نے ڈھیٹ پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا۔

بکوا س کرتا ہے، پڑ ھا ہوتا تو یہ حال ہوتا؟ بڑے بھائی بھی پھٹ پڑے۔

جو ہونا تھا ہو گیا۔غصہ تھوک دیں۔رابعہ نے معاملہ ٹھندا کرنے کی کوشش کی۔بڑے بھائی نے رابعہ کی بات سنی ان سنی کردی ۔

تمہاری آج سے کرکٹ بند ۔تم اب صرف ضروری کام سے باہر جاو¿ گے ورنہ نہیں۔بڑے بھائی نے دو ٹوک انداز میں وارن کیا تھا۔ 

لیکن میں باہر جاو¿ں گا ۔ آپ کون ہوتے ہیں مجھ پر پابندی لگانے والے؟ فیل میں ہوا ہوں۔زندگی بھی میری خراب ہو گی۔آپ کو کیا ٹینشن ہے؟انور نے تقریباً چیختے ہوئے کہا تھا۔انور نے اس لہجے میں بڑے بھائی سے پہلی بار بات کی تھی۔انور کی اس بد لحاظی پر بڑے بھائی کا انور پر بے ساختہ ہاتھ اُٹھ گیا۔ انور ایک دم سے اندر تک ہل گیا۔ بڑے بھائی کا ہاتھ رابعہ نے آگے بڑھ کر بہ مشکل روکا تھا۔ بڑے بھائی نے بہت ضبط کرتے ہوئے اپنے ہاتھ کو زور سے جھٹکا ۔

بس کرو اور چلے جاو¿ یہاں سے۔رابعہ نے سختی سے انور کو وہاں سے چلے جانے کوکہا۔انور چپ چاپ کمرے میں چلا گیا۔ روبی بھی انور کے ساتھ چلی گئی۔ بڑے بھائی پریشانی سے چارپائی پر ڈھے گئے تھے۔

٭….٭….٭

اگلے دن انور کی ان باتوں کے بعد بڑے بھائی کے انداز میں واضح تبدیلی آگئی جو کوئی بھی محسوس کر سکتا تھا۔بڑے بھائی صبح کا ناشتا انور کے ساتھ کرتے تھے۔یہ ان کی پرانی عادت تھی۔کیوں کہ جب انور چھوٹا تھا تو بڑے بھائی اسے اپنے ساتھ ناشتا کرواتے اور پھرا سے خود ذمہ داری سے اسکول چھوڑ کر آتے۔ اب انور بڑ ا ہو گیا تھا اور خود ہی کالج جا تا تھا مگر ناشتا ایک ساتھ کرنے کی عادت ابھی بدلی نہیں تھی، لیکن آج پہلی بار یہ روایت ٹوٹ گئی۔

بھابی! بڑے بھائی گئے؟انور نے کمرے سے نکل کر آنکھیں مسلتے ہوئے پوچھا۔

ہاں چلے گئے۔“ 

ناشتا کر لیا تھا؟ انور نے پورے ہوش و حواس میں سوال کیا۔

نہیں….“ 

کیوں؟انور کچھ حیرانی سے۔

میں نے انہیں ناشتا دیا تھا مگر دو چار لقمے لیے اور ناشتے کے ٹیبل سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ میں کہتی رہی کہ ناشتا کر لیں مگر کہابھوک نہیں ہے۔انورمزید کچھ نہ پوچھ سکا۔ اس نے گہرا سانس لیا اور اسے اپنی باتیں یاد آئیں جو کل رات اس نے بڑے بھائی سے کہی تھیں، لیکن اب تو تیر کمان سے نکل چکا تھا۔ اب وہ اپنے لفظوں کا مقروض تھا۔

انور منہ لٹکائے واپس کمرے میں آگیا۔ اسے میز پر اپنی کتا ب کے نیچے کچھ نوٹ جھانکتے ہوئے نظر آئے جو پنکھے کی ہوا کی وجہ سے لہرا رہے تھے۔ آگے بڑھ کر دیکھا تو پورے پچاس کا نوٹ تھا۔

