من و سلویٰ — قسط نمبر ۸

”یہ کیا ہے؟” زینی نے بے اختیار اس کی شرٹ کی آستین سے جھانکتے نشانات کو دیکھتے ہوئے کہا۔ وہ دونوں بوٹنگ کر رہے تھے اور پیڈل بوٹنگ کے دوران ہی زینی کی نظر ان نشانات پر پڑی تھی۔ کرم علی نے کچھ گرمی محسوس کرنے کی وجہ سے گاڑی سے اترتے ہوئے اپنی جیکٹ اتار کر گاڑی میں چھوڑ دی تھی۔
زینی اب غیر محسوس طور پر اس کے کف پر لگا بٹن کھول رہی تھی۔ کرم علی نے مزاحمت نہیں کی۔ اس کے ہاتھ کی سانولی رنگت اور برص کے سفید داغوں میں اتنا فرق نہ ہوتا تو شاید زینی کی نظر آستین سے نظر آنے والے ان داغوں پر جاتی ہی نا۔
”برص ہے آ پ کو؟” وہ آستین کا بٹن کھولنے کے بعد اب اس کی کلائی پر ہاتھ رکھے بڑی ہمدردی سے پوچھ رہی تھی۔ کرم علی نے ان تمام دنوں میں پہلی بار اس کی آواز اور انداز میں اپنے لیے ہمدردی کا عنصر دیکھا تھا لیکن اس سے زیادہ اچھا اسے اپنی کلائی پر اس کے ہاتھ کا لمس لگ رہا تھا۔
”ہاں، کئی سالوں سے۔” کرم نے لاپروائی سے کہا۔
”صرف بازوؤں پر ہے؟” وہ اس نے پوچھا۔
”نہیں پورے جسم پر، صرف چہرہ گردن سینے کا اوپر کا کچھ حصہ اور یہ ہاتھ بچے ہوئے ہیں۔”
”آپ نے علاج کیوں نہیں کروایا؟” زینی نے سنجیدگی سے کہا۔
”علاج کروانے کی وجہ سے ہی میرا چہرہ اور ہاتھ آپ صحیح سلامت دیکھ رہی ہیں۔” کرم علی نے کہا۔ زینی اب اس کی آستین کا بٹن بند کر رہی تھی۔
”نہیں، ان داغوں کو ختم کرنے کے لئے۔”
”مجھے نہیں پتا انہیں ختم کیا جا سکتا ہے یا نہیں، میں نے کبھی اس کے لیے کوشش نہیں کی۔” کرم علی نے کہا۔
”کیوں؟”
”ضرورت کیا ہے؟ انسان کو بعض داغوں کی عادت ہو جاتی ہے۔ مجھے بھی ہو گئی ہے۔” کرم علی نے لاپروائی سے کہا۔
زینی نے اس کی کلائی سے اپنا ہاتھ ہٹالیا۔
”آپ کو بہت برے لگے ہیں یہ داغ؟” کرم علی کو یک دم جیسے کوئی خیال آیا۔
”نہیں، بہت برے تو نہیں لگے۔ اگر آپ کو ان سے کوئی پریشانی نہیں ہے تو مجھے کیوں ہو گی۔ آفٹر آل، یہ آپ کا جسم ہے۔ آپ کی زندگی ہے۔”
کرم علی نے جواب نہیں دیا۔ وہ چپ چاپ بوٹنگ کرتا رہا۔
”آپ بعض دفعہ مجھے بہت عجیب لگتے ہیں۔”
کرم علی نے چونک کر اس کی طرف دیکھا پھر کھلکھلا کر ہنس پڑا۔ زینی شاید پہلی بار اس سے اپنے اندر کے احساسات کی بات کر رہی تھی۔
”مجھے تو لگتا ہے کہ میں شاید ہر وقت آپ کو بہت عجیب لگتا رہتا ہوں۔”
زینی کو لگا۔ اس نے اس کی رائے کو مذاق میں اڑا دیا تھا۔ زینی نے کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ کرم علی نے چند لمحوں کے بعد اس سے کہا۔
”آپ کو میری بات بری لگی ہے کیا؟”
”آپ کو کیا فرق پڑتاہے اس سے؟” اس نے گردن موڑ کر کرم علی کو دیکھا۔
”بہت زیادہ فرق پڑتا ہے مجھے، میں یہاں آپ کو ناراض کرنے کے لیے لے کر نہیں آیا۔”
