آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا ۔ مکمل ناول

آج جمعرات تھی ۔سیٹھ سیف اللہ کے گھر آج بھی غریبوں مسکینوں کا ہجوم لگا تھا کیوں کہ ہر جمعرات کی طرح آج بھی وہاں مفت کھانا تقسیم ہو رہا تھا۔ سیٹھ صاحب نے صدقہ و خیرات کرنے میں کبھی سستی نہیں کی تھی۔وہ غریبوں پے بے تحاشا خرچ کرتے تھے اور یہی ان کے کردار کی اصل خوبصورتی تھی۔ سیٹھ صاحب لان میں بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے۔ ان کا شمار شہر کے امیر ترین اور بہت معزز لوگوں میں ہوتا تھا۔وہ اب تک غریبوں کے لیے اتنے فلاحی کام کر چکے تھے کہ انہیں اب مزید کسی چرچے کی ضرورت نہیں تھی۔وہ اخبار چھوڑ کر ایک دم کھڑے ہو گئے جب خالد حسین ان سے ملنے آ ئے جوایک این جی او چلاتے تھے۔ اس کی این جی او غریبوں کے لیے کام کرتی تھی۔ سیٹھ صاحب نے خوش دلی سے اسے خوش آمدید کہا۔حال احوال معلوم کرنے کے بعد خالد نے بے ساختہ کہا:

لوگوں کا ہجوم بتا رہا ہے کہ کھانا تقسیم ہو رہا ہے۔ اللہ نے آپ کو بہت نوازا ہے۔ “ 

بس! اللہ کی د©ین ہے۔سیٹھ صاحب نے اخبار لپیٹتے ہوئے میز پر رکھ دیا۔

واقعی انسان اللہ کی راہ میں جتنا خرچ کرتا ہے اللہ اسے اتنی ہی برکت دیتا ہے۔خالد نے غریب غربا پر ایک سرسری نظر ڈالتے کہا۔

پیسہ ہاتھ کی میل ہے، تجوریاں بھر کے کیا کرنا، اللہ کی مخلوق پر خرچ کرنا بہت بڑا صدقہ ہے۔سیٹھ صاحب نے کرسی سے ٹیک لگاتے ہوئے اپنی دائیں ٹانگ بائیں ٹانگ پے جماتے ہوئے کہا۔

ہر انسان اگر ایسا سوچنے لگے تو دنیا سے غربت مٹ جائے مگرآپ جیسی سوچ آج کے زمانے میں کہاں ملتی ہے۔خالد، سیٹھ صاحب کو فخریہ انداز سے دیکھتے ہوئے کہہ رہ تھے۔

ہر ہفتے صدقہ نکال دیتا ہوں۔ مال میں برکت رہتی ہے۔ ویسے بھی ہمارا کام اللہ کے دیے ہوئے مال کو بانٹنا ہے سو ہم بانٹ رہے ہیں۔سیٹھ صاحب نے بے ساختہ کہا۔اسی لمحے خالد کے موبائل پر کال آگئی۔ خالد وہاں سے تھوڑا دور ہٹ کر کال سننے لگا۔ کال پے خالد کی این جی او کا کوئی ممبر تھا۔

سیٹھ صاحب سے ملاقات ہو ئی؟ا ن کی این جی او کے ممبرنے پوچھا۔

ہاں، ہاں فکرنا کرو کام ہو جائے گا۔خالد نے جواباً کہا ۔

کام کیسے نا ہو۔ تعریفوں کے پل باندھنے میں تو تم ماہر ہو۔خالد کا اس بات پے قہقہہ بلند ہوا تھا۔ اس کے بعد خالد دوبارہ سیٹھ صاحب سے بات کرنے لگا۔ 

سیٹھ صاحب! ویسے مجھے آپ کی سوچ پر اکثر رشک آتا ہے ۔اُس کی بات پے سیٹھ صاحب مسکرا دیئے۔

