من و سلویٰ — قسط نمبر ۸

سلائی اسکول سے باہر قدم رکھتے ہی زری نے چاروں طرف دیکھا پھر اسے جیسے مایوسی ہوئی۔
”ذلیل، کہہ رہا تھا ،کل پیسے لے کر آؤں گا اور آج سرے سے ہی غائب ہے۔” چند گالیاں دیتے ہوئے منہ ہی منہ میں بڑبڑائی پھر وہ گلی کے کونے پر کھڑے بھٹے والے کی ریڑھی کے پاس چلی گئی جس کے چہرے پر زری کو اپنی طرف آتے دیکھ کر رونق آگئی تھی۔ زری کے چہرے پر بھی بڑی خوبصورت سی مسکراہٹ تھی۔ چند لمحے پہلے کے بل اس کے ماتھے سے غائب ہو چکے تھے۔
”اگر تو یہاں ریڑھی نہ لگاتا تو میں تو اس سلائی اسکول میں آنا ہی چھوڑ دوں۔” اس نے ریڑھی پر سے مکئی کے کچھ دانے اٹھا کر منہ میں ڈالتے ہوئے بڑی بے تکلفی کے ساتھ ریڑھی والے سے کہا۔
”اور اگر اس سلائی اسکول میں تو نہ آتی ہو تو فیقا یہاں ریڑھی لگا کر کیوں کھڑا ہو” ریڑھی والے نے بے حد محبوبانہ انداز میں اس سے کہا۔ وہ ساتھ ساتھ زری کے لیے بھٹہ تیار کر رہا تھا اور یہ اس کا روز کا معمول تھا۔
زری روز اسی طرح اس کے پاس آکر کھڑی ہو جاتی، کچھ دیر اس کے ساتھ معنی خیز باتیں کرتی۔ اس سے دو تین بھٹے لیتی اورپھر قیمت ادا کیے بغیر وہاں سے چلی جاتی اور وہ ریڑھی والا اس اعزاز پر اتراتا نہیں تھکتا تھا کہ اس سلائی اسکول کی سب سے خوبصورت لڑکی اس سے نہ صرف بات کرتی ہے بلکہ شاید آہستہ آہستہ اس کی محبت میں بھی گرفتار ہو رہی ہے۔ وہ بخوشی اسے ہر روز چند بھٹے مفت میں تھمانے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتا تھا۔
یہ اس کے نزدیک اس محبت کی قیمت تھی جو وہ زری سے کرتا تھا۔ زری نے ہمیشہ کی طرح اس سے بھٹوں کا لفافہ پکڑا، اسے ایک قاتلانہ مسکراہٹ سے نوازا اور آگے چل پڑی۔ ریڑھی والا تب تک وہیں کھڑا اسے دیکھتا رہا جب تک وہ گلی کا موڑ نہیں مڑ گئی پھر ایک گہرا سانس لے کر وہ کچھ اور بھٹے تیار کرنے لگا۔
گلی کا موڑ مڑتے ہی زری دودھ دہی کی دکان پرکھڑی ہو گئی۔ یہ اس کے رستے کا دوسرا اسٹاپ ہوتا تھا۔
”کچھ پینے کو ملے گا یا زری پیاسی ہی چلی جائے تمہاری دکان سے؟”
اس نے دوپٹے کے پلو کو دونوں ہاتھوں سے پنکھے کی طرح جھلتے ہوئے دکان کے تھڑے پر بیٹھے اس سترہ اٹھارہ سالہ لڑکے سے کہا جس نے باپ کے مرنے کے بعد ابھی کوئی مہینہ بھر سے یہ دکان سنبھالی ہوئی تھی اور وہ آج کل خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا کہ محلے کی سب سے خوبصورت لڑکی اس کے عشق میں گرفتار ہر روز اس سے ملنے اس کی دکان پر رکتی تھی۔
