آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا ۔ مکمل ناول

زارا کو اسلام آبا د میں دو ہفتے گزر گئے تھے۔ اسے زین کے انداز میں اپنے لیے کچھ بےپروائی محسوس ہونے لگی تھی۔ وہ اب جلد از جلد کراچی واپس جانا چاہتی تھی۔ وہ لان میں گم صم بیٹھی زین کے بارے میں سوچ رہی تھی۔جب عاصم زارا کو لان میں دیکھ کر اس کے پاس آیا ۔ اس نے زارا کے قریب آکر اپنا گلا صاف کیا ۔ز ارا ایک دم سے اس کی طرف متوجہ ہوئی۔

لگتا ہے تمہیںdisturbکر دیا ۔عاصم نے قریب آ کر کہا۔

نہیں ایسی کوئی بات نہیں۔ have a seat “ زارا نے سامنے رکھی کرسی کی طرف اشارہ کیا۔وہ کرسی پر بیٹھ گیا ۔ 

سب ٹھیک تو ہے نا؟عاصم نے استفسار کیا۔

ہاں سب ٹھیک ہے ؟زارا نے بے ساختہ کہا۔

لگتا تو نہیں ہے۔عاصم نے بے ساختہ کہا۔

تم میری اتنی فکر کیوں کرتے ہو؟ “ 

رات کے دس بجے تمہارے منہ پر بارہ بج رہے ہیں۔ پھر مجھے تمہاری فکر کیوں نا ہو؟عاصم کی بات پر وہ بے ساختہ ہنسی تھی۔

تمہیں باتیں بہت بنانی آتی ہیں۔وہ ہنستی ہوئی بولی ۔

سچ کہوں تو مجھے تمہارے چہرے پر یہ پھیکا پن بالکل پسند نہیں۔ تم مجھے ہنستی ہوئی بہت اچھی لگتی ہو۔عاصم نے اسے معنی خیز آنکھوں سے دیکھتے ہوئے کہا۔زارا نے چہرے پر پھیکی سی مسکراہٹ سجائی تھی۔

٭….٭….٭

میں نے الماری میں کچھ پیسے رکھے تھے، لیکن اب مل نہیں رہے۔بڑے بھائی نے الماری میں رکھی چیزیں دیکھتے ہوئے کہا۔

کہاں جا سکتے ہیں یہیں ہوں گے۔میں دیکھتی ہوں۔رابعہ اپنا کام چھوڑ کر اب لماری چیک کرنے لگی۔ بڑے بھائی پاس کھڑے دیکھ رہے تھے۔

یہاں نہیں ہیں۔ آپ نے کہیں اور رکھے ہوں گے۔رابعہ نے کپڑے الماری سے نکال نکال کر بیڈ پر پھینکتے ہوئے کہا۔

میں کہہ تو رہا ہوں کہ اسی الماری میں رکھے تھے۔بڑے بھائی نے زور دیتے ہوئے کہا۔

کہاں جا سکتے ہیں؟رابعہ نے کچھ پریشان ہو کر کہا۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے میں صبح اسی الماری میں رکھ کے گیا تھا۔“ 

صبح سے روبی کالج گئی ہے۔بچے اسکول گئے ہیں۔ہاں انور کو میں نے صبح کمرے میں دیکھا تھا، لیکن ہمارے گھر میں یوں بتائے بغیر پیسے اٹھانا کسی کی عادت نہیں ہے۔رابعہ نے الماری کوایک بار پھر سے الٹ پلٹ کر دیکھتے ہوئے کہا۔

چلوخیر…. مل جائیں گے۔بڑے بھائی پریشانی کے عالم میں کمرے سے چلے گئے تھے۔رابعہ بیڈ پر رکھے کپڑے سمیٹنے لگی تھی۔

٭….٭….٭

یار تم کئی دنوں سے ملنے نہیں آئی۔ لگتا ہے جیسے ؟مزمل روبی سے کال پر بات کر رہا تھا۔

جیسے؟روبی نے بے ساختہ کہا۔

لگتا ہے جیسے تم سے ملے صدیاں گزر گئی ہوں۔مزمل نے پیار بھرے لہجے میں کہا۔

مجھ سے ملنے کے لیے اتنے بے تاب ہو؟روبی نے انگلی ہونٹ میں دباتے ہوئے کہا۔

یار تم سے ملنے کے لیے بے تاب نہیں ہوں گا تو اور کس کے لیے ہوں گا؟ “ 

لیکن میں روز روز تمہارے گھر کیسے آ سکتی ہوں؟روبی نے استفسار کیا۔

کسی بہانے آ جانا۔ کہہ دینا سارا سے نوٹس لینے ہیں۔مزمل کے مشورے پر روبی بے ساختہ ہنسی تھی۔