اس کی طرف دیکھتے ہوئے زینی کو بے حد عجیب سا احساس ہوا تھا۔ کرم علی کی آواز یا انداز میں کچھ ایسا تھا جس نے زینی کو عجیب انداز میں پریشان کیا تھا۔ اس نے نظریں چرا کر کہا۔
”واپس چلنا چاہیے، بہت دیر ہو گئی ہے۔”
”آپ دوبارہ کب آئیں گی؟” کرم علی نے چند لمحوں کے بعد کہا۔
”بوٹنگ کے لیے؟” زینی نے کچھ حیران ہو کر اسے دیکھا۔
”نہیں یہاں کینیڈا؟”
”جب کوئی کام پڑے گا۔”
”اور کام کب پڑے گا آپ کو؟”
زینی کے پاس اس سوال کے بہت سارے جواب تھے اور ہر ایک تلخی میں ایک سے بڑھ کر ایک تھا لیکن اس وقت اسے کرم پر ترس آیا یا پتہ نہیں کیا کہ اس نے اسے ان میں سے کوئی جواب نہیں دیا۔
”یہ تو وقت بتائے گا۔”
”میں آپ کو بہت مس کروں گا۔”
وہ بہت دیر تک کچھ بول نہیں سکی۔ وہ بہت ساری دیواروں کو گرانے میں کامیاب ہو گیا تھا جو باقی رہ گئی تھیں، اب ان میں دراڑیں ڈال رہا تھا۔ بہت ضروری تھا اس کے لیے کہ وہ اس وقت اس کی طرف نہ دیکھتی۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ یہ باقی ماندہ دیواریں بھی ڈھے جائیں۔
اس رات سلطان نے زینی کو غیر معمولی طور پر خاموش پایا تھا۔ رو زکی طرح آج آکر اس نے کرم علی کی بات نہیں کی تھی۔ سلطان کے پوچھنے پر بھی نہیں۔ وہ صرف کمرے میں بیٹھ کر ایک کے بعد ایک سگریٹ سلگاتی رہی تھی۔
”کرم علی نے کچھ کہا ہے آپ سے؟” سلطان نے سونے کے لیے اپنے کمرے میں جانے سے پہلے تنگ آکر اس سے پوچھا۔
”نہیں۔”
”تو پھر کیا ہوا ہے؟”
”تم جاؤ سلطان! جا کر سو جاؤ۔” اس نے جواب دینے کے بجائے کہا تھا۔ سلطان کچھ دیر کھڑا اس کا چہرہ دیکھا رہا پھر کمرے کے دروازے تک گیا۔ اسے کھول کر باہر نکلنے سے پہلے اس نے پلٹ کر زینی سے کہا۔
”مجھے لگتاہے پری جی! آپ کو کرم علی اچھا لگنے لگا ہے۔”
سلطان کمرے سے نکل گیا تھا۔ زینی دم بخود وہاں بیٹھی رہی۔ وہ سلطان سے یہ نہیں کہہ سکی تھی کہ اسے بھی یہی اندیشہ پریشان کر رہا تھا۔ اسے کرم علی کے ساتھ وقت گزارنا اچھا لگنے لگا تھا۔ ان ساری تند و ترش باتوں کے باوجود جو وہ کرم علی سے کہتی تھی، اسے کرم علی سے بات کرنا کسی دوسرے مرد سے بات کرنے سے بہت مختلف لگتا تھا۔ وہ غیر محسوس طور پر ہوٹل آنے کے بعد بے چینی سے اگلے دن کا انتظار کرتی تھی۔ کرم علی کے فون کا انتظار کر تی تھی اور یہ سب کچھ ٹھیک نہیں تھا۔ یہ سب کچھ غلط ہو رہا تھا۔ یہ محبت نہیں تھی۔ اسے یقین تھا مگر یہ کیا تھا، وہ یہ بھی سمجھ نہیں پا رہی تھی۔ وہ مردوں سے نفرت کرتی تھی اور وہ مردوں سے نفرت ہی کرتے رہناچاہتی تھی۔ یہ وہ ڈھال تھی جس سے وہ اپنے آپ کو بچا رہی تھی لیکن کرم علی…
٭٭٭
”تم ایسا کرو تم کسی… یتیم خانہ کے ذریعے کوئی بچہ اڈاپٹ کر لو۔” وہ شینا کے مشورے پر بھونّچکا رہ گیا تھا۔
