آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا ۔ مکمل ناول

رات کو رابعہ نے روبی سے رشتے کی بات کی تھی۔ وہ مزمل کو پسند کرتی تھی اور مزمل کے سوا کسی اور کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ روبی نے آخرحوصلہ سمیٹتے ہوئے اپنے دل کی بات رابعہ بھابی سے کہہ ڈالی تھی۔

بھابی۔ میں کسی کو پسند کرتی ہوں اور میں وہیں شادی کرنا چاہتی ہوں۔رابعہ اس کی بات پر شاکڈ تھی۔اسے روبی سے ایسی بات کی امید نا تھی۔

تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے؟ یہ کیسی باتیں کر رہی ہو؟ ہماری فیملی میں لڑکیاں اپنے لیے خود لڑکے نہیں ڈھونڈتیں۔رابعہ نے اسے ڈانٹتے ہوئے کہا۔

پلیز بھابی۔ میری بات تو سنیں۔آپ بھائی سے بات کریں ۔میں جسے پسند کرتی ہوں اسی سے شادی کرنا چاہتی ہوں۔روبی نے منتیں کرتے ہوئے کہا۔

اچھا کون ہے وہ؟

سارا کا بھائی مزمل ۔روبی نے بے ساختہ کہا۔رابعہ سارا کو جانتی تھی کیوں کہ سارا ان کے گھر آتی جاتی تھی۔مزمل بھی ان کے لیے اجنبی نہیں تھا۔جب کبھی کسی کام کے سلسلے میں وہ روبی کے گھر آتا جاتا تو بڑے بھائی سے ملاقات ہو جاتی تھی۔رابعہ کچھ سوچتے ہوئے چپ ہو گئی۔ اس کی خاموشی رضامندی کی علامت تھی۔اس کے بعد رابعہ نے بڑے بھائی سے بات کی تھی۔بڑے بھائی نے رضامندی ظاہر کرتے ہوئے مزمل کے گھر والوں کو خوش دلی سے دعوت دی تھی۔

دونوں گھرانے ایک دوسرے کو پہلے ہی سے جانتے تھے۔ اس لیے رشتہ پسند آنے کے بعد سیدھا شادی کی باتیں شروع ہو گئی تھیں۔ مزمل کے گھروالے جلد شادی کرنے کے خواہش مند تھے۔ روبی اور مزمل بے حد خوش تھے۔سارا کی خوشی بھی قابل دید تھی۔روبی کو ہر چیز اپنے اشاروں پر ناچتی محسوس ہورہی تھی۔ اس کی زندگی اس کی خواہشات کے مطابق کروٹیںلے رہی تھی۔

٭….٭….٭

کچھ بھی ہو جائے۔ تمہیں آج میری بات سننی پڑے گی۔زارا کال پر چلائی ۔

اچھا کہو۔کیا کہنا ہے؟زین نے تلخی سے کہا۔

”Why are you ignoring me.?“ زارا تلخی سے بولی۔

میں تمہیں نظر انداز کر کے کیا کروں گا؟

تم مجھ سے اور جھوٹ نہیں بول سکتے۔ بہت ہوگیا۔ میں سب سمجھ گئی ہوںکہ تم میرے ساتھ باہر گھومنے کیوں نہیں جانا چاہتے تھے۔تمہارے لیے زوئی جو کافی ہے ۔زارا تیکھے لہجے میں بول رہی تھی۔ 

ہاں تم ٹھیک سمجھی ہو۔ واقعی میرے لیے زوئی بہت اہم ہے۔زین نے دو ٹوک کہا۔

تم تو مجھ سے محبت کرتے تھے نا؟زارا نے اسے یاد دلانے کی کوشش کی۔

ہاں۔ محبت تو تم بھی مجھ سے کرتی تھی۔زین نے تلخ لہجے میں کہا۔

کیا مطلب ؟ میں تو اب بھی تم سے محبت کرتی ہوں۔زارا نے صفائی پیش کی۔

بس کرو زارا۔ تمہیںکیا لگتا ہے میں دودھ پیتا بچہ ہوں؟ میں سب جانتا ہوں۔زین نے چبھتے لہجے میں کہا۔