میرا جیب خرچ؟وہ پچاس روپے کتاب کے نیچے سے بر آمد ہونے پر بے ساختہ منہ میں بڑبڑایا تھا۔

بڑے بھائی صبح جب اپنے بچوں کو جیب خرچ دیتے تو ساتھ میںروبی اور انور کو جیب خرچ دینا کبھی بھی نہیں بھولے تھے۔ وہ انور کو جب خدا حافظ کہتے تو ساتھ ہی اس کا جیب خرچ بھی تھما دیتے تھے، لیکن آج ایسا نہیں تھا۔سب کچھ بدلا بدلا سا تھا۔ وہ کمرے میں تنہا کھڑا چپ چاپ پچاس کا نوٹ تکتا رہاکیوں کہ آج پہلی بار اسے اپنا جیب خرچ کتاب کے نیچے پڑا ہوا ملا تھا۔ وہیں کھڑے کھڑے اسے کل رات اپنی کہی ہوئی باتیں پھر سے یاد آنے لگیں۔ اسے اپنے آپ سے گھن آرہی تھی۔

٭….٭….٭

تو تو تجھے پتا ہے۔ طا طا طا رو کہتا ہے مجھے سائیکل چا چا چلانی نہیں آتی۔بھولا رات کو اکیلا اپنے بستر پے لیٹا اپنے گلے میں پہنی سنہری چین سے باتیں کر رہا تھا۔و ہ اپنے دکھ درد اپنی چین سے بانٹاکرتا تھا۔

ہوں…. طا طا طارو مجھ پے اتنا غصہ ہوتا ہے ۔کہتا ہے تو نے میرے با با بچوں کو گرا دیا ۔ان کے خوخو خون بھی نکلا تھا ۔میں نے تو نہیں گرایا۔میں میں میں تو سا سا ئیکل چلا رہا تھا۔ وہ خود ہی گر گئے تھے۔اس نے چین کو اپنا دکھ سناتے ہوئے سرجھٹکا تھا۔

توتوتجھے نہیں پتا۔میں سچ کہ کہ کہہ رہا ہوں۔میںمیں میں نے نئی(نہیں )گی گی گرایا ۔اس نے بائیں جانب کروٹ لی تو اس کی بازو میں درد کی ایک ٹیس اٹھی۔ 

دے دے دیکھ۔میرے با با بازو میں بھی در د ہوہو ہوتا ہے ۔ اس نے میرا با بابازو تو دے دے دیکھا ہی نئی (نہیں) ہاں تو تو ٹھیک کہتا ہے۔ طا طا طا رو کو کیا پاپا پتا کہ میرے با با بازو میں درد ہوہو ہوتا ہے؟اس نے اپنے الجھے سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔

او او اس نے پو پو پوچھا ہی نئی( نہیں)۔میں پھر کیوں با با بتا تا کہ مے مے میرے د رد ہوہو ہوتاہے۔ اسے تو اتا( اتنا) غصہ آ آآیا تھا۔کہتا تھا۔ توتو تجھے دوبارہ کبھی سا سا سائیکل نہیں دوں گا۔وہ چین سے باتیں کرنے میں اس قدر مگن تھا کہ اسے بڑھتی ہوئی رات کی کوئی خبر نہ تھی۔وہ اپنی الگ دنیا بسانے کا ما ہر تھا۔

زیادہ بن بن بنتا ہے ۔طا طاطارو۔تو توتجھے پا پا پتا ہے۔ او اواس نے مو مجھے اتا(اتنا) مارا ہے۔اس نے بائیں جانب کروٹ لیتے ہوئے چین سے کہا۔

ا ٓ آ اب نا…. طا طا طارو مو مو مجھے سا سائیکل بھی نئی(نہیں) دے دے دیتا۔اور اسی طرح چین سے باتیں کرتے کرتے اس کی آنکھ لگ گئی تھی۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

شاہ ماران ۔ افسانہ

Read Next

صحرا کی بلبل؛ ریشماں ۔ انہیں ہم یاد کرتے ہیں

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!