مشورے اچھے دیتے ہو۔“ 

ہاں محبت میں سب چلتا ہے۔مزمل نے بے ساختہ کہا۔روبی پھر سے ہنس دی۔ روبی کو معلوم ہی نہیں ہوا تھا کب اور کیسے مزمل اس کی زندگی کا حصہ بن گیا تھا۔ وہ اس سے محبت کرنے لگی تھی۔مزمل بھی اس سے ا ظہار محبت کر چکا تھا۔ روبی اب صرف مزمل کے ساتھ زندگی گزارنے کی خواہش مند تھی۔

٭….٭….٭

حاجی صاحب اور ان کی بیگم صحن میں بیٹھے کھانا کھا رہے تھے جب رضیہ بے بسی اور غصے کے عالم میں حاجی رضوان صاحب کے گھر آئی تھی۔ حاجی صاحب اسے دیکھ کر چکنا ہو گئے۔ ان کی بیوی کی نظریں بھی بے ساختہ رضیہ کی طرف اٹھی تھیں۔

حاجی صاحب! آپ نے میری یتیم بیٹی پر بڑا ظلم کیا ہے۔رضیہ غصیلے مگر شکست خوردہ لہجے میں بول رہی تھی۔

میں نے کیا،کیا ہے؟حاجی صاحب نے بے ساختہ پوچھا۔

آپ نے پانچ ہزار کے پیچھے میری بیٹی کا حق مار دیا۔ ہمیں سب پتا چل گیا ہے حاجی صاحب۔ غلطی ہماری ہے جو ہم نے آپ پر اعتبار کیا۔ہم نے اسی وقت نکاح نامہ پڑھا ہوتا تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔رضیہ بولتی گئی۔

آخر ماجرہ کیاہے؟حاجی صاحب کی بیگم بولی۔

حاجی صاحب! صرف پانچ ہزار میں ایمان بیچ دیا؟رضیہ نے ان کی بیگم کی بات نظر نداز کرتے ہوئے حاجی صاحب کو دیکھتے ہوئے کہا۔

زیادہ بکواس نہ کرو۔ تم نے کہہ دیا اور میں نے مان لیا؟حاجی صاحب نے رضیہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ہٹ دھرمی سے کہا ۔

بس کرو حاجی صاحب بس۔ خدا کا خوف کرو۔ لوگوں کے منہ پر جھوٹ بولتے ہو۔ ویسے تو دن میں کوئی نماز نہیں چھوڑتے ۔غریب کو دھوکا دیتے ہوئے اللہ سے ڈر نہیں لگتا؟ رضیہ تقریباً چیختے ہوئے بے بسی سے بولی تھی۔ 

زبان سنبھال کر بات کر بی بی۔ تم جیسے دو ٹکے کے لوگوں کو خوب جانتا ہوں۔ نکل جاو¿ میرے گھر سے۔حاجی صاحب نے آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کہا۔

جا رہی ہوں۔جا رہی ہوں۔ اللہ سے ڈرو۔ نمازیں پڑھ پڑھ کر کچھ نہیں ملتا۔ اللہ سے ڈرو۔۔ دیکھنا۔میری بیٹی کی آہ لگے گی تمہیں۔رضیہ منہ میں بڑبراتی ہوئی وہاں سے چلی گئی تھی۔ حاجی صاحب کی بیوی کووہ پانچ ہزار کا نوٹ یاد آیا تھا جو حاجی صاحب کی جیب سے بر آمد ہوا تھا۔

پتا نہیں کہاں سے اٹھ کر آ جاتے ہیں۔حاجی صاحب سر جھٹکتے ہوئے اٹھے۔اپنی ٹوپی اور تسبیح اٹھائے باہر چل دیے۔ کیوں کہ عصر کی نماز کا وقت ہو گیا تھا۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

شاہ ماران ۔ افسانہ

Read Next

صحرا کی بلبل؛ ریشماں ۔ انہیں ہم یاد کرتے ہیں

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!