اللہ کے بندے ۔اب یہی باتیں کرتے رہو گے کہ کام کی بات بھی کرو گے؟ کہو کس سلسلے میں آ ئے ہو؟سیٹھ صاحب نے اصل موضوع پے آتے ہوئے کہا۔

سیٹھ صاحب! آپ تو جانتے ہیں۔ این جی اوز آپ جیسے لوگوں کی امداد کے بغیر نہیں چل سکتیں ۔ بس اسی سلسلے میں ….“ اس کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی سیٹھ صاحب نے ہاتھ کے اشارے سے اپنے ملازم سرور کو بلایا جو پاس ہی لان میں کھانا تقسیم کر رہا تھا۔

جی صاحب؟سرور پاس آتے ہوئے بولا۔ 

اندر سے میری چیک بک لاو¿۔“ 

آیا صاحب۔خالد کے چہرے پر گہری مسکراہٹ پھیل گئی تھی۔

سیٹھ صاحب! آپ جیسے لوگ ہمارے ملک کا سرمایہ ہیں۔آپ کی کرم نوازی ہے جو ہم غریبوں کے لیے….“ خالد اپنی دلی خوشی کو لفظوں میں پرو رہا تھا۔ سیٹھ صاحب اس کی باتوں پے مسکراتے رہے۔

٭….٭….٭

رات کے ساڑھے نوبج رہے تھے ۔ دبیز دھند پورے شہر پر اپنا حق جمائے ہوئے تھی۔ اسی وجہ سے بہت سے دکاندار اپنی دکانیں بند کر کے گھروں کا رُخ کرچکے تھے۔ بڑے بھائی بھی اپنا اسٹور بند کرنے ہی والے تھے جب انہیں اچانک چھوٹی بہن روبی کے ریاضی کے نوٹس کا خیال آیا جو اس نے آج لانے کو کہا تھا کیوں کہ صبح اس کا پیپر تھا۔ عزیز سارا دن اتنا مصروف رہا کہ اسے نوٹس لانا بالکل یاد نہیں رہا۔

اوہو۔میں بھول ہی گیا۔ روبی کا صبح پیپر تھا۔وہ فکرمندی سے منہ میں بڑبڑایا۔

اسی لمحے اپنا اسٹور بند کیااور بائیک لیے سیدھا بک شاپ پر پہنچ گیا۔

یار! ریاضی کے یہ نوٹس ہوں گے؟

یہ ہمارے پاس پڑے تھے لیکن اب ختم ہو گئے ۔آپ مین روڈ کی بک شاپز پر جائیں۔شاید ان کے پاس موجود ہوں ۔دکاندار نے مشورہ دیا۔ بڑے بھائی نے بائیک دوبارہ اسٹارٹ کی۔ وہ یکے بعد دیگرے اتنی ٹھنڈ میں پانچ بک شاپز پے گئے لیکن انہیں وہ نوٹس نہ ملے۔پھر بڑے بھائی نے دکاندار کے مشورے پے عمل کرتے ہوئے مین روڈ کی دکانوں کا رُخ کیا۔ دھند بڑھتی ہی جا رہی تھی اور اس قدر ٹھنڈ میں بھی بڑے بھائی کو اپنی تھکن کی ذراپروا نہیں تھی۔

٭….٭….٭

بھا بی! بڑے بھائی ابھی تک آئے کیوں نہیں؟انور نے ٹی وی سے نظریں ہٹاتے ہوئے کہا۔

آ جائیں گے۔ اسٹور پر آج شاید زیادہ کام ہو گا۔رابعہ بچوں کے کپڑے سمیٹتے ہوئے بولی۔

آج زیادہ ہی دیر ہو گئی ہے ۔دیکھیںگیارہ بج رہے ہیں۔ ورنہ دس بجے آ جاتے ہیں۔اوپر سے اتنی ٹھنڈ بھی ہے۔انور نے پھر سے دروازے کی طرف بے چینی سے دیکھا۔

