زینی نے سگریٹ کا پیکٹ اپنے پرس سے نکال لیا۔ انور حبیب کے سگریٹ کا پیکٹ وہ ختم کر چکی تھی۔ انور نے اس بار اس کی بات کا جواب نہیں دیا۔ وہ کچھ دیر عجیب سی نظروں کے ساتھ زینی کو دیکھتا رہا۔
”تمہارا دماغ خراب نہ ہو گیا پری زاد تو اس انڈسٹری میں اگلے کئی سال تمہارا راج ہو گا۔ تاریخ تم بھی لکھ جاؤ گی اس فلم انڈسٹری میں۔” زینی نے اس کے ستائشی جملوں کے جواب میں اسے ایک مسکراہٹ سے نوازا پھر بڑے انداز سے کہا۔
”تاریخ جب ایک اکیلا بیٹھ کر لکھتا ہے تو اور ہوتی ہے ۔ دوبیٹھ کر لکھتے ہیں تو تاریخ کا مفہوم بدل دیتے ہیں۔ میں فلم پروڈیوس کرنا چاہتی ہوں انور صاحب بلکہ چاہتی نہیں کر رہی ہوں۔”
انور حبیب اس بار اس کی بات پر بری طرح چونکا۔
”تم کیوں فلم پروڈیوس کر رہی ہو۔ یہ تو وہ ہیروئنز کرتی ہیں جن کو انڈسٹری میں کام ملنا بند ہو جاتا ہے۔ تمہارے پاس تو بہت کام ہے پری زاد۔”
”ہاں لیکن میں کچھ اپنی مرضی کا کام کرنا چاہتی ہوں ۔ سوچا تھا آپ کے ساتھ مل کر فلم پروڈیوس کروں گی لیکن لگتا ہے آپ کو کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ پراچہ اور اصغر صاحب کو ہے۔ ان میں سے کسی کے ساتھ ہی یہ فلم پروڈیوس کرنا پڑے گی مجھے۔”
زینی نے انڈسٹری کے دو دوسرے مصروف ترین ڈائریکٹرز کا نام بے حد لاپرواہی سے لیا۔ انور حبیب بے اختیار بے چین ہو گیا۔
”پراچہ اور اصغر جیسے ڈائریکٹرز کے ساتھ کام کر کے اپنا روپیہ بھی ضائع کرو گی اور وقت بھی۔” وہ کہے بغیر نہیں رہ سکا۔
”تو پھر کیا کروں، آپ کو تو دلچسپی نہیں ہے، ورنہ تو آپ کے ساتھ ہی فلم کرنا چاہتی تھی ایک بات اور بتاؤں آپ کو۔ ہو سکتا ہے، اس میں کچھ رقم سفیر بھی لگا دے۔ اس سے بھی بات ہوئی ہے میری۔”
انور حبیب پہلے سے بھی زیادہ حیران ہوا تھا ”سفیر کو یہ شوق کہاں سے لگ گیا؟” اس نے بے اختیار کہا۔
”مجھ سے۔” پری زاد نے عجیب مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
”مجھے سوچنے اور مشورہ کرنے کا موقع دو پری زاد! اتنی جلدی پراچہ اور اصغر سے بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے تمہیں۔” انور حبیب نے کہا۔
”مجھے جلدی ہے انورصاحب! آپ کو تو پتہ ہے میں انتظار نہیں کر سکتی لیکن آپ کو وقت دے رہی ہوں، سوچ لیں۔ یہ نہ ہو کل مجھ سے کوئی گلہ ہو آپ کو۔”
زینی نے سگریٹ کو ایش ٹرے میں پھینکتے ہوئے کہا اور اٹھ کر کھڑی ہوگئی۔ انور حبیب کو یک دم سمجھ میں آگیا کہ وہ اس کے اور سفیر کے ساتھ تعلقات ٹھیک کرنے پر کیوں مجبور ہو گئی تھی۔ اسے ان دونوں کی ضرورت پڑ گئی تھی، اس لیے۔ اس نے بھی گدھے کو باپ بنانے کا فن سیکھ لیا تھا۔ اسے اس فلم میں سفیر ایک ایکٹر اور انور حبیب ایک ڈائریکٹر کے طور پر چاہیے تھا مگر وہ ان دونوں کو پروڈیوسر کے طور پر کیوں چاہتی تھی۔ انور حبیب نے یہ سوال اس سے پوچھ بھی لیا۔ زینی نے بڑے آرام سے کہا۔