”کیونکہ میرے پاس توبچہ ہے اور میرے لیے ایک بچہ بہت کافی ہے۔ لیکن ضرور تمہارے ماں باپ کو تکلیف ہو رہی ہو گی تمہارے مستقبل کے بارے میں سوچ سوچ کر۔ تو تم اپنے لیے کہیں سے ایک بچہ اڈاپٹ کر لو۔”
شینا ٹھیک کہہ رہی تھی۔ شیراز نے واقعی اکبر اور نسیم کے کہنے پر ہی شینا سے اپنی فیملی اسٹارٹ کرنے کی بات کی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ اب ان کی شادی کو خاصا وقت گزر چکا ہے۔ شینا کو یقینا اس کی تجویز بری نہیں لگے گی۔ شینا کو واقعی اس کی تجویز بری نہیں لگی تھی، اسی لیے اس نے فوراً ایک جوابی تجویز اس کے سامنے پیش کر دی تھی۔
”لیکن شینا! وہ میرا بچہ تو نہیں ہو گا۔” شیراز کو بے اختیار غصہ آیا۔
”تو کیا ہوا؟ تمہارا دل نہیں چاہتا کہ تم بھی مرنے سے پہلے دنیا میں کوئی اچھا کام کر کے جاؤ تاکہ پیچھے دنیا میں کوئی تو تمہیں اچھے لفظوں میں یادکرے۔” شینا نے تڑاخ سے کہا تھا۔
”میں اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا ہوں۔ میری اپنی اولاد نہیں ہو گی تو میری نسل آگے کیسے چلے گی؟”
شیراز کو پتا تھا اس کی اس طرح کی بات پر شینا اس کی کتنی بے عزتی کرنے والی تھی مگر وہ مجبور تھا، وہ واقعی اب اس بات پر بہت سنجیدگی سے سوچنے لگا تھا اسے یہ خوش فہمی بھی ہو رہی تھی کہ وہ اس کے بچوں کی وجہ سے شاید اس گھر میں اپنے اور اس کے اسٹیٹس کو تھوڑا بہت برابر کر دے یا کم از کم وہ گھر سے باہر اپنی سرگرمیوں اور مصروفیات کو کچھ کم ضرور کر لے گی۔ حالانکہ اسے سنی کو دیکھ کر اس طرح کی خوش فہمی دل میں نہیں پالنی چاہیے تھی۔
”تمہارا اگر یہ خیال ہے کہ میں تمہارے خاندان کی نسل کو آگے بڑھاؤں گی۔ تو تم احمقوں کی جنت میں رہ رہے ہو، میں تمہیں کس طرح برداشت کر رہی ہوں یہ میں جانتی ہوں اور تم چاہتے ہو کہ اس گھر میں تمہارے جیسے دو چار اور آجائیں۔ No way اور ویسے بھی تمہیں اپنی نسل کو آگے بڑھا کر کرنا کیا ہے؟ تمہارے ماں باپ تمہیں پیدا کر کے دنیا میں کون سا revolution (انقلاب) لے آئے ہیں؟” وہ ہمیشہ کی طرح بنا کسی لحاظ کے کہہ رہی تھی۔
”پہلے میرا باپ تمہیں پال رہا ہے۔ اس کے بعد تمہارے بچوں کو بھی پالنا شروع کر دے گا۔” شیراز کو بے اختیار غصہ آیا۔
”مجھ سے اس طرح بات مت کیا کرو۔”
”نہیں کروں گی، جب مجھے لگے گا کہ تم ایک Parasiteنہیں ہو۔”
”مجھے لگتا ہے کہ میں تمہارے ساتھ ایک جہنم میں رہ رہا ہوں۔”
”مجھے بھی ایسا ہی لگتا ہے۔ اس لیے میرے پاپا کے پاس جاؤ اور انہیں بتاؤ کہ تم کس تکلیف سے گزر رہے ہو تاکہ میری جان تم سے چھوٹ سکے۔”
شینا نے تلخی سے کہا اور اٹھ کر کمرے سے نکل گئی۔
