آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا ۔ مکمل ناول

زین کی خالہ پاکستان پہنچی تو اِن کے گھر جیسے عید کا سماں تھا۔ دونوں بہنیں پھولے نہیں سما رہی تھیں۔ خالہ کی اکلوتی بیٹی زویا جسے سبھی زوئی کہہ کر بلاتے تھے ،بھی اپنی ہوش میں پہلی بار پاکستان آئی تھی۔ وہ نہایت خوب صورت نقش کی مالک تھی۔ اس کے شانوں پر بکھرے سنہرے بال اس کی شخصیت کو مزید جاذب نظر بنا رہے تھے۔وہ ایک مارڈرن لڑکی تھی اور مشرقی حسن نے اسے مزید نکھار دیا تھا۔ اسے ایک بار دیکھ کر دوبارہ دیکھنے کو جی چاہتا تھا۔زین نے زوئی کو کئی سال پہلے تصویروں میں دیکھا تھا لیکن آج زین کی نظریں زوئی پر ٹھہر سی گئی تھیں۔ پہلی ہی ملاقات میں زین کو زوئی نے کافی حد تک متاثر کیا تھا۔ وہ چاہ کر بھی زوئی کی خوب صورتی کو نظر انداز نہیں کر پایا تھا۔

وہ اب سب مل کر لاو¿نج میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔

خالہ سفر کیسا گزرا ؟زین نے استفسار کیا۔

”It was alright“ خالہ نے مسکراتے ہوئے پیارسے جواب دیا۔

اچھا کیا جو زوئی کو ساتھ لے آئیں ۔میں تو اس کے نقش ہی بھول گئی تھی۔زین کی ماں غزالہ نے پیار سے زوئی کو تھپتھپاتے ہوئے کہا۔وہ ہاتھ میں چائے کا کپ لیے اپنی خالہ کے پاس بیٹھی تھی۔

یہ پاکستان آنا نہیں چاہتی تھی۔صرف میرے اسرار پر آئی ہے۔زوئی کی ماں زرینہ نے کیک لیتے ہوئے کہا۔

کیوں۔ زوئی ۔ تم پاکستان کیوں نہیں آنا چاہتی تھی؟زین نے زوئی کو مخاطب کیا۔

موم جانتی ہیں کہ میں پاکستان کیوں نہیں آنا چاہتی تھی؟زوئی نے دھیمے لہجے میں جواب دیا۔

خالہ آپ لوگ کچھ چھپا رہے ہیںہم سے۔زین نے شرارت سے کہا۔

زین کو ہر بات پر مذاق کرنے کی عادت ہے ۔ آپابرا مت ماننا ۔غزالہ نے ہنستے ہوئے کہا۔ زرینہ بھی ہنسنے لگی۔

جاو¿ زوئی کو گھر دکھاو¿۔غزالہ نے زین سے کہا۔زین اٹھ کھڑا ہوا۔زوئی بھی چائے کا کپ رکھ کر اس کے ساتھ چل دی۔

٭….٭….٭

حیدر کو کتے پالنے کا بھی شوق تھا۔ آج وہ ایک شکاری کتا لایا تھا جو گھر سے باہر باندھ رکھا تھا۔ محلے کے کچھ لڑکے تھوڑی دور کھڑے کتے پر تبصرے کر رہے تھے۔ جن میں فیصل سر فہرست تھا۔ فیصل نے کتے کو ڈالنے کے لیے ہاتھ میں ہڈی پکڑی ہوئی تھی۔ کتے کے لیے چونکہ محلہ اور محلے کے لوگ نئے تھے اس لیے وہ پاس سے گزرنے والے ہر بندے کو دیکھ کر بھونکنے لگتا۔ لڑکے گپیں ہانک رہے تھے کہ اسی دوران بھو لے کا وہاں سے گزر ہوا۔وہ ناخن چباتا ہوا جارہا تھا۔

واہ بھولے۔ بڑے صاف ستھرے کپڑے پہنے ہیں۔فیصل نے حسب معمول اسے آج بھی چھیڑنا چاہا۔

میں میں رو روز صاف کپرے (کپڑے) پا پینتا(پہنتا) ہوں ۔لڑکے اس کے جواب پر بے ساختہ ہنسے تھے۔

واہ بھولے کیا بات ہے۔فیصل نے ہنستے ہوئے کہا۔ 

اچھا تو نے کتا دیکھا ہے؟ وہ سامنے دیکھ اسے بھوک لگی ہے۔ یہ لے ہڈی۔ اسے ڈال کے آ۔فیصل نے شرارت سے ہڈی بھولے کو تھما تے ہوئے کہا۔ بھولا حیرانی سے دیکھتا رہا جیسے اسے سمجھ نا آ رہا ہو کہ وہ کیا کرے ۔وہ کتے کو متواتر بھونکتا دیکھ کر اندر سے سہم گیا تھا۔