”اس لیے کہ میرے پاس اکیلے فلم پر لگانے کے لیے اتنا سرمایہ نہیں ہے لیکن کوئی مجبوری نہیں ہے انور حبیب صاحب! آپ کو اگر فلم پروڈیوس نہیں کرنا تونہ کریں۔ میں نے آپ سے کہا نا میں چند اور لوگوں کے ساتھ رابطے میں ہوں۔” وہ مسکرائی اور اپنا پرس اٹھا لیا۔
انور حبیب اسے باہر تک چھوڑنے آیا اور جیسے ہی زینی کی گاڑی اس کی پورچ سے نکلی، انور نے اپنے سیل پر سفیر کو کال ملائی۔
”ہاں، اگر پری زاد فلم بنائے گی تو میں اس میں کچھ پیسہ انویسٹ کر لوں گا۔ پری زاد کو میں انکار تو نہیں کر سکتا اور دوسری بات یہ کہ چند سالوں تک میں ویسے ہی اپنا پروڈکشن ہاؤس بنانے کا سوچ رہا ہوں۔ اب ایک تجربہ کرنے کا موقع مل رہا ہے تو اس میں کیا ہرج ہے۔”
سفیر نے اس کی بات سنتے ہی زینی کی بات کی تصدیق کی تھی۔
”اور اس نے اگر آپ سے پارٹنر بننے کو کہا ہے تو ”آئیڈیا” برا نہیں ہے۔ آپ بھی کب تک دوسروں کی فلمیں ڈائریکٹ کرتے رہیں گے۔ ایک فلم ہٹ ہو گئی آپ کو تو پورے سال فلمیں ڈائریکٹ کر کے اتنا نہیں کمائیں گے، جتنا ایک فلم پروڈیوس کر کے کما لیں گے۔” سفیر نے اسے مشورہ دیا۔
”لیکن اگر فلم فلاپ ہو گئی تو؟” انور حبیب نے اپنے خدشے کا اظہار کیا۔
”تو بھی کیا ہو گا؟ نقصان بھی تقسیم ہو جائے گاتینوں میں اور تین پارٹنر ہوں گے تو نقصان برداشت کرنا آسان ہو گا۔ لیکن آپ یہ سوچ ہی کیوں رہے ہیں کہ نقصان ہو گا۔ آپ فلم بنائیں گے اور ہم دونوں فلم میں ہوں گے تو فلم فلاپ کیسے ہو گی۔ پری زاد کی ابھی تک ایک بھی فلم فلاپ نہیں ہوئی۔”
سفیر اب بے حد سنجیدہ تھا، کسی ہیرو کے لیے یہ اعتراف کرنا بڑا مشکل تھا کہ فلم اس کی وجہ سے نہیں کسی ہیروئن کی وجہ سے ہٹ ہو رہی تھی مگر سفیر یہ اعتراف کر رہا تھا اور یہ وہ چیز تھی جو انور حبیب پہلے ہی جانتا تھا۔
”تم نے تبریز پاشا کے ری ایکشن کے بارے میں سوچا ہے۔ اگر اسے پتہ چلا کہ ہم کوئی فلم پروڈیوس کرنے والے ہیں؟” انور حبیب نے خدشے کے تحت کہا۔
”کیسا ری ایکشن؟” سفیر چونکا۔ ”انڈسٹری میں اور کئی ڈائریکٹر اور ایکٹرز بھی فلمز پروڈیوس کر رہے ہیں۔ ہم کوئی انوکھا کام تو نہیں کر رہے اور تبریز پاشا کس بات پر ناراض ہو گا؟ آپ کو کسی نے اس بارے میں کچھ کہا کیا؟”
”نہیں، کہا تو نہیں لیکن اس کے ساتھ اتنے عرصے سے کام کر رہے ہیں۔ وہ کتنا طاقت ور اور کینہ رکھنے والا آدمی ہے تم جانتے ہو۔ اس کے مقابلے میں کام کرنے لگیں گے تو ناراض نہ بھی ہو، کام دینے کے معاملے میں تنگ کرے گا وہ ہمیں۔ پاشا کی اگلی فلم میں کوئی اور ہیرو اور کوئی اور ڈائریکٹر ہوا اور وہ فلم ہٹ ہو گئی تو تم کو اندازہ ہونا چاہیے کہ ہم دونوں کو نقصان ہو گا۔” انور حبیب نے جیسے اسے خبردار کیا۔
”نقصان تو پری زاد کو بھی ہو گا۔ ” سفیر نے اس سے کہا۔