اسے یہ نہیں پتہ تھا کہ یہ خوبصورت لڑکی پچھلے تین سالوں سے اس کے باپ سے لسی پینے کے لیے بھی رکتی رہی ہے اس کا باپ بھی اس خوش فہمی کو لیے قبر میں جا پہنچا تھا جو خوش فہمی اب بیٹا دل میں بسائے بیٹھا تھا۔
وہ زری کے آنے سے پہلے ہی لسی تیار کر کے رکھ دیا کرتا تھا اور پھر جیسے اس کے آنے کی گھڑیاں گنتا تھا۔ محلے کی اس دکان سے زری صرف لسی ہی نہیں پیتی تھی بلکہ اس کے گھر میں ہر روز دودھ بھی یہیں سے آتا تھا اور سال میں ایک آدھ بار کے علاوہ اس نے دودھ کی قیمت کبھی پیسوں سے ادا نہیں کی تھی۔ وہ ہمیشہ اپنی مسکراہٹوں، ناز و ادا اور خوبصورت آنکھوں کے ساتھ ساتھ اپنی میٹھی زبان کا استعمال کرتی تھی اور بعض دفعہ اس لڑکے کے باپ کو اپنا ہاتھ پکڑا دینے میں بھی تامل نہیں کرتی تھی۔ یہ نہ ہوتا تو اس کے گھر کا دودھ بند ہو جاتا، وہ ہر روز دودھ جیسی عیاشی کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے۔
دودھ، دہی کی اس دکان سے تقریباً دو سوفٹ کے فاصلے پر اس محلے کا ”ڈپارٹمنٹل اسٹور” تھا۔ چھ بائی بارہ کی اس دکان میں دالوں سے لے کر کاسمیٹکس کے سامان تک سب کچھ بکتا تھا۔ اگرچہ دالوں سے لے کر کاسمیٹکس تک ہر چیز کی کوالٹی ناقص تھی، اس کے باجود وہ اس محلے کی مصروف ترین دکان تھی جسے 65 سالہ ایک بوڑھا چلا رہا تھا اور جس نے زری کی وجہ سے بیس سال بعد اپنے سر پر موجود چودہ بالوں کو دوبارہ سے رنگنا شروع کر دیا تھا اور اسے یقین تھا کہ اس سے اس کی عمر میں کم از کم پندرہ سال کی کمی آئی تھی جبکہ زیادہ تر لوگوں کا خیال تھا کہ اس سے اس کی عمر میں تقریباً د س سال کا اضافہ ہونے کے ساتھ ساتھ وہ پہلے سے زیادہ گھٹیا، مکار اور خبیث نظر آنے لگا تھا۔
اور زری اس رائے سے سو فیصد متفق تھی۔ البتہ اس نے زبان سے اس کا اظہار کبھی نہیں کیا تھا، وہ اس بوڑھے کو دیکھ کر مسلسل مسکراتی رہتی اور وہ دونوں مسلسل ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر باتیں کرتے رہتے اور اس کام کے دوران زری کاؤنٹر پر بکھرے جیولری یا کاسمیٹکس کے سامان سے کچھ نہ کچھ پار کر لیا کرتی تھی۔
یہ اس سامان کے علاوہ ہوتا جو وہ بوڑھا خوش دلی سے زری کو کبھی عاریتاً اور کبھی مستقل طور پر دے دیا کرتا تھا۔ آج بھی اس نے زری کو جھمکوں کی ایک جوڑی تحفے میں دی تھی۔ زری کا چہرہ کھل اٹھا تھا۔
دکان سے اترتے ہوئے وہ جھمکے اس کے کانوں میں ہلکورے لے رہے تھے۔ زری بلاشبہ اس محلے کے تمام مردوں کی جان تھی۔ وہ جتنی بار بھی اپنے گھر سے نکلتی محلے کے مردوں کے دل کے تار چھیڑ دیتی تھی۔