تم کہنا کیا چاہتے ہو؟زارا نے کچھ شکست خوردہ لہجے میں پوچھا۔

تمہیں کیا لگتا ہے تم میری آنکھوں میں دھول جھونکتی رہو گی اور میں لاعلم رہوں گا؟ میں سب جانتا ہوں تم اسلام آباد کس کے لیے گئی تھی۔“ 

تم مجھ پر شک کر رہے ہو؟ عاصم میرا کزن ہے اور کچھ نہیں۔زارا نے صفائی دیتے ہوئے کہا۔

بس بھی کرویار۔ تم آج عاصم کے ساتھ جس طرح ہنس ہنس کر باتیں کر رہی تھی وہ میرے دماغ میں اب بھی نقش ہے۔“ 

ٹھیک ہے۔ زوئی کے ساتھ شوق سے باہر جاو¿۔ مجھے تمہاری پروا نہیں؟زارا نے تلخ لہجے میں گلا پھاڑتے ہوئے کہا۔

ٹھیک ہے۔تمہیں میری پرواہ نہیں ۔۔تو مجھے بھی تمہارے پرواہ نہیں ۔زین نے بے حد سنجیدہ لہجے میں دوٹوک کہا۔

زارا نے غصے میں کال کاٹ د ی او ر روتے ہوئے اپنا موبائل پوری طاقت سے بیڈ پر پٹخ دیا تھا۔

٭….٭….٭

انور کو باہر گئے پورے آٹھ نو ماہ گزر گئے تھے۔ انور شروع شروع میں دو دن بعد فون پر گھر والوں سے بات کرتا تھا۔ پھر ہفتے میں ایک بار بات کرنے لگا اور اب مہینے میں ایک بار کال کیا کرتا تھا۔ بڑے بھائی کی انور سے بات سلام دعا سے زیادہ نہیں ہوتی تھی۔ اس نے وہاں جا کر ان آٹھ مہینوں میں صرف بیس پچیس ہزار روپے گھر بھیجے تھے اورابھی تک اس نے روبی کا زیور بنانے کی کوئی بات نہیں کی تھی۔ گھر کا سارا بوجھ ابھی بھی بڑے بھائی کے کندھوں پر تھا۔ بڑے بھائی نے خودداری کی وجہ سے انور کو گھر کے حالات بتا کر کبھی بھی پیسے مانگنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ بڑے بھائی روبی کی جلد شادی کرنے کے حق میں نہیں تھے۔ انہیں اس کا جہیز بنانے کے لیے کچھ وقت درکار تھا لیکن مزمل کے گھر والے زور دے رہے تھے۔ آخر کار روبی کی خوشی دیکھ کر بڑے بھائی نے شادی کے دن رکھ لیے تھے۔ بڑے بھائی اور رابعہ کھانا کھاتے ہوئے روبی کی شادی کی باتیں کررہے تھے۔

روبی کی شادی میں ایک ماہ رہ گیا ہے۔ابھی تک انور نے روبی کی شادی کے لیے کوئی پیسہ نہیں بھیجا۔آپ اس سے بات کیوں نہیں کرتے؟رابعہ نے لقمہ لیتے ہوئے کہا۔

کیا بات کروں؟بڑے بھائی نے سنجیدگی سے کہا۔

اسے بتائیں کہ گھر کے کتنے اخراجات ہیں۔روبی کی شادی سر پر ہے۔ آپ اکیلے شادی کا انتظام نہیں کر سکتے۔ویسے بھی انور کا حق ہے کہ اپنی بہن کی شادی پر خرچ کرے۔“ 

باہر جا کر سیٹ ہونے میں کافی وقت لگتا ہے۔ اس کے بھی کچھ مسائل ہوں گے۔ وہ سیٹ ہو جائے گا تو پیسے بھی بھیج دیا کرے گا۔بڑے بھائی نے رابعہ کو سمجھاتے ہوئے کہا۔رابعہ اثبات میں سر ہلاکے رہ گئی۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

شاہ ماران ۔ افسانہ

Read Next

صحرا کی بلبل؛ ریشماں ۔ انہیں ہم یاد کرتے ہیں

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!