”پری زاد کا سکہ چل رہا ہے آج کل۔ اس کو کوئی فلم سے باہر نہیں بٹھائے گا۔ ہم دونوں پر ہی نزلہ گرے گا اس کا اور پری زاد کو باہر بٹھا بھی دیا تو کیا ہو گا۔ وہ ہیروئن ہے۔ اس کی آمدنی کے اور بے شمار ”ذرائع” ہیں لیکن ہمیں تو اسی انڈسٹری میں رہ کر اور کام کر کے کھانا ہے۔”
انور حبیب نے کہا، سفیر سوچ میں پڑ گیا، بات غلط نہیں تھی۔ انہیں واقعی نقصان ہو سکتا تھا۔
”اچھا تو پھر پری زاد سے کیا کہوں میں؟ میں نے تو وعدہ کیا ہے اس سے۔” سفیر نے کچھ متفکر ہوتے ہوئے کہا۔
”اب دیکھ لو تم، سوچنے کا تو میں نے بھی کہا ہے اسے لیکن میں تمہیں ممکنہ خطرات سے آگاہ کر رہا ہوں۔ پری زاد کا کچھ نہیں جائے گا۔ ہم دونوں ڈوب سکتے ہیں۔ ہیروئن فلم پروڈیوس کرنے لگے تو اسے کوئی حریف نہیں سمجھتا۔ ڈائریکٹر اور ایکٹر کو سمجھنے لگتے ہیں۔”
”اچھا پھر میں کوئی بہانا سوچتا ہوں۔” سفیر نے فوراً انور حبیب سے کہا۔
انور حبیب اور سفیر کے درمیان ہونے والی اس گفتگو سے زینی بے خبر نہیں رہی تھی۔ انورحبیب نے اسے اس آفر کا اگلے کئی ہفتوں میں جواب نہیں دیا تھا۔ زینی نے اس سے دوبارہ پوچھا نہیں اور سفیر نے بات ٹالنے کی کوشش کی تھی اور زینی کے اصرار پر اس نے انور حبیب کے خدشات کو دہر ا دیا تھا۔ سفیر نے زینی سے معذرت کی تھی۔ زینی نے اس کی معذرت قبول کر لی۔ شطرنج کی بساط پر اس کی پہلی چال ناکام ہو گئی تھی۔ اب اسے کسی اور مہرے کو آگے بڑھانا تھا۔
دو ہفتوں کے بعد تبریز پاشا نے اپنے اگلے سال کے دو پراجیکٹس کا ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا تھا۔ ان میں سے ایک کی پری زاد co-producer پروڈیوسر تھی۔ پاشا پروڈکشنز پہلی بار کسی کے ساتھ مل کر فلم پروڈیوس کرنے پر تیار ہو گیا تھا۔ انڈسٹری میں چہ مگوئیاں شروع ہو گئی تھیں۔ اور انور حبیب اور سفیر خان بری طرح پچھتائے تھے۔ انہوں نے اپنی بزدلی کی وجہ سے ایک سنہری موقع ہاتھ سے گنوا دیا تھا۔ دونوں نے اپنی اپنی جگہ زینی سے پچھتاوے کا اظہار کیا تھا جسے زینی نے بے حد خوش دلی کے ساتھ نظر انداز کر دیا تھا لیکن اس نے ان کے ساتھ اس بات پر بے حد خوشی اور جوش کا اظہارکیا تھا کہ اسے ان سے بہترورکنگ پارٹنر مل گیا ہے۔ اور اس کی اس ایکسائٹمنٹ نے انور حبیب کے پچھتاوے میں کچھ اور اضافہ کیا تھا۔ پہلی بار ان دونوں کے درمیان ہلکی سی تلخی بھی پیدا ہوئی تھی۔ کیونکہ سفیر نے انور کو اس معاملے میں مورد الزام ٹھہرایا تھا کہ اس کے خدشات کی وجہ سے وہ نہ صرف یہ کہ پری زاد کے ساتھ پروجیکٹ میں پارٹنر شپ نہیں کر سکا بلکہ اس نے پری زاد سے کیا ہوا وعدہ بھی توڑا لیکن اس وقتی تلخی اور رنجش کو ختم کروانے میں پری زاد نے ہی کردار ادا کیا۔