شیراز بے بسی سے اسے جاتا دیکھتا رہا وہ یہ کام ہی تو نہیں کر سکتا تھا جو وہ بتا کر گئی تھی، شینا کو طلاق دینے کا مطلب کیا تھا۔ یہ کسی کو سمجھانے کی ضرورت نہیں تھی۔
زینی اب اسے پہلی بار صحیح معنوں میں یاد آرہی تھی۔ اس نے اکبر اورنسیم کے پاس اسی لیے جانا کم کر دیا تھا کہ وہ اب اکثر زینی کا ذکر کرتے رہتے تھے۔ شینا اور زینی کا موازنہ کرتے رہتے تھے اور شیراز اس بات سے بری طرح چڑتا تھا۔ اسے لگتا تھا وہ اس کی اچیومنٹ کو پاؤں کے نیچے روندنے لگے تھے۔
شینا ایک غلط انتخاب ہو سکتی تھی مگر زینی اس کے لیے کبھی بھی ایک صحیح انتخاب نہیں ہو سکتی تھی۔ وہ اس کی زندگی میں شینا کی جگہ شامل ہوتی تو اس کی زندگی بھی اسی طرح مسئلوں میں گھری ہوتی۔
اس کی دونوں بہنیں ابھی بھی اس کے گھر بیٹھی ہوتیں اور اس کے ماں باپ ابھی بھی اسی پرانے محلے کے اس ٹوٹے پھوٹے گھر میں بیٹھے ہوتے۔
لیکن اب اس فنکشن میں زینی کو دیکھ لینے کے بعد وہ خود اسے اپنے ذہن سے نکال نہیں پا رہا تھا۔ بہت عرصے کے بعد پہلی بار اس نے اکبر اور نسیم کے گھر زینی کے ذکر پر خاموشی اختیار کی تھی، اس طرح برہمی اور جھنجھلاہٹ کا اظہار نہیں کیا تھا۔ دو بیٹیاں اچھے گھروں میں بیاہنے کے بعد اکبر اور نسیم اب چھوٹی بیٹی کا رشتہ تلاش کر رہے تھے اور ساتھ اس بات سے خوفزدہ بھی تھے کہ تیسری بیٹی بیاہ دینے کے بعد وہ اتنے بڑے گھر میں تنہائی کی زندگی کیسے گزاریں گے۔ وہ بھی اس صورت میں جب شیراز کئی کئی ہفتوں کے بعد ان کے پاس آتا تھا اور وہ بھی اکثر صرف انہیں گھر کے اخراجات کے لیے رقم دینے۔
ایک بری بہو شاید اب انہیں اتنا بڑا مسئلہ نہیں لگ رہی تھی جتنی یہ خوف ناک حقیقت کہ پوتے، پوتی کی شکل میں آگے بھی ان کے پاس کوئی ایسا سہارا نہیں آئے گا، جس سے وہ کوئی امید وابستہ کر سکیں۔
ایسی صورت حال اگر انہیں اپنے پرانے سیٹ اپ میں پیش آتی تو وہ اب تک شیراز کی دوسری شادی کر چکے ہوتے یا کم از کم دوسری شادی کی تیاریاں شروع کر چکے ہوتے لیکن یہاں پر شیراز کو ایسا مشورہ دینا اور شیراز کا اس مشورے پر عمل کرنے کا مطلب ان تمام آسائشوں سے محروم ہونا تھا جو اس وقت انہیں حاصل تھیں۔ ایک بار اس آرام دہ اور پر تعیش لائف اسٹائل کا عادی ہو جانے کے بعد اکبر، نسیم اور ان کی بیٹیوں کے لیے یہ بہت مشکل تھا کہ وہ پہلے جیسی زندگی گزار سکیں تو آسائش اورسکون میں سے انہوں نے آسائش کا انتخاب کر لیا تھا۔ اور وہ اس انتخاب کی ذمہ داری اپنے کندھوں کے بجائے شیراز کے سر پر ڈال رہے تھے۔ اس سے کم از کم ان کے ضمیر کے بوجھ میں خاصی کمی واقع ہو گئی تھی۔
٭٭٭

Loading

Read Previous

من و سلویٰ — قسط نمبر ۷

Read Next

من و سلویٰ — قسط نمبر ۹

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!