اس تنگ و تاریک ٹوٹی پھوٹی گلی کے اس حصے میں ہمیشہ بہت رش ہوتا تھا، جہاں زری کا گھر تھا۔ لڑکے بغیر کسی وجہ کے اس کے گھر کے سامنے سے گزرتے پھر بار بار گزرتے اورہر بار ان کی نظریں گھر کے دروازے کے سامنے لٹکے پھٹے ہوئے پردے سے اندر جھانکتی زری کو تلاش کرتیں جو کبھی کسی کو سامنے سے گزرتا دیکھ کر دروازے تک آہی جاتی تھی اور بعض دفعہ تحفوں اور رقعوں کاتبادلہ زری کے گھر کے دروازے پر ہوتا تھا۔
زری دن میں کم از کم دس سے پندرہ چکر بڑی گلی کی دکانوں کے لگاتی اور وہاں ایک ہی وقت میں بہت سے مردوں کواپنی آنکھوں اور مسکراہٹوں سے محبت کا یقین دلاتی ہوئی گھر آتی۔ پھر اسے محلے کے کسی ایسے گھر میں کام پڑ جاتا، جہاں پرکوئی نہ کوئی ایسا لڑکا ہوتا جو اس پر کچھ خرچ کرنے کے قابل ہوتا یا اور کچھ نہیں تو اس کو کوئی تحفہ ہی دے دیتا اور جب وہ یہ راؤنڈ بھی پورا کر چکی ہوتی توپھر وہ اپنے دروازے میں کھڑی ہو کر محلے میں آنے والے ہر سبزی اور پھلوں کی ریڑھی والے کے ساتھ کچھ میٹھی میٹھی باتیں کرنے کے بعد اس کی ریڑھی سے کچھ نہ کچھ اٹھا لیتی۔
اپنے گھر کے دروازے تک پہنچ کر اس نے اپنا دوپٹہ ٹھیک کیا۔ اپنے ہونٹوں کی لپ اسٹک ہتھیلی کے کونے سے رگڑی پھر پردے کو ہٹاتی ہوئی اندر داخل ہوئی۔ پہلا قدم اندر رکھتے ہی کسی نے اس کے چہرے پر زناٹے دار تھپڑ مارا تھا۔
چند لمحوں کے لئے زری کی آنکھوں کی سامنے اندھیرا چھا گیا تھا۔ تھپڑ اتنا ہی زور دار تھا مگر تھپڑ سے زیادہ یہ شاک تھا جس نے اسے حواس باختہ کیا تھا۔ اپنے گال پر ہاتھ رکھے اس نے اگلے ہی لمحے دوسرے بازو سے اپنا چہرہ چھپا لیا تھا۔ ورنہ اس کے باپ کا اگلا تھپڑ اس کے دوسرے گال پر پڑتا۔ اس کے باپ نے اس کے چہرے کو نشانہ بنانے میں ناکام رہنے کے بعد اسے بالوں سے پکڑ لیا تھا۔
روزمرہ کے معمول کے مطابق وہ مغلظات کے ابلتے طوفان کے ساتھ یہ جاننا چاہتا تھا کہ اسے سلائی اسکول سے گھر واپس آنے میں اتنی دیر کیوں لگی تھی اور زری ہمیشہ کی طرح جھوٹ پر جھوٹ بول رہی تھی۔ سچ وہ بتانہیں سکتی تھی اور اس کے جھوٹ اس کے باپ کے لیے ناقابل یقین تھے۔ نتیجہ وہی پٹائی تھی جو اس کی ہفتے میں دو تین دفعہ ہوتی تھی۔ اور جس کی وہ بچپن سے عادی تھی۔ باپ سے اس کا تعلق گالیوں اور مار کٹائی کا تھا اور یہ رشتہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ”مضبوط” ہوتا جا رہا تھا۔
زری سات بہنیں تھیں اور وہ بہنوں میں چوتھے نمبر پر تھی۔ اس کی بڑی تینوں بہنیں شادی شدہ تھیں اور ویسی ہی زندگی گزار رہی تھیں جیسی وہ اپنے باپ کے گھر میں گزارتی تھیں۔ ان کے شوہر انہیں ویسے ہی پیٹتے تھے جیسے ان کا باپ انہیں پیٹتا تھا اور ویسے ہی ایک ایک روپے کے لیے ترساتے تھے جیسے ان کاباپ ترساتا تھا۔ اس لیے شادی نے، شادی کے دو دن کے اچھے کھانے اور چند ناز نخرے اٹھائے جانے کے علاوہ ان کی زندگی میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں کی تھی۔
