آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا ۔ مکمل ناول

بھولے ! کیسا ہے؟ سب ٹھیک ٹھاک ہے نا ؟بڑے بھائی کا گلی میں بھولے سے ٹکراو¿ ہوا تو وہ رک کر بھولے کا حال چال پوچھنے لگے۔

مے مے میں ٹھی ٹھیک۔“ 

فیصل نے دوبارہ تنگ تو نہیں کیا؟بڑے بھائی نے استفسار کیا۔

آ آ پ نے او او اسے رو رو کا تھا نا۔ اب وہ مو مو مجھے کو کوکچھ نئی(نہیں) کیتا(کہتا) ۔“ 

وہ پیار سے تمہیں چھیڑتا ہے۔اس کی بات پر غصہ نہ کیا کر۔بھولاچپ چاپ بڑے بھائی کی بات سنتا رہا ۔

وہ دو دو دوسروں کو تو کو کو کچھ نئی(نہیں) کیتا(کہتا) ۔بھولے نے بے ساختہ کہا۔بڑے بھائی اس کی بات پر ہنس دیے۔

٭….٭….٭

سیٹھ صاحب کے گھر کھانے کا میز سج چکا تھا۔مختلف کھانے ٹیبل پر موجو د تھے۔سیٹھ صاحب کا چھوٹا بھائی عباس اپنی پوری فیملی کے ہمراہ آیا ہوا تھا۔وہ سب وہاں ڈنر کر رہے تھے، لیکن سیٹھ صاحب ابھی تک گھر نہیں آئے تھے۔

بھابی۔ سیف اللہ بھائی کب تک آئیں گے؟ سیٹھ عباس کی بیوی نائلہ نے فرائیڈ چکن کی بائٹ لیتے ہوئے کہا۔

تمہیں ان کی مصروفیات کا پتا تو ہے۔گھر کم ہی ملتے ہیں۔ میں نے آ پ لوگوں کا انہیں بتا دیا ہے۔ بس آتے ہی ہوں گے۔سیٹھ صاحب کی بیگم شازیہ نے وضاحت دی۔ 

فلاحی کاموں میں بندہ ایسے ہی مصروف رہتا ہے۔سیٹھ عباس نے لقمہ دیا۔

جی بھائی صاحب۔ ایسا ہی ہے۔اب دیکھیں نا۔ آج شہر کا جو بڑا مدرسہ ہے وہاں سیٹھ صاحب نے خود اپنے ہاتھوں سے د یگیں بانٹی ہیں۔ کہہ رہے تھے بچوں پر خرچ کرنا بہت بڑ ا صدقہ ہے۔شازیہ نے فخریہ لہجے میں کہا۔

بھائی سیف اللہ کا دل بہت بڑا ہے ۔بھابی آپ اللہ کا شکر ادا کیا کریں کہ اللہ نے آپ کو اتنا نیک اور لوگوں کے ساتھ بھلائی کرنے والا شوہردیا ہے۔نائلہ کولڈ ڈرنک کا سپ لیتے ہوئے کہہ رہی تھی۔

شکر ہے اللہ کا۔شازیہ نے بے ساختہ کہا۔

آج کل تو نفسا نفسی کا دور ہے۔کوئی کسی کے ساتھ بھلائی نہیں کرتا۔سیف اللہ بھائی جیسے انسان بہت نایاب ہیں۔ورنہ جتنی ہوس پھیلی ہے غریبوں کو کوئی پھوٹی کوڑی نا دے۔نائلہ نے ٹشو سے ہاتھ صاف کرتے ہوئے کہا۔

سیف اللہ بھائی کا پورے شہر میں چرچا ہے اور ہونا بھی چاہیے۔وہ لوگوں کے ساتھ اتنی بھلائی جو کرتے ہیں۔عباس نے پانی کا گلاس اٹھاتے ہوئے کہا۔

اسی لیے اللہ نے اتنا دیا ہے۔بس کبھی غرور نہیں کرنا چاہیے۔شازیہ نے مٹن قورمہ پلیٹ میں ڈالتے ہوئے کہا تھا۔

میں اکثر لوگوں سے ملتا ہوں تو وہ سیف اللہ بھائی کا نام بہت عزت واحترام سے لیتے ہیں اور وہ واقعی عزت کے قابل بھی ہیں۔سیٹھ عباس شازیہ کو دیکھتے ہوئے بولے۔

جی۔لوگ ان کی دل سے عزت کرتے ہیں۔شازیہ نے تصدیق کرتے ہوئے کہا۔

زارا ۔تم سناو¿ ۔اسٹڈی کیسی جا رہی ہے؟ نائلہ کا دھیان اب زارا پر گیا تھا۔جو چپ چاپ رائس کھا رہی تھی۔

اچھی جا رہی ہے۔فائنل پیپرز ہونے والے ہیں۔زارا نے جواب دیا۔پھر وہ سب آپس میں خوش دلی سے گپیںلگاتے رہے۔سیٹھ صاحب ابھی بھی گھر نہیں آئے تھے۔