”اس بار نہیں تو اگلی بار آپ لوگ میری پروڈکشن کو پروڈیوس کر سکتے ہیں۔ یہ میری زندگی کی آخری پروڈکشن تو ہے نہیں کہ دوبارہ آپ میں سے کسی کو چانس نہیں مل سکتا، اس لیے میرے پروجیکٹ کی وجہ سے آپ لوگوں کے درمیان کوئی شکوک و شبہات نہیں ہونے چاہئیں۔” اس نے بڑے دو ٹوک الفاظ میں ان دونوں کے سامنے کہا تھا اور اس کے بعد ان کے ساتھ چند دنوں کے وقفے سے ہونے والی الگ الگ ملاقاتوں میں دونوں کو بے حد غیر محسوس انداز میں ایک دوسرے سے خبردار رہنے کا کہا۔
انڈسٹری کے تین بڑے ستون پہلی بار ایک دوسرے کے بارے میں کچھ تحفظات کا شکار ہونے لگے تھے۔ انور حبیب اور سفیر خان اگر یہ جان جاتے کہ پری زاد نے تبریز پاشا کو کیا کہہ کر اس کے ساتھ اس پروڈکشن میں شراکت کی تھی تو وہ دونوں پری زاد کا گلا اپنے ہاتھ سے گھونٹتے۔
”میں ایک فلم پروڈیوس کرنا چاہتی ہوں اور اس سلسلے میں مجھے سرمائے کے لیے ایک اور پروڈیوسر کی ضرورت ہے۔ انور حبیب اور سفیر دونوں مجھے سرمایہ دینے کے لیے تیار ہیں لیکن وہ یہ نہیں چاہتے کہ ان کا نام فلم کے پروڈیوسر کے طور پر سامنے آئے کیونکہ وہ دونوں آپ سے خوف زدہ ہیں۔ میں نے سوچا۔ میں اس سلسلے میں سیدھا آپ سے بات کیوں نہ کروں۔ میرے ساتھ فلم پر سرمایہ تو آپ بھی لگا سکتے ہیں اور اس طرح خوف زدہ ہوئے اور چھپے بغیر۔۔۔۔”
تبریز پاشا نے انور حبیب کی طرح سوچنے کا وقت مانگا تھا، نہ سفیر کی طرح سرمائے کی اماؤنٹ۔ اس نے صرف ایک بات کہی تھی۔
”پاشا پروڈکشنز اس فلم کو پروڈیوس کرے گا تم co-producer کو پروڈیوسر بن جاؤ۔” زینی نے ایک لمحہ کا توقف کیے بغیر سر ہلا دیا۔ پروڈیوسر اور کوپروڈیوسر کے معاملے پر وہ لڑتا جسے فلم بنانی ہوتی، اس وقت تو صرف وعدے ہو رہے تھے۔
اسی کے اصرار پر تبریز پاشا نے دوہفتوں کے بعد ایک پریس کانفرنس میں اس فلم کے بارے میں اعلان کر دیا تھا۔ اور اس کے بعد اسے بہت جلد اپنے گرگوں کے ذریعے اس پارٹنر شپ کے معاملے میں انور حبیب کے درمیان ہونے والے اختلافات کے بارے میں بھی پتہ چل گیا۔ انڈسٹری اتنی چھوٹی تھی کہ وہاں پر کسی کے دل کی بات بھی راز نہیں رہ سکتی تھی۔ یہ توممکنہ پارٹنز شپ کا معاملہ تھا۔
پری زاد جال بچھا رہی تھی یا بارودی سرنگیں۔ اسکا فیصلہ وقت کرنے والا تھا۔
٭٭٭
”زری! میں نے یہاں کچھ رقم رکھی تھی، اب نہیں ہے۔” کرم علی آفس جانے سے پہلے اپنے دراز کو کھول کر اس رقم کو تلاش کر رہا تھا، جو اس نے کسی کام کے لیے کل رات کو نکلوا کر رکھی تھی۔” تم نے تو کہیں اٹھا کر نہیں رکھ دی؟”
”ہاں، وہ میں نے لے لی ہے۔” زری نے بڑے اطمینان سے کہا۔ وہ اپنے ناخن فائل کر رہی تھی۔ کرم علی کچھ حیران ہوا۔
”تم نے…؟ کس لیے…؟”
”وہ مجھے کچھ شاپنگ کرنا تھی؟” زری نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”کس چیز کی شاپنگ؟” اس نے پوچھا۔ زری ناخن فائل کرتے ہوئے رک گئی۔
”شاپنگ چیز کی نہیں ہوتی، چیزوں کی ہوتی ہے۔” اس نے بڑے جتانے ولے انداز میں کرم علی سے یوں کہاجسے وہ جاہل ہو۔
”مگر کن چیزوں کی؟”
”اب میں آپ کو ایک ایک چیز گنواؤں کہ میں نے کیا لیا؟” زری یک دم غصے میں آگئی۔