شادی سے پہلے بھی باپ کے گھر وہ سلائی اور اسی طرح کے دوسرے چھوٹے موٹے کام کر کے اپنے اور گھر کے اخراجات میں مدد کرتی تھیں اور شادی کے بعد بھی ان کی زندگی کے معمولات میں تبدیلی نہیں آئی تھی۔ اس کے باوجود روتے سسکتے وہ اپنی زندگی سے خوش تھیں کیونکہ بالآخر وہ خود پر شادی شدہ کا لیبل لگوانے میں کامیاب ہو گئی تھیں۔ باپ کے سر سے آہستہ آہستہ تین پہاڑوں کا بوجھ سرک گیا تھا جس نے اسے اپنے گھر کی ”عورتوں” کے لیے ببول کا پیڑ بنا دیا تھا۔
دس منٹ تک اسی طرح بکتے جھکتے اور زری کو پیٹتے ہوئے اس کا باپ بالآخر ہانپنے لگا تھا۔ زری بہت ڈھیٹ تھی۔ وہ اپنی دوسری بہنوں کی طرح پٹتے ہوئے یا بعد میں روتی چلاتی یا معافیاں نہیں مانگتی تھی۔ وہ بڑے اطمینان کے ساتھ مار کھاتی تھی اور اس کی ڈھٹائی کی وجہ سے اس کے باپ کا پارہ اور ہائی ہوتا تھا۔
”اب اگر گھر سے قدم باہر نکالا تو میں تمہاری ٹانگیں توڑ دوں گا۔”
اس کے باپ نے بالآخر آخری گالی دے کر اس کے بال چھوڑتے ہوئے کہا۔ یہ جملہ زری نے معمول کی طرح سنا تھا۔ اس کا باپ اسے ایک دن گھر میں بٹھا کر تین وقت کا کھانا نہیں کھلا سکتا تھا۔ کہاں یہ کہ وہ گھر بیٹھ کر مستقل اس پر بوجھ بنتی۔ وہ ایک فیکٹری میں چوکیدار تھا اور اپنی تنخواہ میں سے صرف پانچ سو روپے اپنی بیوی کو گھر چلانے کے لیے دیتا تھا۔ اگر اس نے سات بیٹیوں کے ساتھ ایک بیٹا بھی پیدا کر لیا ہوتا تو یقینا اس رقم میں کچھ اضافہ ہو جاتا مگر فی الحال یہی کافی تھا کہ وہ پانچ سو روپے دے دیتا تھا۔ زری کی ماں خود تین گھروں میں صفائی اور برتن دھونے کا کام کرتی تھی۔ اور کچھ رقم اس کی بیٹیاں چھوٹے موٹے کاموں اور سلائی سے کما لیتی تھیں۔ مہینہ مشکل سے گزرتا تھا لیکن گزر جاتاتھا۔
زری نے باپ کے دروازے سے باہر نکلتے ہی صحن کے فرش پر پڑے وہ بھٹے اٹھائے جو وہ لے کر آئی تھی۔ دوپٹے کے کونے سے اپنے آنسو صاف کیے جو سر کے بال بار بار کھینچے جانے کی تکلیف کی وجہ سے نکل آئے تھے۔ پھر اپنی ڈھیلی ڈھالی چٹیا کے بل کھولتے ہوئے اندر کمرے میں چلی آئی۔
اسے اندازہ تھا آج بھی بالوں کے بہت سارے گچھے اتنی زور سے اور بار بار کھینچے جانے کی وجہ سے اتر جائیں گے۔ مگر یہ بھی معمول تھا، کوئی نئی بات نہیں تھی۔ اس کی ماں اس وقت گھر پر نہیں تھی۔ باپ آج کل نائٹ شفٹ کر رہا تھا اور اس لیے دن کے وقت اکثر گھر پر ہوتا اور جب تک وہ گھر پر رہتا ہر گھنٹے دو گھنٹے کے بعداس کی کسی نہ کسی بیٹی کی شامت آئی رہتی۔