جلدی کر بھولے۔فیصل نے ہاتھ سے اسے کتے کی طرف دھکیلا ۔سبھی لڑکے اندر ہی اندر ہنسنے لگے۔ان کے لیے یہ ایک شاندار تفریح تھی۔بھولا ڈرتا ڈرتا کتے کی طرف بڑھنے لگا۔وہ جیسے ہی کتے کی طرف بڑھتا کتا اسے دیکھ کر زور زور سے بھونکنے لگتا۔ شاید اس کی وجہ بھولے کے ہاتھ میں پکڑی ہڈی تھی۔بھولا ڈر کر پیچھے ہوتا تو لڑکے پھر سے اسے حوصلہ دے کر کتے کی طرف دھکیل دیتے۔ 

یار کتا کہیں کاٹ نا لے اسے۔ایک لڑکے نے ڈرتے ہوئے کہا۔

کچھ نہیں ہوتا یار۔فیصل نے بے پروائی سے ہنستے ہوئے کہا۔

بھولے جلدی کر نایار ۔فیصل نے دوبارہ بھولے کو زور سے کتے کی طرف دھکیلا۔ فیصل کے دھکے سے بھولا کتے کے بے حد قریب پہنچ گیا۔ وہ ایک ہاتھ میں ہڈی اور دوسرے ہاتھ کی انگلیاں منہ میں لیے ہوئے تھا۔ کتا پہلے سے بھی زیادہ بلند آواز میں بھونکنے لگا۔ وہ کتے کے اس قدر قریب تھا کہ وہ اسے کاٹ بھی سکتا تھا۔بھولے نے ایک جھٹکے سے ہڈی کتے کے سامنے پھینکی۔

اسی اثنا میں کتے کی آوازیں اور لڑکوں کے بلند قہقہے سن کر حیدر نے اپنے گھر کا دروازہ کھولا۔ حیدر بھولے کو کتے کے اتنا قریب دیکھ کر بھاگا اور اسے کتے سے دور لے گیا۔حیدر سمجھ گیا تھا کہ یہ کام ان لڑکوں کا ہے۔اس نے لڑکوں کو گھورتے ہوئے کہا۔

یار یہ کیا کر رے ہو؟بھولے کو اگر اتنی سمجھ نہیں ہے تو تم لوگ تو شرم کر لو۔یہ شکاری کتا کبھی بھی کاٹ سکتاہے۔ ابھی یہ کتا اس محلے کے لوگوں کا عادی بھی نہیں ہے۔حیدر نے کتے کو پرسکون کرتے ہوئے کہا۔ بھولا آنکھیں سکیڑے حیدر کی بات سن رہا تھا۔بھولے کے سینے میں دھڑکتا دل بھی اب سکون محسوس کر رہا تھا۔

بھولے کو کچھ نہیں ہو ا ۔ یار ہم تو بس مذاق کر رہے تھے۔فیصل نے ڈھٹائی سے کہا اور کندھے اچکاتے ہوئے اپنے گھر کی طرف چل دیا۔ اس کے پیچھے باقی لڑکے بھی ہنستے ہوئے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔

ان کی باتیں نہ سنا کر۔ جا سو جا جا کے۔حیدر نے بھولے کو ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے ڈانٹتے والے انداز میں کہا۔بھولا ناخن چباتا سہما اپنے گھر کی طرف چل دیا۔

٭….٭….٭

تمہاری بڑی بیٹی اپنے گھر میں ٹھیک ہے؟شازیہ نے رضیہ سے پوچھا جو لاو¿نج کی صفائی کر رہی تھی۔

بی بی جی۔ وہ بڑے لالچی لوگ نکلے۔ شادی سے پہلے کہتے تھے ذاتی مکان ہے۔لڑکے کی دکان ہے، لیکن اب پتا چلا ہے کہ ان کا نہ کوئی ذاتی مکان تھانہ لڑکے کی دکان ۔رضیہ نے بے حد افسردگی سے کہا۔

تو اب کیا کرے گی تمہارے بیٹی؟شازیہ نے ریمورٹ سے ٹی وی کا چینل بدلتے ہوئے بے پروائی سے پوچھا۔

کرنا کیا ہے بی بی جی۔ میں جانتی ہوں وہ میری بیٹی کو بسانے والے نہیں ہیں ۔وہ لوگ تو میری بیٹی کا کافی جہیز بیچ کر کھا پی بھی گئے لیکن میری بیٹی ابھی اپنے سسرال ہی ہے۔شاید کوئی حل نکل آئے۔رضیہ نے میز کو کپڑے سے صاف کرتے ہوئے کہا۔

یہ تو بہت برا ہوا۔شازیہ نے افسوس کرتے ہوئے کہا۔

ہاں جی۔بی بی جی۔بڑے ارمان تھے میری بیٹی کے۔بس بی بی جی۔لوگ یتیموں کو بھی نہیں چھوڑتے ۔رضیہ نے نم آنکھوں سے میز کو گھورتے ہوئے کہا ۔اور پھر سے میز کو کپڑے سے صاف کرنے لگی ۔شازیہ اس کی دکھ بھری داستان سن کر پھر سے ریموٹ سے چینل بدلنے لگی۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

شاہ ماران ۔ افسانہ

Read Next

صحرا کی بلبل؛ ریشماں ۔ انہیں ہم یاد کرتے ہیں

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!