ہاں آج کافی دیر ہو گئی۔میں نے بڑے بھائی سے ریاضی کے نوٹس بھی منگوائے تھے۔شاید وہ لینے چلے گئے ہوں۔روبی نے اندازہ لگاتے ہوئے کہا ۔

تم مجھے کہہ دیتی ۔میں نوٹس لا دیتا۔ بڑے بھائی کو اتنے کام کیوںکہتی رہتی ہو؟انور نے بہن کو ڈانٹتے ہوئے کہا۔

تم گھر کب ہوتے ہو جو تمہیں کوئی کام کہوں۔روبی نے غصیلے لہجے میں کہا۔

اب تمہارے لیے ہر وقت گھر بیٹھا رہا کروں؟

تم دونوں بحث بند کرو اور کھانا کھا لو۔وہ آ جائیں گے تو وہ بھی کھا لیں گے۔رابعہ نے چارپائی پر بیٹھتے ہوئے کہا۔

میں ان کے بغیر کھانا نہیں کھاو¿ں گا۔انور نے دوٹوک کہا۔

مجھے بھی بھوک نہیں ہے۔مجھے پیپر کی تیاری کرنے دیں۔روبی نے سر جھٹکتے ہوئے کہا۔ روبی یہ کہہ کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔ اتنی دیر میں دروازے پر بائیک کی بیل سنائی دی۔وہ یقینا بڑے بھائی تھے۔انور ٹھنڈ میں اپنی رضائی چھوڑ کر برق رفتاری سے دروازہ کھولنے بھاگا۔ رابعہ یہ دیکھ کر مسکرانے لگی۔

بڑے بھائی! آپ نے آج اتنی دیر کیوں لگا دی؟انور نے بڑے بھائی کے ساتھ لپٹتے ہوئے پوچھا۔

بس ضروری کام تھا اس لیے لیٹ ہو گیا۔“ 

یہ آپ کی ٹانگ پے خون کیسا ہے؟رابعہ نے بڑے بھائی کی شلوار پر لگا خون دیکھ کر فکر مندی سے پوچھا۔ روبی بھی بڑے بھائی کو ملنے کی غرض سے کمرے سے نکل آئی تھی۔

میں مین روڈ پر گیا تھا ٹریفک بہت تھی۔ایک چھوٹا بچہ بائیک چلاتا ہوا میری بائیک میں آلگا۔ شکر ہے زیادہ چوٹ نہیں آئی ۔ میں ڈ اکٹر سے پٹی کروا آیا ہوں۔ فکرکی کوئی بات نہیں۔بڑے بھائی نے تحمل مزاجی سے بتایا۔

آپ اتنی ٹھنڈ میں مین روڈ پر کرنے کیا گئے تھے؟رابعہ نے بے ساختہ پوچھا۔

روبی کے نوٹس لینے تھے۔اس کا صبح پیپر ہے نا۔رابعہ کی شکوہ کرتی آنکھیں لمحہ بھر میں روبی کی طرف اُٹھی تھیں۔روبی چپ چاپ افسردہ کھڑی اپنے ہونٹ کاٹنے لگی۔

بچے سو گئے۔بڑے بھائی نے چارپائی پر بیٹھتے ہوئے پوچھا۔

جی کب کے سو گئے۔آپ آرام کریں ۔میں ا بھی کھانا گرم کر کے لائی۔رابعہ یہ کہہ کر چلی گئی۔ انور جلدی سے بڑے بھائی کا بستر بچھانے لگا تھا۔ روبی بھی اپنے نوٹس ہاتھ میں لیے پریشانی سے بڑے بھائی کے پاس بیٹھ گئی تھی۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

شاہ ماران ۔ افسانہ

Read Next

صحرا کی بلبل؛ ریشماں ۔ انہیں ہم یاد کرتے ہیں

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!