”ابا چلا گیا؟” کمرے میں آس کے داخل ہوتے ہی اس سے چھوٹی بہن گلشن نے پوچھا۔
”باہر صحن میں خاموشی ہے۔ گالیوں کی آواز نہیں آرہی تو اس کا کیا مطلب ہے؟” زری نے تلخی سے کہا۔ اور اطمینان سے چار پائی پر بیٹھ کر بھٹہ کھانے لگی۔
اس کے انداز میں عجیب سی بے حسی تھی۔ اس کی باقی تینوں بہنیں بھی اپنے کاموں میں مصروف تھیں یوں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔
وہ جیسے اس ذلّت، اور اذیت سے بے حس ہو چکی تھیں۔ یا پھر شاید بہت سی دوسری چیزوں کی طرح انہوں نے اسے بھی اپنی قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کر لیا تھا۔
اس نے سکون سے بیٹھ کر بھٹہ کھایا پھر دوپٹے کے پلوسے اپنا چہرہ صاف کیا اور چار پائی پر اطمینان سے چت لیٹ گئی۔
”سونے لگی ہو کیا؟” گلشن نے اسے لیٹتے ہوئے دیکھ کر پوچھا۔
”یہ سونے کا وقت ہے کیا؟” زری نے چڑ کر جواب دیا۔
”تو پھر لیٹی کیوں ہو؟”
”اب تم میرے لیٹنے پر بھی پابندی لگا دو۔” زری نے اسی انداز میں کہا۔
”خالدہ دو چکر لگا کے جا چکی ہے اپنے کپڑوں کے لیے۔ بڑی ناراض ہو کر گئی تھی اس بار۔ کہہ رہی تھی کہ آئندہ وہ سلائی کرنے کے لیے کپڑے نہیں دے گی۔ تم وقت پر کپڑے نہیں دیتیں۔” گلشن نے تفصیل بتائی۔
”تو وہ وقت پر سلائی دیتی ہے؟” زری نے بھنا کر کہا۔
”سو سو نقص نکالتی ہے میرے سلے ہوئے کپڑوں میں۔ بیس بیس دفعہ ادھڑواتی ہے پھر سلائی یوں دیتی ہے۔ جیسے میری سات پشتوں پر احسان کر رہی ہو۔”
زری تلخی سے کہتے ہوئے اٹھ گئی اور اپنی سلائی مشین نکالنے لگی۔ خالدہ کے تیسری بار آنے کا مطلب کیا تھا۔ وہ جانتی تھی۔ بہت بار اس کا دل چاہتا تھا کہ وہ سلائی کے لیے آنے والے ان کپڑوں کو ان عورتوں سمیت آگ لگادے۔ ہر دو ہفتے کے بعد اپنے جسم پر چڑھنے والی چربی کی تہوں سے بے خبر اس کے ہاتھ کی سلائی میں عیب تلاش کرتیں۔ وہ اس کے محلے کی امیر خواتین تھیں کیونکہ ان میں سے ہر ایک کا شوہر پاکستان سے باہر دن رات پیسے کمانے کے لیے مشین بنا ہوا تھا۔
زری کو کبھی ان عورتوں پر رشک آتا تھا اور کبھی غصہ وہ جانتی تھی اس کی سلائی میں اتنی خامیاں نہیں ہوتی تھیں جتنی ان عورتوں کے دماغ میں تھیں۔ اور کئی بار اس کا دل چاہتا کہ وہ سلائی کی رقم ان کے منہ پر اسی طرح دے مارے جس طرح وہ کئی بار اس کے سلے ہوئے کپڑے پھینک کر گئی تھیں۔ لیکن کپڑوں اور پیسوں میں بہت فرق ہوتا ہے۔