٭….٭….٭

مجھے تو یہ سمجھ نہیں آتی کہ سیف اللہ بھائی کے پاس اتنا پیسہ آتا کہاں سے ہے جو غریب غربا پر بہاتے رہتے ہیں۔ ہمارا تو کبھی پلٹ کر حال تک نہیں پوچھا۔نائلہ نے گاڑی سے باہر دیکھتے ہوئے کچھ تلخ لہجے میں کہا۔وہ سیٹھ صاحب کے گھر سے ڈنر کرکے واپس آرہے تھے۔

بھائی صاحب ہمارا حال پوچھ کر کریں گے بھی کیا؟ انہیں اپنے فلاحی کا موں سے فرصت ہی کہاں ملتی ہے۔عباس نے نائلہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

جب سنو۔ دیگیں بانٹ رہے ہیں۔مدرسے کو فنڈ دے رہے ہیں۔غریبوں کے لیے مفت اسکول کھول رہے ہیں اور تو اور این جی اوز کو الگ سر پر چڑھا رکھا ہے۔ جیسے پیسے درختوں پر لگتے ہیں۔نائلہ نے ناک چڑھاتے ہوئے کہا۔

بڑے بھائی فلاحی کام کر کے پتا نہیں دنیا کی کس تاریخ میں اپنا نام لکھواناچاہتے ہیں۔“ 

ویسے تمہیں لگتا ہے بھائی صاحب واقعی غربیوں کے لیے فلاحی کام کرتے ہیں؟نائلہ نے استفسار کیا۔

اس میں پوچھنے والی کیا بات ہے؟ تمہیں نہیں معلوم کہ غریبوں پر کوئی کیوں خرچ کرتا ہے؟ غریبوں کی مدد کیوں کرتا ہے ؟عباس نے حیرانی سے کہا۔

معلوم ہے، لیکن یہاں ماجرا کوئی اور ہے۔سیٹھ عباس صاحب۔“ 

کیا مطلب ہے تمہارا؟

سیف اللہ بھائی کو اگر نیکیوں کی پروا ہوتی تو ان کا پرانا ڈرائیور کبھی علاج کی کمی کی وجہ سے لقمہ اجل نہ بنتا۔ اس کا وقت پے علاج کروا دیتے تو وہ بیماری سے یوں نہ مرتا۔ میں پاگل نہیں ہوں۔سب سمجھتی ہوں۔نائلہ نے سر جھٹکتے ہوئے کہا۔

تم پرانی باتیں کیو ں لے کر بیٹھ جاتی ہو؟ جس کی جتنی زندگی ہو وہ ا تنا ہی جیتا ہے۔ چھوڑو ہمیں کیا؟ عباس نے بے پروائی ظاہر کی۔

ہاں ہمیں کیا۔ سیف اللہ بھائی جانیں اور ان کے فلاحی کام، لیکن ایک بات ہے….“ نائلہ کچھ کہتی کہتی رک گئی۔

کیا؟عباس نے بے ساختہ کہا۔

سیف اللہ بھائی کا ہر جگہ چرچا ہے۔سیٹھ عباس کو کون جانتا ہے اس شہر میں؟نائلہ نے طنزاً کہا۔

تو تم کہنا کیا چاہتی ہو؟کہ میں بھی ان کی طرح سارا سار ا دن پاگلوں کی طرح غریبوں کے آگے پیچھے بھاگتا رہوں ؟ 

غریبوں کے پیچھے بھاگنے کو کون کہتا ہے عباس صاحب! بس آپ ایک ہنر سیکھ لیں۔

کونسا ہنر؟عباس نے آنکھیں سکیڑتے پوچھا۔

بھائی سیف اللہ کی ہاں میں ہاں ملانے کا ہنر…. زندگی میں کسی بھی موڑ پر ان سے منہ موڑ کر ہم صرف اپنا ہی نقصان کریں گے۔نائلہ نے عباس کو معنی خیز نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔عباس نے کچھ سوچتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا تھا ۔

٭….٭….٭

بھولے تمہارے پا س کتنے سوٹ ہیں۔بڑے بھائی نے بھولے کو میلے کپڑوں میں دیکھا تو پوچھ لیا۔وہ طارو کی دکان سے کام کر کے واپس آ رہا تھا۔

دو ….دو۔اس نے ہاتھ کی پشت سے اپنی آنکھیں مسلتے ہوئے بے پروائی سے کہا۔

میں تمہیں سوٹ لا کر دوں گا۔ پھر تم روز نہا دھو کر صاف ستھرا سوٹ پہنا کرنا۔پہنو گے؟بڑے بھائی نے ا س سے بچوں کی طرح پوچھا تھا۔

ہا ں۔ پے پے پینوں( پہنوں) گا۔بھولا سر کھجاتے ہوئے بولا۔

جو بندہ صاف کپڑے پہنتا ہے ۔ اللہ اس بندے سے بہت خوش ہوتا ہے۔“ 

آاچھاپھی پھی پھر میں ر و رو ز پینوں (پہنوں) گا۔بھولے نے بڑے بھائی کو خوشی سے دیکھتے ہوئے کہا۔بڑے بھائی مسکرا دیے۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

شاہ ماران ۔ افسانہ

Read Next

صحرا کی بلبل؛ ریشماں ۔ انہیں ہم یاد کرتے ہیں

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!