”دس ہزار ڈالرز تھے وہ زری؟” کرم علی نے اپنے لفظوں پر زور دیتے ہوئے اس سے کہا۔
”دس لاکھ تو نہیں تھے۔” اس کے دو بہ دو جواب نے کرم علی کو چند لمحوں کے لیے خاموش کر دیا۔
”لیکن تمہارے پاس تو کریڈٹ کارڈ ہے۔ تم اسے استعمال کرتی ہو شاپنگ کے لیے۔”
”ہاں ہے۔ کریڈٹ کارڈ لیکن کیش بھی چاہیے ہوتا ہے مجھے۔ اب میں لاٹری کی ٹکٹس خریدنے کے لیے بھی آپ کا کریڈٹ کارڈ استعمال کروں؟”
”تم نے دس ہزار ڈالرز کے ٹکٹس لیے؟” کرم علی کو جیسے جھٹکا لگا۔
”میں نے کب کہا میں نے دس ہزار کے ٹکٹ لیے۔ میں نے مثال دی ہے آپ کو۔ سو اخراجات ہیں میرے۔ اب ایک ایک ڈالر کے لیے میں آپ کے سامنے ہاتھ پھیلاؤں۔” کرم علی نے اس سے یہ نہیں کہا کہ وہ وقتاً فوقتاً اس کے مانگنے پر ہی نہیں مانگے بغیر ہی اسے کافی کیش دیتا رہتا ہے۔ لیکن اس وقت زری کو ایسی کوئی چیز یاد کروانا اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف تھا۔
”پھر بھی زری! دس ہزار ڈالرز کو شاپنگ پر ضائع کرنا ہوش مندی نہیں اور کم از کم تمہیں رقم لینے سے پہلے مجھے بتا دیناچاہیے تھا۔”
کرم علی نے اپنے بریف کیس میں اپنی کچھ چیزیں رکھتے ہوئے کہا۔ زری یک دم غصے میں کمرے سے نکل گئی۔ چند لمحوں کے بعد دوبارہ کمرے میں داخل ہوئی اور اس نے کچھ رقم کرم علی کے سامنے بیڈ پر پھینک دی۔ کرم علی چونک کر اس کا منہ دیکھنے لگا۔
”یہ لیں اپنی رقم، ہنگامہ کھڑا کر دیا ہے دس ہزار ڈالرز کے لیے آپ نے۔”
”زری! میں نے تم سے رقم واپس نہیں مانگی۔ میں نے تم سے صرف پوچھا ہے اس کے بارے میں۔” کرم علی نے اپنے غصے کو ضبط کرتے ہوئے تحمل سے کہا۔ ”یہ رقم اٹھا لو یہاں سے۔”
”میں آئندہ آپ کے ایک روپے کو ہاتھ نہیں لگاؤں گی ۔ پتہ نہیں ماں باپ نے کیا دیکھ کر میری شادی آپ سے کر دی۔” زری اب واویلا کر رہی تھی۔
”یہ رقم اٹھا لو یہاں سے۔ میں اس کو ایشو بنانا نہیں چاہتا۔” کرم علی نے خفگی سے کہا۔
”میں مر جاؤں گی لیکن اتنی بے عزتی کے بعد یہ رقم نہیں اٹھاؤں گی۔”
”بے عزتی…؟ بے عزتی میں نے تمہاری کی ہے یا تم میری کر رہی ہو؟” کرم علی نے بے حد شاکی انداز میں اس سے پوچھا۔
”صحیح کہتی تھیں میری سہیلیاں۔ کبھی بڑی عمر کے مرد سے شادی نہیں کرنی چاہیے۔ یہ بیویوں کی زندگی عذاب کر دیتے ہیں اور عمر کے ساتھ ساتھ اگر شکل و صورت بھی اچھی نہ ہو تو پھر تو جو کر دیں جو کہہ دیں، وہ کم ہے۔”
زری نے بظاہر بڑبڑاتے ہوئے کہا تھا لیکن اس نے کرم علی کو حرکت کرنے کے قابل نہیں چھوڑا تھا۔ وہ عمر کے بارے میں پہلے بھی کئی بار زری کے منہ سے بلا واسطہ طور پر طعنے سن چکا تھا لیکن شکل و صورت کے بارے میں آج پہلی بار سن رہا تھا۔ جواب میں اسے کیا کہنا چاہیے، اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ زری اب مزید کچھ بڑبڑاتے ہوئے بستر پر بکھرے نوٹوں کو سمیٹ رہی تھی۔