گلشن اور اس کی دوسری دو بہنوں نے اس کی بڑبڑاہٹ کے جواب میں کچھ نہیں کہا تھا۔ اس گھر میں صرف زری تھی جسے وقتاً فوقتاً اور وجہ بے وجہ بڑبڑانے کی عادت تھی اور اس کی اس بڑبڑاہٹ پر بھی اب کوئی دھیان نہیں دیتا تھا۔ جیسے سب کے لئے بے کار چیز تھی۔ اگر باتوں سے قسمت بدل سکتی تو دنیا میں ہر آدمی اپنی قسمت بدلنے پر قادر ہوتا اور چوبیس گھنٹے بولتا رہتا۔
زری حسب معمول ایک گھنٹہ سلائی مشین چلانے کے دوران مسلسل بولتی رہی تھی مگر ساتھ ساتھ اس نے خالدہ کے سوٹ کی سلائی مکمل کر لی تھی۔
جس وقت اس کی ماں گھر میں د اخل ہوئی۔ زری ہمیشہ کی طرح خالدہ کا سوٹ اس کے گھر پہنچنے سے پہلے پہن کر آئینے کے سامنے کھڑی تھی۔ وہ مہنگے کپڑے پہننے کا شوق اسی طرح پورا کیا کرتی تھی۔
”کتنی بار تجھ سے کہا ہے سلائی کے لیے آنے والے کپڑوں کو مت پہنا کر۔ اگر کوئی کپڑا خراب ہوگیا تو مصیبت کھڑی ہو جائے گی ہمارے لیے۔” اس کی ماں نے اسے جھڑکا۔
”میں کپڑے پہن کر نہیں دیکھتی اماں! دوسرے کی قسمت پہن کر دیکھتی ہوں۔ یہ دیکھو۔ یہ جوڑا مجھ پر کیسے سج رہا ہے۔ بھلا اس طرح یہ خالدہ پر جچے گا، اس کالی کلوٹی موٹی بھدی خالدہ پر؟”
”پانچ دس منٹ پہننے سے دوسرے کی قسمت اپنی نہیں ہو جاتی۔” اس کی ماں نے حسرت سے کہا۔
”اتار دے اب یہ کپڑے۔”
”جانتی ہوں دوسرے کی قسمت اپنی نہیں ہو جاتی۔ پھر بھی بھلا کتنی قیمت ہو گی اس جوڑے کی؟”
”تجھے کپڑے کی قیمت کی کیوں پڑی رہتی ہے ہر وقت۔ تو نے کون سا خریدنا ہے؟” اس کی ماں نے کھانے کی وہ چند چیزیں گلشن کو پکڑاتے ہوئے کہا جو وہ اس گھر سے لے کر آئی تھی جہاں وہ کام کرتی تھی۔
”کبھی تو وقت آئے گا اماں! جب میں بھی اس طرح کے کپڑے پہنا کروں گی۔” زری نے گہرا سانس لیتے ہوئے کہا۔
”ہر وقت خیالی پلاؤ نہ پکایا کر۔ باپ تیرا چوکیدار ہے، ماں لوگوں کے گھروں میں کام کرتی ہے اور تو ان ہزار ہزار کے جوڑوں کے پیچھے پڑی رہتی ہے۔ رکھ اتار کر۔ ابھی خالدہ لینے آگئی تو قیامت مچا دے گی۔”
اس کی ماں تھکے تھکے انداز میں چار پائی پر لیٹ گئی اور ایک بیٹی سے اپنے پاؤں دبانے کے لیے کہا۔
”میں تو تنگ آگئی ہوں اماں! سلائی کے اس کام سے۔ ایک ایک روپے کے لیے لڑتے لڑتے۔ یہ بھی کوئی کام ہے۔ بھکاریوں سے بھی بدتر تیس چالیس روپے کے لیے ساری ساری رات لگا کر کپڑے سیؤں اور اس پر بھی سو سو باتیں سنوں۔ ”
زری کپڑے بدل کر واپس کمرے میں آئی تھی اور آتے ہی ماں سے خفگی کے عالم میں کہا تھا۔

Loading

Read Previous

من و سلویٰ — قسط نمبر ۷

Read Next

من و سلویٰ — قسط نمبر ۹

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!